تحریر: ظفر اللہ
منیر نیازی کے بقول اس ملک پہ آسیب کا سایہ معلوم ہوتا ہے۔ لوگ دل کی گہرائیوں سے ہنسنا تک بھول گئے ہیں۔ عوام کو ضروریات زندگی کے حصول میں اتنا الجھا دیا گیا ہے کہ ان کی زندگی جانوروں سے بھی بدتر ہوگئی ہے۔ پورے سماج پر مسلسل مایوسی کی چھاپ ہے۔ لوگ زندگی گزارنے کے چکر میں زندگانی سے محروم ہو گئے ہیں۔ لیکن دن رات مسلسل محنت اور جدوجہد کے باوجودبمشکل ہی ضروریات زندگی کا حصول ممکن ہوپاتاہے۔ اور ایک بہت بڑی اکثریت بنیادی ضروریات سے بھی محروم ہے۔ لوگوں کی خون پسینے کی کمائی ایک جھٹکے میں مہنگائی کی نذر ہو کر غائب ہوجاتی ہے۔ ساری آمدن کرایوں، بجلی اور گیس کے بلوں میں اُڑ جاتی ہے۔ مہنگائی کی حالیہ یلغار کے بعد ایسے لاکھوں محنت کش ہیں جن کی پچھلے پورے ماہ کی آمدنی صرف بجلی اور گیس کے بل کھا گئے ہیں۔ لیکن حکمران اتنے بے حس اور بے بس ہو چکے ہیں کہ وہ چاہ کر بھی کچھ نہیں کر سکتے۔ یہ سرمایہ داری کے بحران کی بدترین کیفیت ہے جس میں مارکس کے بقول ’’حکمران طبقہ اپنے غلاموں، جن پر خود ان کا نظام قائم ہے، کوزندہ رکھنے کے قابل بھی نہیں رہا۔‘‘
درآمدی ڈیوٹیوں میں اضافے اور سرمایہ داروں کو بے شمار رعایتیں دینے کے باوجودکرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں کمی نہ ہونے کے برابر ہے۔ برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہو رہا۔ ساری معاشی حکمت اور دانش دھری کی دھری رہ گئی ہے۔ چین، متحدہ عرب امارات اور سعودی امداد کی شکل میں زرمبادلہ کے ذخائر میں معمولی اضافہ تو ہواہے لیکن یہ بہت ہی مختصر مدت کا ریلیف ہے۔ اور ان ڈالر وں پر سود الگ ادا کرناہے۔ معیشت مجموعی طور پر سست روی کا شکار ہے اور بمشکل ہی 2.8 فیصد کا گروتھ ریٹ حاصل ہو پائے گا۔ آئی ایم ایف سے ڈیل کے تقاضوں کوڈیل سے پہلے ہی پورا کیا جا رہا ہے۔ روپے کی قدر میں کمی، سبسڈیوں کے خاتمے اور بجلی اور گیس کے بلوں میں اضافے کا عمل جاری ہے۔ بے پناہ مراعات‘ یعنی لوٹ مار کی کھلی چھوٹ کے باوجود سرمایہ کاری نہیں ہو رہی۔ بیرونی اور اندرونی سرمایہ کاری مسلسل کمی کا شکار ہے۔ سرمایہ داروں کا رجحان قلیل مدتی سرمایہ کاری کر کے زیادہ سے زیادہ منافعے بٹورنے کی طرف ہے۔ اس کی وجہ سے معیشت کے کلیدی اور پیداواری شعبوں میں سرمایہ کاری کا فقدان ہے۔ جس کی وجہ سے بیروزگاری بڑھ رہی ہے اور آنے والے دنوں میں اس میں اضافہ ہی ہوگا۔ بنیادی طور پر یہ ایک تاخیر زدہ سرمایہ داری کا بحران ہے جو آج تک مستحکم نہیں ہو سکی۔ قومی منڈی کی تشکیل اور جدید قومی ریاست کی صحتمندانہ بنیادوں پر تعمیر میں ناکامی کے نتیجے میں یہاں کا حکمران طبقہ مجبور ہے کہ وہ شارٹ کٹ طریقے ایجاد کرکے اپنی دولت اور اثر رسوخ میں اضافہ کرے۔
ہر لبرل معاشی ماہر کے پاس بحران کے حل کی ایک ہی گیدڑ سنگھی ہے: بیرونی سرمایہ کاری۔ ظاہر ہے اس نظام کے محافظ پالیسی ساز اور دانشور اسی نظام کے اندر رہتے ہوئے مسائل کا حل تلاش کرتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے یہ سارے طریقے اب ناکام ہو چکے ہیں۔ اب عالمی معیشت میں اتنی توانائی نہیں رہی کہ وہ کمزور معیشتوں کو اپنے پیچھے کھینچ سکے۔ ترقی یافتہ معیشتیں خود اتنی کمزور اور بحران زدہ ہیں کہ اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ پچھلی صدی کے دوسرے نصف میں بہت حدتک اس کی گنجائش تھی کہ عالمی معیشت مختلف اتار چڑ ھاؤ کے باوجود آگے بڑھتی رہی۔ لیکن اب سارا عمل اپنے الٹ میں بدل گیاہے۔
