عورت ’’سنگسار‘‘ ہے!

[تحریر: لال خان]

27 مئی کی صبح قانون اور انصاف کے بلند و بالا مندر، لاہور ہائی کورٹ کے مرکزی دروازے کے عین سامنے 25 سالہ فرزانہ اقبال کوسر عام سنگسار کر دیا گیا۔ فرزانہ تین ماہ کی حاملہ تھی۔ اس کے پیٹ میں پلنے والی جان اس دنیا میں آنے سے پہلے ہی فنا ہوگئی۔ قاتلوں میں اس کا باپ، دو بھائی اور منگیتر بھی شامل ہیں۔ دنیا نیوز کی رپورٹ کے مطابق ’’موقع پر موجود درجنوں پولیس اہلکار کھڑے تماشہ دیکھ رہے تھے۔‘‘ پولیس کے علاوہ درجنوں ’’عینی شاہدین‘‘ کے دل بھی فرزانہ کی چیخ و پکار ، چیخوں اور آہوں سے نہ پگھل سکے۔ کوئی آگے نہیں بڑھا، کسی نے ظالموں کا ہاتھ روکنے کی کوشش نہ کی۔
انسان کے روپ میں چھپے درندوں نے پہلے فرزانہ کے خاوند 45 سالہ اقبال اور اس کے اہل خانہ پر فائرنگ کی۔ بعد ازاں اینٹوں اور پتھروں سے فرزانہ کو سنگسار کیا گیا۔ دماغ کی ہڈی ٹوٹ جانے اور جسم پر لگنے والی کاری ضربوں سے وہ موقع پر ہی دم توڑ گئی۔ باپ اور بھائی تب تک سنگباری کرتے رہے جب تک انہیں فرزانہ کی موت کا یقین نہ ہوگیا۔ پولیس کی بھاری نفری کی موجودگی میں قاتل باآسانی فرار ہوگئے۔ حسب روایت پولیس کی ’’تفتیش‘‘ جاری ہے اور چھاپے مارے جارہے ہیں۔ فرزانہ کی اذیت اور قاتلوں کی وحشت قتل کے بعد بھی کم نہیں ہوئی۔ اس کے بھائیوں نے اپنے رشتہ داروں کو دھمکی دی ہے کہ لاش وصول کرنے اور اس کے کفن دفن کا انتظام کرنے والے کا بھی یہی حشر کیا جائے گا۔
دل دہلا دینے والے اس ظلم کی خبر کو بیشتر ٹیلی وژن چینلوں کی شہ سرخیوں میں جگہ نہیں مل پائی۔ تمام میڈیا صدر اوباما کے بیان کے آپریشن، میاں نواز شریف کی بھارت یاترا میں دوستی کی پینگھیں بڑھانے اور ساتھ ہی ساتھ ہندوستان دشمنی کی سب سے بڑی علامت ایٹم بم کی سالگرہ ’’یوم تکبیر‘‘ کے نام سے منانے میں مصروف تھا۔ ’’یوم تکبیر‘‘ پر حکمرانوں کی جرات اور ’’قومی غیرت‘‘کے قصیدے گائے گئے،اسی لاہور میں آتش بازیاں ہوئیں، دکانداروں کی انجمنیں مٹھایاں تقسیم کرتی رہیں اور انسانی بربادی کے اس ہتھیار کی سالگرہ پر کیک کاٹے گئے۔ ایک بے بس لڑکی کے سرعام اور بہیمانہ قتل کے چند گھنٹوں بعد یہ جشن، یہ آتش بازیاں دیکھ کر ذہن ماؤف ہوجاتا ہے اور سوچ دم توڑنے لگتی ہے۔
لیکن کیا یہ اس ملک میں اپنی نوعیت کا پہلا اور آخری واقعہ ہے؟ ’’غیرت‘‘ کے نام پر خواتین کا قتل، ان پر تیزاب پھینک کر چہرے کو مسخ کردینا، زندہ جلانا اور گھریلو تشدد تو اس سماج کا معمول بن چکا ہے۔ ہر روز ایسے کتنے ہی واقعات اخبارات میں رپورٹ ہوتے ہیں اور اس سے کہیں زیاہ کبھی منظر عام پر نہیں آتے۔ اس درندگی کا نشانہ بننے والی خواتین کی اکثریت غریب گھرانوں اور محنت کش طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔ ظلم کسی شکل میں بھی ہو، وحشت اور جبر کوئی بھی روپ دھار لیں،سارے عذاب غریبوں پر ہی نازل ہوتے ہیں۔

فرزانہ کا شوہر اقبال اپنی بیوی کی لاش کے ساتھ

باپ اور بیٹی کا جو رشتہ ہم نے دیکھا، پڑھا اور تصور کیا ہے وہ تو شفقت اور محبت کی انتہا سے شروع ہوتا ہے۔ بھائی اور بہن کی انسیت کتنی لطیف، خالص اور سچی ہوتی ہے۔ لیکن باپ اور بھائیوں نے جو کچھ فرزانہ کے ساتھ کیا ، وہ تو کوئی وحشی سے وحشی جانور بھی اپنوں کے ساتھ نہیں کرسکتا۔ المیہ کسی ایک خاندان کا نہیں ہے بلکہ پورے سماج میں ایسے واقعات روز بروز بڑھتے جارہے ہیں۔ صرف گھر ہی نہیں اجڑ رہے، خاندان ہی نہیں بکھر رہے بلکہ ہر انسانی تعلق اور رشتہ خود غرضی، لالچ، ہوس اور مالی مفادات کے زہر سے آلودہ ہوکر مر رہا ہے۔ دوسرے بے شمار واقعات کی طرح یہ واقعہ بھی پورے معاشرے کے گل سڑ جانے کی علامت ہے۔ پورا سماج، اجتماعی طور پر نفسیاتی مریض بن کر وحشت میں مبتلا ہورہاہے۔ اس معاشرتی وبا کی وجوہات بھی انفرادی نہیں ہیں بلکہ سماج کی معاشی اور اقتصادی جڑوں میں پوشیدہ ہیں۔
ہر سماجی برائی اور جرم کی بنیادی وجہ انسانوں کے جم غفیر میں انسان کو تنہا اور بیگانہ کردینے والی محرومی اور بیگانگی ہے۔ پیسے ، مالیاتی تحفظ اور سماجی وجود کو برقرار رکھنے نہ ختم ہونے والی کشمکش میں انسانیت غرق ہو کر رہ گئی ہے۔ اس کیفیت میں انسان خود کو معاشرے سے الگ اور کٹا ہوا محسوس کرتا ہے۔ بے حسی یہاں سے ہی جنم لیتی ہے۔ محرومی، ضروریات کی تڑپ، معاشی عدم استحکام اور مستقبل کا خوف انسان کو سرمائے کے حصول، ملکیت میں اضافے اور بقا کی جدوجہد کی اس اندھی دوڑ میں داخل کردیتے ہیں جہاں وہ ذہنی طور پر مفلوج ہوکر جنون کی راہ پر گامزن ہوجاتا ہے۔ وحشت ، بے حسی اور دوسرے کی گردن پر پاؤں رکھ کر آگے بڑھے بغیر اس دوڑ میں انسان زیادہ دیر تک بھاگ نہیں سکتا۔ اس نظام میں ہر رشتے، ناطے اور اخلاقی قدر کو پیروں تلے روند کر آگے بڑھنا پڑتا ہے، بصورت دیگر حکمران طبقات کی سماج پر مسلط ’’اخلاقیات‘‘، اقدار، ریت و رواج اور روایات کے مطابق ’’ناکامی‘‘ کا لیبل لگا دیا جاتا۔ یہاں ساری محبتیں، رشتے اور ناطے دولت کے طاقت کے حصار میں مقید ہیں۔ سماجی حیثیت، شرافت، نیک نامی، مقبولیت، انفرادی اثرورسوخ اور رتبے کا تعین بھی پیسے سے ہی ہوتا ہے۔ سماج، خاندان اور برادری میں رتبہ بلند ’کروانے‘ کے لئے دولت مند اور بدعنوان ہونا ضروری ہے۔
