تحریر: راہول
فرانس میں ریلوے ملازمین نے تین ماہ کے عرصہ کے لئے ہڑتالوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ فرانسیسی خبر رساں ایجنسی کے مطابق ریلوے ملازمین کے ہڑتال کے پروگرام کے تحت وہ ہر ہفتے پیر سے جمعہ تک کے دنوں میں دو مرتبہ ہڑتال کریں گے۔ مطالبات پورے نہ ہونے پر یہ سلسلہ 28 جون تک جاری رہے گا۔ ہڑتال کرنے والے ملازمین کا مطالبہ ہے کہ صدر ایمانوئل میکرون سرکاری ٹرین کمپنی (ایس این سی ایف) میں وسیع تر ’’اصلاحات‘‘ کا منصوبہ ترک کریں۔
فرانس میں یومیہ بنیادوں پر ساڑھے چار ملین افراد ان ٹرینوں پر سفر کرتے ہیں۔ ان ہڑتالوں کو فرانس کے صدر کے اقتصادی اصلاحات کے پروگرام کے لیے ایک بڑا امتحان قرار دیا جا رہا ہے۔ دراصل صدر ایمانوئل میکرون کی نیو لبرل پالیسیوں کے خلاف یہ پہلی وسیع مزاحمتی تحریک ہے جس نے میکرون کے اقتدار کو لرزا دیا ہے۔ ہڑتال کے آغاز میں جرمنی اور برطانیہ جانے والی ٹریفک سمیت توانائی اور ویسٹ کلیکشن کے شعبے بھی متاثر ہوئے۔ یونینز کا کہنا ہے کہ قرضوں میں ڈوبی ریاستی ریل کمپنی (SNCF) کی ’تنظیم نو‘ کے منصوبے اس کی نجکاری کا راستہ ہموارکرنے کے لئے بنائے گئے ہیں۔ ’SNCF‘ کے تقریباً 77 فیصد ڈرائیور آغاز میں ہڑتال پر رہے۔ فرانس کی ورک فورس کا صرف 11 فیصد یونینوں میں منظم ہے جو یورپی یونین میں سب سے کم شرح ہے۔ لیکن روایتی طور پر یونینز بہت طاقتور رہی ہیں اور فرانس کی سیاست اور معیشت پر اثرانداز ہوتی رہی ہیں۔ فرانس کی سب سے بڑی کنفیڈریشن CGT، انسا، سڈ ریل اور سی ایف ڈی ٹی یونینز نے حکومت کو تنبیہ کی ہے کہ مطالبات تسلیم نہ ہونے کی صورت میں ہڑتالوں کا یہ سلسلہ جولائی سے اگست تک بھی بڑھ سکتا ہے۔ یونین کے قائدین نے فرانسیسی میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ’ حکومت ان سے مذاکرات نہیں چاہتی اور ایسے میں وہ ان کے اس ہڑتالی سلسلے کو مزید آگے دھکیل رہے ہیں۔ ‘ مظاہرے کے دوران مختلف اخبارات سے بات کرتے ہوئے مظاہرین کا کہنا تھا کہ گزشتہ چار سالوں سے ان کی تنخواہوں میں کوئی اضافہ نہیں ہوا اور نہ ہی دیگر مراعات میں کوئی بہتری آئی ہے۔ ایک اور سگنل ورکر کا کہنا تھا کہ وہ ان احتجاجوں میں لطف اندوزی کے لئے شریک نہیں ہوئے ہیں بلکہ وہ نجکاری نہیں چاہتے کیونکہ ’’نجکاری ایک جہنم ہے!‘‘
فرانس میں بڑھتی یہ ہڑتالیں محض ریلوے تک محدود نہیں ہیں بلکہ مختلف دوسرے اداروں میں بھی اس دوران ہڑتالیں کی گئی ہیں۔ تعلیم کے شعبے میں اصلاحات سے متعلق حکومت فرانس کی پالیسیوں کے خلاف طلبہ کے احتجاج کے بعد فرانس کی 4 بڑی یونیورسٹیوں کو بند کر دیا گیا۔ فرانس کے’24 ٹی وی‘ نے 3 ہفتے قبل شروع ہونے والے طلبہ کے احتجاج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے رپورٹ دی ہے کہ تعلیم سے متعلق مختلف اصلاحات کے خلاف یونیورسٹی طلبہ کے احتجاج کا دائرہ اب اس یونیورسٹی تک پھیل گیا ہے جہاں فرانس کے موجودہ صدرنے بھی تعلیم حاصل کی تھی۔ تعلیمی اصلاحات میں بعض مضامین میں تعلیم حاصل کرنے کیلئے غیر ملکی زبانوں میں مہارت کی شرط عائد کر دی گئی ہے جبکہ فیسوں میں اضافے سمیت دوسرے مسائل سے بھی آج فرانس کے طلبہ جوجھ رہے ہیں۔
