| تحریر: لال خان |
مظلوم طبقات اور اقوام کو جتنا بھی دبایا جائے، آزادی اور نجات کی تڑپ مرتی نہیں ہے۔ یہ چنگاری بھڑکتی رہتی ہے اور بعض اوقات شعلوں میں بھی بدل جاتی ہے۔ کشمیر میں قومی آزادی کی جدوجہد اتار چڑھاؤ کے ساتھ طویل عرصے سے جاری ہے، لیکن سات دہائیوں میں اسے ختم نہیں کیا جاسکا۔ اگر کشمیر کے بھارتی مقبوضہ حصے کا جائزہ لیا جائے تو مختلف شکلوں میں احتجاج اور مزاحمت کا سلسلہ جاری ہے۔ گزشتہ چند مہینوں میں ہمیں ایک نئی لہر نظر آتی ہے جسے بھارتی میڈیا نے چھپانے کی بہت کوشش کی ہے، اسی طرح ریاستی جبر و تشدد بھی یہاں کی زندگی کا معمول بن گیا ہے۔ پچھلے چند دنوں کی ہڑتالوں اور مظاہروں میں کئی جانیں گئی ہیں اور بہت سے افراد زخمی ہوئے ہیں۔ اس طرح کے واقعات سے حکمرانوں کو کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ لیکن آزادی کی یہی آواز جب کشمیر سے نکل کر نئی دہلی میں للکار بنی تو پوری ریاست بوکھلا گئی۔ دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں ’’کشمیر کی آزادی تک، ہندوستان کی آزادی تک، جنگ رہے گی! جنگ رہے گی!‘‘ کا نعرہ گونجا تو بنیاد پرست حکومت کے ایوانوں میں بھونچال سا آگیا۔
چند روز قبل قوم پرست رہنما مقبول بٹ شہید کی برسی منانے کے لئے یونیورسٹی میں ایک تقریب منعقد کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔ جواہر لال نہرو یونیورسٹی بائیں بازو کا گڑھ سمجھی جاتی ہے۔ یہاں طلبہ یونین کے پچھلے انتخابات میں بی جے پی حکومت نے پورا زور لگایا لیکن کمیونسٹ پارٹی کے طلبہ ونگ ’آل انڈیا سٹوڈنٹس فیڈریشن‘ نے بی جے پی کی حمایت یافتہ طلبہ تنظیم کو بری طرح شکست دی۔ نئی سٹوڈنٹس یونین کے صدر 28 سالہ کنہیا کمار منتخب ہوئے تھے۔ کنہیا کمار نے افضل گرو (جنہیں 2001ء کے بھارتی پارلیمنٹ کے حملے میں مجرم قرار دے کر 2013ء میں سزائے موت دی گئی) کو اپنی تقریر میں بے گنا قرار دیا اور پھانسی کی سزا پر سوالیہ نشان لگایا تو اسے غداری کے مقدمے میں پابند سلاسل کر دیا گیا۔ اس پر طلبہ نے احتجاج شروع کر دیا۔ 15 فروری کو جب پٹیالہ ہاؤس میں مجسٹریٹ کی عدالت میں کنہیا کمار کو پیش کیا جانا تھا تو کمیونسٹ پارٹی کے بہت سے کارکنان اور عام طلبہ وہاں جمع ہو گئے۔ ان پر بی جے پی کے غنڈوں نے ہلا بول دیا۔ اس حملے میں بہت سے صحافی اور کیمرہ مین بھی زخمی ہوئے۔ ایسے میں میڈیا کو اس خبر کو شہہ سرخیوں میں جگہ دینی پڑی۔ احتجاج کی یہ لہر بعد ازاں ہندوستان بھر کے تعلیمی اداروں میں پہنچ گئی۔ رائٹرز کے مطابق ’’ایک چوتھائی صدی میں ہندوستان میں طلبہ کا یہ سب سے بڑا ملک گیر احتجاج بن گیا۔ غداری کے الزام میں ایک طالب علم کی گرفتاری کے بعد نریندرا مودی سرکار کے خلاف آزادی اظہار کے لئے نئی لڑائی شروع ہو گئی ہے۔‘‘
ہندوستان کی 18 یونیورسٹیوں میں ہڑتال اور مظاہرے ہوئے ہیں۔ سب سے بڑا احتجاج، جس میں ہزاروں طلبہ اور اساتذہ شریک تھے، جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں ہوا۔ کلاسوں کا بائیکاٹ ہوا، پولیس سے ٹکراؤ جاری رہا، مظاہروں میں شامل طلبہ نے رکاوٹیں کھڑی کر کے راستے بند کر دئیے۔ کمیونسٹ پارٹی کے طلبہ ونگ کی دہلی یونٹ کی نائب صدر راحیلہ پروین نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’حکومت طلبہ کو آواز اٹھانے نہیں دے رہی، وہ طلبہ پر جبر کے ذریعے ٹھونسنا چاہتی ہے کہ کیا سوچا اور سمجھا جائے۔‘‘
پچھلے عرصے میں بائیں بازو کی پارٹیوں کی سرکار سے لڑائی بڑھ گئی ہے۔ بہت سے تجزیہ نگار مودی سرکاری کے جبر کو 1974ء کے بعد اندرا گاندھی کی ایمرجنسی سے تشبیہہ دے رہے ہیں جس میں بنیادی حقوق معطل کر دئیے گئے تھے اور ہر مخالف کو کچلنے کی پالیسی اپنائی گئی تھی۔ اس وقت محنت کشوں اور نوجوانوں کی بغاوت نے اندا گاندھی کا تختہ الٹ دیا تھا۔
