| تحریر: قمرالزماں خاں |
جدید صنعتی مزدوروں نے بالکل اوائل میں ہی اپنے مسائل، نعروں، مانگوں، تحریک اور جدوجہد کو جذباتی بنیادوں سے الگ کرکے ٹھوس سائنسی بنیادوں پر استوار کرلیا تھا۔ 1848ء کو کمیونسٹ لیگ کے لئے لکھا گیا منشور جو کہ بعدازاں مزدوروں کی پہلی بین الاقوامی تنظیم (فرسٹ انٹرنیشنل 1864ء) کا منشور بنا۔ مزدوروں کے لئے لکھی گئی اس اولین تحریر کی مفصل وضاحت پھر کارل مارکس نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’سرمایہ‘‘ کی تین جلدوں میں کی۔ کمیونسٹ مینی فیسٹو اور سرمایہ میں عمومی انداز تحریر تجزیہ اورتاریخ کی بجائے سائنسی سوشلزم کے اصولوں کو بروئے کار لاکر ثابت کیا گیا کہ دھرتی پر مزدورہی تمام قدرتی وسائل کو انسانی ضروریات کے قابل بنانے کی اہلیت رکھتا اور بناتا ہے۔ دلائل سے وضاحت کی گئی کہ مزدور کی محنت کو کس طرح لوٹا جاتا ہے۔ سرمایہ دار مزدورکی کی ہوئی محنت میں سے ’’معاوضے‘‘ کے نام پر جزوی وقت میں کی ہوئی محنت کا صلہ دے کر، بقیہ وقت میں کئے گئے کام کا نچوڑ ’’قدر زائد‘‘ کی شکل میں اینٹھ کر اپنی تجوری بھرتااور سرمائے میں اضافہ کرتا چلا جاتا ہے۔ ان کتابوں اور تحریروں نے محنت، اوقات کار، اجرت، قیمت اور منافع پر سیرحاصل بحثوں سے ثابت کیا گیا کہ مزدور کو دی جانے والی اجرت حقیقی اجرت نہیں ہوتی بلکہ اس کے کئے ہوئے کام کے ایک چھوٹے سے حصے کی ادائیگی ہوتی ہے۔ لہٰذا جہاں مزدوروں کی نجات کے لئے کارل مارکس، فریڈرک اینگلز اور بعدازاں لینن اور ٹراٹسکی نے سرمایہ داری کے مکمل خاتمے اور مزدور راج کو ناگزیر حل بتایا وہیں ٹریڈ یونین تحریک نے مارکسی اساتذہ کے خیالات اور افکار سے اخذ کیا کہ ’’کام کے اوقات کار‘‘ کی کمی، انکی تحریک کا اولین مطالبہ ہونا چاہئے۔
اس تحریک کا ایک سنگ میل 1886ء میں نظر آتا ہے جب امریکہ میں مزدوروں نے اس تحریک کو کیچوے کی چال سے نکال کر ایک عالمی تحریک اور مطالبہ میں بدل دیا۔ شکاگو میں یکم مئی سے چار مئی 1886ء کے دوران پیش آنے والے واقعات، مزدوروں کی جانوں کی قربانیوں، ریاستی تشدد اور موت کی سزاؤں نے اس تحریک کو مہمیز بخشی اور تین سال بعد 1889ء میں مزدوروں کا اس وقت کا مطالبہ کہ مزدوروں کے کام کرنے کا وقت 12/16 گھنٹوں کی بجائے آٹھ گھنٹے کیا جائے، کو عالمی طور پر تسلیم کرلیا گیا۔ یہ ایک بہت بڑی پیش رفت تھی، جس کو مستقبل میں بطور خاص روس میں مزدوروں کے ’بالشویک انقلاب‘ کے اثرات، عالمی مزدورتحریک کی مضبوطی نے یورپ، امریکہ اور ترقی یافتہ ممالک میں ہفتے میں پانچ دن کام (چالیس سے چوالیس گھنٹے) تک پہنچادیا۔ یوم مئی کا دن محض مزدوروں کی جانوں کی قربانیوں کی یاد کے حوالے سے اہم نہیں ہے بلکہ اسکی اہمیت میں اضافہ مزدوروں کے ’اوقات کار‘ میں کمی کے حوالے سے بڑھ جاتاہے۔ پھر یوم مئی مزدوروں کے لئے ایک کامیاب تحریک کے حوالے سے ایک ایسا استعارہ ہے جس کی یاد میں دنیا بھر کے مزدوراپنے عہد اور علاقے کے حوالے سے مزدوروں کو درپیش مسائل اور انکے حل کے لئے مزدوروں کی یک جہتی اور نظریاتی سمتوں کی درستگی کے لئے اکھٹے ہوتے ہیں۔
