وطن میں جلا وطن!

[تحریر: لال خان]
فوجی آپریشن کا شوق رکھنے والے حکمران دھڑے کو شاید اندازہ نہ تھا، یا وہ اندازہ لگانا ہی نہیں چاہتے تھے کہ اس قسم کی کاروائی سے کتنی بستیاں تاراج اور کتنے خاندان برباد ہوں گے۔ 7 جولائی تک آنے والی خبروں کے مطابق آپریشن کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے افراد کی تعداد ساڑھے سات لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ افغانستان ہجرت کرنے والوں کی تعداد کا اندازہ ایک لاکھ لگایا جارہا ہے۔ یہ اعداد و شمار ISPR کی پریس ریلیزوں اور ریاستی عہدہ داروں کے بیانات سے اخذ کئے گئے۔ پناہ گزینوں کی حقیقی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوسکتی ہے۔ بے گھر ہونے والے خاندانوں کی اکثریت انتہائی غریب ہے۔ شدید گرمی میں میلوں پیدل چل کے کیمپوں میں پہنچنے والے ہزاروں بزرگوں اور بچوں کی تصاویر اور رپورٹیں گزشتہ کئی ہفتوں سے میڈیا پر شائع ہورہی ہیں۔ بچوں کی بڑی تعداد غذائی قلت اور بیماریوں کا شکار ہے۔ خوراک اور علاج تو دور کی بات پناہ گزین کیمپوں میں بیت الخلاء تک کی مناسب سہولیات میسر نہیں ہیں۔
دو دن پہلے ملک کے ایک بڑے انگریزی روزنامے میں سرائے نورنگ نامی علاقے سے ہجرت کرنے والے ایک خاندان کی اندوہناک داستان شائع ہوئی۔ خاندان کے سربراہ کا نام انصاف اللہ ہے جس کی چاروں بیٹیاں تھیلسیمیا میں مبتلا ہیں۔ بچیوں کو زندہ رہنے کے لئے ہر پندرہ دن بعد ’بلڈ ٹرانسفیوژن‘ کی ضرورت ہے۔ انصاف اللہ کہتا ہے کہ ’’صرف میں ہی جانتا ہوں کہ علاقے میں بمباری شروع ہونے کے بعد میں نے بچیوں کو لکی مروت کیسے پہنچایا۔ سفر کے دوران میں خدا سے دعا کرتا رہا کہ میری بچیوں کو اٹھا لے۔ میں انہیں مارنا نہیں چاہتا لیکن میں جانتا ہوں کہ آنے والا وقت بہت تاریک ہے۔ میں نہیں چاہتا میرے بچے اس اذیت سے گزریں۔ ‘‘ایک خاندان کی یہ کہانی ان درد ناک حالات کا اندازہ لگانے کو کافی ہے جن سے باقی کے ساٹھ ہزار خاندان گزر رہے ہیں۔
فوجی آپریشن سے ہٹ کر بات کی جائے تو بھی اس ملک میں آبادی کے وسیع حصے کو ’’اندرونی پناہ گزین‘‘ بننے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔ عوام کو کہیں چین اور سکون میسر نہیں ہے۔ غربت اور بیروزگاری سے مجبور کروڑوں لوگ بڑے شہروں میں ہجرت کرنے پر مجبور ہیں۔ پاکستان بننے کے بعد سے کراچی کی آبادی تین لاکھ سے بڑھ کر دو کروڑ اور لاہور کی آبادی سات لاکھ سے بڑھ کر ایک کروڑ تک پہنچ چکی ہے۔ صرف پچھلے پندرہ سالوں میں کراچی کی آبادی دوگنا ہوچکی ہے اور یہ پشتونوں کا سب سے بڑا شہر بن چکا ہے۔ ملک کے کونے کونے سے روزگار اور محنت کش مسلسل بڑے شہروں کا رخ کررہے ہیں لیکن روزگارکے مواقع بڑھنے کی بجائے سکڑ رہے ہیں۔ ٹرانسپورٹ، رہائش، تعلیم اور علاج کی سہولیات نا پید ہیں یا عوام کی پہنچ سے بہت دور۔ جھونپڑ پٹیاں اور کچی آبادیاں بڑھتی جارہی ہیں۔ بجلی، پانی کی فراہمی اور نکاس کا انفراسٹرکچر سرے سے موجود ہی نہیں ہے یا پھر گل سڑ چکا ہے۔ نتیجہ جرائم، افرا تفری، بیماریوں، مہنگائی اور غربت میں اضافے کی شکل میں برآمد ہورہا ہے۔ ’’سیاسی‘‘ پارٹیوں سے وابستہ قبضے، منشیات اور بھتہ خوری جیسے جرائم میں ملوث مافیا گروہ پھل پھول رہے ہیں۔ نہ صرف بہتر زندگی کی تلاش میں بڑے شہروں کا رخ کرنے والوں کی زندگیاں پہلے سے زیادہ اذیت کا شکار ہورہی ہے بلکہ مقامی آبادی کے معاشی اور سماجی مسائل بھی بڑھتے جارہے ہیں۔
