تحریر: التمش تصدق
برطانوی سامراج کے برصغیر پر ایک صدی پر محیط سامراجی تسلط نے یہاں کے قدرتی وسائل اور انسانی محنت کو خوب لوٹا۔ یہاں کے پرانے سماجی ڈھانچے کو توڑ کر سرمایہ داری کی ایک تاخیر زدہ اور پیوند شدہ شکل سامنے لائی گئی اور مقامی اشرافیہ کو پروان چڑھایا گیا جو اس سامراجی لوٹ مار کو تحفظ دے سکے۔ یہ مقامی اشرافیہ جاگیرداروں اور نومولود سرمایہ داروں پر مشتمل تھی جس کو برطانوی سامراج نے تشکیل دیا تھا۔ اسی مقامی اشرافیہ کے ذریعے برطانوی سرکار نے ہندوستان میں مذہبی نفرتوں کو پروان چڑھایا اور آزاد ی اور انقلاب کیلئے اٹھنے والی تحریکوں کو تقسیم کر کے کمزور کیا جاتا رہا۔ ہندوستان میں ہندو مسلم مذہبی جماعتوں کی بنیادیں رکھی گئیں جن کو ہندوستان کی قومی آزادی کی نمائندہ جماعتوں کے طور پر پیش کیا گیا۔ حقیقت میں یہ جماعتیں سامراج اور مقامی اشرافیہ کی نمائندہ تھیں جن کو محکوم طبقے کی آزادی سے کوئی سروکار نہ تھا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد برطانوی سامراج کی داخلی کمزوری اور 1946ء کے انقلابی ابھار نے اسے براہ راست سامراجی تسلط ختم کرنے پر مجبور کیا تو سامراجیوں نے مقامی اشرافیہ کے ذریعے ہندوستان کا مذہبی بنیادوں پر بٹوارا کر کے ہزاروں سال پرانی ثقافتوں کو چیرا۔ پختونوں، بنگالیوں، پنجابیوں اور کشمیریوں کو تقسیم کر کے بتایا گیا کہ دوسری طرف رہنے والے آپ کے دشمن ہیں جن کے ساتھ آپ ہزاروں سالوں سے رہ رہے تھے۔ اس خونی کھیل میں لاکھوں افراد کا خون بہایا گیا اور نفرتوں کے وہ بیج بوئے گئے جو آج تک ہندو اور مسلم بنیاد پرستی کی صورت میں اس خطے کو تاراج کر رہے ہیں۔
کشمیر کو دونوں ریاستوں میں ایسے مسئلہ کے طور پر چھوڑ دیا گیا جس کی بنیاد پر مذہبی جنونیت اور جنگی ماحول کو فروغ دیا جائے تاکہ اسلحہ ساز اجاراداریوں کا اسلحہ بک سکے۔ دونوں ریاستیں بجٹ کا بڑا حصہ ’دفاع‘ پر خرچ کرتی ہیں۔ دوسری طرف یہاں کہ محکوم اور محنت کش عوام بنیادی انسانی حقوق اور سہولیات سے محروم ہیں۔ تعلیم، روزگار، علاج حتیٰ کہ پینے کے صاف پانی سے عوام کی اکثریت محروم ہے۔ لوٹ مار کا جو سلسلہ برطانوی سامراج نے شروع کیا تھا نام نہاد آزادی کے بعد اس کو زیادہ شدت سے آج تک جاری رکھا گیا ہے۔ اس استحصال کو جاری رکھنے کیلئے سامراج کے دیئے گئے مذہبی بنیاد پرستی کے ہتھیار کو ہی آج تک استعمال کیا جاتا ہے۔ کبھی ہندو مذہب کو خطرے میں بتا کے ہندو بنیاد پرستی کو ابھارا جاتا ہے کبھی کشمیر کو پاکستان بنایا جاتا ہے۔ کبھی ایک دوسرے کو برباد کرنے کے منصوبے بنائے جاتے ہیں۔ کبھی دوستی کے ہاتھ بڑھائے جاتے ہیں لیکن دونوں ریاستیں آج بھی دراصل اپنے جنم دن کے قول و قرار نبھانے کیلئے جنگ و امن کا ناٹک رچاتی رہتی ہیں۔ دونوں طرف دہشت پھیلانے والوں کی مکمل آزادی ہے۔ قتل و غارت ہو یا اجتماعی زیادتیاں، اغوا برائے تاوان ہوں یا معصوم پھولوں کی بے حرمتی۔ سب میں کھلی چھوٹ ہے۔ لیکن اگر کوئی حقیقی مسائل پر بات کرے، روزگار، تعلیم اور صحت کی عدم فراہمی کی شکایت کرے تو اسے غدار، ملک دشمن، مذہب دشمن اور بیرونی ایجنٹ قرار دیا جاتا ہے۔ زندہ رہنے کا حق مانگنے پر موت دی جاتی ہے۔ لائن آف کنٹرول کے اُس پار فوجی جبر پر بات کرنے والے کو پاکستانی ایجنٹ قرار دیا جاتا ہے اور اگر اِس طرف اپنے حقوق مانگے جائیں تو انہیں کفریہ کلمات گردانا جاتا ہے۔ کشمیرمیں بھارتی ریاست کے ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے پر جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے طلبہ کو پاکستانی ایجنٹ قرار دے کر گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ پختونوں کو زندگی کا حق مانگنے پر بھارت اور امریکہ کا ایجنٹ قرار دیا جاتا ہے۔
جموں کشمیر جسے ستر سال سے جنگی اکھاڑا بنا رکھا گیا ہے اس کھیل نے یہاں کے باسیوں کی زندگیوں کو اجیرن بنا رکھا ہے۔ اس جبر کے خلاف بغاوتوں کا ایک طویل سلسلہ نظر آتا ہے۔ سامراجی تقسیم اور ریاستی جبر کیخلاف محکوم عوام سڑکوں پر آکر نفرت کا اظہار کرتے ہیں۔ 2016ء میں ایک مرتبہ پھر بھارتی ریاست کے جبر کیخلاف نوجوانوں کی بغاوت کا آغاز ہوا۔ جس میں نوجوانوں نے وحشت اور طاقت کے آگے جھکنے سے صاف انکار کرتے ہوئے بھارتی افواج کا مقابلہ پتھروں سے کرنے کی کوشش کی۔ اس تحریک میں موجودہر نوجوان زندگی کا حق لینے کیلئے موت کو گلے لگانے کو تیار تھا۔ ریاستی جبر، دھمکیاں، بہتان تراشیاں غرضیکہ بھارتی ریاست کی کوئی بھی واردات نوجوانوں کے انقلابی جذبوں کو پست کرنے میں ناکام رہی۔ اس بغاوت کو کچلنے کیلئے ریاست نے ننگی جارحیت کرتے ہوئے بیشمار نوجوانوں کو شہید کیا۔ بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کے جسمانی اعضا کو مفلوج کیا گیا۔ پیلٹ گن کے استعمال سے کئی انسانوں کو آنکھوں سے محروم کر کے زندگی بھر اندھیروں کو ان کا مقدر بنا دیا گیا۔ اس ریاستی بربریت کیخلاف ساری دنیا کے محکوم انسانوں میں غم و غصے کی لہر نے جم لیا اور غلامی کیخلاف کشمیری نوجوانوں کی جرت مندانہ جدوجہد نے پوری دنیا کے نوجوانوں کو اپنے حقوق کیلئے لڑنے کا جذبہ فراہم کیا۔ جس کی واضح مثال ہندوستانی طلبہ تحریک پر اس کے پڑنے والے اثرات تھے جنہوں نے نہ صرف کشمیر میں ریاستی جبر کے خلاف آواز بلند کی بلکہ آزادی کے جو نعرے کشمیر کی فضاؤں میں گونج رہے تھے ان کی گونج اب ہندوستان کے اندر تک سنائی دینے لگی۔ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں موجود بائیں بازوکی طلبہ تنظیموں نے ان نعروں کو طبقاتی غلامی سے منسلک کرتے ہوئے ہندوستان کے ہر گلی کوچے تک پھیلا دیا۔ محکوم انسانوں کی جڑت اور غربت ، محرومی، بیروزگاری، مذہبی اور قومی جبر سے آزادی کی مانگ نے ہندوستانی حکمران طبقے کو بوکھلاہٹ کا شکار کر دیا۔ بھارتی ریاست نے بائیں بازو کی تنظیموں کو غدار اور پاکستانی ایجنٹ قرار دیتے ہوئے ان کی قیادت کو گرفتار کیا اور کارکنوں کو آر ایس ایس جیسی ہندو فاشسٹ تنظیمو ں کے ذریعے ہراساں کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ ہندوستان کے محنت کشوں اور نوجوانوں میں کشمیری تحریک کی حمایت ختم کرنے کیلئے اسے میڈیا کے ذریعے مذہبی رنگ دینے کی کوشش کی گئی اور حریت کانفرنس کو قیادت کے طور پر پیش کیا گیا۔ حریت کانفرنس کا کردار دونوں طرف کے حکمرانوں کے ایجنٹ کا رہا ہے۔ تحریک سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ جہاں ہندوستانی ریاست نے اس تحریک کو مذہبی شدت پسندی کا روپ دینے کی کوشش کی وہاں یہاں کے ریاستی پالیسی سازوں نے اپنی مداخلت کے ذریعے ہندوستانی ریاست کے موقف کو تقویت پہنچائی اور انہیں واویلا کرنے کا موقع دیا کہ کشمیر میں تحریک کے پیچھے داعش جیسے رجحانات ہیں۔ اس بات کو جواز بنا کر بھارتی ریاست کو کشمیری عوام پر مزید جبر کرنے کا موقع مل گیا۔ پاکستان اور ہندوستان کے کارپوریٹ میڈیاکی طرف سے اسے مذہبی تحریک قرار دینے کی تمام تر کوشش کی باوجود خواتین اور طالبات کا اس تحریک میں شامل ہونا اس تاثر کو رد کرنے کیلئے کافی ہے۔ یہ ریاستیں مذہبی انتہا پسندی کو نہ صرف سامراجی مقاصد بلکہ داخلی بغاوتوں کیخلاف بھی استعمال کرتی رہی ہیں۔ یہاں جب بھارتی مقبوضہ کشمیر کے نوجوانوں کے حق میں مظاہرے کئے گئے اور ایل او سی پر فائرنگ بند کرنے کا مطالبہ کیا تو انہیں مذہبی فاشسٹوں کو جنہیں اُس پار کشمیر میں بھیجا جاتا تھا جے کے این ایس ایف کے نوجوانوں کیخلاف استعمال کرنے کی کوشش کی گئی اور کفر کے فتوے لگائے گئے۔ پاکستان میں مذہبی بنیاد پرستی کی عوامی بنیادیں نہیں ہیں۔ بلکہ حکمران طبقات اور اُن کے اداروں کی آشیرباد سے کالے دھن پر کنٹرول رکھنے والا یہ مافیا اپنے حقیقی وجود سے زیادہ بڑا نظر آتا ہے۔ جس کی حمایت کم اور خوف زیادہ ہے۔ اس مذہبی شدت پسندی کو امریکی سامراج کی ایما پر پروان چڑھایا گیا تھا جسے افغانستان کے ثور انقلاب کیخلاف استعمال کیا گیا اور پشتونوں پر مذہبی جنون کو مسلط کیا گیا اور ہنستے بستے سماج کو برباد کیا گیا۔ اس بربادی کیخلاف آج پشتون عوام کی بغاوت ریاستی جبر اور مذہبی بنیاد پرستی کے مکروہ چہرے کو سب کے سامنے عیاں کر رہی ہے۔ اس تحریک کی حمایت پاکستان کی دیگر قومیتوں کے نوجوانوں میں تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ یہ محکوموں کو اپنے حق کیلئے لڑنے کا حوصلہ فراہم کر رہی ہے۔ جلد یا بدیر افغانستان سمیت پاکستان میں اس کے وسیع اثرات دیکھنے کو ملیں گے۔ کیونکہ سرمایہ داری کی زوال پذیری کے سبب یہ ریاستیں ان خطوں کے محکوم عوام کو سوائے جبر، ظلم، استحصال ، بیروزگاری اور بربادی کے سوا کچھ دینے کی اہل نہیں ہیں۔ انہی سب بربادیوں کے نتیجے میں حالیہ دنوں میں بنگلہ دیش ، پاکستان، ہندوستان اور کشمیر میں ابھرنے والی بغاوتیں ملتی ہیں۔ چونکہ یہ عالمی سامراج کے کاسہ لیس حکمران طبقات اور ان کا نظام یہاں کے محکوم عوام کا کوئی ایک بھی مسئلہ حل کرنے میں ناکام ہیں۔ اور پھر اپنا حق مانگنے والوں کو ایجنٹ، غدار اور مذہب دشمنی کے القابات سے نوازتے ہیں۔ حقیقی معنوں میں دیکھا جائے تو اصل غدار اور ایجنٹ یہ خود ہیں جنہوں نے سامراجی گماشتگی کرتے ہوئے یہاں کے محکوم انسانوں کو دوہرے جبر اور استحصال کا شکار کیا ہے۔ آج اس خطے کے محکوم عوام کا یہ تاریخی فریضہ بنتا ہے کہ سرمائے کے جبر و استحصال کے خلاف طبقاتی بنیادوں پر جڑت قائم کرتے ہوئے کروڑوں عام انسانوں کے ان غداروں کی حاکمیت کا خاتمہ کرتے ہوئے استحصال اور جبر سے پاک معاشرے کا قیام عمل میں لائیں۔