[تحریر: لال خان]
آج پاکستان بھر میں جس طرح سماجی خلفشار‘ محرومی‘ استحصال‘ جرائم‘ غربت‘ اور ذلت کی انتہاہوچکی ہے اس سے عوام صرف بیزار اور خوار ہی نہیں ہیں بلکہ شدید برہم بھی ہیں۔ اس اذیت ناک کیفیت میں عوام کی تبدیلی کی خواہش اب سلگنا شروع ہوگئی ہے۔ اس کی حرارت سیاست، ریاست اور معاشرے میں بڑھتی ہوئی تپش، ہلچل اور انارکی کی فضا پیدا کررہی ہے۔ اس پس منظر میں یہ کوئی حادثاتی امر نہیں کہ اس نظام اور دولت کی سیاست کے بہت سے جغادری ’’انقلاب‘‘ کی رٹ لگائے جارہے ہیں۔ اب یہ رٹ مختلف حرکات وسکنات کی شکل میں معاشرے میں انتشار کو مزید شدیدکررہی ہے۔ جہاں اس ملک کے شہباز شریف سے لے کر الطاف حسین تک جیسے حکمران اس ظالم نظام کے مسندِ اقتدار اور دولت کی ریل پیل میں رہتے ہوئے بھی انقلاب کی نعرہ بازی سے گریز نہیں کرتے ان کے بارے میں اتنا ہی کافی ہے کہ ’’کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا؟‘‘ عمران نیم اقتدار اور طاہر القادری دولت کے انباروں پر بیٹھ کر بھی ’’انقلاب‘‘ کرنے کا ناٹک رچا رہے ہیں۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ نہ تو ان کے انقلابوں کا کوئی نام ہے اور نہ ہی کسی کو اس کے کردار کا پتہ ہے۔ حتیٰ کہ ان حکمرانوں کی تمام دانش کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ ان کو شاید بہت زیادہ ’’جنرل نالج‘‘ ہوگالیکن ان کو آج کے عہد اور نظام کے بنیادی بحران کی وجہ اور تشخیص کے ساتھ ساتھ ا س کو بدلنے والے انقلاب کے بارے میں یقیناًکوئی علم نہیں۔ ان کے پروگرام جو اہداف اور مقاصد بیان کررہے ہیں اس میں کہیں بھی اس استحصالی سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کے لیے درکار انقلاب کی سائنسی بنیادوں کا شائبہ تک نظر نہیں آتا۔ انقلاب وہ عمل ہوتا ہے جس سے صرف حکومتیں اور اقتدار ہی نہیں بدلتابلکہ حکمران طبقات کا پورا نظام اور اس کو چلانے والے ڈھانچے‘ سوچیں‘ اخلاقیات اور ریت ورواج بدل جاتے ہیں۔
آج کے سماج کی بنیادیں جس سرمایہ دارانہ معیشت پر مبنی ہیں وہ معاشرے کو مجموعی طور پر ترقی دینے اور اس کے ارتقا کو آگے بڑھانے کی اہلیت کھوچکی ہے۔ کارل مارکس نے اسکی انتہائی گہری سائنسی وضاحت کرتے ہوئے تحریر کیا تھا کہ ’’جب بھی کوئی معاشی نظام اور اسکے ذرائع پیداوار سماجی ترقی دینے سے قاصر ہوجاتے ہیں تو معاشرہ ایک جمود کا شکار ہوجاتا ہے۔ یہ جمود ایک بحران کو جنم دیتا ہے جو سماجوں میں بغاوتیں پیدا کرتا ہے۔ یہیں سے وہ انقلاب ابھرتے ہیں جو اس معاشرے کی معاشی سماجی اور اقتصادی بنیادوں کو یکسر بدل دیتے ہیں۔‘‘ مارکس نے اس کو سوشلسٹ انقلاب کا نام دیا تھا۔ لیکن کوئی بھی سوشلسٹ انقلاب اس وقت تک کامیاب اور کارآمد نہیں ہوتا جب تک اس میں محنت کشوں کے ایک بڑے حصے کی براہ راست شمولیت نہ ہو۔ محنت کش طبقہ ہر وقت اور ہر دور میں اس ذہنی اور شعوری کیفیت میں نہیں ہوتا۔ وہ اس قسم کی صورتحال میں کبھی کبھار داخل ہوتا ہے۔ اس لیے انقلابات تاریخ کے معمول کے نہیں بلکہ غیر معمولی اور کبھی کبھی جنم لینے والے حالات میں برپا ہوتے ہیں۔ انسانی تاریخ کے عظیم ترین بالشویک انقلاب (اکتوبر 1917ء) کے قائد ولادیمیر لینن نے ایک انقلابی صورتحال کی جو علامات اپنی مشہورِ زمانہ کتاب ’’ریاست اور انقلاب‘‘ میں بیان کی تھیں وہ کچھ یوں ہیں:
*حکمران طبقات کے مختلف دھڑوں کے درمیان تنازعات‘ تضادات اور تصادموں کا شدت اختیار کرجانا۔
*درمیانے طبقے کا شدید اضطراب اور ہلچل کی کیفیت میں مبتلا ہونا اور کبھی حکمرانوں اور کبھی محنت کشوں کی جانب جھولنا۔
*محنت کش طبقہ اپنی تاریخ اور روایات میں ثابت کرچکا ہو کہ وہ انقلابی تحریکوں کو ابھار کر ان میں ہراول کردارا دا کرسکتا ہے۔
*ٹھوس نظریاتی‘ سیاسی‘ تنظیمی اور لائحہ عمل وتناظر کی بنیادوں پر سرگرم ایک انقلابی پارٹی کی موجودگی۔
عام حالات میں محنت کش حکمران طبقات کی رسومات‘ اخلاقیات‘ قدروں ریت ورواج‘ عادات واطوار اور ثقافتی وسیاسی رجحانات کی پیروی کرتے ہیں۔ اس لیے مارکس نے دو مختلف ادوار کی کیفیتوں میں محنت کش طبقے کے وجود کی وضاحت کی تھی۔ ایک وہ جب محنت کش ’’اپنے اندر‘‘ ایک طبقہ ہوتے ہیں اور پھر انقلابی صورتحال، جب وہ ’’اپنے لیے‘‘ ایک طبقہ بنتے ہیں۔ محنت کش عوام کے شعور کی ان دونوں کیفیتوں میں زمین آسمان کا فرق ہوتاہے۔
اس قسم کے سائنسی انقلاب میں بنیادی ہدف پیداوار کے بنیادی مقصد کو تبدیل کرنا ہوتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں ہر ضرورت اور جنس کی پیداوار کا مقصد منافع اور شرح منافع کا حصول اور دولت کا اجتماع ہوتا ہے۔ منصوبہ بندی پر استوار ایک سوشلسٹ معیشت میں پیداوار میں سے منافع کا عنصرختم کردیا جاتا ہے اور ہرشے کے بننے کی وجہ انسانی ضرو ریات کی تکمیل ہوتی ہے۔ وہ بے پناہ وسائل جو حکمران اور سامراج نسل در نسل لوٹتے رہے ہیں ان کو ضبط کرلیا جاتا ہے۔ تمام وسائل،ذخائر اور دولت کی مساوی تقسیم ہی نہیں ہوتی بلکہ سارے معاشرے او رخطوں کو مساوی بنیادوں پر ترقی دے کر برابری کے درجے پر لانے کا منصوبہ ہوتا ہے۔ اس سارے عمل میں انقلابی پارٹی اور سوشلسٹ جمہوریت کے ڈھانچے، اس نئی محنت کش ریاست کے انتظام اور اقتدار کا فریضہ انجام دیتے ہیں جو ان مقاصد ا ور اہداف کے حصول کو یقینی بناتی ہے۔ دولت کی وجہ سے سماجی اور سیاسی اونچ نیچ کے خاتمے کے بعد جو جمہور کی جمہوریت جنم لیتی ہے وہ ہر گلی، محلے، دیہات، فیکٹریوں اور کارخانوں کی پنچائتوں سے شروع ہو کر اوپر تک ایک ایسے ڈھانچے کو جنم دیتی ہے جس سے عوام کا ریاست، سیاست اور خصوصاً معیشت پر جمہوری کنٹرول ہوتا ہے۔ کسی ریاستی اہلکار کی اجرت کسی ہنر مند مزدور سے زیادہ نہیں ہوسکتی۔ ہر اہل کار ان پنچائتوں اور ان کے منتخب شدہ بالائی کے اداروں کے سامنے جوابدہ ہوتا ہے اور پانچ سال یا کسی مخصوص مدت کے لیے منتخب ہونے کی بجائے اس میں مسلسل تبدیلی کا ایک سلسلہ جاری رہتا ہے۔ لیکن انقلابی پارٹی کسی مقبول سے مقبول ترین فرد کی انفرادی قیادت میں بھی نہیں بن سکتی۔ اس کے لیے مارکسی نظریات سے لیس ایک اجتماعی قیادت درکار ہوتی ہے جو جمہوری مرکزیت کے طریقہ کار کے تحت تاریخ کے حصار کو موڑ دینے والے انقلاب کی قیادت کی اہل ہوسکتی ہے۔
پاکستان میں ہمیں اس قسم کی سماجی صورتحال 1968-69 ء کے انقلاب کے دوران بہت واضح انداز میں ملتی ہے۔ گو عوام کی اس انقلابی میراث کو مخدوش کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی ہے لیکن اس تحریک نے ثابت کیا تھا کہ اس قسم کا انقلاب یہاں بھی ممکن ہے۔ اسی انقلاب سے متاثر ہوکر ہندوستان کے مشہور صحافی اور پارلیمنٹرین کلدیپ نیر نے ایک مرتبہ کہا کہ ’’ہندوستان سے پاکستان میں نہیں بلکہ پاکستان کے ذریعے ہندوستان میں انقلاب آئے گا۔‘‘
آج پاکستان میں ظاہری طور پر عوام میں بے حسی اور بدظنی پائی جاتی ہے لیکن سطح کے نیچے ایک لاوا پک رہا ہے۔ حکمران طبقات میں لڑائیاں شدت کی انتہاؤں پر ہیں۔ درمیانے طبقہ اضطراب اور معاشی زخموں کے درد سے کراہ رہا ہے۔ محنت کش طبقہ 1968-69ء میں اپنی انقلابی صلاحیت ثابت کرکے اس کی روایات کو امر کرچکا ہے۔ لیکن ابھی تک ایک انقلابی مارکسسٹ لینن اسٹ پارٹی کا فقدان ہے۔ شاید وہ ابھی تیاری کے مراحل میں ہے۔
جعلی انقلابوں کی بوچھاڑ میں گھرے یہاں کے نوجوانوں اور محنت کشوں کا یہ حق ہے کہ ان کو یہ ادراک ملے کہ ’’انقلاب آخر ہوتا کیا ہے؟‘‘ انقلاب کی تعریف انقلابِ روس کے معمار لیون ٹراٹسکی نے ان الفاظ میں کی تھی:
’’عوام کی تاریخی واقعات میں براہِ راست مداخلت ہی کسی بھی انقلاب کی سب سے نمایاں خوبی ہوتی ہے۔ عام دنوں میں ریاست، خواہ اس پر بادشاہت براجمان ہو یا جمہوریت، خود کو عوام سے بے نیاز رکھتی ہے اور مورخین سربراہان مملکت‘ وزرا‘ دانشوروں اور صحافیوں کے حوالے سے ہی تاریخ کو مرتب کرتے ہیں۔ ۔ ۔ لیکن جب وہ وقت آجاتا ہے کہ یہ فرسودہ نظام عوام کے لیے ناقابلِ برداشت ہوجاتا ہے تو وہ سبھی حددو وقیود پامال کرتے ہوئے ان لوگوں کو سیاسی دھارے سے نکال باہر کرتے ہیں‘ اپنے روایتی نمائندوں کو اٹھا کر ایک طرف کردیتے ہیں اور پھر اپنی مداخلت وشمولیت سے ایک نئی طرزِ حکومت کی بنیادیں رکھتے ہیں۔ یہ عمل اچھا ہے یا برا؟اس کا فیصلہ اخلاقی مبلغین کرتے پھریں۔ ہمیں تو ان کے حقائق سے ویسے ہی سروکار ہے جیسے وہ اپنے معروضی حالات کی کوکھ سے جنم لیتے اور تشکیل پاتے ہیں۔ ایک انقلاب کی تاریخ ہمارے لیے‘ سب سے پہلے‘ حکمرانی کے عمل میں عوام کا دخل ہوتا ہے جو وہ اپنے مقدر بدلنے کے لیے کرتے ہیں۔‘‘
متعلقہ:
سوشلزم اور ریاست
ریاست اور انقلاب
لانگ مارچ اور ’’تبدیلی‘‘ کی حقیقت
کیسا آزادی مارچ؟
پاکستان کی اصل کہانی