[تحریر: لال خان]
موجودہ حکومت کی جانب سے پر ویز مشرف کے خلاف نومبر 2007ء میں ایمرجنسی کے نفاذ اور آئین کی معطلی کے اقدامات پر آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ چلانے کا اعلان دراصل بڑھتے ہوئے معاشی بحران اور سماجی خلفشار سے عوام کی توجہ ہٹانے کی ایک اور کوشش ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی موجودہ حکومت برسراقتدار آنے کے بعد سے عوام کی توجہ حقیقی مسائل سے ہٹانے کے لئے پرویز مشرف کو مستقل طور پر نان ایشوز کی سیاست کے لئے استعمال کررہی ہے۔ اسی قسم کا شور بجٹ کے دنوں میں بھی مچایا گیا تھا۔ راولپنڈی اور کئی دوسرے شہروں میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات اور کشت و خون کو روکنے یا کنٹرول کرنے میں حکومت مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔ یہ فسادات ریاست کی کمزور ہوتی ہوئی رٹ اور بے بسی کی غمازی کرتے ہیں جسے چھپانے کے لئے ایک بار پھر پرویز مشرف کا شوشہ چھوڑ دیا گیا ہے۔
تمام تر مقدمات میں ضمانت ملنے کے بعد پرویز مشرف 7 نومبر کو باقاعدہ طور پر رہا ہوگئے تھے اور بیرون ملک جانے ہی والے تھے۔ راولپنڈی میں ہونے والے اندوہناک واقعات کے بعد وزیر داخلہ کو ان پر ’’غداری کا مقدمہ‘‘ چلانے کا خیال آگیا۔ قوی امکان یہی ہے کہ بہت سے دوسرے مقدمات کی طرح پرویز مشرف کا کیس بھی غیر محسوس طریقے سے پھیکا پڑ کے نظروں سے اوجھل ہو جائے گا۔ جوڈیشل ایکٹویزم کا مقصد ہی ان معاملات کو گول مول کرنا ہوتا ہے جو کہ حکمران طبقات روایتی طریقوں سے حل نہیں کرپاتے۔ گزشتہ چند سالوں میں عدلیہ کا سیاست اور ریاستی امور میں معمول سے بڑھا ہوا کردار بذات خود ریاست اور اس کے مختلف اداروں میں تیز ہوتے ہوئے تضادات کو واضح کرتا ہے۔ بڑھتے ہوئے معاشی بحران اور بڑے پیمانے پر کالے دھن کی مداخلت نے ریاستی اداروں کو اندر سے کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے جس کا نتیجہ ریاست کے مختلف ستونوں کے باہم تصادم کی شکل میں برآمد ہورہا ہے۔ اکتوبر 1999ء میں پرویز مشرف کا اقتدار پر قبضہ بھی در حقیقت مختلف ریاستی اداروں کے ایک دوسرے سے تصادم کا ہی نتیجہ تھا۔ کوئی دیانتدار سیاسی مبصر مشرف کے اس ا قدام کی حمایت نہیں کرسکتا۔ تاہم ایسی سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کی بھی کمی نہ تھی جنہوں نے اس فوجی ’کُو‘ کی حمایت کی اور نام نہاد ’’سول سوسائٹی‘‘ کے بڑے حصے نے پرویز مشرف کو’’لبرل آمر‘‘ قرار دیتے ہوئے خوش آمدید کہا۔ سیاسی جماعتوں کی اکثریت نے پرویز مشرف کے ’’جمہوری عمل‘‘ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ حتیٰ کہ مسلم لیگ (ن) بھی 2002ء کے انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی اس پارلیمنٹ کا حصہ تھی جس نے مشرف سے حلف لیا۔ یوں جمہوریت کی ٹھیکیداری کرنے والوں نے مشرف آمریت کو قانونی اور سیاسی جواز فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ مضبوط بھی کیا۔ سپریم کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس نے بھی ’’نظریہ ضرورت‘‘ کے تحت پرویز مشرف سے ہی حلف لیا تھا۔ تضادات تو بہت بعد میں پیدا ہوئے تھے۔
