کیسا آزادی مارچ؟

[تحریر: قمرالزماں خاں]
اگرتحریک انصاف اور اسکے اتحادی 14 اگست 2014ء کوآزادی مارچ کررہے ہیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 14 اگست 1947ء کو کیا ہوا تھا؟ ستائیس لاکھ بے گناہوں کا قتل عام کس غرض سے کرایا گیا تھا اور ایک کروڑ سے زائد شہریوں کو بے گھر کرکے خونی اور ہولناک ہجرت پر کیوں مجبور کیا گیا تھا؟یہ سچ ہے کہ آزادی کے لفظ کو تاریخ میں ہمیشہ مسخ کیا گیا ہے۔ مگر جیسا کہ لیون ٹراٹسکی نے کہا تھاکہ ’’کوئی جعل سازی خواہ اسکو کسی ریاست کے دیوہیکل ڈھانچے اور وسائل کے بنا پر استوار کیا جائے تاریخ کی کسوٹی پر نہیں ٹھہر سکتی‘‘۔ پھر اس کا یہ مطلب ہوا کہ پاکستان کے حکمران طبقے کا ایک حصہ پاکستان کی ’’آزادی‘‘کو مشکوک قراردے رہا ہے۔ یہ تو سراسر نظریہ پاکستان سے تصادم کی راہ ہے۔ لینن نے ہی کہا تھا کہ ’’انقلاب(سوشلسٹ انقلاب نہ کہ طاہر القادری کی نوٹنکی) سے قبل حکمران طبقہ آپس میں کتوں کی طرح لڑنے لگتا ہے۔ ‘‘ اگرچہ حکمران طبقے کا سچ بھی ہمیشہ ادھورا، آدھا اور اپنی غرض سے مطابقت رکھنے والا ہوتا ہے، اس لئے موجودہ عہد میں بھی اقتدار سے محروم حکمرانوں کے دھڑے پورے سچ سے خوف زدہ ہیں۔ وہ کبھی یہ اقرار کرنے کی جرا ت نہیں کرسکتے کہ چودہ اگست 1947ء کو کھیلا جانے والا کھیل یک طرفہ اور طبقاتی تھا مگر حکمرانوں نے اس وقت بھی عام آدمی کو اسی طرح دھوکہ دیا تھا جس طرح آج عمران خان ایک طبقاتی سماج میں ’’آزادی‘‘ کے لفظ کودانستہ بدنیتی سے استعمال کرکے عام لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ وہ کبھی نہیں بتائے گا کہ منڈی کی معیشت میں رہتے ہوئے ’’آزادی‘‘ منڈی کی قوتوں کی یرغمال ہوتی ہے۔ ایسے سماج میں بالادست قوتیں(جو آبادی کا ایک فی صد بھی نہیں ہوتیں) منافع اور شرح منافع بڑھانے میں آزاد ہوتی ہیں، لوٹ مار، استحصال اور عام لوگوں کو انکے حقوق سے محروم کرنے کی بے پناہ آزادی رکھتی ہیں۔ جبکہ عام آدمی تواپنی مرضی کی زندگی گزارنے کا تعین تک کرنے میںآزادنہیں ہوتا۔ اسکی تعلیم بلکہ نصاب تعلیم کا تعین تک اقلیتی طبقہ کرتا ہے، غریبوں کی خوراک، لباس انکے انداز زندگی کے سارے پہلو انکی قوت خرید کے مطابق متعین کئے جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ کس سماج میں کس قسم کی بیماریاں پھیلائی جائیں یہ بھی فطرت کی بجائے اب سرمایہ داری نظام کے ناخدا کرتے ہیں۔
