[تحریر: لال خان، ترجمہ: نوروز خان]
کھوکھلی بحثوں میں بے معنی سیاسی لفاظی کے تند و تیز شور کے باوجود سماج پر سیاسی لاتعلقی کی ملالت چھائی ہوئی ہے۔ اگرچہ مجبور عوام کی جانب سے خوفناک سماجی اور معاشی حملوں کے خلاف وقفے وقفے سے لا تعداد مظاہرے اور تحریکیں چلی ہیں لیکن ایک بڑے پیمانے کی عوامی تحریک ابھی تک سامنے نہیں آئی۔ کلبی سوچ کے تحت دانشور محنت کشوں اور عوام کو عاجز، غلام، بزدل، ناتواں اور کرپٹ ہونے کا دوش دیتے ہیں۔ ان کی اکثریت اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ طبقاتی جدوجہد کا خاتمہ ہو چکا ہے اور استحصال و جبر کے خلاف اب کبھی بغاوت نہیں اٹھے گی۔
یہ سچ ہے کراچی کی گارمنٹ فیکٹری میں لگنے والی آگ کے بعد، جس میں سرکاری ذرائع کے مطابق بڑی تعداد میں خواتین سمیت 289 مزدور ہولناک طریقے سے جل کے مر گئے، ملکی سطح پر کوئی بڑا ردِ عمل سامنے نہیں آیا۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ملک بھر میں عوامی پیمانے پر نہ سہی، لیکن بڑے مظاہرے ہوئے۔ اس سے بڑھ کر ان لاکھوں کروڑوں مزدوروں کے سینوں میں بھی عتاب اور انتقام کی آگ جل رہی ہے جو پر تشدد مظاہروں میں نہیں گئے۔
یہ بات قابلِ غور ہے کہ ہر طرف سے بند اس مذبح خانے نما فیکٹری میں مرنے والوں کی اصل تعداد کہیں زیادہ ہے۔ اگر ’’گم شدہ‘‘ مزدوروں کی بڑی تعداد کو نظر انداز نہ کیا جاتا تو میڈیا پر بتائی جانے والی مرنے والوں کی تعداد کہیں زیادہ ہوتی۔ لیکن میڈیا نے اپنی سہولت کے مطابق مگر مچھ کے آنسو بہانے والے بورژوا سیاستدانوں کے بیانات ہی جاری کئے۔ اس دلخراش واقعے کو بڑی خباثت سے اور بہت جلد دھندلا کے مصنوعی اور رجعتی نان ایشوز کے نیچے دبا دیا گیا۔ لیکن اس خوفناک جرم کو محنت کش طبقے کے شعور سے نہیں مٹایا جا سکتا۔
سول سوسائٹی کے دانشور طبقاتی جدوجہد کی حرکیات کو نہیں سمجھ سکتے۔ عوام کا شعور ہر وقت انقلابی یا ترقی پسند نہیں ہوتا، بلکہ یہ بہت قدامت پسند ہوتا ہے خصوصاً جمود، معاشی عدم تحفظ اور مختلف درجوں کی رجعت کے دور میں۔ وہ خود کو جمود کے حالات کے مطابق ڈھال لیتے ہیں کیونکہ ایسا کرنا زیادہ آسان ہوتاہے۔ عام ادوار میں وہ موجودہ نظام، اس کی اخلاقیات، اقدار، رسوم و رواج، روایات، ثقافت اور تعصبات کے ساتھ سختی سے چمٹے رہتے ہیں۔ لیکن پھر دھماکہ خیز واقعات عوام کے شعور میں بڑی تبدیلیاں رونما کرتے ہیں۔ یہ بتدریج ارتقا نہیں بلکہ متشنج اورہنگامہ خیز انداز میں ہوتا ہے۔ انقلابی شعور لگاتار اور ہموار انداز میں آگے نہیں بڑھتا۔ انقلابی تحریک وہ مخصوص نکتہ ہوتی ہے جہاں مقدار میعار میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ ایسی بغاوتیں پاکستان کے محنت کش طبقات کی تاریخ اور روایات کا حصہ ہیں جنہوں نے حکمران طبقات اور روائتی دانشوروں کو جھنجوڑ کے رکھ دیا تھا۔
چوالیس برس قبل ان ہی ہفتوں اور مہینوں میں پاکستان ایک انقلابی طوفان کی لپیٹ میں تھا۔ راولپنڈی کے مضافات میں پولی ٹیکنیک انسیٹیوٹ کے ایک طالب علم کے پولیس کے ہاتھوں قتل کے صرف ایک واقعے نے سطح کے نیچے ابلتے ہوئے انقلاب کو پھاڑ ڈالا۔ مقدار معیار میں بدل گئی۔ قیامِ پاکستان سے لے کر 65 برسوں میں، پاکستان کے عوام کی تاریخ صرف 6نومبر 1968ء سے لے کر 25مارچ 1969ء کے دوران 139دنوں کی ہے جب عوام کا راج تھا۔ محنت کش طبقات اپنی تقدیر خود اپنے ہاتھوں سے بدلنے تاریخ کے میدان میں آ چکے تھے۔ انقلاب جو کہ نوجوانوں اور طالب علموں کی جارحانہ تحریک سے شروع ہو، بہت جلد محنت کش طبقے میں سرایت کر گیا۔ انقلابی ہراول دستے پرولتاریہ کے تحریک کی قیادت میں آنے کے بعدانقلاب نے ایک فیصلہ کن موڑ لیا اور ریاست اور نظام کو چیلنج کرنا شروع کر دیا۔ کارخانوں پر قبضے ہونے لگے، کسان پنچائتوں نے جاگیروں اور طلبا نے سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں پر قبضہ کر لیا۔ خواتین جدوجہد میں پیش پیش تھیں۔ ریاست تحلیل ہو کر ہوا میں معلق تھی۔ اقتدار عوام کے ہاتھوں میں تھا۔
انقلاب کی قوت اور شدت کا اعتراف کرنے والا کوئی اورنہیں بلکہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے مضبوط اور طاقتور حکمران فیلڈ مارشل ایوب خان تھا۔ 25مارچ 1969ء کے اقتدار سے علیحدہ ہوتے آخری تقریر میں اس نے کہا’’انتظامی ادارے مفلوج ہو رہے ہیں۔ زیادہ تر سول افسران اپنی پوسٹیں چھوڑ چکے ہیں اور کرائے اکھٹے کرنے والے بھی، اور ان کا ریکارڈ جلا دیا گیاہے۔ عوم کے ہجوم اپنی مرضی سے گھراؤ کر رہے ہیں، طاقت کے ذریعے اپنے مطالبات منوا رہے ہیں۔ ۔ ۔ ملک میں جاری ان حالات میں قومی اسمبلی کا اجلاس بلانا ممکن نہیں ہے۔ کچھ ممبران تو اجلاس میں آنے تک کی جرات نہیں کر سکتے۔ ۔ ۔ حالات اب حکومت کے کنٹرول سے باہر ہو چکے ہیں۔ ۔ ۔، ملک کے تمام فیصلے سڑکوں پر کیے جا رہے ہیں‘‘۔ 1968-69ء کی تحریک کو انقلاب نہ ماننے والے شاکیوں اور اصلاح پسندوں کے خلاف اس تقریر سے بڑی دلیل کیا ہو گی۔ سوشلسٹ انقلاب کی ناکامی کی وجہ عوام کی کوئی کوتا ہی نہیں تھی، وہ تو اسے حاصل کرنے لیے آخری حد تک گئے تھے۔ انقلابی پارٹی اور مارکسی قیادت کے فقدان کی وجہ سے انقلاب منتشر ہو گیا اور اس کا رخ پھیر دیا گیا۔ بائیں بازو کے بہت سے اہم گروپ اور تنظیمیں موجود تھیں لیکن ان سب نے غداری کرتے ہوئے سوشلسٹ تبدیلی کے اس اہم موقع کو گنوا دیااور قومی یا جمہوری بورژوا قیادت کی تلاش میں خود کو بورژوا یا قوم پرست پارٹیوں میں ضائع کر دیا۔
آج ایک مرتبہ پھر ہمیں تحریک میں نسبتاً جمود اور طبقاتی جدوجہدکی کسی حد تک بے سمتی کا سامنا ہے۔ میڈیا، دانشور اور بالادست سیاستدان اپنے خوف کے تحت اس بحران اور بربادی کی حقیقی وجہ یعنی اس نظام کے بارے میں بات کرنے سے گریزاں ہیں۔ کسی واضح سرمایہ دارانہ یاسوشلسٹ منشور کے ساتھ سامنے آنے کی بجائے وہ ’’جمہوریت‘‘ کی رٹ لگائے ہوئے ہیں۔ جبکہ حقیقت میں یہ کسی سماجی تبدیلی کا سیاسی پروگرام نہیں بلکہ دھوکہ اور فریب ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ بوسیدہ سرمایہ دارانہ نظام میں کوئی بھی مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ ان بنیادوں پرہونے والے انتخابات سے کوئی تبدیلی یا کوئی مسلہ حل نہیں ہو گا۔ بے اصول ادغام اور گھٹیا سمجھوتے کر کے بائیں بازو کے مبہم اور ثانوی خیالات رکھنے والی کئی تنظیمیں وقتاً فوقتاً مصنوعی طور پر بنائی جاتی ہیں۔ نظریات اور پروگرام کو پس پشت ڈال کر چھوٹی چھوٹی پارٹیوں کے ’’بڑے لیڈر‘‘ سیاسی منظر عام پر آنے اور شہرت پانے کے شارٹ کٹ ڈھونڈتے ہیں۔ انقلابی سوشلزم کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام کا تختہ الٹنے کی ہر پالیسی سے منکر ہو کر وہ سرمایہ داری اور اس کے ریاستی اداروں میں اصلاحات کی بات کرتے ہیں جو اپنی بنیادوں تک گل سڑ چکے ہیں۔ ایسا کر کہ وہ صرف سرمایہ دارنہ استحصال اور حکمرانی کو طول دینے کے لیے ایک اور سہارا فراہم کر رہے ہیں۔ جاگیر داری کا خاتمہ، جمہوریت، سیکولر ازم، انسانی حقوق، سماجی انصاف، صنفی مساوات اور قومی خودمختاری کے نعرے کوئی نئے نہیں۔ موجودہ بڑی پارٹیاں کب سے انہیں پالیسیوں پر چل رہی ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ سرمایہ داری کی موجودہ ناتواں کیفیت میں اس نظام کی حدود کے اندر رہتے ہوئے بورژوا انقلاب کے ان فرائض کو پورا نہیں کیا جا سکتا۔ دوسری جانب محنت کش عوام روایت کا بار گراں اٹھائے ہوئے ہیں۔ 1968-69ء کی عوامی بغاوت کے نتیجے میں پیپلز پارٹی عوامی روایت بنی تھی۔ ستم یہ ہے کہ پارٹی کی موجود قیادت سامراجی احکامات کی تعمیل میں اس کے سرمایہ دارانہ جبر کا آلہ کار بنی ہوئی ہے۔ ختم ہوتی ہوئی حمایت کی کیفیت میں دائیں بازو اور مذہبی جماعتیں حکومت کے مظالم کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنا چاہ رہے ہیں، لیکن اگر وہ اقتدار میں آگئے تو ان کی پالیسیاں عوام کے عذاب ثابت ہوں گی۔ نا امیدی کے اس عالم میں عام عوام ممکنہ طور پرووٹ نہ ڈال کر اپنا احتجاج ریکارڈ کرائیں گے۔ کسی متبادل کی عدم موجودگی میں عوام کی ایک بڑی تعداد انتخابات میں موجود لوگوں کو آزمائے گی۔ لیکن جب بیلٹ کے ذریعے ہاتھوں سے ووٹ ڈال کر محنت کش عوام کو کچھ نہیں ملے گا تو پھر جلد ہی وہ اس وقتی نیند سے بیدار ہو کر اپنے پیروں سے ووٹ ڈالیں گے۔ طبقاتی جدوجہد کی ایک نئی لہر بھرپور قوت سے سامنے آئے گی۔ ایک نیا اور کہیں زیادہ پر زور 1968-69ء افق پر منڈلا رہا ہے۔ مکمل سماجی و سیاسی تبدیلی کے لیے تیار، منظم پر عزم موضوعی عنصر ہی اس کی فتح کی ضمانت ہو گا۔
متعلقہ:
بلدیہ ٹاؤن کراچی: یہ ’’قومی‘‘ سانحہ نہیں بلکہ طبقاتی استحصال کی پیداوار ہے
اداریہ جدوجہد: برداشت۔۔۔ ؟