بی جے پی کے لیڈر روایتی ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے کنہیا کمار کو ’’بھارت دشمن‘‘جذبات پھیلانے کا الزام دے رہے ہیں۔ بی جے پی کے ممبر پارلیمنٹ او بی شرما نے یہاں تک کہا ہے کہ جواہر لال نہرو یونیورسٹی چونکہ بائیں بازو کا گڑھ ہے لہٰذا اسے بند کر دینا چاہئے۔ یہ ’’دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت‘‘ ہے۔اسی طرح بی جے پی کے سربراہ امیت شاہ نے بیان جاری کیا ہے کہ ’’میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اپنے وطن کے تحفظ کے لئے ہر اقدام اٹھائیں گے، کوئی بھی بھارت دشمن سرگرمی برداشت نہیں کی جائے گی۔‘‘ بی جے پی طلبہ ونگ کے جوائنٹ سیکرٹری ساؤراب شرما نے کہا ہے کہ ’’تم بھارتی ہو ہی نہیں سکتے اگر تم ایک دہشت گرد کی برسی مناتے ہو۔‘‘ جبر و استحصال کے لئے قومی شاؤنزم اور مذہبی تعصبات کا استعمال دائیں بازو اور فاشسٹ رجحانات کا پرانا نسخہ ہے۔
چند دنوں کے یہ واقعات جس تیزی سے ہندوستان کے سیاسی افق پر اثر انداز ہوتے ہیں اس سے پتا چلتا ہے کہ قومی آزادی کی جدوجہد کو پورے خطے کے محنت کشوں اور نوجوانوں کے مسائل کے ساتھ جوڑا جائے تو حکمرانوں کے ایوان لرز جاتے ہیں۔مقبول بٹ سمیت کئی اہم کشمیری رہنماؤں کا بھی یہی موقف تھا۔ وہ قومی آزادی کے ساتھ سرمایہ داری کے خلاف جدوجہد کے بھی علمبردار تھے۔ ان واقعات نے کشمیر میں نوجوانوں اور عوام کے حوصلے یقیناًبلند کئے ہوں گے۔
لائن آف کنٹرول کے اس پار کی بات کریں تو کوٹلی میں ہونے والا تصادم اور چوہدری منشی کی ہلاکت سے جو شور اٹھا ہے وہ صرف پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی لڑائی تک محدود نہیں ہے بلکہ یہاں کے عوام کی محرومی بھی اس رد عمل میں نظر آتی ہے۔ پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے آزاد کشمیر کے صدر چوہدری عبدالمجید کی بیان بازی ان جذبات کو استعمال کرنے کی کوشش ہے۔ چوہدری صاحب کا کہنا ہے کہ ’’مودی سرکار کے وزیر مقبوضہ کشمیر کو فتح کرنے لگے ہوئے ہیں تو پاکستان کے وفاقی وزرا بھی مودی کو خوش کرنے کے لئے کشمیر میں مداخلت کر رہے ہیں۔‘‘ چوہدری صاحب کی اپنی حکومت نے بدعنوانی اور بدانتظامی کی انتہا کی ہوئی ہے لیکن موصوف کشمیری عوام کی حریت پسندی کو اپنی سیاست چمکانے کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔
کشمیر میں تقریباً تمام پارٹیاں ریاست کی تشکیل کردہ کشمیری سیاسی اشرافیہ کی نمائندہ ہیں جن کا کردار آقاؤں کے مالی مفادات میں کمیشن ایجنٹ کا ہے۔ اسی طرح بھارتی مقبوضہ کشمیر میں سات لاکھ سنگینوں کے سائے تلے جمہوریت کا ڈرامہ رچایا جا رہا ہے لیکن کامیاب پھر بھی نہیں ہو رہا۔ برصغیر کے حکمرانوں نے مسئلہ کشمیر کو ہمیشہ قومی اور مذہبی تعصبات کو ہوا دینے کے لئے استعمال کیا ہے۔ طبقاتی کشمکش اور انقلابی تحریکوں کو ’’بیرونی دشمن‘‘، ’’قومی سالمیت‘‘ اور جنگی جنون میں زائل کرنے کے لئے اس ایشو کو استعمال کیا جاتا ہے۔یہ ’مسئلہ‘ اگر حل ہو جائے تو ان حکمرانوں کے لئے مسائل پیدا ہوجائیں گے۔
محرومی اور محکومی صرف کشمیر تک ہی محدود نہیں ہے۔ اس خطے کے ڈیڑھ ارب انسان کا گوشت یہ حکمران اور ان کا نظام نوچ رہے ہیں۔ جبر و استحصال کو مختلف لبادوں میں چھپایا جا سکتا ہے لیکن درحقیقت یہ پورا خطہ ہی ’مقبوضہ‘ہے۔ تاہم برصغیر کے محنت کش عوام میں نفاق ڈالنے کے لئے جس ایشو کو ریڈ کلف لائن کے دونوں اطراف کے حکمرانوں نے استعمال کیا ہے ، اسی سے پھوٹنے والی چنگاری پورے خطے میں ریاستی جبر اور سرمایہ داری کے خلاف بغاوت کے شعلے بھڑکا سکتی ہے۔ جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں کمیونسٹ نوجوانوں نے جس جرات سے بھارتی سامراج اور ریاست کو چیلنج کیا ہے اس کو طبقاتی جدوجہد سے جوڑ کر ہی اس نظام سے نجات کا سفر شروع کیا جاسکتا ہے۔