میکرون کی نیو لبرل سرمایہ دارانہ حکومت کے خلاف یہ بغاوت تیزی سے مختلف شعبوں میں پھیلتی جا رہی ہے۔ ہزاروں طلبہ یونیورسٹی کیمپسوں میں احتجاج کر رہے ہیں جبکہ کچرا جمع کرنے والے مزدور بھی کام کے حالات کار کے خلاف ہڑتال کر رہے ہیں۔ مزدور تنظیموں نے ان مزدوروں سے اپیل کی ہے کہ وہ قومی سطح کی کلیکشن سروس اور بہتر ریٹائرمنٹ کی مراعات کے لیے جدوجہد کریں۔ مزدوروں نے کچھ ’ویسٹ ٹریٹمنٹ پلانٹس‘ کو بند کر دیا ہے۔ توانائی کے شعبے کے مزدوروں نے توانائی کی منڈیوں کی لبرلائزیشن اور ڈی ریگولیشن کے خلاف ہڑتالوں کا اعلان کیا ہے۔ فضائی نقل و حمل کے نظام میں بھی خلل آیا ہے۔ منگل 24 اپریل کو ایئر فرانس کو تنخواہوں میں اضافے کے لیے ہڑتال کی وجہ سے اپنی ایک چوتھائی پروازیں منسوخ کرنا پڑیں۔ یورپ کی دوسری سب سے بڑی ایئر لائن’ ایئر فرانس‘ کے ملازمین تنخواہوں میں 6 فیصد اضافے کا مطالبہ کر رہے ہیں اور کئی دنوں سے ہڑتال پر ہیں۔ حالیہ 19 اپریل کی ہڑتال میں طلبہ سمیت محنت کشوں کی تعداد ’CGT‘ یونین کے مطابق پچاس ہزار بتائی جا رہی ہے جو پچھلے لمبے عرصے میں فرانس کی ایک بڑی ہڑتال ہے۔
فرانس میں امڈتی یہ تحریکیں بنیادی طور پر یورپی یونین اور خاص طور سے فرانس کے اس معاشی بحران کا اظہار ہیں جس سے وہ دس سال پورے ہونے کے باوجود بھی نہیں نکل پایا ہے۔ پہلے کٹوتیوں اور اب اصلاحات کے نام پر عوام سے ان کی طویل جدوجہد کے بعد حاصل کی گئی مراعات چھینی جا رہی ہیں۔ میکرون انتظامیہ کے تمام تر ترقی کے دعووں کے باوجود بھی پچھلے سال کی طرح اس سال بھی فرانس کی معاشی شرح نمو 2.1 ہی رہی جس میں آئندہ سال کمی کا اندازہ لگایا جا رہا ہے۔ مختلف ہتھکنڈے استعمال کر کے میکرون’ معیشت کی بحالی اور خوشحالی ‘ کا واویلا کررہا ہے لیکن یہ تمام تر اپنائی گئی پالیسیاں کسی صورت بھی عوام دوست نہیں ہیں اور ان سے محض بڑی کارپوریشنز ہی کو فائدہ ہورہا ہے۔ حال ہی میں ایک سروے میں فرانس کی 58 فیصد عوام نے فرانسیسی صدر سے ناخوشگواری ظاہر کی ہے۔ شام پر حملے کے فیصلے کو بھی عوام میں شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ جس تیزی سے میکرون کی مقبولیت میں اضافہ ہوا تھا اب وہ اسی رفتار تحلیل ہونی شروع ہوگئی ہے۔ جس طرح سابقہ صدر اولاندے کی مقبولیت میں ایک تاریخی زوال دیکھا گیا تھا توقع کی جا رہی ہے کہ میکرون کا تجربہ اس سے بھی بدتر ہوگا۔
