| تحریر: لال خان |
اس سال پھر 18 اکتوبر 2007ء کو ہونے والی کار ساز کی دہشت گردی اور خونریزی کی ’’برسی‘‘کے طورپر پیپلز پارٹی ایک بڑی ریلی نکال رہی ہے۔ لیکن ان 9 سالوں میں پیپلز پارٹی کہاں سے کہاں آگئی۔ اگرتاریخی پیرائے میں دیکھا جائے تو 1967ء میں جنم لینے والی پیپلزپارٹی اور آج کی پارٹی میں تو اتنا فرق ہے کہ کرسٹینا لیمب کے مطابق ’’اگر بھٹو اپنی قبر سے نکل کر آئیں اور اس پارٹی کو دیکھیں تو اس کو پیپلزپارٹی ماننے اور پہچاننے سے بھی انکار کردیں گے‘‘۔
18 اکتوبر 2007ء کو ایک طویل عرصے کے بعد عوام میں پھر ایک جذبہ اور حوصلہ پید ا ہواتھا اور انہوں نے بے نظیر کی آمدپر ہونے والے استقبال میں آکر ایک مرتبہ پھر امیدیں اور آرزوئیں ان کی اس روایتی پارٹی کہلانے جانے والی جماعت سے وابستہ کی تھیں۔ 1960ء کی دہائی کے برعکس 2007ء تک پاکستان میں معاشی اور سماجی بحران کی شدت سے ریاست اتنی کمزور اور حاکمیت اتنی کھوکھلی ہوچکی تھی کہ اس ’’استقبال‘‘ سے حکمرانوں کے ایوانوں میں لرزاطاری ہوگیا۔ کیونکہ کم از کم ان کے ماہرین تو سمجھ رہے تھے کہ یہ استقبال اب استقبال نہیں رہا تھا۔ یہ جم غفیر ایک تحریک کی شکل اختیار کرتا جارہا تھا۔ پرویز مشرف اور شوکت عزیز نے اپنی حکومت میں پاکستان کے اقتصادی اعدادوشمار اور معیشت کی ظاہری صحت نسبتاً بہتر رکھی تھی۔ لیکن اگر شرح نمو میں ترقی اور اضافے تھے تو ان سے معاشرے میں تضادات کم نہیں ہورہے تھے۔ ٹریکل ڈاؤن معیشت کے تحت یہ ترقی ضروریات اور محرومی کے حجم کے حوالے سے آٹے میں نمک کے برابر تھی۔ اس سے تضادات بھڑکنے لگے تھے۔ ان کی شدت سے بالادست طبقات اور ریاستی اشرافیہ کے مابین تضاذات ابھرے اورپھر بحران نے ایک تصادم کی شکل اختیار کرلی، جس کا اظہار عدلیہ اور انتظامیہ کے مابین ٹکراؤ کی شکل میں ہوا، بعد ازاں درمیانہ طبقہ بھی اس میں شریک ہوگیا۔ لیکن 3 مارچ سے بالائی سطح پر چلنے والی اس وکلا اور عدلیہ کی تحریک کے نیچے جو طبقاتی تضادات ابھر رہے تھے وہ 18 اکتوبر کو کراچی میں پہلی بار لاکھوں کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کی صورت میں سامنے آئے تھے۔
عوام بے نظیر کے استقبال کے لیے جہاں ’’لائے گئے‘‘ تھے وہاں اس سے کہیں زیادہ از خودآئے تھے۔ یہ محروم ومحکوم محنت کش اور غریب عوام ایک مرتبہ پھر اس ماضی کی یاد اور وہ مبہم سی امید لے کر آئے تھے جو پارٹی کی پچھلی دو حکومتوں میں بہت حد تک مجروع ہوچکی تھی۔ امیدکے آخری دیے شاید ٹمٹما رہے تھے۔ لیکن جہاں عدلیہ اور وکلا کی تحریک ریاست کے لئے بے ضررتھی اور کارپوریٹ میڈیابھی اسے بھر پور طریقے سے اجاگر کرنے میں حکمران طبقے اور ’نظام زر‘ کے لئے کسی قسم کا خطرہ محسوس نہیں کررہا تھا وہاں اٹھارہ اکتوبر کا عوام کا یہ ابھار حکمرانوں کے لیے ایک حقیقی تشویش کا باعث تھا۔ حاکمیت کے مراکز اور بنیادپرست حصوں نے نان سٹیٹ ایکٹرز کے ذریعے دہشت گردی کی ہولناک واردات کروائی جس میں 177 غریب کارکنان کا قتلِ عام ہوا اور سینکڑوں گھائل ہوئے۔ لیکن اس حملے سے پسپا اور شکست خوردہ ہونے کی بجائے تحریک مزید بھڑک اٹھی۔ اس کی امنگیں اورمانگیں بھی ریڈیکلائز ہونا شروع ہوگئیں۔ یہ عوام اس تحریک یا استقبال میں کسی ’’جمہوریت‘‘ یا ’’آئین کی پاسداری‘‘ کے لیے نہیں آئے تھے۔ یہ روٹی، کپڑا اور مکان، تعلیم، علاج اور روزگار کے حصول کے لیے سیاسی میدان میں اترے تھے۔ زندگی کی سلگتی ہوئی ضروریات اور اذیتوں کی تکلیف سے چھٹکارا حاصل کرناانکا مقصد تھا اور ہر تحریک اور انقلابی سرکشی کی حتمی منزل بھی عوام کو مانگ اور محرومی سے آزاد کرانا ہوتی ہے۔
تحریک اب کراچی سے نکل کر پاکستان کے دوسرے صوبوں اور علاقوں میں پھیلنا شروع ہوگئی تھی۔ یہ کوئی حادثہ نہیں تھا کہ پیپلزپارٹی کے سٹیجوں سے ایک طویل عرصے بعد روٹی کپڑا اور مکان کانعرہ لگنا شروع ہوگیاتھا۔ لیکن’’سوشلزم‘‘ سے انحراف اور اس پر قیادت کی ایک پراسرار خاموشی جاری رہی۔ صورتحال کشیدہ ہو رہی تھی۔ حکمرانوں کے خوف میں اضافہ ہوتا جارہاتھا اور تحریک کی حرارت بھی بڑھ رہی تھی۔ اسی کشمکش میں حکمرانوں کے ہی ایک حصے نے27 دسمبر کو لیاقت باغ راولپنڈی میں بے نظیر کا بہیمانہ قتل کردیا۔ تحریک پھٹ گئی۔ بینک، عدالتیں، پولیس اسٹیشن، لوگوں کی محرومیوں کو بڑھانے، عوام کو کچلنے اور ان کا استحصال کرنے والے اداروں کے مراکز محنت کشوں اور نوجوانوں کے غیض وغصب کا نشانہ بنے۔ یہ تحریک ایسے پھٹی جیسے کوئی بجلی کوندی ہو۔ لیکن پیپلز پارٹی کی ’’نئی ‘‘ قیادت اس نظام اور ریاستی نظم ونسق کو قطعاً کوئی نقصان پہنچانا نہیں چاہتی تھی۔ چنانچہ جیسی مشرف کی ایک کھوکھلی نام نہاد آمریت تھی ویسی ہی ایک لاغرجمہوریت حکمرانوں کے تمام حصوں کی ملی بھگت سے استوار کروائی گئی۔ نوجوانوں کے انتقام کی آگ کو سوگ کے آنسوؤں اور دعا درود میں ٹھنڈا کروایا گیا۔ تحریک پسپا ہوگئی اور حکومت پیپلز پارٹی کی بنی لیکن سب کے اتفاق سے ا س کو مخلوط ہی رکھا گیا تاکہ عوام کی امیدیں اور بغاوت کہیں پھر بھڑک نہ اٹھے۔ لیکن جس مایوسی کی کھائی میں عوام کو دھکیلا گیاتھا اس جمود اور ٹھہراؤ کا فائدہ سامراجیوں اور حکمران طبقات نے پیپلز پارٹی کے نام پر بننے والی حکومت سے ریکارڈ مہنگائی، قلت، لوڈ شیڈنگ اور پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ (PPP) جیسی مزدور دشمن پالیسیوں کو جاری کروا کے اٹھایا۔ اس سے پیپلز پارٹی کی رہی سہی ساکھ بھی مجروع ہوگئی۔