تقسیمِ ہند کے وہ مقاصد جو ظاہر کئے جارہے تھے دراصل تھے ہی نہیں بلکہ جو پچھلے ستاسٹھ سالوں میں ہوا، یہی مقسوم و مطلوب تھا۔ ان سالوں میں بس ایک ہی کام ہواکہ منڈی کی معیشت اور سامراجی مفادات کو پروان چڑھایا گیا جس کے انعام میں انگریز اور امریکی سامراج کے پروردہ پرانے اور نئے خاندانوں (جن کی ایک بڑی تعداد کے ساتھ عمران خان بغل گیر ہے) کو لوٹ کھسوٹ کی کھلی اجازت دی گئی۔ دوسری طرف محنت کش طبقے کو زندگی کی ہر ضرورت سے محروم کردیا گیا، حتیٰ کہ ان سے صاف ماحول، پینے کا پانی، دباؤ سے پاک زندگی تک چھین لی گئی۔ محنت کے استحصال میں روز بروز شدت پیدا کی گئی۔ غریبوں کی تعداد بڑھا کر امیر اور غریب کے مابین خلیج میں گہرائی کو بڑھادیا گیا۔ پچھلے تمام سالوں میں حکمران طبقے کے تمام جمہوری و غیر جمہوری دھڑوں کی اکثریتی آبادی کے خلاف ’’مفاہمت‘‘ کبھی کمزور نہیں پڑی۔ سماج کو کھینچ کر ساتویں صدی میں دھکیل دیا گیا ہے۔
ریاست کی حقیقی قوتوں کی مدد، آشیر باد اور راہنمائی میں کی گئی دھاندلی کے ذریعے قائم کی گئی نواز حکومت، تاریخ کے اس مرحلے میں برسر اقتدار آئی ہے جب ذاتی لوٹ مار، کمیشن، ٹھیکوں کی بندربانٹ اور میگاپراجیکٹس کے ذریعے چند رشتہ دار اورخاندانوں کی کمائی کے علاوہ کچھ نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی ان میں کرنے کی صلاحیت ہے۔ وہ تمام انتخابی نعرے جو الیکشن کمپئین میں جعلی سنجیدگی اور بناوٹی دکھ سے لگا گئے تھے، اب شریف برادران کامنہ چڑھا رہے ہیں۔ مسئلہ خاصا گھمبیر ہے۔ اگر لوڈ شیڈنگ ختم کی جاتی ہے(جو کہ پانچ منٹ میں کی جاسکتی ہے) توآئی پی پیز کے شرح منافع بڑھانے کی ’’آزادی‘‘کو خطرہ لاحق ہوجائے گا اور عالمی مالیاتی ادارے سخت ناراض ہوں گے۔ اگر پینے کا صاف پانی مہیا کردیا جائے تو نیسلے کی منافع خوری ختم ہوجائے گی اور ’’آزاد منڈی ‘‘ کے قوانین اور بندشوں کے حکم نامے کی خلاف ورزی تصور کی جائے گی۔ اگر گیس کی فراہمی میں تمام رکاوٹیں ختم ہوجائیں تو مقتدر قوتوں کے نمائندہ خاص خاقان عباسی کے قطری پراجیکٹ، سی این جی مافیا سے رشوت ستانی اور تیل اور گیس کے شعبے(جس کو ناکام ظاہر کرنا ضروری ہے) کی نجکاری جیسے اقدامات’’آزادانہ ‘‘نہیں ہوسکیں گے۔ تعلیم اور صحت کی فراہمی سے کالے دھن کی ’’آزادانہ‘‘ لوٹ مار میں شدید خلل پڑ سکتا ہے۔ اگر عام آدمی کو قیمت خرید پر تیل اور ڈیزل فراہم کردیا جاتا ہے تو پھر انٹرنیشنل مانیٹری فنڈزکی دم پر پاؤں آجائے گا اور اسکو مجبوراََ تادیبی کاروائی کرنا پڑے گی۔ آزادی کا لفظ بھی کتنا طبقاتی ہے۔ اگر ایک طبقے کو آزادی مل جائے تو پھر دوسرے طبقے کی آزادی خطرے سے دوچار ہوجاتی ہے۔ لہٰذاسوال پھر پیدا ہوتا ہے کہ ایک طرف حکمران طبقے، ملٹی نیشنل کمپنیوں، سامراجی مالیاتی اداروں اور انکے آلہ کاروں کی آزادی ہے اور دوسری طرف اٹھارہ، بیس کروڑ لوگوں کے مفادات اور نجات کا سوال ہے۔ یہ تو ایک بہت بڑا تضاد ہے۔ ایک کی زندگی دوسرے کی موت ہے۔ چونکہ حکمرانوں کا طبقہ اور مفادات سانجھے ہیں اس لئے وہ عوام کو استعمال ضرور کرتے ہیں مگر انکے مفادات حاصل کرنے کی آزادی تک جانے والے راستے کو ہمیشہ بند ہی رکھتے ہیں تاوقتیکہ کہ عوام، محنت کش طبقے کی قیادت میں اس طبقاتی، ظالمانہ اور گمراہ نظام کے خلاف یورش کرکے انکے اقتداراور تسلط کا خاتمہ نہ کردیں۔ اسی یورش سے حکمران طبقہ ڈر رہا ہے۔
