[تحریر: لال خان]
یوکرائن میں گزشتہ کئی ہفتوں سے جاری انتشار اب خانہ جنگی کی صورتحال اختیار کرتا جارہا ہے۔ صرف بدھ کے روز مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں میں 25 افراد ہلاک جبکہ سینکڑوں زخمی ہوئے ہیں۔ آج تک ہلاک ہونے والوں کی تعداد 77 تک پہنچ چکی ہے۔ مشرقی یورپ کا یہ ملک آج کل مغربی میڈیا کی شہ سرخیوں کا عنوان بنا ہوا ہے۔ تاہم عرب انقلابات کی طرح کارپوریٹ میڈیا نے یوکرائن کے حالات واقعات کی رپوٹنگ میں بھی مغربی سامراجی قوتوں کے مفادات کے مطابق کھلی جانبداری کا مظاہرہ کیا ہے۔ عام حالات میں عوام میں واقعات اور صورتحال کی گہرائی میں جا کر چھان بین کئے بغیر میڈیا کے موقف کو تسلیم کرنے کا رجحان پایا جاتا ہے۔ یوکرائن کے معاملے میں بھی دوسرے ممالک میں کافی کنفیوژن موجود ہے۔ پیٹرک کاکبرن نے ’’انڈی پینڈنٹ‘‘ میں چھپنے والے اپنے حالیہ مضمون میں لکھا ہے کہ ’’یوکرائن کا معاملہ ترکی یا تھائی لینڈ سے اس لحاظ سے مختلف ہے کہ یوکرائن کے مظاہرین امریکہ اور یورپی یونین جبکہ یوکرائنی حکومت روس سے مدد کی امید لگا سکتی ہے۔ مغربی ٹیلی وژن چینلوں اور اخباروں نے حالیہ فسادات کو یوکرائن کے ’’عوام‘‘ اور جابر حکومت کا آپسی تنازعہ بنا کر اپوزیشن کی ہر ممکن مدد کی ہے۔ مظاہرین کے دوست مغربی میڈیا کے پاس شاید وقت نہیں ہے وہ اس معاملے میں بیرونی قوتوں کے پیچیدہ کردار یا یوکرائنی اشرافیہ کی آپسی چپقلش پر روشنی ڈال سکے۔ یورپ میں امریکہ کی سب سے اہم سفارتکار وکٹوریہ نولینڈ اور یوکرائن میں امریکہ کے سفیر گیوف پیاٹ کی لیک ہونے والی فون کال میں ’’یورپی یونین بھاڑ میں جائے‘‘ کے الفاظ کو خاص پزیرائی ملی ہے۔ ۔ ۔ ان سینئر امریکی اہلکاروں کی گفتگو سے ظاہر ہورہا تھا کہ یوکرائن کے مستقبل کا فیصلہ وہ کریں گے۔‘‘
مغربی میڈیا پر یورپی یونین کے حامی مظاہرین کو’’پر امن‘‘ اور ’’عدم تشدد پسند ‘‘ ظاہر کیا جارہا ہے۔ یہ سراسر جھوٹ ہے۔ ’’پراوی سیکٹر‘‘، جس کی قیادت میں یہ مظاہرے ہورہے ہیں، دائیں بازو کی ایک فاشسٹ سیاسی جماعت ہے۔ حالیہ مظاہروں میں اس جماعت کے حامیوں نے بائیں بازو کے سیاسی کارکنان اور ٹریڈ یونین رہنماؤں پر جان لیوا حملوں سے لے کر عمارات کو آگ لگانے تک، تشدد اور جلاؤ گھیراؤ کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا ہے۔ 7دسمبر کو پراوی سیکٹر کے فاشسٹ غنڈوں کی جانب سے ولایمیر لینن کے مجسمے کی مسماری سے ان کی رجعتی عوام دشمن نفسیات کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ فاشسٹوں کی جانب سے دنگا فسادات کی کاروائیوں میں اب شدت آتی جارہی ہے۔ 16 جنوری کو یوکرائنی پارلیمنٹ کی جانب سے مظاہروں کے خلاف پاس ہونے والے قانون کے بعد واقعات نے نیا رخ اختیار کر لیا ہے۔
