[رپورٹ: کامریڈ نعمان خان]
مورخہ 30 جون 2013ء کو نادرا میں کام کرنے والے 233 ملازمین کو بغیر کسی نوٹس کے نوکریوں سے نکال دیاگیا اور آئندہ ماہ بھی مزید سینکڑوں ملازمین کو نکالے جانے کا اندیشہ ہے۔ فارغ کئے گئے ملازمین کو پچھلے تین ماہ سے تنخواہ بھی نہیں دی گئی تھی اور اس مد میں کروڑوں روپے بیوکریسی آپس میں بانٹ کر ہڑپ کر چکی ہے۔ یہ ملازمین 2سے 3سال کے عرصے سے نادرا کے مختلف پراجیکٹس میں کام کررہے تھے جن میں بینظیر ڈیبٹ کارڈ اور وطن کارڈ کے پراجیکٹس شامل تھے۔ 7500 روپے ماہانہ تنخواہ پر کام کرنے والے ملازمین اس امید پر کام کر رہے تھے کہ دوسرے ملازمین کی طرح انہیں بھی مستقل کر دیا جائیگاکیونکہ نادرا میں 2009ء تک سسٹم پالیسی کے مطابق اور اس سے پہلے تمام ملازمین کو اسی طرح پراجیکٹس میں لیا گیا تھااور ایک یا دو سال کے بعد مستقل کر دیا گیا۔ اس کی واضح مثالیں اے این آر (افغان نیشنل پراجیکٹ )، پی سی ایم(پروف کارڈ آف موڈیفکیشن)، آئی ڈی پیز پروگرام اور بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں کام کرنے والے درجنوں ملازمین ہیں۔ لیکن 2009ء کے بعد سے اب تک بے شما ر ملازمین کو وقتاً فوقتاً لیا جاتا رہا ہے اور پھر نکال دیا جاتاہے جسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ نادرا میں آرمی ریٹائیرڈ افسر اعلیٰ عہدوں پر فائز ہو کر اپنے قریبی رشتہ داروں کو بھرتی کر کے پرانے اور تجربہ کار غیر مستقل ملازمین کونکال دیتے ہیں۔ اسی طرح دوسرے اعلیٰ افسران جن میں چیئر مین سے لیکر صوبائی افسران تک شامل ہیں رشوت لے کر اور سیاسی اثر رسوخ رکھنے والے ملازمین کو مستقل کر رہے ہیں اور پرانے ملازمین کو اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھونا پڑ رہاہے۔ اس بار بینظیر ڈیبیٹ کارڈ (BDC) سے 216 اور وطن کارڈپروگرام (CDCP) سے 17 ملازمین کو نکالا گیا، یہ وہ ملازمین تھے جن کا کوئی سیا سی اثررسوخ نہیں تھا۔ ان کے نہ تو افسر شاہی کے ساتھ تعلقات تھے اور نہ اتنے روپے تھے کہ کسی افسر کو رشوت دے کر اپنی نوکریاں مستقل کروالیتے۔
نکالے گئے ملازمین کے ایک وفد نے نادرا یمپلائیز یونین کے مرکز ی عہدیداروں سے ملاقات کی اور اپنے مسائل ان کے سامنے رکھے تو نادراایمپلا ئیز یونین کے مرکزی چیئرمین سلیم شیرپاؤ اور دوسرے عہدیداروں نے نہ صر ف اظہاریکجہتی کی بلکہ کہا کہ نادرا ایمپلائیز یونین نادراکے تمام محنت کشوں کے لیے آواز اُٹھاتی ہے اور ہم پہلے ان افسران سے مذاکرات کر یں گے، اگر ہم مذاکرات میں ناکام ہوئے تونادرایمپلائیز یونین ملک کے دیگر صوبوں میں بھی تمام دفاتر کا شٹر ڈاؤن کر دے گی۔
اس سلسلے میں جب یونین کے کچھ رہنماؤں نے ڈی جی خیبرپختونخواہ احمد خٹک (ریٹائر ڈکرنل) سے ملاقات کی تو اس نے انتہائی مغرور رویہ اختیار کیا اورکہا کہ تم لوگ اس کام سے باز آجاؤ کیونکہ یہ لو گ تمہاری یونین میں نہیں آتے۔ جب یونین عہدہ داروں نے ملازمین کی تنخواہوں کے بارے میں دریافت کیاتو ڈی جی نے کہا اب میر ے پاس وقت نہیں ہے مجھے کسی میٹنگ میں جاناہے اگر آپ کو معلومات حاصل کرنی ہے تو H.R سیکشن کے پاس جاؤ۔ یونین کے کچھ افراد جب H.R سیکشن گئے اوروہاں پر تنخواہوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنا چاہی تو وہاں پر بیٹھے ڈپٹی ڈائریکٹر رسول جان (جو کہ ریٹائیر ڈ میجرہے اور انتہائی کرپٹ آدمی ہے) نے کہا کہ ہم جانیں اور وہ ایمپلائیز جانیں آپ کو بیچ میں دخل اندازی کی ضرورت نہیں، جس پر یونین نے احتجاج کی دھمکی دی۔ میجر نے سیکورٹی کو بلوا کردھکے دے کر دفترسے یونین کے رہنماؤ ں کو باہر نکال دیااورکہا کہ نادرا میں یونین کی اجازت نہیں ہے اوریونین عہدہ داروں کو گالیاں بھی بکتا رہا۔
مجبوراًیونین نے ہیڈکواٹر کے سامنے احتجاج کیا اور آرمی افسروں کے خلاف نعرہ بازی کی جس پر ڈی جی نادرا نے عینی شاہدین کے مطابق اپنے سیکورٹی گارڈ کو بلوا کر اس کی وردی خود پھاڑی اور قریبی پولیس سٹیشن کے ایس ایچ او کو بلواکر کہا کہ نادرایونین نے اس سیکورٹی گارڈ پر تشدد کیا ہے۔ حیات آباد تھانے کے ایس ایچ او نے نادرا یونین کے رہنماء سلیم شیرپاؤ، گوہر ایوب اور عباس چمکنی کے خلاف جھوٹی ایف آئی آر درج کی اور انہیں دفعہ 186 اور دفعہ 506 کے تحت حوالات میں بند کر دیا۔ حوالات میں جب نوکر ی سے فارغ شدہ ملازمین نے اپنے رہنماؤ ں سے رابطہ کیا تو یونین رہنماؤں نے اپنے ساتھیوں کو دھرنا دینے اور پیپلز لیبر بیورو سے رابطہ کر نے کی ہدایت کی۔ اس سلسلے میں ’’نادرا ٹرمینیٹڈایمپلائیز ایکشن کمیٹی‘‘ قائم کر کے ایک مضبوط دھرنے کا اعلان 25 جولائی 2013ء کو کر دیا گیا۔
جب نادرا ڈی جی کو اس دھرنے کی خبر ہوئی تو اس نے ہیڈکواٹر میں موجود تمام ملازمین کو ایک نوٹس دیاکہ جس ملازم نے بھی اس دھرنے میں شرکت کی تو وہ اپنی نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔ لیکن اس دھمکی کے باوجود بھی25 جولائی کو نادرا ٹرمینیٹڈایمپلائیز ایکشن کمیٹی، پیپلزلیبر بیورو اور پاکستان ٹریڈیونین ڈیفنس کمپئین (PTUDC) نے مشترکہ جلوس نادرا یونین آفس ہشتنگری سے نکالااورپشاور پریس کلب کے سامنے احتجاج کیااور بعد میں حیات آباد پولیس سٹیشن پشاور کے باہر بھی پولیس کے خلاف احتجاج کر کے اپنے گرفتار ساتھیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ ایڈیشنل ایس ایچ ااو نے تھانے سے باہر نکل کر کہاکہ وہ ملازمین اب سنٹرل جیل پشاور جا چکے ہیں اور ان کی رہائی اب ضمانت پر ہی ہوسکتی ہے۔
ملازمین نے سخت گرمی اور روزے کی حالت میں بھی ہمت نہ ہاری اور ایک ریلی کی شکل میں نادرا ہیڈ کواٹرپہنچے لیکن وہاں پر نادرا ڈی جی نے پولیس کی ایک بہت بڑی نفری بلائی ہوئی تھی جو کہ لاٹھیوں اور آنسو گیس کے گولوں سے لیس تھے۔ پولیس نے مظاہر ین کو ہیڈ کواٹر تک بھی نہ پہنچنے دیا۔ مظاہرین نے پر امن احتجاج جاری رکھا اور تمام ملازمین کی بحالی اور مستقلی اور سا تھیوں کی رہائی کے لئے نعر ہ بازی کرتے رہے۔
اس سلسلے میں پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین (PTUDC) کے کامریڈز تاحال نادرا ٹرمینیٹڈ ایمپلائز ایکشن کمیٹی اور نادرا ایمپلائز یونین کے ساتھیوں کے شانہ بشانہ جدوجہد میں شریک ہیں۔ نادرا کے محنت کشوں اور یونین عہدہ داروں کا کہنا ہے کہ ایک نہ ختم ہو نے والی تحریک شروع ہو چکی ہے اور اپنے تمام ملازمین کی بحالی اور گرفتار ہونے والے یونین عہدہ داروں کی رہائی تک وہ اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے چاہے اس کے لیے جان کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے۔