2013ء کے انتخابات میں عوام نے پیپلزپارٹی کا اکثر علاقوں میں بائیکاٹ کیا۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ روایتی دائیں بازو کی سرمایہ دارانہ حکومت ن لیگ کی صورت میں اقتدار میں لائی گئی۔ لیکن جب نظام میں گنجائش ہی نہ ہو تواس کی اپنی کلاسیکی پارٹی بھلا معاشرے کو کیا ترقی دے سکتی ہے۔ آج عوام شاید خاموش ضرور ہیں لیکن ان کو ’’اپنی‘‘ پارٹی کی تلاش ہے۔ پیپلز پارٹی کبھی ’انکی‘ پارٹی ہوا کرتی تھی۔ آج کوئی اور پارٹی بھی نہیں ہے، جو غریبوں کی پارٹی کہلوا بھی سکے۔ لیکن پیپلز پارٹی یہ کہنے سے گریزاں ہے جو ذوالفقار علی بھٹو نے واشگاف الفاظ میں کہا تھا: ’’پیپلز پارٹی صرف غریبوں کی پارٹی ہے‘‘۔ کیا آج کی قیادت یہ کہنے کے لیے تیار ہے کہ یہ صرف محنت کش اور غریب طبقے کی پارٹی ہے؟ حکمران طبقات اور امیروں سے اس پارٹی کی کھلی جنگ ہے؟ آج پارٹی پرجس قسم کی قیادت براجمان ہے وہ تمام کی تمام ہی انہی بالادست طبقات سے تعلق رکھتی ہے اور انہی کے مفادات کی نمائندہ ہے جن کے خلاف پیپلز پارٹی بنی تھی۔ ’ملٹی کلاس‘ پارٹیاں ہمیشہ حکمران طبقات اور ان کے مفادات کی نمائندہ ہوتی ہیں۔ طبقاتی مفاہمت ناممکن ہے اور اس حقیقت کو ذوالفقار علی بھٹو نے آخری وقت میں خود تسلیم کیا تھا۔
اتوار16 اکتوبر کو بلاول کی کراچی میں ریلی اور جلسوں کو پیپلز پارٹی کو ایک نئی جہت دینے کی کاوش قرار دیا جارہا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ پارٹی کے اتنے زوال کے بعد اس کی بحالی ہوسکے گی؟ ایسے میں عوام اب اس سب کو ’عوامی باتیں‘ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں کیونکہ پیپلز پارٹی کے بھی پوسٹر لگانے سے لے کر الیکشن لڑنے، جلوس نکالنے یا جلسے کرنے تک کے تمام طریقہ کار وہی ہیں جومسلم لیگ یا تحریک انصاف کے ہیں۔ ہر چیز پر پیسے لگاؤ اور پھر اقتدار میں آکر نہ صرف ان کو پورا کرو بلکہ ان کو دوگنا چوگنا کرو! یہ سیاست انہی کی ہوتی ہے جو اس پر انویسٹمنٹ کرتے ہیںیا حکومتی ذرائع استعمال کرکے مجمع اکٹھے کرتے ہیں۔ تحریکیں مجمعے اکٹھے کرنے اور انہیں ٹرانسپورٹ، کھانا اور ’ دھرنا الاؤنس‘ دینے سے نہیں بنا کرتیں۔ عوام لائے نہیں جاتے، خود آگے بڑھ کر جذبے، امید اور جرات کے ساتھ سیاسی عمل میں سرگرم ہوتے ہیں۔ کمیٹیاں بناکرتنظیم نو میں ایک سرمایہ دار، ایک جاگیر دار اور چار ’’ورکروں‘‘ کو عہدے دے کر پارٹیاں بحال نہیں ہوا کرتیں۔ وہ جذبہ، وہ احساس، وہ جستجو عوام کے دلوں اور دماغوں میں ابھارنی پڑتی ہے جو ان کو متحرک کردے۔ پیسوں سے مجمعے تو خریدے جاسکتے ہیں، لوگوں کے دل ودماغ نہیں۔ جب تک پیپلز پارٹی امرا اور بالادست طبقے سے ہر ناطہ نہیں توڑتی، محنت کش طبقے کی پارٹی ہونے کا اعلان نہیں کرتی، پارٹی کے بنیادی سوشلسٹ منشور پروگرام کو خلوص سے نہیں اپناتی اور عملی طورپر اس پر سرگرم نہیں ہوتی، وہ کبھی بحال نہیں ہوسکتی۔
متعلقہ:
پیپلز پارٹی: نظریات سے عاری تنظیم نو؟
پیپلز پارٹی: تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں!