| رپورٹ: حارث قدیر |
جمعہ 29 مئی کو ڈاکٹر لال خان کی نئی کتاب ’’چین کدھر؟‘‘ کی تقریب رونمائی کا انعقاد دھرتی پبلی کیشنز اور طبقاتی جدوجہد پبلی کیشنز کے زیراہتمام راولا کوٹ سٹی میں کیا گیا۔
تقریب کی صدارت ’’روزنامہ دھرتی‘‘ راولاکوٹ کے چیف ایڈیٹرعابد صدیق نے کی۔ کتاب کے مصنف ڈاکٹر لال خان مہمان خاص تھے جبکہ عابد صدیق، ڈین فیکلٹی آف سوشل سائنسز جامعہ پونچھ پروفیسر ڈاکٹر سعیدشیخ، معروف کالم نگار و صحافی ارشاد محمود، پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین (PTUDC) کے آرگنائزر یاسر ارشاد، پراگریسو یوتھ الائنس (PYA) کے مرکزی آرگنائزرعمران کامیانہ، جموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن (JKNSF) کے مرکزی صدر بشارت علی، پاکستان پیپلزپارٹی پونچھ ڈویژن کے جنرل سیکرٹری ظہیرایڈووکیٹ اور دیگرنے خطاب کیا۔ سٹیج سیکرٹری کے فرائض تنظیم اساتذہ ضلع پونچھ کے نائب صدرخالد بابر نے ادا کئے۔ تقریب میں وائس پرنسپل پونچھ میڈیکل کالج ڈاکٹر عنایت بلوچ، صدرڈسٹرکٹ بار راولاکوٹ مقصود شمسی سمیت دیگراہم شخصیات نے بھی شرکت کی۔
حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد محمود نے کتاب کو موجودہ صورتحال کے تناظر میں ایک شاندارتصنیف قرار دیا اور چین کی معیشت اور بیرونی سرمایہ کاری پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ ڈاکٹر سعید شیخ نے مصنف کو مبارکباد دینے کے ساتھ ساتھ کتاب میں پیش کئے گئے تجزئیے اور تناظر سے مکمل اتفاق کیا۔ انہوں نے سرمایہ دارانہ معیشت کی حرکیات، تضادات اور چین کی مختلف ممالک میں سرمایہ کاری کے استحصالی کردار پر روشنی ڈالی۔ عمران کامیانہ، بشارت علی اور یاسر ارشاد نے گزشتہ صدی میں چین میں برپا ہونے والے انقلابات، 1925ء کے انقلاب چین کو برباد کرنے میں سٹالن ازم کے کردار، 1949ء کے انقلاب اور اس کے بعد استوار ہونے والی منصوبہ بند معیشت اور 1978ء میں سرمایہ داری کی بحالی کی وجوہات اور اس کے بعد چینی ریاست اور معیشت کے تضادات کا تجزیہ تفصیل سے پیش کیا۔بحث کو سمیٹتے ہوئے ڈاکٹرلال خان نے کہا ہے کہ چینی سرمایہ کاری یہاں محرومی اور غربت ختم کرنے نہیں بلکہ لوٹ مار کی غرض سے لائی جا رہی ہے، یہ سرمایہ کاری ابھی تک ایک خواب ہے جوپورا ہوتاہوا نظر نہیں آرہا لیکن اس بندر بانٹ پرحکمرانوں کی لڑائیاں اور جھگڑے پہلے ہی شروع ہو چکے ہیں، ٹھیکوں اورکمیشن خوری کے لئے آل پارٹیز کانفرنسز کروائی جا رہی ہیں۔ انہوں نے کہا چین کے محنت کش بدترین استحصال کا شکار ہیں جبکہ جنوبی افریقہ کے بعد غربت اور امارت کے درمیان سب سے بڑی خلیج چین میں ہے، بدترین غربت چین میں موجود ہے جس کا ذکر کبھی کارپوریٹ میڈیا پر نہیں ہوتا، چین کی حکمران کمیونسٹ پارٹی نہ تو کمیونسٹ ہے اورنہ ہی پارٹی بلکہ لوٹ مارکرنیوالے ارب پتی سرمایہ داروں کا ایک ٹولہ ہے، یہی وجہ ہے کہ چینی حکمران بیرونی دفاعی بجٹ سے زیادہ خرچہ داخلی جبر کے اداروں پر کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر لال خان نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ چین میں ترقی کے پراپیگنڈے کی بجائے ہمیں چینی معیشت کے تضادات کو سمجھنے کی ضرورت ہے، 2008ء کے بعد سے چین کی شرح نمو تیز گراوٹ کا شکار ہے، سامراجی پالیسی ساز چین سے امید لگائے بیٹھے تھے کہ وہ عالمی معیشت کو بحران سے نکالے گا لیکن عالمی معیشت الٹا چینی معیشت کو ڈبو رہی ہے۔ انہوں نے ’’پاک چین دوستی‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس نظام میں دوستیاں بھی حکمرانوں کی ہیں اور دشمنیاں بھی انہی کی، محنت کشوں کا لوٹ مار کے ان تعلقات سے کچھ لینا دینا نہیں ہے، محنت کش عوام دنیا بھرمیں ایک جیسی اذیتوں اورمسائل کا شکار ہیں، انہیں اس سے نجات کیلئے بھی مل کر ہی جدوجہدکرنا ہوگی۔ انہوں نے کہا سرمایہ داری عالمی سطح پر جس متروکیت کا شکار ہے اس کے پیش نظر دنیا بھر میں عوامی بغاوتیں نظر آ رہی ہیں، چین کے محنت کش لمبے عرصے تک بڑھتے ہوئے استحصال اور جبر کو برداشت نہیں کریں گے، وہاں ہڑتالوں اور احتجاجی مظاہروں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، چین کا محنت کش طبقہ جب جاگے گا تو پوری دنیا کو ہلا کررکھ دے گا۔ آخر میں صدر تقریب عابد صدیق نے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا اور اس عزم کا اعادہ کیا کہ انکا ادارہ مستقبل میں بھی اس طرح کی تقاریب کا انعقاد کرتا رہے گا۔