پرویز مشرف اقتدار پر شب خون مارنے والا پہلا فوجی آمر نہیں تھا۔ پاکستان میں فوج کے مختلف حصوں کی جانب مختلف ادوار میں اقتدار پر قبضے کی آٹھ کوششیں کی گئیں۔ فوج کی نچلی سطح سے ہونے والی چاروں کوششیں ناکام ہوئیں۔ بالائی کمانڈ کی جانب سے اقتدار پر قبضے کی چاروں کوششیں کامیاب ہوئیں جن کے نتیجے میں ایوب خان، یحییٰ خان، ضیا الحق اور پرویز مشرف برسر اقتدار آئے۔ ماضی کی آمریتوں کے مقابلے میں مشرف کا فوجی اقتدار انتہائی کمزور تھا جس میں مارشل لاء کے نفاذ کا اعلان بھی نہیں کیا گیا۔
آج کل جس آئین کے آرٹیکل 6 کا چرچا کیا جارہا ہے وہ 1973ء میں ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں نافذ ہوا تھا۔ ضیا الحق نے پہلی بار اس آرٹیکل کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کی جمہوری حکومت کو معزول کر کے مارشل لا نافذ کیا تھا۔ ضیا الحق نے کہا تھا کہ وہ اس آئین کو تار تار کر سکتا ہے جس کی حیثیت ان کاغذوں سے بھی کم ہے جس پر اسے تحریر کیا گیا ہے۔ بات حقیقت سے کچھ زیادہ دور بھی نہ تھا۔ ضیا الحق ایک مکار آمر تھا جو اچھی طرح جانتا تھا کہ اس نظام میں طاقت کا حقیقی ماخذ عوام یا آئین کی نہیں بلکہ سرمایہ، حکمران طبقات اور عالمی سامراج ہے۔ ضیا الحق کے اقتدار پر قبضے اور ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کا سب سے زیادہ جشن مقامی حکمران طبقے نے منایا تھا۔ اشرافیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے دانشوروں اور حواریوں نے بھٹو دور میں نیشلائز کی جانے والی جائدادیں سرمایہ داروں کو واپس کئے جانے پر ضیا الحق کے قصیدے پڑھے۔ ضیا آمریت کی طوالت میں سامراجیوں کے اس خطے میں سٹریٹجک مفادات بھی پوشیدہ تھے۔ سامراج کی ایما پر ضیا الحق نے ریاستی پشت پناہی سے ڈالر جہاد کے لئے اسلامی بنیاد پرستی کو پروان چڑھایا۔ مذہب اور ملائیت کو ریاستی جبر کے آلہ کار کے طور پر استعمال کیا گیا۔ ریاستی اداروں میں مذہبی تعصب کی یہ آمیزش نہ صرف آج بھی موجود ہے بلکہ اس گلے سڑے معاشی اور سماجی نظام کی نا گزیر اور مستقل ضرورت بن گئی ہے۔
شریف برادان کا شمار ضیا الحق کے سب سے پرجوش حامیوں میں ہوتا ہے۔ شریف خاندان کو ضیا الحق نے ہی سیاست میں متعارف کروایا اور پروان چڑھایا تھا۔ اس ملک کی سب سے وحشیانہ آمریت کی سیاسی چھتری تلے پروان چڑھنے والے آج جمہوریت کے علم بردار بن کر مشرف کے خلاف ’’آئین کی پامالی‘‘ کا مقدمہ چلانے کی بات کر رہے ہیں۔ معاملہ صرف سیاست دانوں تک ہی محدود نہیں ہے۔ دانشور، مصنفین، فنکار، صحافی، کھلاڑی اور دوسرے شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی نمایاں شخصیات کی ایک وسیع پرت نے اپنے ضمیر، ایمان اوراقدار کو سر بازار نیلام کیا اور ضیا الحق کے گن گاتے رہے۔ لوگوں کو حرف بغاوت کہنے پر سر عام کوڑے مارے گئے، نظریاتی وابستگیوں کی بنیاد پر سولیوں پر لٹکایا گیا، بائیں بازو کے سیاسی کارکنان کی ایک پوری نسل کو کچل دیا گیا، نجی زندگیوں میں شرمناک مداخلت کی گئی، عورتوں کے خلاف امتیازی قوانین پاس کئے گئے، مذہبی تعصب اور فرقہ واریت کو پروان چڑھایا گیا۔ ۔ ۔ آج ’’آئین کے تقدس‘‘ کا درس دینے والے اس وقت یا تو مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے تھے یا پھر ضیا آمریت کا حصہ بن کر سیاسی اور مالی مفادات حاصل کر رہے تھے۔
اگر آئین اور جمہوریت کو پامال کرنے والوں کو سزا دینا مقصود ہے تو مشرف کے ساتھ ساتھ ہر اس شخص کو انصاف کے کٹہرے میں گھسیٹنا ہوگا جو بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر ماضی کی آمریتوں سے اپنی اوقات کے مطابق فیض یاب ہوا۔ ہے کسی میں ہمت؟ اس بے ضمیر حکمران طبقے میں کون اپنے آپ کو رضاکارانہ طور پر قانونی کاروائی کے لئے پیش کرے گا؟ یہاں اہل ہوس مدعی بھی ہیں اور منصف بھی۔ ہر کچھ عرصے بعد انصاف اور قانون کا ڈھونگ عوام کو مسلسل دھوکے، فریب اور نفسیاتی تذبذب کی کیفیت میں رکھنے کے لئے رچایا جاتا ہے۔ ان بلند و بالا، پرتعیش اور بارعب انصاف کے ایوانوں کی حیثیت قدیم روم کی نمائش گاہوں سے مختلف نہیں ہے جہاں عوام کی توجہ کا رخ موڑنے کے لئے کھیل تماشے منعقد کئے جاتے تھے۔
آئین میں آرٹیکل 6 سے پہلے آرٹیکل 3 بھی آتا ہے جس کی رو سے ملک سے ہر قسم کے استحصال کا خاتمہ اور ہر شہری کو باعزت روزگارکی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ آرٹیکل 38 بھی اسی آئین کا حصہ ہے جس کی رو سے ریاست ہر شہری کو جنس، ذات اور نسل سے بالاتر ہو کر روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم اور علاج کی سہولیات فراہم کرنے کی پابند ہے۔ آئین کی ان شقوں کی خلاف ورزی ہر حکومت کرتی آئی ہے۔ اس پامالی پر شور کیوں نہیں مچتا؟ از خود نوٹس کیوں نہیں لئے جاتے؟ پارلیمنٹ میں بحث کیوں نہیں ہوتی؟اگر آمریتوں نے آئین کو پامال کیا ہے تو کیا ’’جمہوری‘‘ حکومتوں نے اس کی پاسداری کی ہے؟
جمہوریت اور آمریت کوئی نظام نہیں ہیں بلکہ ایک نظام کو چلانے کے دو سیاسی طریقہ کار ہیں۔ نظام سرمایہ داری ہے جو عالمی سطح پر متروک ہو کر گل سڑ رہا ہے اور انسانیت کو کوئی آسودگی اور ترقی دینے سے قاصر ہے۔ جب تک استحصال کا یہ نظام قائم ہے یہ سرمایہ دار، جاگیر دار، جرنیل اور بیوروکریٹ بوقت ضرورت آمریت اور جمہوریت کے بھیس بدل کر محنت کشوں کی بوٹیاں نوچتے رہیں گے۔ سرمایہ داری کے اس ناسور کو انقلابی جراحی کے ذریعے اکھاڑنے کے لئے محنت کش عوام کو خود تاریخ کے میدان میں اترنا ہوگا۔