پھر یہ عمران خان کا آزادی مارچ کس بیماری کاعلاج ہے؟جسکا مقصد کسی قسم کی بنیادی تبدیلی کی بجائے نوازشریف کی جگہ خود اقتدار میں آنا ہے، اسی لئے وہ مسائل کی حقیقی وجوہات کی بجائے ثانوی معاملات کو زیادہ اچھال رہا ہے۔ اس کے نزدیک موجودہ گلا سڑا نظام ٹھیک ہے مگر چلانے والے ٹھیک نہیں ہیں۔ یہ ایک مجرمانہ پوزیشن ہے، جس میں نظام کی ناکامی کو افراد کے کندھوں پر ڈال کر انسانیت مجروح کرنے والے نظام کو جاری رکھنے کا جواز فراہم کیا جاتا ہے۔ اس طرح حقیقت کو شعوری طور پر اوجھل کرکے لوگوں کو ایک اور دھوکے کی طرف راغب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ زیادہ سائنسی انداز اختیار کئے بغیر ہی کہا جاسکتا ہے کہ عمران خان کے اندازے، جائزے، تجزیات، دعوے اور بڑھکیں زیادہ وزن نہیں رکھتیں۔ اگرچہ ماضی میں سونامی برپا کردینے کے دعوے، گیارہ مئی کے الیکشن کو 70ء کے الیکشن جیسا قرار دیا جانا، الیکشن میں دھاندلی ہونے کی صورت میں ’’قیامت برپا کردینے‘‘ جیسے دعوے دھول سے بھی ہلکے ثابت ہوچکے ہیں۔ عمران خان کے دعوے زمینی حقائق سے تو مناسبت قطعی طور پر نہیں رکھتے نہ ہی وہ زمین کی طرف دیکھنے پر یقین رکھتا ہے۔ مگر عمران خان کو ہمیشہ آسرا کرانے والی مقتدر قوتیں عین وقت پر دھوکہ دے جاتی ہیں۔ ان کی اپنی مجبوریاں اور اختیارات کے مسائل ہیں۔ مگر غرض مند دیوانہ ہوتا، ہر شکستِ آرزو کے بعد عمران خان کو پھر بظاہر ان نادیدہ قوتوں کی یقین دہانیوں پر اعتبار کرنا پڑتا ہے، ایسا 1997ء سے مسلسل ہوتا آرہا ہے۔ اس دفعہ سونامی کی ناکامی اور 11 مئی کے الیکشن میں تحریک انصاف کو دکھائی اور بتائی گئی کامیابی نصیب نہ ہونے کے بعدکچھ زیادہ مضحکہ خیز کیفیت ہے۔ وہ جن کے دم سے ہر الیکشن ’’انجینئرڈ‘‘ اور طے شدہ نتائج کا حامل ہوتا ہے ان کی سرپرستی میں عمران خان ایسی’’آئینی انتخابی اصلاحات ‘‘کا تقاضہ کررہا ہے جس کے بعد اس کے گمان میں پاکستان میں ہونے والے الیکشن ’’صاف اور شفاف‘‘ ہو جائیں گے۔ حالا ت سارے حکمران طبقے کے لئے خراب ہوچکے ہیں، جن کے اشارۂ ابرو سے مقدر بدلتے تھے اور’’ میر ے ہم وطنوں ‘‘کی للکار سے نئے پی سی او کے ڈرافٹ تیار ہونے شروع ہوجاتے تھے، اب ’گھوسٹ‘ فریقین کے ذریعے عدالتوں، ٹیلی وژن چینلوں، سابق کرکٹروں، ہر شہر کے ناکام ’’سماجی کارکنوں‘‘ کے ناموں سے آویزاں بینروں کے ذریعے اپنی عزت و آبرو کی رکھوالی کے درخواست گزار نظر آتے ہیں۔ عمران خان منڈی کی معیشت کا زبردست داعی اور حامی ہے مگر وہ اس حقیقت سے چشم پوشی کررہا ہے کہ اسکے گاڈ فادرز بھی لکشمی دیوی کے ہی پجاری ہیں اور منڈی کی معیشت میں ہر چیز بیچی اور خریدی جاسکتی ہے۔
