[تحریر: لال خان، ترجمہ: نوروز خان]
حال ہی میں عمران خان نے لانگ مارچ کا ایک بیہودہ چربہ پیش کیا جسے آدھے راستے میں ایک دم ختم کر دیا گیا۔ اس سے متعلق سیاسی اشرافیہ کا رد عمل پاگل پن سے بھرپور یا پھر مضحکہ خیز تھا۔ اس کی حمایت کرنے والی جماعت اسلامی اوردیگر مذہبی تنظیمیں ریاست کے دھڑوں کے حکم پر ایک انتہائی دائیں بازو کی سیاسی قوت بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔کمرشل ملاں اور لبرل بورژوا سیاست دان اپنا اپنا الو سیدھا کرنے کے چکر میں لگے رہے۔ ایک دوسرے کی بے عزتی اور الزام تراشیوں کے کھیل میں مجبور عوام کے حقیقی مسائل کو پس پشت ڈال کر ، کرپشن کی غلاظت میں لتھڑی اور نظریات اور سوچ کی گراوٹ پر مبنی سیاست کے کاروبار میں یہ معمول کی بات تھی۔ عمران خان کے مارچ کے خلاف ان کی تنقید اور بد تمیز حملوں کے پیچھے اس کے ہاتھوں ان کی سیاست چھن جانے کا خوف تھا۔ عمران خان کے مطابق یہ ایک شاندار کامیابی تھی اور اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ ایک سو سے زائد چینلزپرقبائلی علاقہ جات کے عوام کے مصائب کو عالمی میڈیا میں پیش کیا گیا۔ کیا ’عالمی برادری‘، اقوام متحدہ یا ڈورن حملے کرنے والے امریکی سامراج کو یہ سب دکھایا جا رہا تھا؟کیا وہ ہیل فائر (Hellfire) میزائل مارتے پریڈیٹر اور ریپر ڈرون تیاروں کی بربادی اور خونریزی سے لا علم ہیں؟ امریکی سامراج کے زیر استعمال 10,000سے زائد ڈرون ہیں جن کا سالانہ بجٹ پانچ ارب ڈالر ہے۔ امریکی ریاست نیواڈا کے دوردراز اور محفوظ مقام سے انہیں کنٹرول کیا جاتا ہے اور اب یہ تباہی پھیلانے کا پسندیدہ آلہ بن چکے ہیں۔ سچ تو یہ کہ اس میں بہت منافع ہے۔ڈرون طیاروں کی منڈی پہلے ہی 5.9ارب ڈالر مالیت کی ہے اور دس برسوں میں دگنا ہو جانے کی توقع ہے۔ ’’جنگ ایسی قوت ہے جو ہمیں معنی دیتی ہے‘‘ نامی کتاب میں کرس ہیجز نے انکشاف کیا ہے کہ بیسویں صدی کی جنگوں میں چھ کروڑ بیس لاکھ افراد ہلاک ہوئے۔عراق اور افغانستان کی جنگوں پر ہونے والے 4.4ہزار ارب ڈالر میں سب سے بڑا حصہ جنگی صنعت اور میڈیا کمپنیوں کو گیا۔ بے حساب شرح منافع کے لیے ایسی جنگیں اور خونریزیاں سامراج کی جنگی صنعت کی ضرورت ہیں۔
عمران خان نے کہا کہ لانگ مارچ کا خاتمہ ’فوج کے روکنے سے نہیں بلکہ انکی جانب سے وزیرستان میں موجود خطرات کی آگاہی‘ کی وجہ سے کیا گیا۔ کیا وہ اتنا سادہ ہے کہ اسے وزیرستان کی جانب لانگ مارچ اور اس کا اعلان کرنے سے قبل اس علاقے میں موجود ’خطرات‘ کی خبر ہی نہ تھی؟یا فوج نے اپنے مفادات کی لڑائی اور سامراجی آقاؤں کے ساتھ سودے بازی کے لیے اس سارے کھیل کو رچا یا؟حال ہی میں چودہ سالہ بچی ملالہ یوسف زئی پر سفاک قاتلانہ حملے سمیت ہزراوں افراد کو قتل اور اپاہج کر دینے والے طالبان کے دہشت گرد حملوں کی بربریت ان اسلامی بنیاد پرستوں کی درندگی کا واضح اظہار ہے۔گزشتہ چند برسوں کے طائرانہ جائزے سے واضح ہوتا ہے کہ کس طرح سے پاکستان کی سکیورٹی کو چلانے والے قومی شاؤنزم اور مذہبی عصبیت کو بھڑکاتے ہیں، لیکن ہر موقع پر صرف مٹھی بھر ڈالروں کے عوض انہوں نے اپنی محبوب اور مقدس قوم پرستی کو ترک کر دیا۔ وزیرستان کے مجبور عوام شاید مشترکہ اور نا ہموار ترقی کی بد ترین شکل کا شکار ہیں۔یہاں کبھی تار والا ٹیلی فون نہیں آیا لیکن سیٹیلا ئٹ فون آ گیا۔ ریل یا اچھی ٹرانسپورٹ پر لوگوں نے سفر نہیں کیا لیکن ہوائی جہاز آ گئے۔ قبائلی سماج میں نلکے کا پانی نہیں آیا لیکن کیبل ٹیلی وژن پہنچ گیا۔ نسبتاً کم منافع بخش صنعتی کاروبار سے پہلے منشیات کی تجارت نے یہاں جرائم کی معیشت قائم کر دی۔اس بیاباں میں جدید ترین آلات نے اس علاقے میں قرون وسطیٰ کی ثقافت اور روایات کو توڑ ڈالا ہے۔ جس متروک سماجی بنیاد پر قبائلی تعلقات اور ڈھانچہ کھڑا تھا، ٹیکنالوجی اور معاشی یلغار کی نا ہمواری نے اس تانے بانے کو ادھیڑ کر رکھ دیا ہے۔ماضی کے سماجی و معاشی رشتوں میں کالا دھن بہت گہرا سرائیت کر چکا ہے۔قبائلی وفاداریاں، غیرت وغیرہ، اب برائے فروخت اجناس بن چکی ہیں۔ لیکن سامراجی اور سرمایہ دارانہ جدیدیت اس خطے کو قرون وسطیٰ کی پسماندگی سے نکالنے میں ناکام رہی ہے۔ بلکہ اس سے زمانہ قدیم کا معاشی اور سماجی نظام مزید پیچیدہ اور مسخ ہو گیا ہے۔ یہ پسماندگی اب پر تشدد طریقے سے اس لاچار، خونخوار اور شب گرفتہ جدیدیت کے خلاف انتقام لے رہی ہے۔
سرمایہ داری اتنی کمزور اور خصی ہے کہ اس خطے کو ترقی نہیں دے سکتی۔ یہ جدید انفرا سٹرکچر، صحت کا نظام اور تعلیم فراہم نہیں کر سکتی۔ جنگی سردار، جن میں اکژیت ملاؤں کی ہے، ’’پرہیزگاری‘‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہولناک جرائم میں ملوث ہیں اور بے پناہ دولت مند ہیں اور کہیں دور اپنے محلات میں امارت کے مزے لوٹتے ہیں۔ یہ لوگ انتہائی بے رحمی سے محروم نوجوانوں کا استحصال کرتے ہیں اور انہیں اپنی کرائے کی جنگوں کا ایندھن بناتے ہیں۔ ان کی ہر وقت بدلتی وفاداریاں بکنے کی بجائے سامراجیوں اور دیگر ریاستوں کو کرائے پر دی جاتی ہیں۔بدحال عوام کو نہ صرف بے حد محرومی اور اذیت ناک زندگی کا سامنا ہے بلکہ وہ نسل در نسل سامراجیوں کے کھلواڑوں میں کراس فائر کا نشانہ بنتے چلے آ رہے ہیں۔
جہاں سماجی و معاشی ترقی کی بنیاد دشدید ناہموار اور مشترکہ ترقی ہے وہیں ایک نئی نسل اس عمل کے دوران جوان ہوئی ہے۔ دو جہنموں کے درمیان پھنسے ہونے کے باوجود، انہوں نے ایک عالمی نکتہ نظر حاصل کیا ہے اور بہت سے میدانوں میں لائق طلبا نے اپنی قابلیت کا اظہار کیا ہے۔ انہیں اس حقیقت کی آگہی ہے کہ سامراجی اور بنیاد پرست لالچ اور ہوس ایک ہی معاشی اور سماجی نظام کے نمائندہ ہیں جو کہ سرمایہ داری ہے۔ صورتحال کا یہ پہلو2008ء کے انتخابات میں سامنے آیا جب کامریڈ علی وزیر نے وانا وزیرستان (حلقہ این اے41) سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا۔ اس کا مقابلہ دائیں بازو کے ملاؤں سے تھا اور اس کا پروگرام علاقے کے عوام کو درپیش حقیقی مسائل پر مبنی تھا۔ علی وزیر نے شدید طریقے سے سامراجی جارحیت اور بنیاد پرست دہشت گردی کی مخالفت کی۔ اس نے اعتراف کیا کہ وہ ایک کمیونسٹ ہے اور ایک پر زور مہم چلائی۔اس انتخاب سے نتائج متنازعہ ہو گئے اور لمبے عرصے تک انہیں روک لیا گیا۔قبائلی علاقوں میں ووٹوں کی شرح کو دیکھیں تو سرکاری طور پر اعلان کردہ ووٹ علی وزیر کی فتح کے لیے کافی تھے۔ لیکن بالآخر عدلیہ نے ایک ملا کو ترجیح دی۔ میڈیا کی جانب سے چھپائی جانے والی یہ حقیقت شاید بہت سے لوگوں کے لیے حیرت انگیز ہو لیکن انقلابی سوشلزم کے پروگرام پر مبنی مہم اور اسے ملنے والا بڑے پیمانے کا رسپانس، خصوصاً وزیرستان کے نوجوانوں کی جانب سے، اس خطے کے تناظر کو ایک نئی جہت دیتا ہے۔آنے والے انتخابات اور واقعات میں، اس بڑھتے ہوئے رجحان کے اثرات کو چھپانا میڈیا کے لیے آسان نہیں ہو گا۔ مجبوروں کی اس جدوجہد کو پاکستان اور افغانستان میں طبقاتی جدوجہد کے ساتھ منسلک کر کے ایک ایسی تحریک میں یکجا کیا جا سکتا ہے جو ہوس اور جبر کے اس نظام کی زنجیریں توڑ ڈالے گی۔یہ نوجوان اس جنگ اور استحصال سے نفرت کرتے ہیں۔انہیں اس بھیانک سپنے سے آزادی حاصل کرنے کے راستے کی تلاش ہے۔ اور بالآخر انہیں یہ ملنا شروع ہو گیا ہے۔
متعلقہ: