| تحریر: راہول |
انیس ماہ گزرنے کے بعد بھی مشرقی وسطیٰ کے سب سے غریب ملک یمن پر سعودی جارحیت تھمنے کا نام نہیں لے رہی۔ 8 اکتوبر کو ایک جنازے پر حملے میں 150 لوگوں کی ہلاکت کے بعدیہ سلسلہ شدت اختیار کر گیا ہے۔ 29 اکتوبر کو یمن کے جنوب مغربی صوبے تعز میں ’سعودی اتحاد‘ کے فضائی حملے میں 17 عام شہریوں کو ہلاک کیا گیا جبکہ اس کے دوسرے روز ہی ایک جیل کمپلیکس اتحادیوں کے حملے کا نشانہ بنا جس میں ہلاکتوں کا اندازہ 43 لگایا جارہا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق اس لڑائی میں اب تک دس ہزار سے زائد لوگ ہلاک ہوچکے ہیں اور اس تنازعے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال کو دنیا کے بدترین انسانی بحران میں سے ایک قرار دیا جارہا ہے۔ جہاں ایک طرف حلب میں پیدا ہونے والی صورتحال پر دنیا بھر کے ’’انسانی حقوق کے علمبردار‘‘ مگرمچھ کے آنسو بہا رہے ہیں وہیں امریکی اور برطانوی حکام کی یمن کے اس خونی کھلواڑ میں شمولیت شاید ہی اب کسی سے ڈھکی چھپی ہو۔ آٹھ اکتوبر کے حملے میں استعمال ہونے والے اسلحے کا امریکی ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں بلکہ اس بات کا کھلا اظہار ہے کہ سامراجی عزائم کے آگے ہزاروںیا لاکھوں لوگوں کے قتل عام کی کوئی خاص حیثیت نہیں۔
حالیہ تنازعہ بھی سعودی ایران چپقلش کا ہی حصہ ہے، اور ہمیشہ کی طرح مسلسل یہ جتانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ یہ سب کچھ فرقہ وارانہ بنیادوں پر ہورہا ہے اور سعودی عرب ایران کے خلاف اپنے فرقے کے تحفظ کے لئے کھڑا ہے۔ لیکن بنیادی طور پراس سب کے پیچھے سامراجی عزائم کارفرما ہیں۔ یمن میں بھی قتل عام اس لئے جاری ہے کیونکہ سعودی عرب خطے میں ایرانی تسلط کو قبول نہیں کرسکتا اور وہ یمن، جس کا جنوبی بارڈر سعودی عرب سے ملتا ہے، کو چاہے کسی بھی قوت کو سونپ دیں لیکنحوثی باغیوں، جنہیں ایران کا حمایت یافتہ سمجھا جاتا ہے، کے حوالے کرنا اعتراف شکست کے مترادف ہے۔ حوثیوں کے خلاف اس سعودی جارحیت میں ایران کے مقابلے میں اپنی طاقت کو منوانا اور جتانا ہی خاص طور پر مقصود ہے۔
سعودی عرب اپنے قیام سے ہی امریکی اور برطانوی سامراج کا اس خطے میں سب سے پرانا اور اہم ’دوست‘ رہا ہے۔ سامراج کی لوٹ مار میں’ہاؤس آف سعود‘ کی وفاداریوں کا کوئی جواب نہیں۔ بیسویں صد ی کی دوسری دہائی میں جب سلطنت عثمانیہ ٹوٹ کر بکھر رہی تھی تو سامراجی خطے کی بندربانٹ کے لئے متحرک تھے اور کئی نئے ممالک کے اجرا کو یقینی بنانے کے لئے کوشش کی جارہی تھی۔ سائیکس پیکوٹ ٹریٹی، بلفور ڈکلیریشن اور ٹریٹی آف ورسیلس چند ایک ایسے اہم معاہدے تھے جن کے ذریعے سامراجی قوتوں نے مشرقی وسطیٰ کو کچھ اس طرح بانٹا کہ تمام چھوٹی چھوٹی ریاستیں ایک دوسرے سے برسرپیکار رہیں اور سامراجی قوتیں خطے کو اپنے کنٹرول میں رکھیں۔ دسمبر 1915ء کی اینگلو سعود فرینڈشپ ٹریٹی کے ذریعے سعودی شاہی خاندان کو خطے میں برطانوی سامراج کی چوکی بنا دیا گیا۔ 1917-1926ء کے درمیان ابن سعود نے برطانوی فوج کی مدد سے نجد اور حجاز پر قبضہ کرلیا۔ ابن سعود کو اس کی وفاداری پر برطانوی جنرل پرسی کوکس کی جانب سے Knighthood کے اعزاز سے بھی نوازا گیا۔ اسی جنرل پرسی کوکس نے ایک نقشے پر لکیریں کھینچ کر خطے کی بندربانٹ کی تھی جس کے بعد 1932ء میں موجودہ ’کنگڈم آف سعودی عرب‘ (سعودی بادشاہت) منظر عام پر آئی۔ اپنے قیام سے لیکر اب تک یہ رجعتی بادشاہت ہمیشہ خطے میں اپنے آقاؤں کے مفادات کا تحفظ کرتی رہی لیکن حالیہ عرصے میں سعودی حکمران اپنے پر پرزے بھی نکالنے لگے ہیں۔
پانچ سال قبل عرب انقلاب کے نتیجے میں کئی متعلق العنان حکمرانوں کا دھڑن تختہ عوامی طاقت نے کر دیا۔ اسی کے نتیجے میں مشرقی وسطیٰ کی سیاست میں بڑی تبدیلی دیکھنے میں آئی۔ تاہم کئی ممالک جیسا کہ شام اور لیبیا میں تحریکیں قیادت کی عدم موجودگی میں خانہ جنگی میں بدل گئیں جو وقت کے ساتھ پیچیدہ پراکسی جنگ میں تبدیل ہو گئیں۔ ان پراکسی جنگوں، بالخصوص شام، میں سعودی ریاست کی بڑی مداخلت رہی ہے جہاں وہ ایران کے اتحادی بشار الاسد کی حکومت کو گرانے کے لئے کئی بنیاد پرست گروہوں کی حمایت کرتا رہا ہے۔ لیکن حالیہ عرصے میں بظاہر جابر اور وحشی سعودی بادشاہت معاشی بحران کے تحت اندر سے کھوکھلی ہوتی جا رہی ہے۔
تیل کی عالمی قیمتوں میں کمی کا سب سے بڑا نقصان سعودی عرب کو اٹھا پڑا ہے۔ 2014ء میں 114 ڈالر فی بیرل تک فروخت ہونے والا تیل عالمی مارکیٹ میں فروری 2016ء تک 26 ڈالر فی بیرل تک پہنچ گیا تھا۔ اگرچہ جون 2016ء میں یہ 50 ڈالر فی بیرل تک پہنچ گیا لیکن اس کے باوجود بھی یہ قیمتیں دو سال قبل کی قیمتوں کے مقابلے میں آدھی ہیں۔ سعودی معیشت کا سارا دارومدار تیل پر ہے۔ 2015ء کے بجٹ میں تیل کی آمدنی سے بجٹ کا 73 فیصد پورا کیا گیا تھا اور جیسے جیسے تیل کی آمدنی میں کمی واقع ہورہی ہے ویسے ویسے بجٹ کا خسارہ بڑھتا جارہا ہے۔ دو سال قبل جو خسارہ جی ڈی پی کا 3.4 فیصدتھا وہ 2015ء میں جی ڈی پی کے 16.3 فیصد تک پہنچ چکا ہے جبکہ زرمبادلہ کے ذخائر میں بھی 2015ء تک 116 بلین ڈالر کی کمی آئی ہے۔ کرنسی کی قدر میں بھی تیزی سے کمی آرہی ہے۔ عالمی تیل کی پیداوار میں سعودی عرب کا حصہ بھی 1990ء کے 25 فیصد سے کم ہوکر 2014ء میں 15.7 فیصد تک پہنچ چکا ہے۔ یہ ملک دنیا کا سب سے بڑا تیل برآمد کرنے والا ملک ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے تقریباً تمام ریاستی اخراجات بھی اسی آمدنی سے پورے کرنے والے ممالک میں شامل ہے۔ کئی بورژوا ماہرین کے مطابق سعودی عرب کا اس قدر تیل پر دارومدار اس کی معیشت کے لئے شدید خطرہ تصور کیا جارہا ہے۔ ان کے مطابق اگر قیمتیں مسلسل پچاس ڈالر فی بیرل تک رہتی ہیں تو ٹیکنالوجی میں بڑی تبدیلی کے پیش نظر تیل کی عالمی کھپت میں مستقل کمی ممکن ہے۔ اس تمام تر صورتحال میں حالیہ سعودی بادشاہت نے فوری آمدنی کے لئے مزید بانڈز جاری کرنے (یعنی قرضہ لینے) اورچالیس سال قبل قومی تحویل میں لی گئی سرکاری تیل کمپنی ARAMCO کے پانچ فیصد شیئرزفروخت کرنے (جزوی نجکاری) کا منصوبہ بنایا ہے۔ تیل پر انحصار کرنے والی یہ معیشت تیل کے بھنور میں پھنس چکی ہے۔ تیل کی قیمتوں میں عالمی سطح پر کمی کی بنیادی وجہ عالمی معیشت کی سست روی اور معاشی بحران ہے۔
حالیہ بحران سے نکلنے اور مستقبل میں سعودی ریاست کو مستحکم رکھنے کے لئے شہزادے محمد بن سلمان کی جانب سے سعودی کے لئے2030ء کاویژن پیش کیا گیا ہے جس میں ریاستی سبسڈیز کے خاتمے اور محنت کشوں کی پنشن، تنخواہوں اور دیگر عوامی سہولیات میں کٹوتیوں کے ذریعے معیشت کو تیل کے بغیر مستحکم کرنے کی پالیسیاں ترتیب دی جارہی ہیں۔ یہ درحقیقت ’استحکام‘کی بجائے مکمل انتشار کا نسخہ ہے۔ اس سال کی شروعات میں ہی ملک میں تیل کی قیمتوں میں سعودی حکمرانوں کی جانب سے 50 فیصد اضافہ کیا گیا ہے جبکہ پانچ فیصد ویلیو ایڈڈ ٹیکس بھی متعارف کروایا گیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت ملکی معیشت میں موجودہ نجی سیکٹر کو 45 فیصد سے بڑھا کر 65 فیصد تک لایا جائے گا۔ اسی طرح امریکی گرین کارڈ طرز کا کارڈ جاری کرکے غیرملکیوں کو شہریت دی جائے گی جن سے سعودی عرب میں سرمایہ کاری بھی کروائی جائے گی جبکہ وہ وہاں جائیداد یں بھی خرید سکیں گے۔ اگر عام الفاظ میں اس منصوبے یا ’’Vision 2030‘‘ کو سمیٹا جائے تو یہ صرف معاشی لبرلائزیشن، کٹوتیوں اور نجکاری کا پروگرام ہے۔ عوام کو حاصل ریاستی سہولیات میں کٹوتیوں سے سعودی بادشاہت اپنے پیر پر خود کلہاڑی مار رہی ہے لیکن موجودہ معاشی بحران میں اس کے پاس شاید کوئی اور چارہ بھی نہیں ہے۔
جہاں ایک طرف سعودی بادشاہوں کی عیاشیوں میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہا ہے وہاں سعودی عرب میں غربت میں بھی تیزی آرہی ہے۔ پچھلے عرصے میں غربت پر بنائی گئی ڈاکومنٹری فلموں کے ہدایتکاروں کو سزائیں دی گئی ہیں۔ ان فلموں میں حقیقی سعودی عرب کے مناظر پیش کئے گئے تھے اور لوگوں کو بھیک مانگتے اور شدید غربت کی زندگی بسر کرتے دکھایا گیا تھا۔ پہلے صرف چھوٹے شہروں میں غریب جھونپڑ پٹیوں میں قیام پزیر تھے لیکن اب بڑے شہروں میں بھی یہ عام ہوتا جارہا ہے۔ دوسری جانب یہاں موجود 90 لاکھ سے زائد غیر ملکی محنت کشوں کا بھی بڑے پیمانے پر استحصال کیا جارہا ہے جو بدترین ہوتا جا رہا ہے۔ حال ہی میں پاکستان اور ہندوستان کے ہزاروں محنت کشوں کو ان کے ممالک واپس بھیج دیا گیا ہے اور وہ کئی ہفتے بغیر تنخواہوں کے ذلیل و خوار ہونے کے بعد خالی ہاتھ اپنے ممالک لوٹ گئے۔ وہاں رہ جانے والے لوگ بھی شدید مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں اور بھیک آج پہلے کی نسبت عام ہوتی جارہی ہے جس میں بڑی تعداد برقعہ پوش خواتین کی ہے جو اپنا پیٹ پالنے کے لئے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہیں۔ بیروزگاری میں بھی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ سرکاری اعداوشمار کے مطابق مردوں میں بیروزگاری کی شرح 11.7 فیصد جبکہ عورتوں میں 32.8 فیصد ہے لیکن غیر سرکاری اعداد اصل حقائق بیان کرتے ہیں۔ ایک نجی ادارے کے مطابق یہ شرح 27 سے 29 فیصد تک ہے۔
سعودی عرب بھی آج پوری دنیا کی طرح سرمایہ داری کے شدید بحران کی زد میں ہے۔ دنیا کی چوتھی مہنگی ترین فوج ہونے کے باوجود بھی یہ ملک آج تک کوئی ایک جنگ بھی نہیں لڑسکا ہے۔ ہر جنگ کے لیے کرائے کی فوج حاصل کی جاتی ہے۔ درحقیقت سعودی حکمرانوں کو خود اپنی فوج پر اعتبار نہیں ہے۔ فوج کو پیشہ وارانہ بنیادوں پر استوار نہ کرنے کی بنیادی وجہ ہے کہ سعودی حکمرانوں کو فوج کے اندر سے کُو کا خطرہ رہتا ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ آج خود ’ہاؤس آف سعود‘ کے اپنے داخلی تنازعات اور اختلافات میں تیزی سے اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اس صورتحال میں سعودی عوام سے لے کر غیر ملکی محنت کش شدید معاشی تناؤ اور سیاسی و سماجی جبر اور گھٹن کا شکار ہیں۔ انہیں نہ ہڑتال کرنے کی اجازت ہے اور نہ ہی کسی بھی فورم پر اپنی آواز اٹھانے کی۔ کروڑوں لوگ آج ایک جیل نما ملک میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ اس رجعتی بادشاہت کے خلاف طبقاتی بغاوت ہی رجعت، وحشت اور جبر و استحصال کے اس ماخذ کا خاتمہ کر سکتی ہے۔
متعلقہ: