تحریر: ٹیڈ گرانٹ
سماج کے کسی بھی دوسرے مظہر کی طرح ریاست بھی ہر وقت تغیر پذیر رہتی ہے۔ جہاں ایک طرف یہ انسانی سماج پر موضوعی طور پر اثر انداز ہوتی ہے وہاں سماج میں ہونے والی معروضی تبدیلیاں ریاست کے کردار کو بھی تبدیل کرتے ہیں۔ غیر معمولی حالات میں ریاست غیر معمولی رویہ اختیار کرتی ہے اور بعض اوقات سماج سے اس قدر بالاتر ہوجاتی ہے کہ مقداری تبدیلی معیارکو تبدیل کرتے ہوئے ریاست کے کردار کو یکسر بدل دیتی ہے۔ ان حالات میں ’’بونا پارٹ ازم‘‘ کا مظہر دیکھنے میں آتا ہے۔ ’’بونا پارٹ ازم ‘‘ کیا ہے اور کس طرح وقوع پذیر ہوتا ہے؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لئے آئیے ٹیڈ گرانٹ کی شہرہ آفاق کتاب ’’روس، انقلاب سے ردِ انقلاب تک‘‘ سے ایک ا قتباس پر نظر ڈالتے ہیں۔
مارکسسٹوں کے مطابق ریاست کا ظہور ایک ایسے آلے کے طور پر ہوتا ہے جس کا مقصد ایک طبقے کا دوسرے طبقے پر جبر ہوتا ہے۔ ریاست کی تعریف کئی طریقوں سے کی جا سکتی ہے۔ ریاست کا حوالہ دینے کے لئے مارکسسٹ جو سب سے عام طریقہ استعمال کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ ’’نجی ملکیت کے دفاع کے لئے قائم کئے گئے مسلح افراد کے جتھے‘‘۔ آخری تجزئیے میں ریاست کی تمام اشکال یہی کچھ ہوتی ہیں۔ لیکن عمل میں ریاست فوج اور پولیس سے بڑھ کر اور بھی بہت کچھ ہوتی ہے۔ سرمایہ داری کے تحت بھی جدید ریاست اہلکاروں کی فوج ظفر موج پر مشتمل ایک نوکر شاہانہ عفریت ہوتی ہے جو مزدور طبقے کی پیدا کردہ قدر زائد کا ایک بہت بڑا حصہ ہڑپ کر جاتی ہے۔
مارکس اینگلز اور لینن نے وضاحت کی تھی کہ ریاست ایک مخصوص طاقت ہے جو سماج سے بالاتر ہوتی ہے اور بتدریج اس سے دور ہوتی جاتی ہے۔ ایک عمومی قضیے کے طور پر ہم اس بات کو قبول کر سکتے ہیں کہ ریاست ایک مخصوص حکمران طبقے کے مفادات کی عکاسی کرتی ہے۔ لیکن اس مشاہدے سے سماج میں ریاست کے مخصوص کردار کا احاطہ نہیں ہوتا۔ حقیقت میں ریاستی نوکر شاہی کے اپنے مفادات ہوتے ہیں جو ضروری نہیں کہ حکمران طبقے کے مفادات سے ہمیشہ ہی ہم آہنگ ہوں بلکہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان کا براہِ راست تصادم ہو جائے۔ مارکس اور لینن کے بقول آخری تجزئیے میں ریاست مسلح افراد کے جتھوں وغیرہ پر مشتمل ہوتی ہے۔ یہ ریاست کی مارکسی تعریف کا نچوڑ ہے۔ یہ عمومی مارکسی اصول اگرچہ بلاشبہ درست ہیں تاہم انہیں مطلق طور پر استعمال کرنے میں بہت زیادہ احتیاط کرنی چاہیے۔ ذرا ملاحظہ فرمائیں اینگلز عمومی اصول وضع کرتے وقت بھی اس سوال کے سلسلے میں کس قدر احتیاط سے کام لیتا ہے۔ ’’خاندان، ذاتی ملکیت اور ریاست کا آغاز‘‘میں اینگلز لکھتا ہے :
’’لیکن اس وجہ سے کہ یہ تضادات، یہ متصادم معاشی مفادات کے حامل طبقات، سماج اور خود کو ایک لا حاصل جدوجہد میں ختم نہ کر لیں تصادم کو معتدل بنانے اور نظم و ضبط کی حدود میں رکھنے کے لئے ایک ایسی قوت کا وجود ضروری ہو جاتا ہے جو بظاہر سماج سے بالاتر ہوتی ہے، یہ طاقت جو سماج سے ابھری ہے لیکن خود کو اس سے بالا تر رکھتی ہے اور بتدریج اس سے بیگانہ ہوتی جاتی ہے، ریاست ہے۔ ‘‘ بعد ازاں وہ لکھتا ہے :’’یہ جاننے کے لئے آج کے یورپ پر ایک نظر ڈالنا ہی کافی ہے جہاں طبقاتی جدوجہد اور فتوحات کی رقابت عوامی اقتدار کو اس سطح تک لے آئی ہے جہاں خطرہ ہے کہ یہ تما م سماج اور یہاں تک کہ بذاتِ خود ریاست کو بھی ہڑپ نہ کر جائے۔ ‘‘
آگے چل کے اینگلز ثابت کرتا ہے کہ ایک بار ظہور میں آجانے کے بعد ریاست بعض مخصوص حدود کے اندر اپنی ایک آزاد تحریک بنا لیتی ہے اور موجودحالات کے اندر ایسا کرنا ضروری بھی ہوتا ہے:’’عوامی اقتدار کا مالک ہونے اور ٹیکس لگانے کے حق کی وجہ سے اب یہ اہل کار خود کو سماج کے ایسے لوگوں کے طور پر پیش کرتے ہیں جو سماج سے بالاتر ہیں۔ ‘‘
’’ریاست طبقاتی تضادات کو قابو میں رکھنے کی ضرورت کے تحت وجود میں آئی تھی مگر ساتھ ہی ساتھ اس کا ظہور طبقات کے درمیان شدید لڑائی کے وقت ہوااس لئے عام طور پر یہ سب سے زیادہ طاقت ور اور معاشی طور پر حکمران طبقے کی ریاست ہوتی ہے جو اپنے ذرائع کی وجہ سے سیاسی طور پر بھی حکمران طبقہ ہوتا ہے اور اس طرح سے استحصال زدہ اور جبر کا شکار لوگوں کو دبانے کے لئے مزید نئے ذرائع حاصل کر لیتا ہے۔ ۔ ۔ تاہم ایسے اسثنائی ادوار بھی آتے ہیں جب برسرِ پیکار طبقات طاقت میں اس قدر برابر ہوتے ہیں کہ بظاہر ثالث کا کردار اداکرنے والی ریاست کچھ وقت کے لئے دونوں کے حوالے سے ایک مخصوص خود مختاری حاصل کر لیتی ہے۔ ۔ ۔ ‘‘
اینگلز پھر کہتا ہے : ’’مہذب سماج میں ریاست درمیانی کڑی کی حیثیت رکھتی ہے جو تمام عمومی ادوار میں بلا استثناء حکمران طبقے کی ریاست ہوتی ہے اور تمام صورتوں میں لازمی طور پر استحصال زدہ اور جبر کا شکار لوگوں کو دبانے کا آلہ ہوتی ہے۔ ۔ ‘‘
اینگلز خوب اچھی طرح سمجھتا تھا کہ ایسے غیر عمومی اور غیر معمولی حالات بھی ہو سکتے ہیں جن پر مارکسسٹ نظریے کے اس عام اصول کا اطلاق نہ ہو سکے۔ ریاست کے سوال کے سلسلے میں اس جدلیاتی طرزفکر کو مارکس نے لوئی بونا پارٹ کی اٹھارویں برومیئر میں ترویج دی تھی جہاں اس نے بونا پارٹ ازم کے مظہر کی وضاحت کی تھی جس میں ریاست اور حکمران طبقہ معمول سے مطابقت نہیں رکھتے۔ مارکس اس طرف توجہ دلاتا ہے کہ کس طرح فوجی طاقت کے نشے میں مدہوش لوئی بونا پارٹ نے ’’قانون، نظم و ضبط اور خاندان‘‘ کے نام پر اسی بورژوازی کو گولی کا نشانہ بنایا جس کا بظاہر وہ نمائندہ تھا۔ کیا لوئی بونا پارٹ کے تحت بورژوازی حکمران طبقہ تھا؟اس بات کا جواب دینے کے لئے مارکسزم کے دقیق علم کی قطعاً حاجت نہیں۔ محض’’ مسلح افرد کے جتھے‘‘کا عمومی اصول بورژوازی یا پرولتاری بونا پارٹ ازم کو خاطر میں نہیں لاتا۔ اگر ہم جدید سماج کی تاریخ کو لیں تو ہمیں کئی ایسی مثالیں ملیں گی جب بورژوازی کو سیاسی طور پر بے دخل کر دیا گیا لیکن اس کے باوجود وہ حکمران طبقہ رہی۔ یہی ہے جسے ہم بونا پارٹ ازم کہتے ہیں یا مارکس کی زبان میں یہ ’’سماج پر ننگی تلوار کی حکمرانی‘‘ ہے۔ آئیے چند مثالیں دیکھتے ہیں۔
چین کے اندر 1927ء میں جب چیانگ کائی شیک نے شنگھائی کے غنڈہ گرد عناصر کی مدد سے وہاں کے مزدور طبقے کو کچل دیا تو وہاں کے بینکاروں نے اس کے اعزاز میں عشائیے دئیے اور اسے تہذیب کا محافظ و مسیحا قرار دے کر اس پر تعریف و توصیف کے ڈونگرے برسائے۔ لیکن چیانگ اپنے آقاؤں سے تعریف و توصیف سے زیادہ مادی نوعیت کی توقعات وابستہ کئے ہوئے تھا۔ اس نے بلا توصیف شنگھائی کے تمام بینکاروں اورامیر صنعت کاروں کو جیل میں ڈال دیا اورکروڑوں کا تاوان وصول کئے بغیر نہیں چھوڑا۔ اس نے ان کا کام کر دیا تھااور اب وہ معاوضے کا طلبگار تھا۔ اس نے شنگھائی کے مزدوروں کو سرمایہ داروں کے فائدے کے لئے نہیں کچلا تھا بلکہ اس کی نظروں میں وہ قوت اور پیسہ تھا جو اسے اور اس کے ٹھگوں کے ٹولے کو اس سے حاصل ہونے کی توقع تھی۔ تاہم کون کہہ سکتا ہے کہ جیلوں میں پڑے ہوئے بینکار اب بھی حکمران طبقہ نہیں تھے حالانکہ ان کے پاس سیاسی اقتدار نہیں تھا؟
ایسے حالات میں جب بورژوازی کو سیاسی طور پر بے دخل کر دیا جاتا ہے ، سماج پر ننگی قوت کا غلبہ ہوتا ہے۔ قدرزائد کا ایک بہت بڑا حصہ اوپر کا فوجی ٹولہ اور اہل کار ہڑپ کر جاتے ہیں۔ لیکن یہ بات ان بیوروکریٹوں کے مفاد میں ہوتی ہے کہ مزدوروں کا سرمایہ دارانہ استحصال جاری رہے لہٰذہ وہ بورژوازی کو جی بھر کر نچوڑتے ہیں مگر نجی ملکیت کا تحفظ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بورژوازی حکمران طبقے کے طور پر برقرار رہتی ہے اگرچہ براہِ راست سیاسی اقتدار ان سے چھن جاتا ہے۔
تاریخ سے ایسی بہت سی مثالیں دی جا سکتی ہیں کہ کس طرح حکمران طبقے کے ایک حصے نے دوسرے پر حملہ کیا اور ریاست سماج سے بالاتر ہوگئی۔ مثال کے طور پر برطانیہ میں ’’وار آف روزز‘‘ میں حکمران نوابوں کے دو متحارب گروہوں نے قریب قریب ایک دوسرے کا خاتمہ ہی کر دیا تھا۔ ہر وقت حکمران طبقے کے وسیع حصے یا تو جیلوں میں ہوتے تھے یا انہیں قتل کر دیا جاتا تھا اور تاج کسی نہ کسی ٹولے کے مہم جوؤں کے قبضے میں ہوتا تھا۔ آخر کار ایک نئے شاہی خاندان ٹیوڈر کا ظہور ہوا جس نے مختلف طبقات کے درمیان توازن قائم کر کے ایک مطلق العنان نظام کی داغ بیل ڈالی۔
غلام داری عہد کے زوال میں بھی ایسی ہی صورتحال موجود تھی۔ رومن شہنشاہ سماج سے بالاتر ہو گئے اور حکمران طبقے کو نہایت سفاکی سے کچلا جو غلام مالکان پر مشتمل تھااور انہیں پریٹورین گارڈز کے ’’منتخب‘‘ کردہ شہنشاہ ٹیکسوں کے ذریعے لوٹتے تھے، گرفتار کرتے تھے، اذیت دیتے تھے اور قتل کرتے تھے۔ بنیادی طورپر مارکس نے اس مظہر کو بیان کرنے کے لئے ’’قیصر ازم‘‘ کی اصطلاح استعمال کی تھی۔ لیکن ایک غلام ریاست کی حیثیت سے رومن ریاست کی طبقاتی نوعیت میں رتی بھر بھی تبدیلی نہیں آئی۔
مارکس، اینگلز اور لینن کے کلاسیکی تجزئے کی پیروی کرتے ہوئے ٹراٹسکی وضاحت کرتا ہے:
