’’دنیا کو گندم برآمد کرنے والا وطن عزیز اب گندم درآمد کرنے والا ملک بن گیا ہے‘‘
[تحریر: جاوید ملک]
فرسودہ حال ریاستی ڈھانچے اور برباد معیشت کو جس طرح قرضوں کے انجکشن لگاکر چلانے کی کوشش کی جارہی ہے اس سے بہتری کے آثار پیدا ہونے کی بجائے مزید تباہی ملک کی بھاری اکثریت کو اپنی لپیٹ میں لیے جارہی ہے۔ موجودہ حکومت کے اقتدار میں آنے سے پہلے پاکستان میں پیدا ہونے والا ہر بچہ اگر ستر ہزار روپے کا مقروض تھا تو صرف دو ماہ بعد ہر پاکستانی کے قرض میں گیارہ ہزار روپے کا اضافہ ہوگیا ہے اور ماہرین کے مطابق اس مالی سال کے آخر تک یہ فی کس قرضہ پچانوے ہزار روپے تک جاپہنچے گا۔ اسی طرح حکومت نے بجلی کے نرخوں میں جوتاریخ ساز اور ہوش ربا اضافہ کیا ہے اس پر خود بورژوا ماہرین کڑی نقطہ چینی کر رہے ہیں۔ معاشی تجزیہ نگار ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کے مطابق ’’پاکستان میں ٹیکسوں کی استعداد سے چھ ہزار ارب روپے کم ٹیکس وصول کیا جارہا ہے۔ اگر ٹیکسوں کی مد میں اس رقم کا دس فیصد ہی اضافی وصول کر لیا جائے تو بجلی کے نرخ بڑھانے کی قطعی ضرورت نہ پڑتی اور بجٹ خسارہ بھی کم ہوجاتا۔ قومی بجلی پالیسی میں کہا گیا ہے کہ ملک میں 44 فیصد بجلی تیل سے پیدا کی جاتی ہے جو مہنگی پڑتی ہے۔ اس حقیقت کا بہر حال ادراک کیا جانا چاہیے کہ حکومت نے تیل پر 17 فیصد جنرل سیلز ٹیکس اور پٹرولیم لیوی عائد کی ہوئی ہے جبکہ اس تیل سے جو بجلی پیدا ہوتی ہے اس پر مزید 17 فیصد جنرل سیلز ٹیکس عائد کیاجاتا ہے۔ یہی نہیں بجلی کی ترسیل وتقسیم میں نااہلی اور کرپشن کی وجہ سے 200 ارب روپے سالانہ کا نقصان ہوتا ہے جنہیں بجلی کے نرخ بڑھاکر عوام کو منتقل کیا گیا ہے جس کا کوئی اخلاقی جواز نہیں۔‘‘ ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی جیسے ماہرین کے مطابق آئند ہ پانچ سال کے دوران پاکستان کے اندر کسی قسم کی بہتری کا خواب دیکھنے والے خود فریبی کا شکار ہیں کیونکہ آنے والے ان سالوں میں حکمران طبقے کی پالیسیاں پاکستان کے عوام کی زندگیوں کو مزید اذیت ناک اور ذلت آمیز بنا دیں گی۔
وزیر خزانہ ڈاکٹر مبشر حسن کے چار سالہ دور کی پالیسیوں کو چھوڑکر ہر دور میں ہر حکمرا ن نے امریکہ اور عالمی مالیاتی اداروں کی تابعداری کرتے ہوئے جو عوام دشمن پالیسیاں بنائیں ان کا نتیجہ یہ ہے کہ 66 سال بعد جدید صنعت کے باوجود پاکستان کے عوام کی حالت بدسے بدتر ہوتی چلی گئی ہے جس کا ایک اہم مظاہرہ حالیہ دنوں میں دیکھنے کو مل رہا ہے جب سیلاب میں ڈوبی پاکستانی قوم کو مہنگائی کے طوفان نے گھیر لیا ہے۔ ناقص حکمت عملی، کارٹیلز کی بالادستی اور سرمایہ داروں کی کمیشن خوری نے 64 فیصد پاکستانیوں کو غذائی قلت سے دوچار کر دیا ہے پاکستان کا شمار اس وقت دنیا کے ان پانچ ممالک میں کیا جارہا ہے جہاں قحط سالی کی صورتحال ہے۔ واضح رہے کہ ان پانچ ممالک میں افریقی ملک، برونڈی، اور گھانا جیسے ملک بھی شامل ہیں۔ اسی کے ساتھ جڑی ہوئی اہم خبر یہ ہے کہ گندم برآمد کرنیو الا پاکستان گزشتہ چند سال سے ایک مرتبہ پھر گندم درآمد کرنے والا ملک بن کر رہ گیا ہے۔ اشرافیہ کا نمائندہ مخصوص میڈیا گو اس معاشی بربادی پر کوئی حاشیہ آرائی یا تبصرہ نہیں کر رہا تاہم حقائق یہ ہیں کہ بازار میں بظاہر گندم کی قلت کے بعد نہ صرف اس اہم فصل کی قیمت میں اضافہ نظر آرہا ہے بلکہ پاکستان میں گندم کی قلت پیدا ہونے کا خدشہ پیدا ہوتا جارہا ہے۔ یہ صورتحال گندم کی پیداوار میں کمی کے بعد ظاہر ہوئی ہے۔ طلب اور رسد کے اس فرق کا اندازہ کرنے کیلئے مختلف اندازے لگائے جارہے ہیں۔ ایک واچ گروپ کے اندازے کے مطابق ملک میں گزشتہ مالی سال میں 22.8 ملین ٹن گندم پیدا ہوئی تھی جبکہ اکنامک سروے میں اس کی پیداوار 24.2 ملین ٹن ظاہر کی گئی تھی۔ اس قلت کی مرکزی وجہ ہے کہ پنجاب میں پیداوار کا ہدف پورا نہیں ہوسکا۔ اس صوبے میں گندم کی پیداوار کا ابتدائی ہدف 19.2 ملین ٹن لگایا گیا تھا لیکن 17.5 ملین ٹن کا ہدف حاصل ہوسکا جس کی وجہ ناقص منصوبہ بندی اور غلط اندازے تھے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے پاس 7.5 ملین ٹن گندم کے ذخائر کی رپورٹس ہیں۔ اس کا کچھ حصہ مارکیٹ میں دے کر دباؤ اور قیمتوں میں کمی کے سے نمٹنے کے علاوہ ناجائز منافع خوروں کو بھی روکا جاسکتا ہے۔ درحقیقت متعلقہ ادارے اس آنے والے بحران کا اندازہ کرنے میں بہت سست واقع ہوئے ہیں اور اب تک صرف پرائیوٹ سیکٹر کو گندم منگوانے کی اجازت دی گئی ہے۔ جس شے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ ملک کے گندم باہر سمگل پر فوری پابندی عائد کردی جائے۔ ہیمبرگ سے ایک یورپی تاجر نے رائٹر کی رپورٹ میں یہ کہا ہے کہ اب پاکستانی تاجر مارکیٹ میں بطور امپورٹر واپس آرہے ہیں اور بحرِ اسود ( بلیک سی) کے راستے گندم لے جانے پر بات کررہے ہیں۔ پاکستان جو گزشتہ تین برس تک دنیا کو گندم دے رہا تھا اگلے سال، 2014ء کی مارچ تک آٹھ سے دس لاکھ ٹن گندم باہر سے خریدے گا۔ اور سستی ہونے کی بنا پر یہ گندم روس، رومانیہ اور یوکرین جیسے ممالک سے خریدی جائے گی۔ روس سے پاکستان آنے والی گندم کی 32,000 ٹن کی کھیپ حالیہ ماہ کے آخر تک پاکستان پہنچ سکے گی۔ اس طرح اگلے تین، چار ماہ میں کل ڈھائی سے تین لاکھ ٹن گندم منگوانے کی توقع ہے جس سے مصنوعی طور پر گندم کی قیمت میں معمولی کمی نظر آرہی ہے مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ فلور مالکان نے اس کمی کا فائدہ آگے اپنے خریداروں تک منتقل نہیں کیا۔ لیکن ان کی تنظیم حکومت سے واہگہ بارڈر کے ذریعے ہندوستان سے گندم منگوانے کی اجازت مانگ رہی ہے اور مؤقف ہے کہ وہ گندم سستی ہوگی جسے ارزاں نرخوں پر آگے فراہم کیا جاسکے گا۔ چالس کلوگرام گندم کی قیمت اس وقت تیرہ سو روپے تک جاپہنچی ہے جو حکومت کی جانب سے کسانوں کی مدد کیلئے مقررہ بارہ سو کی قیمت سے زیادہ ہے۔ صوبہ خیبرپختونخواہ اس بحران کا سب سے زیادہ شکارہوگا کیونکہ اس کا انحصار پنجاب کی گندم پر ہوتا ہے۔ پنجاب میں گندم کے ذخائر 32,000 روپے فی ٹن کے حساب سے فروخت ہورہے ہیں جبکہ آفیشل ریٹ ہیں 30,000 روپے فی ٹن۔ یہ قیمت خیبر پختونخواہ کیلئے ناقابلِ برداشت ہے۔ اس سیزن کیلئے کے پی کے نے اپنی ضروریات کیلئے صوبہ پنجاب سے چارلاکھ میٹرک ٹن گندم حاصل کرنے کا ہدف رکھا تھا۔ جبکہ پاکستان ایگریکلچرل سٹوریج اینڈ سپلائز کارپوریشن (پاسکو) نے مارکیٹ سے ضروریات کے تحت گندم خریدنے کی اجازت دی تھی۔ تاہم صوبے کے پاس اتنی گندم ذخیرہ کرنے کی سہولت اور گنجائش موجود نہیں۔ صوبہ خیبرپختونخواہ اپنے وسائل سے ایک ملین ٹن گندم پیدا کرتا ہے جبکہ صوبے میں گندم کی کھپت 3.9 ملین ٹن ہے۔ سال 2013ء اور 2014ء کیلئے کے پی حکومت نے گندم کی خریداری کیلئے ڈھائی ارب روپے سبسڈی کیلئے رکھے ہیں۔
چین میں بھی گندم کی فصل خراب ہوئی ہے اور وہ بھی دیگر ممالک سے گندم منگوانے پر غورکررہا ہے۔ خراب موسم کے اثرات سے چین میں گندم کی دوکروڑ ٹن فصل یا تو خراب ہوگئی ہے یا پھر کھانے کے قابل نہیں رہی اور یہ چین کی کل پیداوار کا سولہ فیصد ہے۔ چین کی جانب سے دنیا سے گندم خریدنے پر فراہمی مزید سکڑے گی اور اس سے عالمی سطح پر مزید بحران پیدا ہوگا۔ جس کے یقینی اثرات پاکستان پر آئیں گے۔ اسی طرح توقع ہے کہ چین عالمی مارکیٹ سے 8.5 ملین ٹن گندم حاصل کرے گا۔
مختصراً یہ کہ پاکستان میں گندم کا بحران سراْٹھاچکا ہے۔ ستمبر کے مہینے میں مزید بارشوں کے باعث سیلابوں کے بڑھ جانے کا خطرہ ہے جس سے صورتحال مزید گھمبیر ہوسکتی ہے۔ جس کی اہم وجہ یہ ہے کہ پاکستان کے اندر86 فیصد زرعی زمین 12 فیصد افرا د کے قبضے میں ہے۔ اسی طرح ملکی زمین کا ایک بڑا حصہ بیوروکریسی کے قبضے میں جاچکا ہے۔ پاکستان کے اندر کسی بھی حکمران نے زرعی شعبے کو جدید بنیادوں پر استوار کرنے کی کوشش نہیں کی اور نہ ہی بنجر زمینوں کو قابل کاشت بنانے کے لیے کوئی کام کیا گیا ہے۔ الٹا زرعی زمینوں کو یو اے ای اور دوسرے کئی ممالک کے سرمایہ داروں کے ہاتھوں فروخت کیا جارہا ہے جس کے خوفناک نتائج آنے والے وقت میں اس صورت میں سامنے آئیں گے کہ لاکھوں ایکڑ زرعی زمینیں خریدنے والے یہ گروپ مافیاز بن کر پاکستان کی زرعی معیشت پر بھی قابض ہوجائیں گے اور پھر یہاں پر زرعی اجناس کی قیمتیں بھی انہی کی خواہش پر مقرر کی جایا کریں گی۔ پاکستان کے اندر کل آبادی کی ضرورت سے کہیں زیادہ گندم گوشت سبزیاں اور دوسری اشیاء خوردونوش پیدا کی جاسکتی ہیں لیکن چند لوگوں کی لوٹ مار اور منافعوں میں اضافے کی ہوس نے عام آدمی کی خوراک تک پہنچ کو مشکل سے مشکل تر بنا کر رکھ دیا ہے جس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس وقت پاکستان کی 72 فیصد آبادی اپنی کل بچت کا 80 فیصد صرف غذا ئی ضروریات پر صرف کر دیتی ہے۔ ایک خوشحال معاشرے کی بنیاد رکھنے کے لیے لازم ہے کہ تمام زرعی زمینوں سمیت دیگر ادارو ں کو محنت کشوں کے اجتماعی ملکیت میں دے دیا جائے جو صرف سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ مگر اس کے لیے آخری تجزیے میں پاکستان کے محنت کشوں، دہقانوں اور نوجوانوں کوجدوجہد کرنا ہوگی۔ آمریتوں اورسرمایہ دارانہ جمہوری حکومتوں سے محنت کش طبقے نے جو سبق حاصل کیا ہے وہ آنے والے دنوں میں ایک انقلابی تحریک کو جنم دے گا۔