2015ء میں آنے والایوم مئی بہت ہی اہمیت کا حامل ہے کیوں کہ اس دن کو مناتے ہوئے ہمیں جائزہ لینا ہوگا کہ آج مزدورتحریک کہاں کھڑی ہے؟ مزدوروں کے مسائل کی نوعیت اور انکا حل کیا ہے۔ محض کسی دن کو منانا، نعرہ لگانا اور جلسے جلوس نکالنا قطعی طور پر مزدوروں کا نہ تو مقصد ہوتا ہے نہ ہونا چاہئے۔ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ آج مزدور تحریک 1886ء سے آگے بڑھی ہے یا پسپائی اختیار کرچکی ہے۔ پاکستان میں اس دفعہ مزدوروں کا عالمی دن نجکاری، مہنگائی، سامراجی لوٹ مار، جبری چھانٹیوں، کے ساتھ ساتھ’’ کام کے دورانئے ‘‘ میں اضافے کے حملے کی موجودگی میں آرہا ہے۔ 1886ء میں مزدورراہنماؤں نے بارہ گھنٹے کی بجائے آٹھ گھنٹے کام کے دن کی جدوجہد کی، قربانیاں دیں، اپنا خون بہایا او ر کامیاب ہوئے۔ مگر 2015ء میں عملی طور پر مزدوروں کو دو طرح سے زیادہ دورانئے کے دن میں کام کرنا پڑرہاہے۔ ایک تو آٹھ گھنٹے کی بجائے بڑی فیکٹریوں میں اعلان کردہ نو گھنٹے اور چھوٹے ادارو ں (گارمنٹس فیکٹریوں، ہوٹلوں، ورک شاپوں، شاپنگ مال، نجی اسپتالوں) میں بارہ گھنٹے کے دورانئے کے لئے کام کرنا ہوتا ہے، دوسری طرف تیز مشینوں کی وجہ سے مزدور کو کم وقت میں زیادہ کام کے جبرکا سامنا ہے جس میں مزدور تیزمشینوں پر کھڑے ہوکر آٹھ گھنٹوں میں بارہ سے سولہ گھنٹے کا کام کرتے ہیں۔ اس کیفیت میں اجرت بڑھنے کی بجائے مہنگائی اور افراط زرکی موجودگی میں سکڑتی اور کم ہوتی جارہی ہے۔ اکیسویں صدی میں مزدوروں کو پھر اٹھارویں اور انیسویں صدی کے مطالبات کرنا پڑرہے ہیں۔ مزدوروں کے نام سے بنائی گئیں عدالتیں یا تو ’’ججوں‘‘ سے خالی ہیںیا اگر جج ہوں تو ’’دائرہ سماعت‘‘ کے گرد مزدور کے دو تین سال ضائع کرکے ان کو دوردراز صوبائی دارالحکومتوں کے ’’این آئی آر سی‘‘ نامی ایسے اداروں میں بھیج دیا جاتا ہے جہاں جانا ستم رسیدہ اور ملازمت سے برخواست مزدورکا سب سے بڑا مسئلہ آنے جانے کا کرایہ ہوتا ہے، پھر مزدور کا وکیل کون بنے؟ پیسوں کے بغیر یہ مسئلہ حل نہیں ہوسکتا اور مزدورکے پاس پیسے ہی تو ہوتے نہیں ہیں۔ لہٰذا کہیں کوئی شنوائی یا انصاف ملنے کا آسرا نہیں ہے۔ مزدور کس عدالت، ادارے میں انصاف مانگنے جائے اور اسکے لئے وسائل اور وقت کہاں سے میسر ہو؟ ضلعی سطح پر لیبر سے متعلقہ ادارے اور ان کے اہلکار سرمایہ داروں اور انتظامیہ کی جیب میں ہوتے ہیں، یہاں بھی مزدوروں کا وقت ضائع کیا جاتا ہے اور اہلکار سرمایہ داروں کی طرف سے پھینکی ہوئی ہڈیاں چوستے رہتے ہیں۔