’’قیصر ازم یا اس کی بورژوا شکل بونا پارٹ ازم تاریخ کے ان لمحات میں منظر عام پر آتی ہے جب دو دھڑوں کے درمیان ہونے والی شدید جدوجہد ریاستی اقتدار کو قوم سے بالاتر کر دیتی ہے اور بظاہر اسے طبقات سے مکمل آزادی کی ضمانت فراہم کرتی ہے۔ ۔ ۔ جب کہ حقیقت میں یہ صرف مراعات یافتگان کے دفاع کے لئے ضروری آزادی ہوتی ہے۔ ‘‘
موجودہ صدی میں ہم سرمایہ داری کے زوال کے دور میں فاشزم کا مظہر دیکھ چکے ہیں جو اپنے آغاز کے حوالے سے بوناپارٹ ازم سے مختلف ہے لیکن ان دونوں میں بہت سی چیزیں مشترک بھی ہیں۔ بونا پارٹ ازم کے برعکس فاشسٹ نظام ناراض پیٹی بورژوازی اور لمپن پرولتاریہ عناصر پر مشتمل ایک بڑی تحریک کے بل بوتے پر اقتدار میں آتا ہے۔ تام ایک بار اقتدار میں آجانے کے بعد یہ بہت تیزی سے عوامی حمایت کھو کر بونا پارٹسٹ نظام میں تبدیل ہو جاتا ہے اور فوج و پولیس کی حمایت پر تکیہ کرتا ہے۔ ٹراٹسکی نے نازی بیوروکریسی کو ’’سمندر کے بوڑھے آدمی‘‘ سے تشبیہ دی تھی جوبو رژوازی کے کندھوں پر سوار تھی اوراسے بحفاظت منزل تک پہنچاتے ہوئے اس پر گالیوں کی بوچھاڑکرتی تھی، اس کے گنجے سر پر تھوکتی تھی اور اس کی پسلیوں میں اپنی ایڑیاں چبھوتی تھی۔
’’مارکسزم کے دفاع میں‘‘ ٹراٹسکی بونا پارٹ ازم اور فاشزم کے درمیان فرق کی وضاحت کرتا ہے:
’’فاشزم اور بونا پارٹ ازم میں قدر مشترک یہ ہے کہ دونوں سیاسی اقتدار کو زیادہ سے زیادہ آزادی دینے کے طبقات کی دشمنی کو استعمال کرتے ہیں۔ لیکن ہم نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا ہے کہ بوناپارٹ ازم بورژوا سماج کے ابھار کے وقت جبکہ فاشزم بورژوا سماج کے زوال پزیری کے وقت کا ریاستی اقتدار ہے۔ ‘‘
صرف ہٹلر کے اپنے سرمایہ دارمحافظین کے ساتھ سلوک پر غور کریں۔ سرمایہ دارانہ ملکیت کے محافظ نازیوں نے نہ صرف بورژوازی کو لوٹا ، ان کی جائیدادیں ضبط کیں بلکہ ان میں سے چند ایک کو گولی مارنے سے بھی دریغ نہیں کیا۔ اس میں قطعاً کسی شبے کی گنجائش نہیں کہ نازی ریاست کی طبقاتی نوعیت بورژواتھی۔ لیکن دوسری طرف جرمن بورژوازی ریاستی اقتدار کھوبیٹھی اور ریاست ہٹلر کے غیر ذمہ دار اور مجرم مہم جوؤں کے ہاتھوں میں چلی گئی جنہوں نے اسے اپنے مفاد میں استعمال کیا۔ یہاں ریاست اور حکمران طبقے کا تعلق جدلیاتی اور متضاد ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ 1943ء تک جرمنی کے حکمران طبقے اور ریاست میں تصادم بالکل کھل کر سامنے آ چکا تھا۔ اس وقت تک جرمنی جنگ ہار چکا تھا۔ حکمران طبقے کے مفادات کا تقاضا تھا کہ برطانیہ اور امریکہ سے امن معاہدہ کر لیا جائے تاکہ سوویت یونین کے خلاف جنگ لڑی جاسکے لیکن ریاست پر قابض نازی ٹولے کے لئے ہتھیار ڈالنے کا مطلب سزائے موت ہوتا۔ جرمن بورژوازی نے فوجی بغاوت (جرنیلوں کی سازش)کے ذریعے ہٹلر کو ہٹانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہی۔ ہٹلر نے آخری دم تک جنگ لڑی اور جرمنی نے اس کی قیمت اس طرح ادا کی کہ اس کے مشرقی نصف حصے پر سٹالنسٹ روس کا غلبہ ہو گیا۔