رپورٹ: سنگین باچا
13 اپریل بروز جمعرات عبدالولی خان یونیورسٹی مردان میں پختو ن ایس ایف کے نظریاتی کارکن مشال خان پر توہین مذہب کا الزام لگا کر انتہائی بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔ اس پر لگائے گئے الزامات سراسر بے بنیاد اور من گھڑت تھے۔ مشال نے بیرون ملک سے سول انجینئرنگ کی ڈگری لی تھی اور مارکسزم کے نظریات سے متاثر تھا، جس کی بنیا د پر وہ سیاسی جدوجہدکر رہا تھا۔ پچھلے کچھ عرصے سے اس نے عبدالولی خان یونیورسٹی کی انتظامیہ کے کرپشن میں ملوث ہونے کے خلاف سیاسی جدوجہد شروع کی تھی اورپختون ایس ایف میں نظریاتی بنیادوں پر ساتھیوں کو اپنے ساتھ جوڑنے کا عمل شروع کیا تھا۔ اس نے مختلف ٹی وی چینلوں کو انٹرویوز کے دوران اس بات کی نشاندہی کی تھی کہ ایک طرف انتظامیہ بڑے پیمانے پر کرپشن میں ملوث ہے تو دوسری طرف غریب طلبہ کی تعلیم تک رسائی مشکل ہو تی جا رہی ہے۔ عبدالولی خان یونیورسٹی میں پختون ایس ایف کے علاوہ کوئی بھی مظبوط تنظیم موجود نہیں ہے۔ اس طرح انتظامیہ میں بھی عوامی نیشنل پارٹی کا عملہ موجودہے۔ یونیورسٹی کی انتظامیہ مشال کی جدوجہد سے بہت پریشان تھی اور کئی دفعہ پی ایس ایف کے کیمپس لیڈر کو ڈانٹا گیا کہ ایک پوری تنظیم ایک بندے کو قابو میں نہیں رکھ سکتی؟ معاشرے میں چونکہ ایک عمومی سیاسی زوال موجود ہے اور اس کا اثر پی ایس ایف پر بھی ہے۔ عبدالولی خان یونیورسٹی کے پختون ایس ایف کے لیڈر اور انتظامیہ ملے ہوئے تھے اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ مشال جیسے کسی نظریاتی کارکن کو تنظیم میں آگے بڑھنے دیا جائے۔ مشا ل نے ہمیشہ بحث ومباحث میں غریب طلبہ کے حقوق کی بات کی، سیاست میں کرپٹ لوگوں کے خلاف آواز اٹھائی اور سرمایہ دارانہ نظام کو چیلنج کیا۔ حال ہی میں مشال نے یونیورسٹی انتظامیہ کے خلا ف عدالت میں کیس دائر کیا تھا جس کے بعد انتظامیہ موقع کے تلاش میں تھی کہ کس طرح سے اسے اپنے راستے سے ہٹایا جا سکے۔ مشال خان کو کئی دن سے دھمکیاں مل رہی تھیں اور جمعرات کے د ن جب وہ ہاسٹل میں موجود تھا اور اس کو پتہ چلا کے اس پر حملہ ہونے والا ہے تو اس نے ہاسٹل میں کہیں چھپ کر پناہ لے لی اور موبائل بھی بند کردیا۔ لیکن کیمپس میں پولیس کی موجودگی کے باوجود اُسے ڈھونڈ کر کمر ے سے نکالا گیا اور بے دردی سے سنگسار کر دیا گیا۔ حملہ پی ایس ایف کے رجعتی کارکنوں کے سرپرستی میں ہو ا تھا اور اب تک پی ایس ایف کے 13 کارکنوں کے نام رپورٹ میں آئے ہیں۔
پشاور یونیورسٹی میں پختون ایس ایف کے نظریاتی کارکنوں نے مشال کی موت کو باچاخان کے نظریات پر حملہ قرار دیا ہے۔ اگر ایک طرف پارٹی قیادت نے ان کو اس اقدام کے خلاف آواز بلند کرنے یا احتجاج کرنے سے روکا ہے تو دوسری طرف پشاور یونیورسٹی کے پی ایس ایف کے نظریاتی کارکنان نے بھی یہ بات واضح کر دی ہے کہ اگر کوئی تنظیم یا فرد اس اقدام کے خلاف آواز نہیں اٹھائے گا تو اس کا باچا خان کے نام اور نظریات کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہونا چاہئے۔ اس سلسلے میں 14 اپریل کو پشاور پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ بھی کیا گیا، جس میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ مشال کے قاتلوں کو جلد سے جلد گرفتار کیا جائے اور قرار واقعی سزا دی جائے۔ مشال پر حملہ اس کی سیاسی جدوجہد کو روکنے کے لئے کیا گیا ہے ، لیکن حملہ کرنے والوں کو یہ نہیں پتا کہ شخصیات کو مارنے سے نظریات نہیں مٹتے۔ مشال کی جدوجہد تب تک جاری رہے گی جب تک اس سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ نہیں کیا جا تا جس نے انسانیت کو بربریت کے دہلیز پر کھڑا کر دیا ہے۔