آج شمالی وزیرستان سے دربدر ہونے والوں کے ساتھ وہی سلوک ہورہا ہے جو سیلاب یا زلزلوں جیسی آفات میں اجڑنے والوں کے ساتھ ہوتا آیا ہے۔ بے سر و سامانی کے عالم میں دربدر ہونے والے یہ لاکھوں لوگ حکمرانوں اور ’’مخیر حضرات‘‘ کے لئے محض پبلسٹی کے ذرائع کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان حالات میں آٹے کے تھیلے اور امدادی چیک تقسیم کرتے ہوئے ہر زاویے سے تصاویر اور فلمیں بنوائی جاتی ہیں۔ خونخوار سرمایہ داروں میں ’’انسانیت‘‘ کا درد جاگ اٹھتا ہے۔ محنت کش عوام کا خون پسینہ نچوڑ کر کھرب پتی بن جانے والے چند کروڑ روپے کی ’خیرات‘ کر کے نیک نام ہوجاتے ہیں۔ ایک طرف دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ہورہا ہے تو دوسری طرف فرقہ وارانہ قتل عام میں ملوث ’’کالعدم‘‘ تنظیمیں ’’ امداد‘‘ کی آڑ میں سر عام زہریلے لٹریچر کی تقسیم اور ریکروٹمنٹ میں مصروف ہیں۔
عمران خان کے مطابق اسے پتا ہی نہیں تھا کہ آپریشن میں اتنے لوگ بے گھر ہوں گے۔ آئی ڈی پیز کی امداد کی حکومتی اپیلیں دراصل ریاست کی ناکامی اور بے بسی کا اعلان ہیں۔ شرم نامی کوئی چیز پاکستانی حکمرانوں کو چھو کر نہیں گزری۔ جو ریاست خود اپنے اساسوں کی لوٹ سیل لگا کر خسارے پورے کررہی ہو اس سے امید بھی کیا کی جاسکتی ہے؟ حکمران مالی امداد کے اعلان کرتے ہیں تو بیوروکریٹوں کی شیطانی ہنسی چھپائے نہیں چھپتی۔ مال دیکھ کر آخر کون خوش نہیں ہوتا؟متاثرین کے ساتھ تصویریں کھنچوانے اور کیمپوں کے دورے کر کے واپس محلات میں لوٹنے والوں کو بعض اوقات یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ وہ کہاں سے ہو کر آئے ہیں۔ شروع سے لے کر آخر تک، ایسے دوروں کی ہر چیز طے شدہ ہوتی ہے۔ کس ’’پناہ گزین‘‘ کو گلے لگانا ہے، کیسے مال تقسیم کرنا ہے، کس مقام پر کیا باڈی لینگویج ہونی چاہئے، تقریر میں کیا بولنا ہے اور چہرے کے تاثرات کیا ہونے چاہئیں وغیرہ وغیرہ۔ سب کچھ سکرپٹ کے مطابق ہوتا ہے اور فلم میڈیا پر ریلیز کر دی جاتی ہے۔
طالبان کے ساتھ مذاکرات جعل سازی کے سوا کچھ نہ تھے۔ یہ درست ہے کہ دہشت گردوں نے ہر طرف تباہی مچا رکھی ہے اور ان کا صفایا ضروری ہے۔ لیکن دہشت گردی کی معیشت کو ختم کئے بغیر، ایک علاقے میں فوجی آپریشن کے ذریعے کیا دہشت گردی ختم ہوسکتی ہے؟ فوجی آپریشن بھی اس ناسور کو ختم کرنے میں ناکام رہا تو کیا ہوگا؟اوریہ دہشت گرد آخر آئے کہاں سے ہیں؟ انہیں کس نے پروان چڑھایا؟ دہشت گردی کا یہ کاروبار کب اور کیوں شروع ہوا؟ ان مسلح گروہوں کو کب کب، کس کس کے خلاف استعمال کیا جاتا رہا؟ کیا ریاست کے حاوی دھڑے اس کھلواڑ کا حصہ نہیں رہے؟کیا امریکی سامراج آج بھی ان وحشیوں کو اسلحہ اور مالی امداد نہیں دے رہا؟ کیا اسٹریٹجک ڈیپتھ کی پالیسی آج بھی جاری نہیں ہے؟ملکی سالمیت پر وار اور حب الوطنی کی خلاف ورزی تصور کئے جانے والے یہ انتہائی بنیادی سوالات جن کا جواب تلاش کئے بغیر ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھا جاسکتا۔
’’اچھے‘‘ اور ’’برے‘‘، عسکری اور ’’غیر عسکری‘‘ طالبان کا مسئلہ بھی بڑا گھمبیر اور مضحکہ خیز ہے۔ پتہ نہیں یہ آپریشن ہو کس کے خلاف رہا ہے کیونکہ طالبان نام کی کوئی یکجا، منظم اور نظریاتی اکائی سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ سمگلنگ، بھتہ خوری، اغوا کاری وغیر میں ملوث پچاس سے زائد مقامی اور ’’غیر مقامی‘‘ گروہ وزیرستان سے لے کر کراچی تک متحرک ہیں۔ کنٹرول میں رہ کر مرضی کا کام کرنے والا گروہ ’’اچھا‘‘ اور متحارب دھڑے یا سامراجی قوت کے لئے کام کرنے والا گروہ برا ہوجاتا ہے۔ سوائے سرکاری یا فوجی میڈیا کے، کسی کو وزیرستان میں کوریج کی اجازت نہیں ہے لیکن اس دھندے میں بھی بڑے بڑے جگادری بیٹھے ہیں۔ سوشل اور الیکٹرانک میڈیا کے اس جدید دور میں خبریں باہر آہی جاتی ہیں۔ یکم جولائی کو برطانوی اخبار ’’انڈپینڈنٹ‘‘ میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق ’’بہت سے دہشت گرد گروہوں کی قیادت کو آپریشن کی پیشگی اطلاعات تھیں اور وہ پہلے ہی افغانستان اور ’دوسرے‘ محفوظ مقامات پر منتقل ہوگئے تھے۔‘‘ وزیرستان سے آنے والے عام لوگوں کے بیانات بھی اس خبر کی تصدیق کرتے ہیں۔ یہ اطلاعات کس نے دیں اور کون سے ایسے جاسوس ہیں جو سرکاری ایجنسیوں کی بھی جاسوسی کر گئے؟ یہ ایک اور چبھتا ہوا سوال ہے۔
وزیرستان اور قبائلی علاقوں میں کوئی صنعت ہے نہ ہی زراعت۔ سکول ہیں نہ ہسپتال۔ اس پسماندگی، نا خواندگی اور بے روزگاری کو پہلے امریکی سامراج اور علاقائی طاقتوں نے 1978ء کے افغان ثور انقلاب کے خلاف ڈالر جہاد میں استعمال کیا۔ دہشت گردی اور ’’جہاد‘‘ کی منافع بخش کالی معیشت جنگی سرداروں اور ان کے ریاستی آقاؤں کو مالا مال کرتی رہی اورغریب خاندانوں کے نوجوانوں کے لئے روزگار کا ذریعہ بن گئی۔ مالیاتی سرمائے اور کالے دھن کی سرائیت نے پسماندگی کو دور کرنے کی بجائے زیادہ بگاڑ دیاہے۔ جنگی سرداروں، جرگوں کے عمائدین اورقبیلوں کے سربراہان نے اپنے جبر و تسلط کو قائم رکھنے کے لئے عوام کو قرون وسطیٰ کے متروک سماجی ڈھانچوں میں جکڑ رکھا ہے۔ ’’بفر زون‘‘ اور قبائلی حکمران طبقے کے ذریعے علاقے پر جزوی کنٹرول قائم رکھنے کی پالیسی انگریز سامراج کے بعد پاکستانی حکمرانوں نے بھی اپنائے رکھی۔ جو ریاست لاہور، کراچی یا پشاور میں عوام کے مسائل حل نہیں کرسکتی اس سے وزیرستان میں ترقی اور خوشحالی کی امید بالکل بھی نہیں کی جاسکتی۔ جب تک دہشت کی مالیاتی بنیادوں، سماجی و معاشی پسماندگی اور بے روزگاری کا خاتمہ نہیں کیا جاتا، دہشت گردی پروان چڑھتی رہے گی۔ ریاست کے مختلف دھڑوں کا ٹکراؤ اور سامراج کی مداخلت اس آگ کو بھڑکاتے رہیں گے۔ یہ نظام آگ اور خون کے کھواڑ میں وزیرستان کے عوام کو دہائیوں سے تاراج کررہا ہے۔ لیکن اس نظام کے خلاف بغاوت کے فیصلہ کن معرکے وزیرستان میں نہیں بلکہ حکمرانوں کی کوکھ کا درجہ رکھنے والے میٹروپولیٹن شہروں میں لڑے جائیں گے!

متعلقہ:
دہشت گردی کا ناسور
’’طالبان‘‘ کا مفروضہ
لرزتی ریاست کا فوجی آپریشن
آپس کے مذاکرات
’’مذاکرات‘‘ اور ’’جنگ‘‘ کا کھلواڑ