روزگار پر موجود مزدوروں کی کیفیت ماضی کی نسبت زیادہ مشکلات میں گھری ہوئی ہیں، ان سے وہ تمام سہولیات اور حقوق چھینے جارہے ہیں جو دو تین دہائیاں پہلے ان کا حق سمجھے جاتے تھے۔ علاج معالجہ، گھر، سفری سہولیات، بچوں کی تعلیم، پنشن وغیرہ اب قصہ ماضی بنتا جارہاہے۔ مستقل اداروں کے مستقل کام پر ’’کنٹریکٹ لیبر‘‘، ٹھیکے داری، تھرڈ پارٹی، جاب کنٹریکٹ کے ناموں سے دیہاڑی داری کا کام ملتا ہے۔ دیہاڑی کبھی ملی کبھی نہیں ملی۔ فیکٹریاں خود کام نہ کرائیں تو دیہاڑی نہیں ملے گی، مزدور کسی مجبوری پر ایک دن کام پر نہ آسکے تو دیہاڑی داری کا کام بھی ختم ہوجاتا ہے۔ کم ازکم تنخواہ کا قانون، شہباز شریف کے نعرے ’’اقتدار میں آنے کے چھ ماہ بعد لوڈ شیڈنگ ختم کردیں گے‘‘ کی طرح ایک مذاق یا سیاسی نعرہ بن کررہ گیا ہے! ایک طرف ملک میں ارب پتیوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے تو دوسری طرف غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ سب سے بڑی مسئلہ مزدورتحریک کی خود اپنی کمزدوری ہے۔ ایک طرف مزدوروں کو سیاست سے الگ کرنے کی طفلانہ خواہش یا ایک منظم سازش نے مزدور کو دراصل اسکے مارکسی نظریات سے دور کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اگر مارکس ازم اور سوشلزم کو درمیان سے نکال دیا جائے تو مزدورتحریک کے پاس کسی بڑے یا چھوٹے مطالبے کا کوئی جواز ہی نہیں بچتا۔ بغیر مارکسی نظریات کے اگر مزدور ’کام کے اوقات‘ کم کرنے کی بات کرتا ہے تو اسکے پاس اپنے مطالبے کے حق میں کوئی دلیل نہیں بچتی۔ یہ دلیل مارکس ہی فراہم کرتا ہے جو ’’قدرزائد‘‘ کے قانون کے تحت، ’’محنت، اجرت اور منافع‘‘ کے موضوعات پر مزدورکے موقف کو برحق اور سرمایہ دار کی لوٹ ماراور محنت کے استحصال کو بے نقاب کرتا ہے۔ اسی طرح ’’سرمائے‘‘ یا سرمایہ کاری کے وسائل کی تاریخی حیثیت اور مزدوروں کی محنت کی نسل درنسل لوٹ مارجیسے موضوعات کو عمومی علم اور سرمایہ دارانہ بنیادوں کی بجائے مارکسی بنیادوں پرہی واضح کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح سرمایہ دارانہ ریاستوں کے بے وقعت ’مزدورقوانین‘، انکے عدم اطلاق، اطلاق کی صورت میں بھی مزدورکی حقیقی اجرت سے محرومی، سیاسی معاشیات، ریاست کے سرمایہ دارانہ نظریات، سامراج اور اسکا فلسفہ جیسے موضوعات واضح کرتے ہیں کہ سرمایہ داری کے اندر کی جانے والی ہمہ قسم کی جدوجہداگر کامیاب بھی ہوتی ہے تو وقت کے ساتھ ساتھ زائل ہوتی جاتی ہے۔ سرمایہ داری میں رہتے ہوئے کسی قسم کی ’’فلاحی ریاست‘‘ یا مزدوردوست ماحول کا تصور تاریخ نے ’’سکنڈے نیوین‘‘ تجربے کی ناکامی کی صورت میں آشکار کردیا ہے، جہاں مستقل کام کی جگہ کنٹریکٹ لیبر، تنخواہوں میں کٹوتیوں سمیت متعدد اقدامات چھپی ہوئی مزدوردشمنی کو کمبل سے باہر نکل کر مزدوروں پر حملہ آور ہوتا دکھارہے ہیں۔