تحریک انصاف کی نئی حکومت کی اپنے آغاز میں بہت آنیاں جانیاں تھیں۔ بڑے بڑے دعوے اور نعرے لگائے گئے۔ لیکن یہ جتنی جلدی ناکام و نامراد ہوئے ان کے آقاؤں نے سوچا بھی نہیں تھا۔ معاشی بحران ناگزیر طور پر سیاسی اور سماجی بحران کو جنم دیتا ہے۔ جو آنے والے دنوں میں شدت سے ابھرتے ہوئے نظر آئیں گے۔ ’’پرانے حکمران‘‘ جیسے تیسے کرکے معاملات گھسیٹ رہے تھے۔ لیکن اتنے سیانے وہ تھے کہ عوام‘ بالخصوص درمیانے طبقے میں آرزؤں اور امنگوں کے سوتے ہوئے دیو کو بیدار کرنے سے گریز کرتے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ جن کو بوتل سے نکالا توجاسکتا ہے لیکن واپس بند کرنا مشکل ہوتا ہے۔ لیکن عمران خان نے مادی حقائق سے ماورا ہو کے جو نعرے بازی کی تھی اب اس کی قیمت چکانے کا وقت آ گیا ہے۔
موجودہ حکومت نے جن بنیادوں پر معیشت کی حکمت عملی ترتیب دی تھی وہ بالکل کھوکھلی تھیں۔ اس نام نہاد پالیسی کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہ تھا۔ کرپشن کے خاتمے، ٹیکس اصلاحات اور قرضوں میں کمی کی تمام کوششیں آغاز میں ہی غارت ہو گئیں۔ کیونکہ یہ خرابیاں اب نظام کامستقل حصہ بن چکی ہیں۔ ان کو ختم کرنے کے لیے پورا نظام ختم کرنا پڑے گا جو ایک اصلاح پسند پارٹی نہیں کر سکتی۔ جائز و ناجائز غیر رسمی معیشت اتنی حاوی ہے کہ اس کاخاتمہ ممکن نہیں۔ بلکہ رسمی معیشت اسی غیر رسمی معیشت کے بلبوتے چل رہی ہے۔ اس کو کنٹرول کرنے کے خطرناک نتائج نکل سکتے ہیں۔ پچھلے کچھ مہینوں میں معاشی پالیسیوں میں مسلسل تبدیلیاں اور تذبذب اسی حقیقت کی غمازی کرتے ہیں۔ دوسری طرف وسیع نجکاری کے منصوبے پر خاموشی سے عملدرآمد کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ مگر المیہ یہ ہے کہ اداروں کو بیچنے کے قابل بنانے کیلئے بھی خطیر رقم درکار ہے۔ نجکاری کے مسئلے پر محنت کشوں کی بڑی مزاحمت کا خوف الگ سے ہے۔ اسٹیٹ لائف اور یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن کے محنت کشوں کی مزاحمت نے سرکاری پالیسی سازوں کو سوچنے پر مجبور کردیا ہے جس کی وجہ سے نئے طریقے ایجاد کرکے نجکاری کی کوششیں کی جائیں گی۔ اور اس سلسلے میں ماضی کی حکومتوں سے زیادہ بے رحمی اور سردمہری کا مظاہر ہ کرکے محنت کشوں پر وار کیے جائیں گے۔ گہرے معاشی بحرانوں کے ایسے ادوار میں حکمرانوں کے لیے محنت کشوں پر بوجھ ڈالنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ اس کے نتیجے میں محنت کشوں کی طرف سے مزاحمت ناگزیر ہوجائے گی۔