تین سو ترتالیس حلقوں کی بجائے چار حلقوں کی جانچ پڑتال کے مطالبہ کو مطلوبہ پذیرائی نہ ملنے کے بعداب عمران خان ’’آزادی مارچ‘‘ کے نام سے حکومت الٹانے اور مڈ ٹرم الیکشن کے مطالبے سے 14 اگست کو اسلام آباد کی طرف پیش قدمی کرنے جارہے ہیں۔ ان کے خیال میں وہ اور انکے ممی ڈیڈی کارکنان ’’ساون بھادوں ‘‘کے موسم میں حکومت ختم کرنے تک اسلام آباد رہیں گے۔ بادی النظر میں ایسا براہ راست ہونا ممکن نہیں ہے البتہ مقتدر حلقے نواز حکومت کے اردگرد اپنے سکہ بند حلیفوں کا دائرہ تنگ کررہے ہیں تاکہ ایک دباؤ پیدا کرکے اپنے مطلوبہ مقاصد کے لئے شریف حکومت کو جھکا سکیں۔ مگر ایسا ہونے کے باوجود موجودہ نظام کی موجودگی میں کوئی کلاسیکل صاف اور شفاف الیکشن دیوانے کا خواب ہے۔ اس ملک میں ایک تو الیکشن کمیشن ہوتا ہے جوا اتنا ہی مضبوط اور غیر جانبدار ہے جتنی کی پاکستان کی عدلیہ۔ دوسراان کے اوپر ان ’’فرشتوں‘‘ کاہالہ ہوتا ہے جو اس ملک میں آئی جے آئی بنواتے ہیں، دوتہائی اکثریت دیتے اور پھر کان سے پکڑ کر نکال دیتے ہیں۔ جو ڈیلیں اور این او آر کرتے ہیں اور پھر کسی چوں چرا پرجلاوطن بھی کراتے ہیں اور شہادتیں تک کرادیتے ہیں۔ کسی طبقاتی سماج میں صاف اور شفاف الیکشن ممکن ہی نہیں ہیں اور پاکستان میں تو گرہیں زیادہ ہیں اور ان کو کھولنا ان حکمرانوں کے بس میں نہیں جن کو اپنے لالے پڑے ہوئے ہیں۔
عمران خان انتخابات سے قبل اپنے دعوؤں کی شکست کو دھاندلی کے پلڑے میں ڈال کر اپنی بے مقصد سیاست کو ایک تحرک فراہم کررہا ہے۔ اس مقصد کے لئے کوئی نہ کوئی سائن بورڈ تو چاہئے تھا، غلط سیاسی اصطلاحوں کے موسم میں انہوں نے لفظ ’’آزادی‘‘ کی بے حرمتی کی ٹھانی ہے۔ جس ملک میں طاہر القادری جیسے مشکوک افراد ’’انقلاب‘‘ لانے کی باتیں کرتے ہوں وہاں کچھ بھی ہانک دینا مشکل کام نہیں ہے۔ طبقاتی سماج میں آزادی کا مطلب بھی بقول لینن’’حکمران طبقے کی عام لوگوں کو غلام بنائے رکھنے کی آزادی‘‘کے سوا کچھ نہیں ہے۔ عمران خان کو انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ، سامراجی جبر، دباؤ، قوانین اور احکامات، محنت کے استحصال اور لوٹ مار، سرمائے کے جبر، ذاتی ملکیت اور اسکی وحشت کی غلامی پر کوئی اعتراض نہیں ہے جس کا شکار پاکستان کے کروڑوں محنت کش، مزدور اور کسان ہیں، اسکا آزادی مارچ قطعی طور پر پاکستان کے غلام عوام کی رہائی کے لئے نہیں بلکہ اقتدار کی غلام گردشوں میں عمران خان کے ’’آزادانہ‘‘ دندنانے کا نام ہے۔
عمران خان کو گیارہ مئی کے الیکشن میں شدید حزیمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اگر اسکی جسمانی صحت کو (لیفٹ سے گرا کر)پہلے سے خراب نہ کردیا گیا ہوتا تو شاید اس کے ذہنی اور نفسیاتی مسائل آج کی نسبت زیادہ گھمبیر ہوجاتے۔ اس کے بالمقابل نواز شریف کا مینڈیٹ بھی انہی مقتدر قوتوں کا مرہون منت ہے جو الیکشن کے زمانے میں ڈبل گیم کرکے خواب بیچ رہے تھے۔ عمران خان کو الیکشن کے ایک سال بعد یاد آیا ہے کہ ریاض اور واشنگٹن سے پاکستان میں مداخلت کی جاتی ہے، مداخلت کے خلاف اسکا یہا ں بھی نحیف قسم کا احتجاج الیکشن کی حد تک ہے، اسکو متذکرہ ممالک کی پاکستان میں معاشی، سفارتی مداخلت سے جاری ڈاکہ زنی، پراکسی جنگوں، اور خونریزی سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ عمران خاں کا تاریخ، معیشت اورجغرافیہ کا علم اور ’’وژن‘‘ کسی رٹا باز استادکی کاروائی لگتی ہے۔ ہر جلسے اور سیمینار میں اس کی باتیں کسی اور ہی دنیا کی کہانی بتاتی نظر آتی ہیں۔ کبھی وہ کہتا ہے کہ ہم پاکستان کو چین کی طرح کرپشن سے پاک ملک بنائیں گے، اس کا ٹیوٹر شاید بتانا بھول گیا کہ چین اس وقت دنیا کے سب سے زیادہ بدعنوان حکمران طبقے کی جکڑبندی میں ہے۔ اسی طرح 3 اگست کو انہوں نے فرمایا کہ ’’مسلمان دنیا میں سات سو سال تک سپر پاور رہے‘‘، یہ دنیا کی تاریخ کو بدلنے کی ایک نئی کوشش ہے مگر اسکے لئے حوالہ جات کا بندوبست کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا۔ دوسری طرف دھاندلی میں لتھڑی مسلم لیگی حکومت، تحریک انصاف کے نام نہاد آزادی مارچ کی نسبت اپنی مجرمانہ حیثیت، لوڈ شیڈنگ، مہنگائی اور زبان زد عام ’’ناکام حکومت‘‘ کے تاثر کی وجہ سے کانپ رہی ہے۔ اسلام آباد کو فوج کے حوالے کرنا اور انسانی بنیادی حقوق اور عدالتوں کے اختیارات کی سلبی والے قوانین کے اطلاق سے ثابت ہورہا ہے کہ نواز حکومت کتنی بوکھلاہٹ کا شکار ہے۔ بالمقابل قوتوں میں طاقت کی بجائے کمزوری اور ذہنی انتشار کا مقابلہ چل رہا ہے۔ ہمیں پھر یاد رکھنا چاہئے کہ یہ جعلی تحریکیں، نام نہاد انقلاب اور دھرنے اس حقیقی بغاوت کے ممکنہ ابھار کا پیشگی ’’بندوبست‘‘ کرنے کے لئے رچائے جارہے ہیں جس کو اب حکمران طبقہ بھوک زدہ اور اس نظام کے ستائے ہوئے افراد کے ماتھوں پر پڑھ رہا ہے۔ ان ناٹکوں کا مقصد کچھ ہونے سے پہلے ہی فضا کو دھول زدہ کرکے اصل اور نقل کی پہچان ختم کرنا ہے۔ مگر ان جعل سازیوں اور ڈراموں کے ذریعے سماج میں موجود طبقاتی تضادات اور موجودہ نظام سے نفرت کو کم بھی نہیں کیا جاسکتا اور مستقبل میں اس نظام کے خلاف اٹھنے والی تحریک کو بھی راہ گم گشتہ پر نہیں ڈالا جاسکتا۔ جب محنت کش طبقہ تاریخ کے میدان میں نکلے گا تو ان تمام رکاوٹوں کو ایک ہی ساعت میں اڑا کر رکھ دے گا۔

متعلقہ:
فرسودہ سیاست کی جعلی کشمکش!
انقلابوں کے سوداگر