یوکرائن کے یورپی یونین کے ساتھ الحاق کا مطالبہ دراصل سوویت یونین کے انہدام کے بعد پچھلے 20 سالوں کے دوران پنپنے والی مافیا سرمایہ داری، کرپٹ حکمران طبقے اور بد ترین معاشی حالات کے خلاف مڈل کلاس کے غم و غصے اور بے چینی کا مسخ شدہ اظہار ہے۔ کمیونسٹ پارٹی آف یوکرائن (CPU) کی موقع پرستی اور انقلابی سوشلزم کے نظریات سے انحراف اور سیاسی افق پر بائیں بازو کے متبادل کی عدم موجودگی نے سماج کی پسماندہ پرتوں میں فسطائیت اور دائیں بازو کی رجعتی قوتوں کی مقبولیت کے لئے سازگار حالات فراہم کئے ہیں۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران کارپوریٹ میڈیا اورسامراجی دانشوروں کی جانب سے کمیونزم کے خلاف کیا جانے والا زہریلا پراپیگنڈا اور یوکرائنی انسرجنٹ آرمی (دوسری جنگ عظیم میں یوکرائن پر قبضے کے دوران نازی جرمنی کی جانب سے پیدا کی گئی یوکرائنی قوم پرست فاشسٹ فوج) کے بارے میں لکھے جانے والے قصیدے بھی حالیہ فسطائی ابھار کی وجوہات میں شامل ہیں۔
یوکرائن کے مشرقی اور مغربی علاقوں میں تفریق کو بھی ابھارا جارہا ہے۔ کیا یوکرائن تقسیم ہوسکتا ہے؟ یہ وحشی منصوبہ اس تنازعے میں شریک تمام سامراجی اور علاقائی قوتوں؛ مغربی سامراج، روس، یوکرائنی فاشسٹوں حتیٰ کہ صدر وکٹرینوکووچ کے مفادات میں ہے۔ یوکرائن کی تقسیم سامراج اور مقامی حکمران طبقے کا تاریخی جرم ہوگا جس سے اس ملک کے عوام کا معیار زندگی اور بھی گر جائے گا۔
آنے والے دنوں میں روس اور یورپی یونین کا بڑھتا ہوا معاشی بحران یوکرائن کی معیشت کو بھی بری طرح متاثر کرے گا۔ اکتوبر 2013ء سے جنوری 2014ء تک روسی روبل کی قیمت میں تیزی سے کمی آئی ہے۔ پیوٹن حکومت سوویت دور کی بچی کھچی مراعات اور سہولیات بھی عوام سے چھین رہی ہے۔ پچھلے کچھ مہینوں میں روسی عوام کی قوت خرید میں 30فیصد تک کمی آئی ہے۔ یہ حکومتی اخراجات میں کٹوتیوں اور WTOکی ایما پر کی جانے والی نجکاری کا نتیجہ ہے۔ تاہم روسی معیشت کی بری حالت کے باوجود صدر پیوٹن نے خطے پر اپنا اثرورسوخ بڑھانے کے لئے حال ہی میں یوکرائن کو 15ارب ڈالر کا قرضہ دیا ہے۔
اس معاملے میں یورپی حکمرانوں اپنی روایتی منافقت کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ یورپی یونین اور یوکرائن کے حکومت کے درمیان معاملات طے پانے ہی والے تھے یوکرائن کی حکومت نے ’’شراکتی معاہدے‘‘ پر دستخط کرنے سے انکار کردیا جس کے بعد یورپی یونین نے مظاہرین کی پشت پناہی شروع کردی۔ لیکن روسی گیس، تیل، منڈی اور سستی لیبر یورپی سرمایہ داروں (خاص کر جرمنی) کی اہم ضرورت ہے۔ چنانچہ یورپی حکمران روس سے براہ راست تصادم بھی مول نہیں لے سکتے ہیں۔ اسی طرح اوباما نے واضح طور پر کہا ہے کہ اس کے اسٹریٹجک مفادات کا فوکس فی الوقت کہیں اور ہے اور امریکی حکومت نے مشرقی یورپ میں میزائل نصب کا بش دور کا منصوبہ بھی ترک کردیا ہے۔ امریکی سامراج کی کمزوری اور مغربی یورپی طاقتوں کے باہمی پھوٹ کا سب سے زیادہ فائدہ روس کو ہورہا ہے اورپیوٹن حکومت خطے میں بڑا کردار ادا کرنے کی چالبازیاں کررہی ہے۔
صدر ینوکووچ اور اپوزیشن کے ’’نسبتاًاعتدال پسند‘‘ رہنماؤں کے درمیان ڈیل کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو انتہائی دائیں بازو کی فاشسٹ قوتیں سڑکوں پر احتجاج ہی کرتی رہ جائیں گی اور حکومت کا کچھ نہیں بگڑے گا۔ تاہم ایسا کوئی معاہدہ زیادہ دیرپا نہیں ہوگااور یوکرائن مختلف طاقتوں کی پراکسیوں کا میدان جنگ بنا رہے گا۔ دوسری طرف اگر یوکرائن یورپی یونین کا حصہ بنتا ہے تو یورپ کی سستی اجناس کا سیلاب مقامی صنعت اور روزگار کو اپنے ساتھ بہا لے جائے گا۔ رومانیہ، پولینڈ اور یورپی یونین کا حصہ بننے والے سابقہ سوویت بلاک کے دوسرے ممالک کے حالات سب کے سامنے ہیں جہاں عوام کی معاشی مشکلات میں اضافہ ہی ہوا ہے۔
معاشی و سیاسی عدم استحکام اور انتشارکی یہ صورتحال صرف یوکرائن تک محدود نہیں ہے۔ سوویت یونین کے انہدام نے روس، وسطی ایشیا اور مشرقی یورپ کے عوام کو برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ تاریخی طور پر یہ پیچھے کی طرف ایک قدم تھا۔ منصوبہ بند معیشت کے خاتمے کے بعد ان ممالک میں جرائم اور کرپشن پر مبنی سرمایہ داری استوار ہوئی ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی کالی معیشت روس میں سرگرم ہے۔ سوویت یونین کا بیڑا غرق کرنے والے کیمونسٹ پارٹی کے بیوروکریٹ اب سرمایہ بن گئے ہیں۔ نودولتیوں، نومولود سرمایہ داروں، کرپٹ سیاستدانوں اور ریاستی اہلکاروں کی یہ طفیلی پرت محنت کش عوام کا خون چوس رہی ہے۔ ہزاروں فیکٹریاں اور ادارے یا تو بند ہوجانے یا نجی ملکیت میں چلے جانے سے بڑے پیمانے پر بیروزگاری پھیلی ہے۔ سوویت دور میں تعلیم، علاج، رہائش اور بجلی کی مفت سہولیات اب ماضی کا قصہ بن چکی ہیں۔ سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد عوام کو سب سے بڑا ذہنی صدمہ ہی اس بات سے پہنچا تھا کہ بنیادی ضروریات زندگی کے لئے پیسے بھی دینے پڑتے ہیں۔ اس کے علاوہ 1991ء کے بعد ہونے والی بڑے پیمانے کی ہجرت نے ان ممالک میں سماجی ڈھانچوں، خاندان اورآبادی میں نوجوانوں کے تناسب کو بگاڑ کے رکھ دیا ہے۔
اس تمام صورتحال میں روس اور مشرقی یورپ کی دوسری ’’کمیونسٹ پارٹیوں‘‘ کی طرح کمیونسٹ پارٹی آف یوکرائن کی قیادت کا کردار انتہائی شرمناک اور مجرمانہ ہے۔ کئی سالوں تک ینوکووچ کی سرمایہ دارانہ حکومت سے ہر طرح کا تعاون کرنے والے ان ’’کمیونسٹوں‘‘ نے کمیونزم کو عوام کی نظر میں جرائم پیشہ اشرافیہ کے ساتھ منسوب کردیا ہے۔ یوکرائن کا محنت کش طبقہ واقعات سے کئی اسباق سیکھے گا۔ محنت کشوں اور نوجوانوں کو سرمایہ داروں اور سامراجیوں قوتوں کے خلاف لڑنے کے لئے ایک آزاد سیاسی قوت بن کر ابھرنا ہوگا۔ محنت کش عوام کی انقلابی تحریک کمیونسٹ پارٹی کو یکسر تبدیل کر کے رکھ دے گی۔ بالشویزم اور انقلابِ روس کی عظیم انقلابی روایات کو زندہ کئے بغیر یوکرائن اور مشرقی یورپ کے عوام کے پاس نجات کا کوئی راستہ نہیں ہے۔
متعلقہ:
روس: بالشویک میراث کی نئی اٹھان
بالشویک انقلاب کے95 سال؛ جب انکارکا فرماں اترا