پاکستان مزدوروں کے لئے بیگار کیمپ بنا ہوا ہے، جہاں کسی نام نہاد قانون کا بھی اطلاق نہیں ہوتا۔ ہر روز متعددقسم کی خونی حادثات سے قیمتی انسانوں کا زندگی سے محروم ہونا یا زندگی بھر کے لئے اپاہج ہوجانا بطورخاص حکمران طبقے کے لئے اور بالعموم پورے سماج کے لئے ایک نظر انداز کی جانے والی خبر سے بڑھ کر کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ جبری مشقت کا لفظ مخصوص شعبوں، خشت سازی کے بھٹوں، قالین بافی وغیرہ کے لئے استعمال ہوتے ہیں مگر یہ لاعلمی یا بددیانتی کا ارتکاب ہے۔ پاکستان میں کون سی فیکٹری یا ادارہ جبری مشقت نہیں لے رہا۔ جبر اور ستم کو میک اپ سے چھپانے کے لئے فیکٹریوں میں کل تعداد کا پانچ دس فی صد حصہ ’’مستقل ملازم‘‘ قراردے کر نوے فی صد مزدوروں کو ٹھیکے داری نظام یا تھرڈ پارٹی سسٹم کی وحشت کے بھینٹ چڑھایا ہوا ہے، جہاں کم ازکم اجرت(کے شرمناک) قانون تک کا اطلاق نہیں ہوتا۔ کام پر آنے کا وقت ہے جانے کا نہیں! ہر قسم کی بدلحاظی، بدتمیزی، تشدد کو روا رکھا جاتا ہے بصورت احتجاج گیٹ سے باہر نکال کر چھٹی کرادی جاتی ہے۔ کسی بڑی کمپنی میں ہونے والے کسی بدترین واقعہ کی رپورٹنگ تک اس فیکٹری یا کمپنی کے نام کی بجائے’’مقامی فیکٹری‘‘ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ میڈیا میں غربت، پسماندگی، بے روزگاری، کم اجرت، لیبر قوانین (جیسے بھی ہیں) کی خلاف ورزی پر مزدوروں کا نقطہ نظر کبھی سامنے لانے کی شعوری کوشش نہیں کی جاتی۔ بلدیہ ٹاؤن کے واقعہ پر ریاست کی طرف سے ردعمل حکمران طبقے کے مزدوروں کے بارے میں نقطہ نگاہ اور طبقاتی رویے کو واضح کرتا ہے۔ بلوچستان میں دوسری قومیتوں کے محنت کشوں کو ہی کیوں نشانہ بنایا جاتا ہے؟ اس پر کوئی ٹاک شو نہیں ہوتا اور نہ ہی اس موضوع پر تحقیق ہوتی ہے۔ یہ سارے ستم مزدور تحریک اور مزدور راہبروں کی نظریاتی اور سیاسی زوال پذیری کی وجہ سے بڑھتے جارہے ہیں جو نجکاری اور نجی شعبے میں مزدوروں کے ساتھ ہونے والے بھیانک جرائم کے خلاف نہ تو موثر قسم کا ردعمل دیتے ہیں نہ ان حالات کے خلاف مزدوروں کی تحریک کو یکجا اورمنظم کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور نہ ہی مزدوروں کی خواہش کے برعکس میدان عمل میں آکر فیصلہ کن لڑائی کا راستہ اختیا رکرتے ہیں۔ اسکی وجہ صرف اور صرف نظریاتی انحراف اور مزدوروں کے فلسفے(مارکسزم) کی بجائے سرمایہ دارانہ رجحانات کے ’’تقدس‘‘ کے سامنے سرنگوں ہونا ہے۔
سوویت یونین کے انہدام پر سائنسی اور جدلیاتی تجزیہ کرنے اور اسکے اسباب کو جاننے کی بجائے، اس واقعہ کو اپنی سوچ کا کینسر بنا کرپسپائی اختیار کرنے والے کبھی ’’طبقاتی جدوجہد ‘‘ نہیں کرسکتے۔ ان کو نئے اور نوجوان مزدوروں کے لئے قیادت چھوڑ دینی چاہئے۔ دہائیوں سے گدھوں کی طرح قیادتوں کو اپنے پنجوں میں دبائے ہوئے ان بوسیدہ اور نحیف ’’قائدین‘‘ کا وجود اب صرف حکمران طبقات کے مفادات کی تکمیل کے لئے مزدوروں کو قائل کرنا، سرمایہ داری اور سامراج کی نام نہاد ہیبت اور سرمائے کی ’’ناقابل شکست‘‘ طاقت کے فیصلوں کو ہر حال میں قبول کرلینے کا درس دینے کے علاوہ کچھ نہیں رہا ہے۔ بڑی بڑی ٹریڈ یونینز اور فیڈریشنزکی قیادتیں ’’مستقل مزدور‘‘ اور ’’دیہاڑی دارمزدور‘‘ کی گمراہ کن، استحصالی اور محنت کی لوٹ مار کو شدید کرنے والی تقسیم کے خلاف موقف اختیار کرنے کی بجائے، مالکان کی اس سازش کا شکار نظر آتی ہیں۔ وہ صرف ’’مستقل مزدور‘‘ کے مفادات کی بات کرتی ہیں اور ٹھیکے داری کے تحت مستقل کام کرنے والے مزدوروں کو نہ صرف ’’ایمپلائیز یونینز‘‘ میں رکنیت نہیں دیتے بلکہ ’’انتظامی طور پر غیرمستقل مزدور‘‘ کے ساتھ ’’مستقل مزدور‘‘ کے تعصب کو گہرا کرنے کی سوچ کا تدارک کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ اس سے بڑی نظریاتی زوال پذیری کیا ہوگی۔ ہر جگہ روزگار کی فراہمی کے مطالبے کی بجائے مقامی اور غیر مقامی مزدور کی تقسیم پر تعصبات پیدا کرکے طبقاتی یکجہتی کو کمزور کرنیکی سازش میں مزدورتنظیمیں اس لئے شامل ہوجاتی ہیں کیوں کہ انکی کوئی نظریاتی تربیت کا بندوبست نہیں ہے۔ ٹریڈ یونین کا مقصد صرف ’’چارٹر آف ڈیمانڈ ‘‘تک محدود کردینے سے سیاسی، نظریاتی حملوں کا تدارک کرنے کی صلاحیت ہی ختم کردی گئی ہے۔ سماج کی طبقاتی ہیئت کیا ہے ؟ محنت کش طبقہ، کل آبادی میں فیصلہ کن اور غالب حصہ ہے مگر اس تقسیم کو سیاسی قیادتیں شعوری طور پر نظرانداز کرکے ایک چھوٹی سی اقلیت کے مفادات کے گرد ساری سیاسی بساط بچھاتی اور سیاست کرتی ہیں اسکی وجہ محنت کش طبقے کا خود کو بطور طبقہ شناخت کرانے میں ناکامی ہے۔ اسکی ذمہ دار مزدورقیادتیں ہیں۔ جو محنت کشوں اور انکو لوٹنے والوں کے درمیان فرق ظاہر کرنے والی خونی لکیر کو مٹانے کے درپے رہتی ہیں۔
مزدور کوسرمایہ داروں کی زبان میں ’’بولنے والی مشین‘‘ کے دائرہ سے نکال کر حقیقی انسان کی شکل میں لاکر ہی اس قابل بنایا جاسکتا ہے جہاں وہ ہر قسم کے حملوں کا جواب دینے اور بدترین حالات، مزدورمخالف قوانین، شکستہ اور زوال پذیر سرمایہ دارانہ نظام کی وحشت اور حملوں کا جواب دینے کی شکتی حاصل کرسکتا ہے۔ مزدور کو سیاست اور مزدور نظریات سے الگ کرکے ’’یوم مئی‘‘ منانا یا موجودہ حقیقی ’’اوقات کار‘‘ کو سمجھے بغیر آٹھ گھنٹے کے کام کے دن کی فتح یابی پر شادیانے بجانامزدوروں کا وقت ضائع کرنے اور ان کو دھوکے میں رکھنے کے مترادف ہے۔ اس تناظر میں عالمی یوم مزدور یعنی ’’یوم مئی‘‘ مزدوروں کے لئے صرف تجدید عہد وفا کا دن نہیں، بلکہ اپنے آج کی تکالیف سے کس طرح چھٹکار ا پایا جائے اور اپنے اور اپنی نئی نسل کے مستقبل کو بہتر بنانے کے لئے ’’سرمائے کی غلامی‘‘ سے کیسے نجات حاصل کی جائے، کا موضوع ہی اس یوم مئی کا ایجنڈا ہے۔ مزدوروں کو اس یکم مئی پر اپنا اور اپنی قیادتوں کا کڑا احتساب کرنا ہوگا۔ اس ظالمانہ اور فرسودہ سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے میں ایک ایک لمحے کی تاخیر، نسل انسانی کو ذلت اور مشکلات سے ہمکنار کررہی ہے۔ اب لڑائی چارٹر آف ڈیمانڈ کی نہیں نظام کی تبدیلی کی ہونی چاہئے۔