اس کیفیت میں سعودی ولی عہد کا حالیہ دورہ پاکستان حکمرانوں کے لیے اندھیری سرنگ میں روشنی کی موہوم سی کرن ثابت ہوئی ہے۔ 20 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدے ڈوبتے کے لیے تنکے کا سہارا ہیں۔ لیکن یہ سرمایہ کاری بھی زیادہ تر پہلے سے موجود اداروں کی خریداری اور بجلی پیداکرنے کے منصوبوں وغیرہ پر مشتمل ہے جس سے معیشت کی گروتھ اور روزگار میں اضافے کے امکانات مخدوش ہیں۔ ماضی میں پاکستان اور اس جیسے دوسرے ممالک میں بیرونی سرمایہ کاری کے نتائج سب کے سامنے ہیں کہ کس طرح یہ سرمایہ کاری محنت کشوں کا مزید خون چوستی ہے اور ان کی زندگی کی اذیتوں میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔ جو سرمایہ کاری کنٹریکٹ ملازمت، مراعات اور تنخواہوں میں کٹوتیوں اور کم سے کم مزدوروں سے زیادہ سے زیادہ پیداوار لینے پر مبنی ہو وہ زندگی کی تلخیوں میں کمی کی بجائے اضافے کاباعث ہی بن سکتی ہے۔
لیکن معیشت کے دیوالیہ پن کی موجودہ کیفیت میں سعودی سرمایہ کاری کے لئے حکمرانوں کا فرش راہ ہونا ان کی شدید فرسٹریشن کی غمازی بھی کرتا ہے۔ ابھی سعودی ولی عہد کی خدمت گزاری اور حمد و ثنا جاری تھی کہ پلوامہ حملے کے بعد پاک بھارت تعلقات میں تناؤ پیدا ہونا شروع ہوگیا۔ 26 فروری کو انڈین جنگی طیاروں نے پاکستانی سرحد کے اندر داخل ہو کر بالاکوٹ کے علاقے جابہ میں بارودی مواد گرایا اور کہا کہ پلوامہ حملے میں ملوث جیش محمد کے کیمپ پر حملہ کر کے تین سو دہشت گردوں کو ہلاک کر دیاگیا ہے۔ بدلے میں پاکستانی فضائیہ نے اگلے دن انڈین جنگی جہاز گرا کر پائلٹ گرفتار کر لیا جو کہ یکم مارچ کو بھارتی حکام کے حوالہ کر دیا گیا۔ اس سارے عمل میں دونوں ملکوں میں جنگی جنون کی فضا کو خوب پروان چڑھایا گیا۔ انتخابی ماحول میں پاک بھارت کشیدگی کو ہمیشہ سے ایک اوزار کے طور پر استعمال کر کے نفرت اور تعصب کی بنیاد پر قوم پرستی کے جذبے کو ہوا دینے کی روایت پرانی ہے۔ تقسیم ہند سے لے کر اب تک ساڑھے تین جنگوں اور نام نہاد امن کے دورانیوں سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ دونوں ممالک کے حکمران طبقات نہ جنگ کے متحمل ہو سکتے ہیں نہ ہی پائیدار امن کے۔ جموں کشمیر کے سلگتے ہوئے مسئلے کو انہوں نے اپنی ضروریات کے تحت برقرار رکھا ہوا ہے۔ دونوں ریاستوں کی افواج اس مسئلہ کی آڑ میں ایک خطیر رقم دفاع کے نام پر حاصل کرتی ہیں۔ ان ہزاروں ارب روپوں سے خطے میں غربت کا نام و نشان مٹایا جا سکتا ہے۔ لیکن مسئلہ کشمیر کے حل نہ ہونے سے بین الاقوامی طاقتوں کے بھی مالیاتی اور سٹریٹجک مفادات وابستہ ہیں۔ جہاں اسلحہ کی فروخت سے بے پناہ منافعے کمائے جاتے ہیں وہاں اس خطے پر امریکی سامراج اپنی بالادستی قائم رکھنے کے لئے بھی اس مسئلے کے مستقل حل میں رکاوٹ ہے۔ کئی بار جنگ کی کیفیت ابھار کر اور کبھی امن کے ناٹک کر کے کروڑوں انسانوں پر جبر و استحصال کی حکمرانی کو طوالت دی جاتی ہے۔ عام سادہ لوح انسانوں کے لہو میں نفرت، مذہبی تعصب اور قوم پرستی کے زہریلے احساسات بھر کے‘ انہیں تقسیم کیا جاتا ہے۔ جس طرح مشہور جرمن جرنل کلازوٹز نے کہاتھا کہ جنگ دوسرے طریقوں سے داخلی سیاست کا ہی تسلسل ہوتی ہے۔
لیکن بر صغیر کے دو بڑے ملکوں کے حکمرانوں کا آپس میں غیر اعلانیہ اتحاد اور ہم آہنگی ہے تاکہ ڈیڑھ ارب انسانوں پر اپنی حاکمیت کو مسلط کر سکیں۔ پچھلے دنوں جنگ کی کیفیت میں ایک ٹی وی پر سابق ڈی جی آئی ایس پی آر جنرل اطہر عباس نے اس بات کا اعتراف کیا کہ ممبئی حملوں کے بعد ایک اعلیٰ ہندوستانی اہلکار کی طرف سے پاکستان سے رابطہ کر کے کہا گیا کہ عوامی دباؤ کو زائل کرنے کے لئے ہندوستانی فوج کو پاکستان کے کسی غیر آباد اور ویران علاقے میں کاروائی کی اجازت دی جائے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کس طرح دونوں ممالک کے حکمران اپنے لوگوں پر جنگی جنون مسلط کرتے ہیں۔ لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ جنگی حالات مکمل جنگ کی طرف نہیں بڑھ سکتے۔ اگرچہ اس کے امکانات بہت کم ہیں۔ جنگ کا ہونا یا نہ ہونا کلی طور پر افراد کے کنٹرول میں نہیں ہوتا۔ حکمران طبقہ دہائیوں سے جنگی ناٹک اور قومی شاونزم کو ابھار کر حالات اور رائے عامہ کو اس نہج تک لے جاتا ہے جہاں سے بعض اوقات واپسی کی خواہشات کے باوجود بھی واپسی ممکن نہیں ہوپاتی۔ پھر ایک خود رو عمل کا آغاز ہوتا ہے جو بے لگام ہو سکتا ہے۔ کنٹرول ختم ہو جاتا ہے اور خود واقعات سب کی رہنمائی کر رہے ہوتے ہیں۔ سب بے بس ہوتے ہیں۔
یہ سارا عمل پہلے سے موجود سماجی اضطراب کو ایک دھماکے سے بڑے بحران میں بدل سکتا ہے۔ سماج ٹوٹنے کی طرف بڑھتے ہیں اور ریاست کا کنٹرول اور گرفت سماج پر ختم ہونے لگتی ہے۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ جنگوں کی کوکھ سے انقلابات جنم لیتے ہیں۔ حکمران طبقے کے سنجیدہ حلقے بھی اس سارے عمل سے شعوری یا لاشعوری طور پر آگاہ ہوتے ہیں۔ اسی لئے ہر ممکن بچاؤ کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی لئے پاکستانی حکمران طبقے کی طرف سے جنگ سے گریز اور امن کی نام نہاد کاوشوں کا اظہار ہو رہا ہے۔ مودی کو الیکشن جیتنے کے لئے ایسے حالات کی ضرورت ہے اس لئے وہ ڈھیٹ بنا ہوا ہے۔ لیکن اس پورے کھلواڑ میں آر پار کشمیری غریبوں اور عام سپاہیوں کا خون پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے۔ لیکن ایک نئی نسل بھی جوان ہو رہی ہے جو دونوں ملکوں کے حکمران طبقے سے نفرت کر رہی ہے اورجدوجہد کی نئی صف بندیاں ہو رہی ہیں۔ جو پچھلے عرصے میں واضح طور پر ہندوستانی مقبوضہ کشمیر میں نوجوانوں کی تحریک کی شکل میں نظر آئی ہیں۔ دوسری طرف جنگی ماحول کی آڑ میں بجلی و گیس کی قیمتوں میں اضافے اور پنجاب کے ہسپتالوں میں علاج کی قیمتیں کئی گنا بڑھانے کی واردات کر دی گئی ہے۔ حکمران ہر اس کیفیت سے فائدہ اٹھاتے ہیں جس میں انہیں عوام پر معاشی حملے کرنے کا موقع ملتا ہے۔ یہ سارے عوامل بتدریج انداز سے محنت کش طبقے کے شعور کو بلند کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔ عام لوگوں پر حکمرانوں کی حقیقت آشکار ہو رہی ہے۔
یہ درست ہے کہ محنت کش طبقہ اپنی روایتی قیادتوں، جن کی باقیات ہی آج بچی ہیں، کی غداریوں کی وجہ سے بالعموم صدمے اور بے عملی کی کیفیت کا شکار ہے لیکن ایسا ممکن نہیں ہے کہ ظلم بڑھتا رہے اور لوگوں میں بغاوت کے احساسات بیدار نہ ہوں۔ یہ عمل سست روی سے ہی سہی لیکن مسلسل جاری ہے جو کسی نہج پر بھڑک کر سب کو حیران کر سکتا ہے۔ ایسی زندگی کی اذیتیں اور ذلتیں لامتناہی طور پر نہیں سہی جا سکتیں۔ وہ طویل ہو سکتی ہیں لیکن مستقل نہیں۔ آنے والے دنوں میں ایسے مواقع پیدا ہو سکتے ہیں جو محنت کشوں کو کھلی بغاوت کے راستے پر گامزن کریں۔