آج فرانس کے نوجوانوں سمیت سماج کی ہر پرت میکرون حکومت کے حملوں کی زد میں ہے۔ اگر SNCF کی نجکاری ہوجاتی ہے تو اس سے ادارے کا قرض اترے نہ اترے لیکن ان سرمایہ داروں کے سامنے دولت کے انبار لگ جائیں گے۔ اس ساری صورتحال میں حکومت ’SNCF‘ کے متعلق یہ جواز پیش کررہی ہے کہ انہیں اس ادارے کو 57 بلین ڈالر کے قرضے سے چھٹکارا دلانا ہے جبکہ ادارے کا اسٹرکچر تبدیل کرکے اسے آنے والے دو سالوں میں یورپی یونین کے قوانین پر لانا ہے۔ فرانس میں ٹرینوں کے کرائے پورے یورپ سے تیس فیصد زائد ہیں اور یہ جواز پیش کیا جارہا ہے کہ ان اصلاحات کے بعد ان کی شرح کم ہوجائے گی۔ دراصل میکرون بھی سرمایہ داروں اور اس کارپوریٹ سیکٹر کا نمائندہ ہے اور اس کا اپنایا ہر ہتھکنڈا کسی طور عوام کو خوشحالی نہیں بخش سکتا۔ صدر میکرون کے اس حالیہ اصلاحاتی منصوبے کو 1984ء میں برطانوی وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر کی نجکاری کی پالیسیوں سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔ لیکن آج صورتحال مختلف ہے اور ’’گھر کے برتنوں‘‘ کی نیلامی فرانس میں اتنی بھی آسان نہیں کیونکہ یہاں حکمرانوں کو ہڑتالوں اور تحریکوں کی عظیم روایت رکھنے والے محنت کش طبقے کا بھرپور سامنا ہے۔
فرانس کی تاریخ ایسی ہڑتالوں سے بھری پڑی ہے جنہوں نے حکمران طبقے کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا۔ اولاندے کے دور میں بھی اسی طرح کا ایک اصلاحاتی منصوبہ شروع کیا گیا تھا جسے محنت کشوں کی ہڑتال نے ناکام بنا دیا۔ حالیہ تحریک بھی اپنے پورے جاہ و جلال کے ساتھ آگے کی طرف گامزن ہے لیکن ٹریڈ یونین قیادت کی غداریوں اور مصالحت کی وجہ سے اکثر ان تحریکوں کو پسپائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس ہڑتال کو بھی دو سے تین ماہ تک مسلسل جاری رکھنا ایک کٹھن مرحلہ ہوسکتا ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود بھی یہ تحریک فرانس کے محنت کش طبقے کے شعور کو جھنجوڑنے میں ایک اہم قدم ثابت ہوسکتی ہے۔ فرانس سمیت یورپ میں ہڑتالوں کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی پرولتاری طبقے کی۔ یہاں انسانی تاریخ کی پہلی عام ہڑتال 1830ء میں برطانیہ میں ہوئی جسے ’نیشنل ہالیڈے‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس ہڑتال کے بعد ہر دور میں محنت کشوں نے خود کو یونینوں میں منظم کرکے کئی فتوحات حاصل کیں۔ خود فرانس میں نصف صدی قبل مئی 1968ء میں ہوئی ہڑتال ایک انقلابی سرکشی کی نہج تک پہنچ گئی تھی جسے اصلاح پسندوں نے زائل کر دیا۔ اس وقت فرانس میں جو کچھ ہوا اس کی شدت اور حدت اس قدر تھی کہ اس نے نہ صرف فرانس کی ریاست اور حکمران طبقات بلکہ دنیا کے ہر ایوان اقتدار کو ہلاکے رکھ دیا تھا۔ یہ واقعات محنت کش طبقے کی سماجی، معاشی اور سیاسی طاقت کو ابھار کے سامنے لے آئے تھے۔ فرانس میں ہوئے ان انقلابی واقعات کے بارے میں کامریڈ ٹیڈ گرانٹ نے لکھا تھا کہ’’ سینکڑوں فیکٹریوں میں کوئی پرزہ اپنی جگہ سے نہیں ہلا۔ نہ ہی وہاں پبلک ٹرانسپورٹ کا ایک پہیہ چل پایا۔ رجعتی اخبار ایسی سبھی خبروں کو سنسر کر رہے تھے۔ یہی حالت ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی بھی تھی۔ فرانس کے لاکھوں مزدوروں نے اپنے ہاتھ روک لیے اور سبھی فرانسیسی سرمایہ دارانہ کمپلیکس بند ہوچکے۔ یہ ہوتی ہے وہ دیوہیکل طاقت جو محنت کش طبقے کے عمل میں آنے سے عیاں ہوتی ہے۔ یہ جواب ہے ان مایوس دانشوروں اور مفکرین کے اس غلط واویلے کا کہ محنت کش طبقہ تو بے بس، بے حس اور محض چار پیسوں کا غلام ہوتا ہے وغیرو وغیرہ۔ جب سیاسی طور پر ناخواندہ مزدور بھی یہ دیکھتے اور سیکھتے ہیں کہ ان کے اپنے مزدور بھائی اقتدار میں آنے والے ہیں… لیکن فرانسیسی ٹریڈ یونین قیادت کی بزدلانہ ، نیم دلانہ پالیسیوں کی وجہ سے ایسا نہیں ہوسکا۔ یہ وہ سبق ہے جو فرانس کے اُن واقعات سے حاصل ہوتا ہے جنہوں نے فرانس کے حکمران طبقات سمیت دنیا بھر کے استحصالیوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ ‘‘
اس سال فرانس کے اس عظیم انقلاب کو برپا ہوئے پچاس سال کا عرصہ مکمل ہوجائے گا۔ پچاس سال قبل رونما ہوئے اس نامکمل انقلاب سے حالیہ تحریک کے پاس سیکھنے کو کئی اسباق ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تحریک کو پورے سماج تک پھیلایا جائے جس طرح 1968ء میں محنت کشوں کے پیچھے طلبہ ، اساتذہ ، کسانوں ، سائنسدانوں اور تمام محنت کرنے والے لوگوں کو اس جدوجہد میں شامل کیا گیا تھا۔ جس طرح جرمن اور بیلجیم کے ٹرین ڈرائیوروں نے فرانس کے محنت کشوں کے لئے اپنی ٹرینیں سرحدوں پر روک دی تھی۔ بالکل اسی طرح حالیہ تحریک کو بھی اسی قسم کی وسعت اور بین الاقوامی یکجہتی درکار ہے۔
یورپ میں طبقاتی جدوجہد کے حوالے سے فرانس ایک اہم ملک کی حیثیت رکھتا ہے۔ فرانس کے محنت کش طبقے نے ایک نہیں کئی بار بلکہ ہر بار یہ ثابت کردکھایا ہے کہ وہ اپنی انقلابی روایات کو کبھی نہیں بھولا۔ عوام اپنے مسائل کے حل کیلئے راہ نجات تلاش کررہے ہیں۔ مارکس اور اینگلز نے فرانس کو ’’انقلابات کی ماں‘‘ کہا تھا۔ پرولتاریہ کا پہلا انقلاب پیرس کمیون تھا جب15 مارچ سے 28 مئی 1871ء تک اقتدار محنت کشوں کے ہاتھ میں تھا۔ یہ طبقاتی جدوجہد کی تاریخ کا اہم سنگ میل تھا۔ اسی طرح فرانس میں مئی 1968ء کا انقلاب ایک عظیم انقلابی بغاوت تھی جو کامیاب ہو کر تاریخ بدل سکتا تھا۔ آج ایک بار پھر فرانس کے محنت کش اور نوجوان میدان عمل میں اتر رہے ہیں۔ حالیہ بحران کے عرصے میں انہوں نے بہت کچھ سیکھا ہے اور دور رس نتائج اخذ کئے ہیں۔ وہ بالخصوص یونان کی تحریک کی پسپائی کے نتیجے میں پچھلے کچھ سالوں کے نسبتاً جمود کے بعد ایک بار پھر پورے یورپ کو جھنجوڑ رہے ہیں۔ لیکن آج بھی انہیں ایک مارکسی قیادت درکار ہے۔ ایک انقلابی قیادت کے تحت فرانس کا انقلاب نہ صرف یورپ کو بدل کے رکھ دے گا بلکہ ساری دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف انقلابی بغاوتوں کو بھڑکانے والی چنگاری ثابت ہو گا۔