[تحریر: لال خان]
سامراجی پشت پناہی میں فلسطین پر صیہونی قبضے اور اس تسلط کے خلاف فلسطینی عوام کی جدوجہد کا آغاز 1948ء میں ہوا تھا۔ گزشتہ 66 سالوں میں یہ تنازعہ تین عرب اسرائیل جنگوں کی وجہ بنا ہے، فلسطینی عوام نے مسلح جدوجہد کا طریقہ بھی آزما کر دیکھ لیا ہے اور لاحاصل مذاکرات کا لاامتناہی سلسلہ بھی جاری رہا ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ آزادی کی منزل پہلے سے کہیں زیادہ دور ہوکر رہ گئی ہے۔
جدید تاریخ میں یہودیوں کے لئے ایک علیحدہ وطن بنانے کا منصوبہ 1896ء میں آسٹریا ہنگری سلطنت کے ایک یہودی صحافی تھیوڈور ہرزل نے اپنے ایک پمفلٹ ’’یہودی ریاست‘‘ میں پیش کیا تھا۔ ’’سیاسی صیہونیت‘‘ کا آغاز یہاں سے ہی ہوا۔ یہ سارا خیال ہزاروں سال پرانی دیومالائی روایات اور داستانوں پر مبنی تھا۔
سامراجی مفادات اور مقاصد کے تحت اس دیومالائی تصور کو عملی جامہ پہنانے کا آغاز پچھلے صدی کے آغاز پر ہوا۔ پہلی جنگ عظیم کے اختتام پر سلطنت عثمانیہ کے انہدام کے بعد سامراج قوتوں نے پوری دنیا کی بندر بانٹ کی۔ اس سلسلے میں پہلا معاہدہ 1916ء میں ’’سائیکس پیکوایگریمنٹ‘‘ کے نام سے ہوا جس کے تحت نوآبادیاتی استحصال اور سیاسی و سفارتی غلبہ جاری رکھنے کے لئے خطہ عرب کو مختلف ممالک اور ’’اقوام‘‘ میں تقسیم کیا گیا۔ ارض فلسطین پر صیہونی ریاست کے قیام کا عملی منصوبہ ’’بیلفور ڈیکلیریشن‘‘ میں پیش کیا گیا۔ یہ اعلامیہ دراصل ایک خط کی شکل میں تھا جو 2 نومبر 1917ء کو برطانیہ کے وزیر خارجہ آرتھر جیمز بیلفور نے برطانوی یہودی کمیونٹی کے رہنما بیرن روتھ چائلڈ کے نام تحریر کیا تھا۔ اس سامراجی چال کا مقصد صیہونی ریاست کی تشکیل کے ذریعے مشرق وسطیٰ کو مسلسل مذہبی تضادات اور عدم استحکام کا شکار رکھنا تھا تاکہ سامراجی تسلط کو برقرار رکھا جاسکے۔ اس مکروہ منصوبے کے نتائج آج سب کے سامنے ہیں۔
آج کل امریکہ کا وزیرخارجہ جان کیری کئی دوسری سفارتی شعبدہ بازیوں کے ساتھ ساتھ اسرائیلی اور فلسطینی رہنماؤں کے درمیان معاہدہ کروانے کا ناٹک بھی رچا رہا ہے۔ مذاکرات پر مذاکرات ہوتے چلے جارہے ہیں اور اب کیفیت یہ ہے کہ خود مذاکرات کرنے والوں کو ان کی کامیابی کی کوئی امید نہیں ہے۔ جان کیری نے ایک سال پہلے یہ اعلان کیا تھا کہ اپریل 2014ء تک ایک جامع معاہدہ ہوجائے گا لیکن مذاکرات کے آغاز پر ہی وہ اپنی شیخی سے دستبردار ہوگیا اور اب کوئی ثانوی معاہدہ طے پاجانے کی امید بھی نہیں ہے۔
اس وقت اسرائیلی حکمرانوں کے درمیان بھی شدید اختلافات موجود ہیں۔ اسرائیل کے حکمران طبقے کا زیادہ قدامت پرست اور رجعتی دھڑا ’’عظیم تر اسرائیل‘‘ (Greater Israel) کا خواب دیکھ رہا ہے جس میں موجودہ فلسطین سمیت بحیرہ روم سے لے کر دریائے اردن تک کا سارا خطہ شامل ہوگا۔ لیکن ایسی دیومالائی ریاست ’’یہودی‘‘ یا ’’صیہونی‘‘ نہیں رہ سکے گی کیونکہ مجوزہ حدود میں فلسطینیوں کی تعداد یہودیوں سے کہیں زیادہ ہے اور یہودی ایک اقلیت بن جائیں گے۔ اسرائیلی ریاست کا دوسرا دھڑا ’’دوریاستی فارمولے‘‘ کا حمایتی ہے۔ اس فارمولے کو اسرائیل کے عوام کی اکثریت کے ساتھ ساتھ سابقہ بائیں بازو کی حمایت بھی حاصل ہے کیونکہ اس حکمت عملی کے تحت اسرائیل بیک وقت ’’جمہوری‘‘ اور’’صیہونی‘‘ ریاست کے طور پر برقرار رہ سکتا ہے۔ اسرائیلی حکمرانوں کا آپسی تضاد جلد حل ہونے والا نہیں ہے۔
اب تک ہونے والے تمام مذاکرات میں فلسطینیوں کو اسرائیلی شرائط ماننے پر مجبور کیا گیا ہے۔ پہلے فلسطینی رہنماؤں نے ’’ریاستِ اسرائیل‘‘ کو تسلیم کیا تھا لیکن اب اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو یہ مطالبہ کررہا ہے کہ فلسطینی قیادت اسرائیل کو ایک ’’صیہونی ریاست‘‘ کے طور پر بھی تسلیم کرے۔ اگر فلسطینی صدر محمود عباس اس مطالبے کو مانتا ہے تو فلسطینی جدوجہد کی بنیادی اساس ہی قتل ہوجائے گی۔ فلسطینی عوام کی بے بسی داخلی ٹوٹ پھوٹ اور تحریک آزادی کی پسپائی سے جنم لینے والی بدگمانی اور مایوسی کا نتیجہ ہے۔ مغربی کنارے میں الفتح کی ’’سیکولرحکومت‘‘ جبکہ غزہ کی پٹی میں حماس کی ’’اسلامی حکومت‘‘ قائم ہے۔ اس کے علاوہ 2013ء کے اعداد و شمار کے مطابق اسرائیلی ریاست کی حدود میں 1658000 عرب اسرائیلی آباد ہیں جو اسرائیل کی کل آبادی کا 20.7 فیصد ہیں۔ اسرائیلی حکمرانوں کے قدامت پرست دھڑے کے نمائندے ایوگڈور لیبرمین (موجودہ وزیر خارجہ) کے مطابق اس تمام اسرائیلی آبادی کو فلسطینی ریاست کی حدود میں منتقل کردینا چاہئے تاکہ یہودی بنیاد پرستی پر مبنی صیہونی اسرائیل کا قیام عمل میں آسکے۔ مغربی کنارے میں یہودی آباد کاری کا عمل معاملے کو مزید پیچیدہ کررہا ہے۔ ان یہودی بستیوں میں مقیم 575000 آبادکاروں کو اس خطے کو اسرائیل میں شامل کرنے کا جواز بنایا جارہا ہے۔
اس وقت مغربی کنارے کی کل 267664 آبادی کا 80 فیصد فلسطینیوں پر مشتمل ہے۔ مغربی کنارہ انتظامی طور پر مزید تین حصوں میں تقسیم ہے۔ ایک حصے براہ راست فلسطینی اتھارٹی کے قبضے میں ہے، دوسرا حصہ فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیلی ریاست کے مشترکہ کنٹرول میں ہے جبکہ سب سے بڑا حصہ، جو مغربی کنارے کے کل رقبے کا 62 فیصد ہے، اسرائیلی ریاست کی مکمل دسترس میں ہے۔ یہودی بستیوں کے علاوہ سرحد کے ساتھ ساتھ ایک بلند کنکریٹ کی دیوار تعمیر کی گئی ہے جس سے فلسطینیوں میں قیدی ہونے کا احساس سلگ رہا ہے۔ دوسری طرف غزہ کی پٹی کو دنیا کا سب سے بڑا جیل خانہ بنا دیا گیا ہے۔
نام نہاد سربراہ حکومت محمود عباس کو عوامی حمایت حاصل نہیں ہے کیونکہ اس نے اسرائیل کو بے شمار رعایتیں دینے کے علاوہ امریکی سامراج کے پٹھو کا کردار ادا کیا ہے۔ محمود عباس کے پاس اسرائیل کے سامنے مزید جھکنے کی گنجائش بھی نہیں ہے۔ اسرائیل کی یہ شرائط کہ فلسطینی قیادت یروشلم کو مشترکہ دارالحکومت بنانے اور فلسطینی مہاجرین کی اسرائیل میں اپنے گھروں کو واپسی کے مطالبات سے دستربردار ہوجائے ، بہت سخت ہیں۔ محمود عباس کے ایک اہم مشیر نے بیان دیا ہے کہ ’’ہم ہاں کہتے ہیں تو (فلسطینی عوام کے انتقام سے) مرتے ہیں، نہ کہتے ہیں تو (سامراج کے ہاتھوں) مرتے ہیں۔‘‘
موجودہ فلسطینی قیادت کی پھوٹ صرف الفتح اور حماس کی آپسی لڑائی تک محدود نہیں ہے۔ الفتح کے اندر بھی کئی تنازعات موجود ہیں۔ 79 سالہ محمود عباس کو اپنے 52 سالہ سابق ساتھی محمد دالان کی طرف سے کھلی تنقید کا سامنا ہے۔ دونوں نے ایک دوسرے پر یاسر عرفات کو زہر دینے کا الزام عائد کررکھا ہے۔ محمود عباس کی کوشش ہے کہ مروان برگوتی قیادت میں آکر اسرائیل کے ساتھ معاہدہ کروائے۔ مروان برگوتی الفتح کے بائیں بازو کا نمائندہ اور شعلہ بیان مقررہے جو اس وقت پانچ مرتبہ عمر قید کی سزا اسرائیلی جیل میں کاٹ رہا ہے۔ وہ فلسطینی عوام میں بے حد مقبول ہے۔ دیکھنا یہ کہ اسیری کے دوران اسرائیل اور امریکی حکام مروان برگوتی کو کس حد تک ’’توڑ‘‘ سکے ہیں اور اب اسے کس حد تک سامراجی شرائط ماننے پر مجبور کر سکتے ہیں!
سامراج کے سنجیدہ تجزیہ نگار ان مذاکرات اور معاہدوں کے بارے میں زیادہ پرامید نہیں ہیں۔ سرمایہ داری کے مستند ترجمان اکانومسٹ کے مطابق ’’جس فریم ورک کی تلاش کی جارہی ہے وہ بے معنی اور مبہم ہی ہوگا۔ آخری امید یہی ہے کہ مذاکرات کو مزید ایک سال ملتوی کرنے پر اتفاق ہوگا۔‘‘ یہی جریدہ فلسطینی عوام کی ظاہری بے بسی کے باوجود سامراج کے پالیسی سازوں کوانتباہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ’’ایک نئی بغاوت (انتفادہ) صرف اسرائیلی ریاست کے خلاف ہی نہیں ہوگی بلکہ محمود عباس اور اس کی انتظامیہ کو بھی نشانہ بنائے گی۔ ۔ ۔ اس حریت پسند تحریک کے امکانات کو قطعاً رد نہیں کیا جاسکتا۔‘‘
اس تنازعے کی تمام تاریخ اور موجودہ حالات ثابت کرتے ہیں کہ قومی بنیادوں پر کوئی حل ممکن نہیں ہے۔ کاغذوں پر بننے والی فلسطینی ریاست معاشی، سیاسی اور جغرافیائی لحاظ سے ہمیشہ اسرائیل کی دیوہیکل ایٹمی ریاست کے کنٹرول میں رہے گی۔ عرب حکمرانوں نے فلسطینی عوام کی طرف چند سکے اچھال کر مسئلہ فلسطین کو ہمیشہ اپنے داخلی اور خارجی مفادات کے لئے استعمال کیا ہے۔ جن کی اپنی ڈوریاں پینٹاگون اوروائٹ ہاؤس سے ہلائی جاتی ہوں وہ فلسطینیوں کو کیا آزادی دلوائیں گے؟ لیکن طبقاتی بنیادوں پر فلسطینیوں سمیت پورے خطے کے عوام کیلئے نجات کا راستہ اس وقت منور ہوا جب اسرائیل کے لاکھوں محنت کشوں اور نوجوانوں نے اگست 2011ء میں صیہونی ریاست کے خلاف بغاوت کر دی تھی۔ یہ مظاہرین ’’ایک مصری کی طرح آگے بڑھو‘‘ کے بینرز اور چے گویرا کے پوسٹر اٹھائے سوشلسٹ انقلاب کے نعرے لگا رہے تھے اور عرب، فلسطین اور اسرائیل کے محنت کش عوام کی یکجہتی کا پیغام دے رہے تھے۔ کارپوریٹ میڈیا نے ان مظاہروں کو منظرِ عام سے غائب کردیا تھا۔ صیہونی جبر کی ریاست کو اسرائیلی عوام ہی منہدم کر سکتے ہیں۔ اس مقصد کے لئے انہیں فلسطین اور پورے خطہ عرب کے نوجوانوں اور محنت کشوں کی انقلابی حمایت درکار ہوگی۔ اسرائیلی ریاست، عرب آمریتوں اور سامراجی جبر کے خلاف طبقاتی بغاوت کی یہ لہر پورے خطے میں بربادیوں اور خونریزیوں کا انقلابی خاتمہ کردے گی۔
متعلقہ:
آزادی فلسطین: مذاکرات یا انقلاب؟
اقوام غیر متحدہ
فلسطین کے رستے ہوئے زخم
اسرائیل میں عوامی تحریک اور مسئلہ فلسطین