یہاں محبت کرنا بھی صرف امیروں کا ہی حق ہے کیونکہ معاشقے اور شادیاں وہی افورڈ کرسکتے ہیں۔ غریب بھلا یہ جرات کیسے کرسکتے ہیں؟ اگر کوئی ’’کم رتبہ‘‘ شخص اس چکر میں پڑ بھی جائے تو اسے جلد ہی ادراک کروا دیا جاتا ہے کہ یہ چیزیں صرف فلموں اور افسانوں میں ہی اچھی لگتی ہیں۔ محنت کش اور غریب اگر افسانوی قصوں کو حقیقت کا روپ دینے کی کوشش بھی کریں توعبرتناک خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ فرزانہ اور اس کے شوہر کے ساتھ بھی شاید یہی ہوا۔ لیکن دولت کے زور پر ہونے والی محبتیں بھی مصنوعی اور کھوکھلی ہوتی ہیں، بالکل حکمران طبقے کے طریقہ زندگی، رویوں، وعدوں اور اخلاقیات کی طرح۔ بالادست طبقات کے مرد حضرات اپنی بیگمات کو بڑی بڑی چمکیلی گاڑیوں، عالیشان محلات اور خوبصورت باغات کی طرح سجا کر رکھتے ہیں۔ یہی ان کے نظام میں عورت کا اصل مقام اور مرتبہ ہے اوریہی سوچ ذرائع ابلاغ، فلموں، ڈراموں اور ادب کے ذریعے درمیانے طبقات کی نفسیات میں اتاری جاتی ہے۔ پھر درمیانہ طبقہ یہی سوچ پورے معاشرے اور محنت کش طبقات پر جمود کے ادوار میں مسلط کردیتا ہے۔
پرکھوں کی کہاوت ہے کہ تمام جھگڑوں اور تنازعات کی وجہ ’’زر، زن اور زمین‘‘ ہیں۔ جیسا کہ کہاوت سے واضح ہے کہ مال اور زمین کی طرح اس سماج میں عورت کوبھی جنس اور ذاتی ملکیت ہی سمجھا جاتا ہے۔ ملا اور لبرل، چادر اور چار دیواری کے عزت و احترام، آزادی نسواں اور خواتین کے حقوق کا جتنا بھی ڈھنڈورا پیٹ لیں، یہ حقیقت اس نظام میں بدلنے والی نہیں ہے۔ پورے سماج کو لاحق روح کی غربت، احساس کی تنزلی اور جذبوں کی سرد مہری کی بیماری ، اسی نظام کے معاشی اور سماجی بحران کی نفسیاتی پیداوار ہے۔ حکمران طبقہ کبھی مذہب کے ذریعے اپنی حاکمیت کو مسلط کرواتا ہے تو کبھی سیکولرازم کے ہتھکنڈوں کے ذریعے عوام کو دھوکہ دیا جاتا ہے۔ تاہم ذاتی ملکیت اور منافع خوری کے اس نظام پر ملا اور ’’سیکولر‘‘ بالکل متفق ہیں۔
عورت سماجی طور پر تب تک آزاد نہیں ہوسکتی جب تک وہ معاشی بنیادوں پر آزاد نہ ہو اور اس کی گھریلو مشقت کو انسانی محنت کا رتبہ اور معاوضہ نہ دیا جائے۔ جس معاشرے میں ماں آزاد نہ ہو وہ ہمیشہ غلام رہتا ہے۔ یہ عدلیہ، پولیس، ریاست، آئین، قانون، اسمبلیاں اور ’’این جی اوز‘‘، عورت کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں۔ ان سے فریاد کرنا اپنے آپ کو کمزور کرنے کے مترادف ہے۔ جب تک یہ سماج، معیشت اور اس کے ملکیتی رشتے نہیں بدلیں گے یہ اذیت، درندگی اور غلامی بڑھتی جائے گی،ایک کے بعد دوسری فرزانہ یونہی بے دردی سے قتل ہوتی رہے گی!