واپڈا ٹاؤن گوجرانوالہ کے محنت کش، انتظامیہ کی ہٹ دھرمی اور استحصال کے خلاف برسرپیکار

[رپورٹ: علی بیگ]
واپڈا ٹاؤن کی انتظامیہ ڈی آر اور دوسرے سرکاری بیوروکریٹوں کے ساتھ ملکر واپڈا ٹاؤن کے محنت کشوں کی سی بی اے یونین کو ختم کرنے کے درپے ہیں جس کے لیے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کئے جارہے ہیں۔ اس کی ایک مثال پچاس سال کی عمر پر ریٹائرمنٹ کا قانون شامل ہے۔ اس قانون کی زد میں اب تک پچاس سے زیادہ سیکیورٹی گارڈز آ چکے ہیں۔ واپڈا ٹاؤن کی انتظامیہ سوسائٹی کے قوانین میں اپنے مرضی سے تبدیلی کر لیتے ہیں اور ڈی آر اور دیگر متعلقہ سرکاری ادارے کمیشن وصول کر کے اسکی منظوری دے دیتے ہیں۔ سرمایہ داروں کے سامنے بیوروکریٹس، عدالتیں اور ادارے بے بس نظر آتے ہیں یا سرمایہ دار منہ بولی قیمت ادا کر کے ان کو چپ کروا دیتے ہیں۔
جب پچاس سال کی عمر پر ریٹائرمنٹ کے قانون کے تحت پہلی دفعہ پچیس ملازمین کو فارغ کیا گیا تو ملازمین نے تئیس دن کی ہڑتال کی لیکن کوئی سنوائی نہ ہوئی۔ مجبوراً ملازمین نے انصاف کے لیے عدلیہ کا رخ کیاجس کے بعد پچیس ملازمین میں سے تین کو سوسائٹی نے اس شرط پر رکھ لیا کہ وہ یونین کے ممبرزنہیں بنیں گے۔ دو نے دلبرداشتہ ہو کے کیس واپس لے لیا۔ بیس ملازمین نے گوجرانوالہ کی لیبر کورٹ نمبر سات میں بحالی کے لیے درخواستیں دیں۔ کئی سال گزر جانے کے باوجود یہ ملازمین بحال نہیں ہو سکے۔ عدالتیں محنت کشوں کی غربت اور بے بسی کا مذاق اڑا رہی ہیں۔ لیبر کورٹ ٹال مٹول سے کام لیتے ہوئے کہ رہی ہے کہ درخواست غیر موثر ہو چکی ہے۔ جب کہ محنت کشوں کو ناجائز طور پر ملازمت سے فارغ کئے جانے پر عدالتیں حکم امتناہی ہی جاری نہیں کرتیں۔ دوسری طرف محنت کشوں کے حق میں ہائیکورٹ کا جاری کردہ فیصلہ بھی معطل کروا لیا جاتا ہے۔ مختلف بہانوں سے برطرف کیے گئے کل پچپن ملازمین میں سے بارہ کو ریگولر سے ڈیلی ویجز پر منتقل کر دیا ہے۔ سرمایہ داروں کے لیے ہر قانون میں رعایت موجود ہے لیکن محنت کشوں کی جائز جدوجہد بھی غیر قانونی قرار دی جاتی ہے۔ سرکاری اہلکاروں سے لیکر حکمرانوں کے ایوانوں اور چیف جسٹس تک، مزدوروں نے ہر دروازہ کھٹکھٹا کے دیکھ لیا ہے لیکن کہیں بھی شنوائی نہیں ہوئی۔ انتظامیہ یونین کو ختم اور ریگولر ملازمین کو فارغ کرکے ٹھیکیداری نظام لانا چاہتی ہے لیکن محنت کشوں نے ظلم کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھنے کا اعادہ کیا ہے۔ PTUDC کے کامریڈز محنت کشوں کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں اور اس جدوجہد میں ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