اوباما کی ’تبدیلی‘ کیا ہوئی؟

| تحریر: لال خان |

آج سے آٹھ سال قبل ان دنوں امریکہ کی عوام شدید اشتیاق سے ایک آس اور تبدیلی کی امید لیے باراک اوباما کے صدارت کا حلف اٹھانے کے لمحوں کا انتظار کررہے تھے۔ امریکہ کے دنیا کی بڑی طاقت ہونے کے ناطے دنیا بھر میں دلچسپی، کسی بہتری یا قدرے تبدیلی کی امید بھی پائی جارہی تھی۔ لیکن یہ جذبے اور رجحانات بیرونی دنیا میں سماجوں کی درمیانی پرتوں اور خصوصاًسول سوسائٹی میں زیادہ پائے جارہے تھے۔ پاکستان میں سابقہ بائیں بازو کے بے شمار افراد، جوبیجنگ اور ماسکو میں سرمایہ دارانہ استواری کی وجہ سے اب اپنے قبلے واشنگٹن کی جانب موڑ چکے تھے، اس اصلاح پسند اعلیٰ مقرر میں ہر کسی کی امیدیں اپنی خوش فہمیوں کی طرح مبذول کروانے میں سرگرم تھے۔

26 Jan 2008, Columbia, South Carolina, USA --- Democratic presidential hopeful Senator Barack Obama speaks at a victory rally in Charleston, South Carolina. Obama won the South Carolina Democratic primary.  --- Image by © Stefan Zaklin/epa/Corbis
باراک اوباما ’تبدیلی‘ کے پرفریب نعرے پر برسراقتدار آیا تھا۔

جس روز امریکہ کی تاریخ کے پہلے نیم سیاہ فام صدر کے طور پر اوباما نے انتخاب جیتا تھا تو اس شام اپنی فتح کی تقریر میں اس نے کہا تھا کہ ’’وہ نہ جھکنے والی امیدبن کر آیا ہے‘‘۔ لیکن اپنی صدارت کے آخری سالوں میں اس نے اپنی کتاب میں یہ اعتراف کیا کہ ’’ایسے معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ اپنے مقدر کو اپنے اختیار میں نہیں کرسکتا ہے‘‘۔ اوباما کی8 سالہ صدارت میں خارجہ اور داخلی میدانوں میں ہمیں اس آس کی نراش کا ایک سلسلہ نظر آتا ہے جو آرزوئیں اور ارمان کروڑوں یا اربوں انسانوں نے اس کی صدارت سے منصوب کیے تھے۔ اس نے اپنی مہم کے دوران کیے گئے اہم وعدوں اور اقدامات سے گریز بھی کیا اور بیشتر اوقات اس نے انکے برعکس پالیسیاں جاری کیں۔ مثلاً کیوبا کے ایک چھوٹے سے خطے گوانتاناموبے میں بلند سکیورٹی کا جیل خانہ بند کرنا، اس کے اہم ترین وعدوں میں سے تھا۔ یہ جیل خانہ اپنے تشدد اوراذیتوں کے ساتھ آج بھی قائم ہے۔ اوباما نے خارجی پالیسی کے بارے میں اپنی صدارت کے آغاز پر یہ بیان دیا تھا کہ ’’اگر آپ اپنی مٹھی کھولنے کے لیے ہی مان جاؤتو ہم اپنا کھلا ہاتھ پہلے ہی آپ کی طرف بڑھا چکے ہونگے‘‘۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ اس کے دور صدارت میں زیادہ جارحیت ہی سامنے آئی۔ امن کا نوبل انعام حاصل کرنے کے بعد اس نے اپنے دوسری مرتبہ صدر بننے پرتقریر میں کہا تھا کہ ’’جنگوں کی ایک پوری دہائی کا خاتمہ ہورہا ہے‘‘، جبکہ اسکی ساری حکمرانی کے دوران امریکہ مسلسل اور لگاتار جنگوں کو جاری ہی کرتا رہا۔ عراق سے اس نے فوجیں واپس بلوائیں لیکن جس طرح امریکی سامراج نے اس معاشرے کی بنیادوں کو مجروع اور توڑ پھوڑ کا شکار کیاتھا، امریکہ کی فوجی مداخلت کو اس کا خلا دوبارہ کھینچ کے لے گیا۔ سامراجی مفادات کے تقاضے اوباما کی سول سوسائٹی سوچ سے کہیں زیادہ طاقتور اور ’’پاورپولیٹکس‘‘ پربھاری تھے۔ افغانستان سے انخلا اور دوبار ہ فوجی جارحیت کا سلسلہ جاری رہا۔ 2016ء میں امریکہ سات ممالک میں اوباما کے پسندیدہ ہتھیار’’ڈرون‘‘ کے ذریعے متواتر بمباری کرتا رہا ہے۔ شام میں ’’سرخ لکیر‘‘ کا الٹی میٹم دینے کے بعد جب امریکی بحری بیڑہ گولہ باری کرنے والا تھا تو اوباما ڈگمگا گیا۔ کیونکہ اسکے بعد بڑی فوجی مداخلت ناگزیر ہوجاتی، اور پہلی جنگوں سے تباہ حال معیشت کسی نئے محاذ کی متحمل نہ تھی۔ لیکن پھر مختلف ناکام، کرپٹ اور درندہ صفت مذہبی جنونی پراکسیوں کے ذریعے شام میں امریکی مالی اور فوجی امداد کے ساتھ مداخلت جاری رہی۔ لیبیا میں اوباما نے معمر قذافی کو تو معزول اور بے دردی سے قتل کروا دیا لیکن لیبیا میں جو خونی خلفشار پیدا ہوگیا ہے وہ کسی طرح شام کی خونریزی سے کم نہیں ہے۔ شام میں اوباما کی پالیسیوں کے بارے میں اسکے لگائے ہوئے سی آئی اے کے سربراہ اور وزیر دفاع لیون پنیٹا نے اعتراف کیا ہے کہ’’مشرقِ وسطیٰ میں واقعات کے سلسلے اور پالیسی نے اس سوال کو ابھاردیا کہ کیا امریکہ کبھی اپنی زبان پر قائم رہ سکتا ہے؟‘‘
چین کے ساتھ امریکہ کے متضاد تعلقات مزید خراب ہوئے۔ جس فرد ’نریندرا مودی‘ پرامریکی ویزے کی پابندی تھی اس کو امریکہ میں کسی بھی بھارتی لیڈر سے زیادہ استقبال اوراحترام سے نوازا گیا۔ بھارتی ایٹمی پروگرام میں شراکت فوجی نوعیت کی کم اور امریکی سرمایہ دارانہ اجارہ داریوں کے مفادات اور منافع خوری کے لیے زیادہ کی گئی۔ اوباما اور امریکی میڈیا نے جس پیوٹن کو ایک درندہ بنا کر پیش کیا، اسکی دشمنی مولی لی، وہ امریکی پالیسیوں کی وجہ سے ہی آخر کار ’’فوربز‘‘ کے مطابق دنیا کا سب سے طاقتور ترین شخص بن گیا۔ ایک طرف ایران سے معاہدہ کیا جبکہ دوسری جانب اس نے اپنے پرانے حلیفوں سعودی عرب، خلیجی ممالک کو اپنے بارے میں مشکوک اور ناقابل اعتبار کرلیا ہے۔ اسرائیل کے ساتھ ایران اور دوسری نیم دلانہ پالیسیوں کی وجہ سے اوباما کی دوستی، دشمنی بن گئی۔ جبکہ اسرائیل کی امریکی لابی کا غم وغصہ بھی جھیلنا پڑا اور اسرائیل سے تعلقات خراب کرکے بھی فلسطینیوں کی ذرابھر مدد اور بہتر ی کرنے میں اوباما انتظامیہ ناکام ہی رہی ہے۔
عوام کی فلاح وبہبود اور تبدیلی کے وعدے کرکے صدر بننے والے اوباما نے آتے ساتھ ہی سب سے پہلا کام یہ کیا کہ امریکی خونخوار بینکوں، کاروں اوردوسری بھاری صنعتوں کے مالکان کے خساروں کو امریکی عوام کے خزانے سے کھربوں ڈالر کے ’’بیل آؤٹ‘‘ دیے جس سے امریکہ دنیا کے سب سے مقروض ترین ممالک میں شامل ہو گیا۔ ا س سے سماجی فلاح کے اخراجات میں شدید کٹوتیاں ہوئیں اور امریکہ میں غربت اور محرومی اذیت ناک حد تک سماج میں پھیلتی چلی گئی۔ وائٹ ہاؤس میں ایک سیاہ فام صدارتی جوڑا آجانے سے امریکہ میں سیاہ فام آبادی کا نسلی امتیاز سے ریاستی قتل، غربت اور ذلت میں مزید اضافہ ہی ہوتا چلا گیا ہے۔ اوباما کئیرکو ایک جارحانہ نیولبرل سرمایہ دارانہ نظام میں لانے کا انجام یہی ہونا تھا کہ نجی کمپنیاں علاج کی انشورنش کے پیسے ریاست سے زیادہ قیمتوں پر اور تیز رفتاری سے حاصل کرنے لگیں۔ 35 کروڑ میں سے صرف 2 کروڑ کو یہ علاج کی سہولت حاصل ہوسکی اور علاج کی کمپنیوں نے ریاست کو بے پناہ لوٹا۔ اسی طرح تعلیم کے شعبے میں بھی حالات بد سے بدتر ہوتے چلے گئے ہیں۔ 2001ء سے2014ء کے عرصے میں وہ سکول جن میں 90 فیصد غریب ترین بچے داخل ہیں انکی تعداد دوگنا ہوگئی، یہ کوئی بہتری نہیں بلکہ ابتری کی علامت ہے۔ اوباما کے دور میں سکولوں میں بچوں کے پاس اسلحے کی موجودگی اور قتل عام کی وار داتیں پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئیں۔
اوباما نے اپنے آپ کو ایک ’تبدیلی‘ کی علامت اور ذریعے کے طور پرپیش کیا تھا۔ لیکن جو تبدیلیاں آئی ہیں وہ ہمارے سامنے ہیں۔ سب کچھ بدلا ہے لیکن غریبوں کی زندگی اگر بدلی ہے تو بہتری کے لیے نہیں بلکہ بدتری کے لیے! حقیقت یہ ہے کہ اس کے د ور اقتدار میں نہ صرف صدارت کی طاقت اندر سے کھرچی گئی ہے بلکہ امریکی سامراج کی قوت بھی کھوکھلی ہوگئی ہے۔ اصلاح پسندوں کا المیہ یہ ہوتا ہے کہ نظام چاہے کتنا بھی گل سڑچکا ہو وہ اسی کو ٹھیک اور درست کرنے سے باز نہیں آتے۔ مسئلہ یہ ہے کہ نظام میں اصلاح کی گنجائش ختم ہوچکی ہے۔ امریکی سرمایہ داری کا اقتصادی اور سماجی نظام اس حد تک زوال پذیر ہوچکا ہے کہ اس میں سماجی ترقی کرنے کی صلاحیت ختم ہوچکی ہے۔ اقتصادی اور سماجی بحران کے خلاف بغاوت پہلے وال سٹریٹ پر قبضے کی تحریک (آکو پائی وال سٹریٹ) کی شکل میں 2011ء کے عرصے میں ابھری، پھرسیاسی میدان میں ایک مثبت رجحان، جو سوشلزم کے نعرے کے ساتھ سامنے آیا اور بے پناہ مقبولیت خصوصاً نوجوانوں میں حاصل کرگیا، جس کا تشخص برنی سینڈز بنا۔ لیکن صدارتی امیدواری اسکی جگہ ہیلری کو دے دی گئی۔ اس پس منظرمیں ڈونلڈ ٹرمپ جیسا بڑبولا سٹاک مارکیٹ کا جواری اور پراپرٹی ٹائیکون سامنے آگیا۔ ریپبلکن پارٹی کے قدامت پرستوں نے بھی اس مظہر کو ’’بندر کے ہاتھ میں استرا‘‘ ہی قرار دیا۔ لیکن وہ امریکہ کے بحران کا اظہار ہے کہ ہر قسم کی روایتی سیاست اور معیشت سے اتنی بیزاری پیدا ہو چکی ہے کہ امریکی عوام ایسے مسخروں کو بھی صدر بنا دیتے ہیں۔ لیکن نعرہ اس کا بھی بنیادی طور پر ’تبدیلی‘ کا ہی ہے۔ اگر اوباما امریکہ میں کوئی مثبت تبدیلی نہیں لاسکا تو ٹرمپ نے کون سی تبدیلی لانی ہے۔ بس انتشار اورعدم استحکام اور بین الاقوامی تعلقات کے تضادات مزید شدت اختیار کر جائیں گے۔ پہلے تو امریکی صدارتی انتخابات کا طریقہ انتخاب ہی دھاندلی زدہ ہے۔ پھر اس کے ادارے، ریاست اور ایجنسیاں تمام کی تمام اسی بوسیدہ سرمایہ دارانہ نظام کے تحفظ کے لیے بہت سخت گیر ہیں اور طویل وقت سے تعمیر کردہ ہیں۔ اس لیے امریکہ میں ان انتخابات کے ذریعے تو تبدیلی آنہیں سکتی۔ کارپوریٹ میڈیا تو بالکل بھی نہیں آنے دے گا۔ یہاں نوجوانوں اورمحنت کشوں کی تحریک درکار ہے جو ایک انقلابی سرکشی کے ذریعے امریکی ریاست اور سماج کو یکسر بدل سکتی ہے۔ امریکی میں ایسی سوشلسٹ تبدیلی نسل انسان کے درخشاں مستقبل کا طاقتور آغاز بنے گی۔