سونامی کی ناکامی

| تحریر:لال خان |

پاکستان کی سیاست میں عمران خان کی سونامی ’آنے اور چھا جانے‘ میں ناکام ہو گئی ہے۔ انتخابات کے نتائج آنے کے ساتھ تحریکِ انصاف کے حامیوں کی امیدیں دم توڑ گئیں۔ مالیاتی سرمائے کے جبر اور پیپلز پارٹی کی موجودہ موقع پرست قیادت کی غداری کے باعث نظریاتی سیاست کے پسِ منظر میں چلے جانے کے عہد میں رائج الوقت نظام کو چیلنج کرنے والی ایک نئی سیاسی تنظیم کے لیے ایک بے کراں خلا موجود تھا۔ عمران خان تبدیلی کی بات کر رہا تھا اور بر سرِ اقتدار سیاست کا متبادل پیش کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ گرشتہ ڈیڑھ سال کے دوران کراچی اور لاہور میں منعقد ہ بڑے بڑے جلسے ملک کے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کی توجہ کا مرکز بنے تھے۔ کارپوریٹ میڈیا نے تحریکِ انصاف کی سرگرمیوں کو بڑے پیمانے پر کوریج دی اور عمران خان تقریباً ہر روز ٹی وی پر کرپشن کے خلاف گفتگو اور عوام کو انصاف فراہم کرنے کے وعدے کر رہا تھا۔
لیکن انتخابات کے قریب آتے ہی سیاسی جمود میں پیسے کی سیاست پر مبنی انتخابی نظام کی حقیقتیں پی ٹی آئی پر آشکار ہونے لگیں اور عمران خان نے حکمران اشرافیہ کے روایتی سیاست دانوں یعنی بدنامِ زمانہ ’ قابلِ انتخاب‘ شخصیات کو ساتھ ملانا شروع کر دیا۔ اگرچہ تحریک انصاف کے گمنام پرانے کارکنان کی جانب سے اس پر غصے اور مخالفت کا برملا اظہار کیا گیا لیکن عمران خان کو ان نوسربازوں کے آنے سے کوئی پریشانی نہیں تھی کیونکہ اس کے بنیادی نظریات سیاسی اشرافیہ کے سرمایہ دارانہ/جاگیردارانہ نظام سے متضاد نہیں۔ عمران خان مسلسل یہ کہتا رہا کہ اس کی پارٹی ایک نظریاتی جماعت ہے اور باقی سب نظریات سے عاری ہیں۔ لفاظی سے قطع نظر، تحریکِ انصاف کا حقیقی نظریہ دائیں بازو کی اصلاح پسندی ہے جو سماج کو برباد کرتے اور بڑھتے ہوئے بحران کو حل کرنے کا نہ تو کوئی نیا اور نہ ہی کامیاب نسخہ ہے۔ دائیں بازو کا پاپولسٹ عمران خان لبرل اور دقیانوس سماجی اور سیاسی رجحانات کا ایک عجیب و غریب ملغوبہ بنانے کی کوشش میں تھا جن دونوں کی بنیاد سرمایہ دارانہ معیشت پر ہے۔ جماعت اسلامی سے الحاق اور آئی ایم ایف کی نجکاری کی پالیسی کی حمایت اس کے سرمایہ دارانہ نظام اور دائیں بازو کے سیاست دان ہونے کی غمازی کرتی ہے۔
زیادہ سے زیادہ، تحریکِ انصاف کا پروگرام سرمایہ دارانہ نظام کے اندر رہتے اور اس کی معاشی اور سماجی بنیادوں کو چھیڑے بغیراصلاحات کرنے کا تھا۔ اگرچہ عمران خان کی انتخابی مہم میں گلیمر، تبدیلی کے نعرے اور بہت جوش و خروش تھا لیکن اس کا بنیادی نکتہ بوسیدہ سرمایہ دارانہ نظام کو بدلنے کی بجائے اصلاحات کر کے اسے جاری رکھنے اور بچانے کا تھا۔ کرپشن کے خاتمے کے نعرے کا تعلق کسی خیالی دنیا سے ہی ہوسکتاہے۔ کرپشن بحران کا باعث نہیں بلکہ لڑکھڑاتی معیشت میں اس نظام کی ضرورت اور پیداوار ہے۔ پی ٹی آئی نے عوام کو انصاف دینے کا نعرہ لگایا لیکن سب کے لیے مفت انصاف کی بات نہیں کی۔ وکلاء تحریک کے بعد عدالتی نظام کے اخراجات میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے اور اس شعبے میں ہونے والی مہنگائی بجلی، پٹرولیم مصنوعات وغیرہ سے کہیں زیادہ ہے۔ عوام کی وسیع اکثریت کے پاس انصاف کے تقاضوں پر آنے والے اخراجات اٹھانے کے وسائل اور مالیاتی حیثیت ہی نہیں۔
صحت اور تعلیم کے بنیادی مسائل پر بھی پی ٹی آئی کا یہی موقف تھا۔ لیکن اس سے بڑھ کر، ایک ایسے سماج میں جہاں سب سے اہم اور فیصلہ کن تضاد طبقاتی تضاد ہے، تحریک انصاف اپنی طبقاتی وابستگی کا اعلان کرنے سے قاصر رہی۔ جسے عمران خان پاکستانی قوم کہتا ہے وہ در حقیقت دو ’اقوام‘ پر مشتمل ہے، استحصال کرنے والی قوم اور استحصال کا شکار قوم۔ حکمران طبقے اور محنت کش طبقے کے بنیادی مفادات ناقابلِ مصالحت ہیں اور جب تک طبقاتی نظام موجود ہے طبقاتی جدوجہد اپنے اتار چڑھاؤ کے ساتھ جاری رہے گی۔ عمران خان خود کو 1960ء اور 1970ء کی دہائی کے ذوالفقار علی بھٹو کے نئے جنم کے طور پر پیش کر رہا تھا۔ اسے امید تھی کہ اس کا سونامی 2013ء کے انتخابات میں مکمل طور پر چھا جائے گا جیسے 1970ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کو مغربی پاکستان میں بہت بڑی فتح حاصل ہوئی تھی۔ لیکن وہ یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ 1970ء کے انتخابات ایک انقلابی طوفان کے پسِ منظر میں منعقد ہوئے تھے جس نے نظام کو چیلنج کرتے ہوئے ریاست کو لرزا دیا تھا۔ جبکہ 2013ء کے انتخابات پانچ سالہ جمہوری حکومت میں عوام پر اذیت ناک محرومی، ریکارڈ مہنگائی، برطرفیوں، بے روزگاری، دہشت گردی اور بدحالی کے بعد ہو رہے تھے۔
عوامی شعور میں بغاوت اور ابھار کی کیفیت کے برعکس، سرمایہ دارانہ جمہوریت کی دین سماجی اور معاشی زخموں کی وجہ سے ایک مایوسی اور بد گمانی سماج پر حاوی تھی۔ عمران خان کے پروگرام میں طبقاتی استحصال اور عوام کی تکالیف کا خاتمہ کرنے کا کوئی واضح لائحہ عمل نہیں تھا۔ ذولفقارعلی بھٹو بے صبر اور متلون مزاج درمیانے طبقے کی بجائے محنت کش طبقات کے نمائندہ بن کر سامنے آئے تھے۔ پیپلز پارٹی کی1967ء کی تاسیسی دستاویز اور1970ء کے انتخابی منشور میں طبقاتی جدوجہد اور انقلابی سوشلزم کے ذ ریعے تبدیلی کی بات کی گئی تھی۔ پی پی پی کے ٹکٹ پر کامیاب ہونے والوں کی اکثریت پارٹی کے گمنام بانیوں کی تھی، جنہیں 1968-69ء کے انقلاب سے پہلے ’ناقابلِ انتخاب‘سمجھا جاتاتھا۔ ان انتخابات میں اشرافیہ کے روایتی سیاست دانوں کا صفایا ہو گیا تھا۔
پہلے ہی تحریکِ انصاف کے حامیوں میں پھوٹ اور کئی تنازعات موجود تھے جو انتخابات کے بعد کھل کر سامنے آئے اور اب تک بہت سے لوگ پارٹی چھوڑ چکے ہیں۔ اگرچہ 2013ء کے انتخابات میں تحریکِ انصاف کو دوسرے نمبر پر ووٹ پڑے لیکن موجودہ معاشی اور سماجی ایجنڈے پر یہ اپنی حمایت برقرار نہیں رکھ سکے گی۔ اگرچہ شخصیات کی کشش پارٹیوں کی تقدیر میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے، خصوصاً غیر ترقی تافتہ سماجوں میں، لیکن پارٹی کے پیہم کردار کے لیے اس پر انحصار نہیں کیا جا سکتا۔ آنے والے دن بہت ہنگامہ خیز ہوں گے اور سرمایہ داری کے بڑھتے ہوئے بحران میں معاشی اور سماجی انتشار مزید گہرا ہو گا۔ تمام جماعتیں خلفشار اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوں گی لیکن تحریک انصاف میں اس کی شدت بہت زیادہ ہو گی جس کی وجہ اس کی پیٹی بورژوا سماجی بنیادیں او ر سرمایہ دارانہ نظام اور ریاست کی اصلاح پر مبنی اس کا نظریاتی تذبذب ہے۔ نسبتاً نظریاتی پسپائی، طبقاتی جدوجہد اور عوامی تحریک کے جمود میں عمران خان کے ساتھ شامل ہونے والے درمیانے طبقے کے نوجوان اسے چھوڑ دیں گے کیونکہ آنے والے طوفانی واقعات کے لئے تحریک انصاف کے پاس کوئی حقیقی حکمتِ عملی، سمت اور پروگرام نہیں ہے۔
سماج کو لاحق اس بربادی سے نکلنے کا حتمی راستہ مجبور عوام اور محنت کش طبقے کی تحریک ہے جو انہیں ذلت اور غربت میں دھکیلنے والے اس نظام کو چیلنج کرے گی۔ وہ حقیقی تبدیلی کا چناؤ کریں گے۔ سرمایہ دارانہ بیگار کے متبادل کے طور پر تحریکِ انصاف کے پاس عوام کے لیے کچھ نہیں ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ محنت کش ایک انقلابی لہر میں عوام کی نجات کا ذریعہ بننے والے متبادل کی تلاش میں آگے بڑھ جائیں گے۔ ایسی کیفیت میں تحریکِ انصاف میں توڑ پھوڑ تیز تر ہو جائے گی۔ نواز لیگ کی حکومت کی جانب سے سرمایہ داری کو تقویت دینے کی خاطر کیے جانے والے معاشی وسماجی حملے ایک عوامی بغاوت کے لیے اشتعال انگیز ثابت ہوں گے۔ عوام کی روایت پر قابض پیپلز پارٹی کی قیادت کو ان انتخابات میں یکسر بری طرح مسترد کیا گیا ہے لیکن اس کایہ مطلب نہیں کہ پیپلز پارٹی عوام کی روایت کے طور پر مکمل ختم ہو گئی ہے۔ آنے والے دور میں پیپلز پارٹی میں کہیں زیادہ ٹوٹ پھوٹ، گروہ بندیاں اور تقسیمیں ہوں گی۔ پی پی پی کی سوشلسٹ بنیادوں پر مبنی ایک رجحان کا ابھارہی اس کی بقا کی واحد صورت ہو گی، جو پارٹی کے سوشلسٹ پروگرام کو ایک جدید ترین اور انقلابی شکل میںآگے بڑھائے گا۔ نیم انقلابی کیفیت میں ایک نئی روایت کا ظہور ہو گا جو نظام کو حقیقی معنوں میں بدل کر پسے ہوئے محنت کش عوام کی نجات اور خوشحالی کا انقلابی متبادل بنے گی۔