تحریر: لیون ٹراٹسکی، ترجمہ: حسن جان
سوویت جمہوریہ اور کمیونسٹ انٹرنیشنل کے بانی اور روح رواں، مارکس کے شاگرد، بالشویک پارٹی کے رہنما اور روس میں اکتوبر انقلاب کے منتظم ولادیمیر لینن، 9 اپریل 1870ء کو سمبرسک کے قصبے (اب الیانوسک) میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد الیانکولاوچ ایک سکول ماسٹر تھے۔ اس کی والدہ ماریہ الیگزنڈرانوا برگ نامی ایک ڈاکٹر کی بیٹی تھی۔ بڑا بھائی نیرودولٹز ایک انقلابی دہشت گرد تنظیم میں شامل ہوا اور الیگزنڈر دوئم کی زندگی پر ناکام حملوں میں حصہ لیا۔ اسے 1891ء میں پھانسی دے دی گئی۔ یہ لینن کی زندگی میں فیصلہ کن عنصر ثابت ہوا۔
ابتدائی زندگی
چھ افراد کے خاندان میں تیسرے لینن نے 1887ء میں سمبرسک جمنازیم سے گولڈ میڈل جیت کر اپنا کورس مکمل کیا۔ اس نے قانون کی تعلیم کے لیے کازان یونیورسٹی میں داخلہ لیا لیکن طلبا کے اجتماعات میں حصہ لینے کی پاداش میں اُسی سال یونیورسٹی سے نکال دیا گیا اور مضافاتی علاقے میں بھیج دیا گیا۔ 1889ء کے موسم خزاں میں اسے کازان واپس آنے کی اجازت دی گئی۔ جہاں اس نے مارکس کا باقاعدہ مطالعہ شروع کیا اور مقامی مارکسی سرکل کے ممبران سے ملاقات کی۔ 1891ء میں لینن نے سینٹ پیٹرزبرگ یونیورسٹی سے قانون کا امتحان پاس کیا اور 1892ء میں سمارا میں ایک بیرسٹر کی حیثیت سے پریکٹس شروع کی اور کئی مقدمات میں وکیل صفائی کے طور پر پیش ہوا۔ لیکن وہ مارکسزم کے مطالعے، روس اور بعد ازاں پوری دنیا کے معاشی اور سیاسی ارتقا پر اس کے اطلاق میں مصروف رہا۔
1894ء میں وہ سینٹ پیٹرزبرگ چلا گیا اور اپنا پروپیگنڈے کا کام شروع کیا۔ اسی دور میں ہی لینن نے پاپولر پارٹی کے خلاف اپنی مناظراتی تحریریں لکھیں جو مسودوں کی شکل میں گردش کرتی رہیں۔ اس کے بعد لینن نے پریس میں مارکسزم کے نام پر جعل سازی کرنے والوں کے خلاف ایک نظریاتی جدوجہد کا آغاز کیا۔ اپریل 1895 ء میں وہ بیرون ملک پلیخانوف، زا سولچ، ایکسل روڈ اور ’’مزدوروں کی نجات ‘‘ نامی مارکسی گروپ سے ملنے کے لیے چلا گیا۔ سینٹ پیٹرزبرگ آکر اس نے غیر قانونی ’’محنت کش طبقے کی آزادی کی یونین‘‘کو منظم کیا جو محنت کشوں میں پروپیگنڈا کر تی تیزی سے ایک اہم تنظیم بن گئی۔ دسمبر 1895 ء میں لینن اور اس کے قریبی ساتھی گرفتار ہو گئے۔ اس نے سال 1896ء جیل میں گزارا اور فروری 1897 ء کو مشرقی سائبیریا کے صوبے ینسی جلاوطن کر دیا گیا۔ 1898ء میں اس نے سینٹ پیٹرزبرگ یونین کی ایک کامریڈ کروپسکایا سے شادی کر لی جو اس کی زندگی کے اگلے چھبیس سالوں کی رفیق حیات بن گئی۔ جلاوطنی کے دوران اس نے اپنی سب سے اہم معاشی تحریر ’’روس میں سرمایہ داری کا ارتقاء‘‘، جو ضخیم اعداد و شمار پر مشتمل ہے، مکمل کی۔ 1900ء میں لینن سوئٹزرلینڈ چلا گیا تاکہ مزدوروں کی نجات کے گروپ کے ساتھ مل کر روس کے لیے ایک انقلابی پرچہ نکال سکے۔ سال کے آخر میں اسکرا (چنگاری) کا پہلا شمارہ میونخ میں منظر عام پر آیا جس کا نعرہ تھا ’’ چنگاری سے شعلے تک‘‘۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ انقلاب کے مسائل کی ایک مارکسی تشریح کر تے ہوئے جد وجہد کے سیاسی نعروں کے ساتھ سوشل ڈیموکریٹوں (مارکسسٹ) کی ایک مرکزی زیر زمین انقلابی پارٹی تشکیل دی جائے جو پرولتاریہ کی قیادت کر تے ہوئے زارازم کے خلاف جد وجہد کا آغاز کرے۔ پرولتاریہ کی جد وجہد کی منظم پارٹی قیادت کا خیال اپنی ہر شکل میں (جو لینن ازم کے مرکزی نظریات میں سے ایک ہے ) ملک کی جمہوری تحریک میں محنت کش طبقے کے غلبے کے خیال کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ اس خیال کا براہ راست اظہار پرولتاریہ کی آمریت کے پروگرام میں ہوا جب انقلابی تحریک کی بڑھوتری نے اکتوبر انقلاب کے لیے حالات تیار کئے۔
بالشویک اور منشویک
آر ایس ڈی ایل پی (RSDLP) کی دوسری کانگریس (لند ن، برسلز جولائی۔ اگست 1903ء) نے لینن اور پلیخانوف کے ترتیب دیئے گئے پروگرام کو منظور کر لیا لیکن پارٹی کے بالشویک اور منشویک دھڑوں میں تاریخی تقسیم پر اختتام پذیر ہوئی۔ بعد ازاں لینن نے بالشویک دھڑے کے رہنما کے طور پر اپنا راستہ الگ کر لیا جو بعد میں بالشویک پارٹی بن گئی۔ اختلافات کی وجہ طریقہ کار اور آخر میں پارٹی پروگرام تھا۔ منشویکوں نے روسی پرولتاریہ کی پالیسی کو لبرل بورژوازی کے تابع کر نے کی کوشش کی۔ لینن کسانوں کو پرولتاریہ کا سب سے قریبی اتحادی قرار دیتا تھا۔ منشویکوں کے ساتھ واقعاتی سمجھوتے اور قریبی تعلقات کے باوجود ان دو سوچوں، انقلابی اور موقع پرستی، پرولتاریہ اور بورژوا کے درمیان خلیج بڑھتی گئی۔ منشویکوں کے خلاف جد وجہد کے نتیجے میں وہ پالیسی بنی جو دوسری انٹرنیشنل سے الگ ہونے (1914ء)، اکتوبر انقلاب اور نام کی تبدیلی یعنی سوشل ڈیموکریٹ سے کمیونسٹ پر منتج ہوئی۔
روس جاپان جنگ میں فوج اور نیوی کی شکست، 22 جنوری 1905ء کو محنت کشوں کے قتل عام، زرعی انتشار اور سیاسی ہڑتالوں کی وجہ سے ملک میں ایک انقلابی صورت حال نے جنم لیا۔ لینن کا پروگرام زار شاہی کے خلاف عوامی مسلح بغاوت تھا جو ایک عبوری حکومت تشکیل دے کر مزدوروں اور کسانوں کی انقلابی جمہوری آمریت کو منظم کرے گا تاکہ ملک کو غلامی اور زارازم سے نجات مل سکے۔ تیسری پارٹی کانگریس (1905ء)، جس میں صرف بالشویک شریک تھے، نے ایک نئے زرعی پروگرام کو منظور کیا جس میں زمینداروں کی زمینوں کی ضبطگی بھی شامل تھی۔ اکتوبر1905ء میں کل روسی ہڑتال شروع ہوئی۔ 17اکتوبر کو زار نے آئین کے بارے میں اپنا منشور جاری کیا۔ نومبر کے آغاز میں لینن جینوا سے روس واپس آگیا اور بالشویکوں سے اپیل کی کہ مزدوروں کے وسیع حلقوں کو پارٹی میں شامل کریں لیکن اپنے غیر قانونی ڈھانچوں کو قائم رکھیں تاکہ رد انقلابی حملوں کا تدارک ہوسکے۔
1905ء کے واقعات میں لینن نے تین چیزوں کی نشاندہی کی:
1۔ عوام کا عارضی طور پرحقیقی سیاسی آزادی حاصل کرنا۔
2۔ مزدوروں، سپاہیوں اور کسانوں کے نمائندوں کی سوویتوں کی شکل میں نئی ممکنہ انقلابی طاقت کی تخلیق۔
3۔ عوام کا اپنے اوپر طاقت استعمال کر نے والوں کے خلاف طاقت کا استعمال۔
1905ء کے واقعات سے حاصل کردہ یہ نتائج 1917ء میں لینن کی حکمت عملی کے رہنما اصول بن گئے۔ جو سوویت ریاست کی شکل میں پرولتاریہ کی آمریت پر منتج ہوئی۔
دسمبر کے آخر میں ماسکو میں ہونے والی بغاوت، جسے فوج کی حمایت حاصل نہیں تھی اور نہ ہی بیک وقت دوسرے شہروں اور گرد و نواح کے اضلاع میں بغاوتیں ہوئیں، کو فوراً کچل دیا گیا۔ لبرل بورژوازی سامنے آگئی۔ پہلے ڈوما (Duma) کا دور شروع ہوا۔ اس زمانے میں ہی لینن نے تازہ حملوں کے لیے پارلیمانی طریقہ کار کے انقلابی استعمال کے اصول وضع کئے۔ دسمبر 1907ء میں لینن روس سے چلا گیا اور 1917ء میں ہی واپس آسکا۔ اب (1907ء) فاتح رد انقلاب، پھانسیوں، جلاوطنیوں اور ہجرت کا دور شروع ہوا۔ لینن نے منشویکوں کے خلاف جد وجہد کی قیادت کی جو زیر زمین پارٹی کو ختم کرنے کی وکالت کر تے تھے ( جس کی وجہ سے انہیں Liquidator یا تحلیل پرست کہتے ہیں) اور ان کے طریقہ کار کی تبدیلی کے خلاف جو موجودہ نظام کے اندر رہتے ہوئے کام کرنا چاہتے تھے، ساتھ ہی ساتھ مصالحت پسندوں کے خلاف جو بالشویزم اور منشویزم کے بیچ کا راستہ اختیار کرنے کی کوشش کرتے تھے، سوشلسٹ انقلابیوں کے خلاف جو عوامی سکوت کو انفرادی دہشت گردی کے ذریعے ختم کرنا چاہتے تھے اور آخر میں ان بالشویکوں کے خلاف جو (نام نہاد منسوخ کرنے والے) فوری انقلابی اقدام کے نام پر ڈوما کے سوشل ڈیموکریٹ ارکان کو مستعفی کرنا چاہتے تھے۔
معاً، لینن نے مارکسزم کی نظریاتی بنیادوں (جو اسکی تمام تر پالیسیوں کی بنیاد تھی) میں ترمیم کرنے کی کوشش کے خلاف ایک وسیع مہم کا آغاز کیا۔ 1908ء میں اس نے ایک اہم مقالہ لکھا جو ماخ، اونیرس اور ان کے روسی پیروکاروں کے خلاف تھا جو تجربی تنقید (Empirio Criticism) کو مارکسز م کے ساتھ یکجا کرنا چا ہتے تھے۔ لینن نے ثابت کیا کہ مارکس اور اینگلز کے وضع کئے ہوئے جدلیاتی مادیت کے طریقہ کار کی تصدیق عمومی طور پر سائنسی سوچ کی ترویج اور خصوصی طور پر فطری سائنس کرتی ہے۔ پس لینن کی مسلسل انقلابی جد وجہد اس کی نظریاتی جد وجہد کے ساتھ ساتھ چلتی رہتی تھی۔
روس میں 1912-14ء کے سال مزدور تحریک کی تازہ دم سرگرمیوں سے عبارت تھے۔ رد انقلابی حکومت میں دراڑیں پڑنا شروع ہو گئیں۔ 1912ء کے شروع میں لینن نے پراگ میں روسی بالشویک تنظیموں کی ایک خفیہ کانفرنس بلائی۔ تحلیل پرستوں کو پارٹی سے نکال دیا گیا۔ منشویکوں کے ساتھ پھوٹ حتمی ہوگئی۔ ایک نئی مرکزی کمیٹی کا انتخاب ہوا۔ لینن بیرون ملک سے سینٹ پیٹرزبرگ سے ایک قانونی پرچے ’پراودا‘ کی اشاعت کو منظم کر تا تھا جو سنسرشپ اور پولیس کے ساتھ اپنے جھگڑوں کی وجہ سے محنت کش طبقے کے ہر اول دستوں میں بہت مقبول تھا۔ جولائی 1912ء میں لینن اپنے قریبی ساتھیوں کے ہمراہ پیرس سے ’کراکو‘ آگیا تاکہ حالات کا قریب سے جائزہ لے سکے۔ روس میں انقلابی تحریک آگے بڑھ رہی تھی اور نتیجتاً بالشویکوں کو تقویت حاصل ہو رہی تھی۔ لینن تقریباً ہر دن مختلف فرضی ناموں سے بالشویک قانونی پرچوں کو مضامین بھیجتا تھاجن سے زیر زمین غیر قانونی پرچوں کے لیے ناگزیر نتائج اخذ کرتا تھا۔ اس دوران، اس سے پہلے اور بعد میں بھی کروپسکایا تمام تر انتظامی سرگرمیوں کا مرکز تھی۔ وہ روس سے آنے والے ساتھیوں کا استقبال کرتی، روس جانے والوں کو ہدایات جاری کرتی، زیر زمین رابطے استوار کرتی، خطوط لکھ کر کوڈ اور ڈی کوڈ کرتی۔ لینن گالیسیا کے چھوٹے قصبے یورونین میں تھا کہ جنگ کا آغاز ہوا۔ آسٹریا کی پولیس نے اسے روسی مخبر سمجھ کر گرفتار کر لیا۔ ایک پندرھواڑے کے بعد اسے سوئٹزرلینڈ جلاوطن کر دیا گیا۔
انٹرنیشنل ازم
لینن کے کام کا ایک نیا اور بین الاقوامی دور شروع ہوا۔ اس کے منشور، جو یکم نومبر 1914ء میں پارٹی کے نام سے شائع ہوا، نے جنگ کے سامراجی کردار اور تمام سامراجی طاقتوں کے جنگی جرائم کی مذمت کی جو لمبے عرصے سے اپنی منڈیوں کی وسعت اور مخالفین کو تباہ کرنے کے لیے خونریز جنگ کی تیاری کر رہے تھے۔ دونوں اطراف کی بورژوازی کے وطن پرستانہ احتجاج، جس میں ایک دوسرے پر الزام تراشی کرتے تھے، کا مقصد محنت کشوں کو دھوکا دینا تھا۔ منشور میں یہ کہا گیا کہ سوشل ڈیموکریٹک رہنماؤں کی اکثریت اپنے اپنے ملکوں کی بورژوازی کا ساتھ دے رہی ہے جو عالمی سوشلسٹ کانگریسوں کی قراردادوں کی خلاف ورزی تھی اور جو دوسری انٹرنیشنل کے انہدام کا باعث بنا۔ تمام ملکوں کے سوشل ڈیموکریٹوں کا نعر ہ ’اپنی ‘ حکومتوں کی شکست ہونی چاہیے۔ لینن نے نہ صرف سوشلسٹ وطن پرستی بلکہ دوستانہ احتجاج سے بھر پور امن پسندی پر بھی شدید تنقید کی جو سامراج کے خلاف انقلابی جد وجہد سے دستبردار ہو چکی تھی۔ امن پسندی کے خلاف جد وجہد مزدور تحریک کے ان عناصر کے خلاف جد وجہد میں تبدیل ہوگئی جو سوشل ڈیموکریٹوں اور کمیونسٹوں کے درمیان کھڑی تھی بلکہ اول الذکر کی حمایت کر رہے تھے۔
دوسری انٹرنیشنل کے نظریہ دانوں اور سیاست دانوں نے لینن کے خلاف انارکزم کے پہلے لگائے گئے اپنے الزامات کو مزید تیز تر کردیا۔ حقیقت میں لینن کی تمام تر جد وجہد کے دو رخ تھے۔ ایک طرف اصلاح پسندی کے خلاف جد وجہد جو جنگ کے آغاز سے ہی سرمایہ دار طبقات کی سامراجی پالیسی کی حمایت کر رہے تھے اور دوسری طرف انارکزم اور تمام اقسام کی انقلابی مہم جوئی کے خلاف جد وجہد۔
یکم نومبر 1914ء کو لینن نے ایک پروگرام تشکیل دیا تاکہ ایک نئی انٹر نیشنل کی تخلیق ہو جو ’’پرولتاریہ کی قوتوں کو منظم کرنے کا فریضہ سرانجام دے اور سرمایہ دارانہ حکومتوں پر انقلابی حملے، تمام ممالک کی بورژوازی کے خلاف خانہ جنگی اور سیاسی طاقت حاصل کر کے سوشلسٹ فتح حاصل کرے۔‘‘
5-8 ستمبر 1915ء کو زمروالڈ سوئٹزرلینڈ میں سامراجی جنگ کے مخالف یورپی سوشلسٹوں کی پہلی کانفرنس منعقد ہوئی۔ اکتیس مندوبین شریک تھے۔ زمر والڈ اور بعد میں کینٹال کانفرنس کے بائیں بازو نے لینن کے اس مطالبے کی حمایت کی کہ سامراجی جنگ کو ایک خانہ جنگی میں تبدیل کیا جائے جو مستقبل کی کمیونسٹ انٹرنیشنل کا مرکزہ بن گئی۔ مؤخر الذکر نے لینن کی سربراہی میں اپنے پروگرام، طریقہ کار اور تنظیم کی تشکیل کی اور لینن ہی تھا جس نے براہ راست کمیونسٹ انٹرنیشنل کی پہلی چار کانگریسوں کے فیصلوں پر اہم اثرات مرتب کیے۔
لینن نہ صرف مارکسزم کی گہری سمجھ بوجھ اور روس میں انقلابی پارٹی کی تنظیم کے تجربے کی وجہ سے بلکہ پوری دنیا میں مزدور تحریک سے قریبی تعلق کی وجہ سے عالمی سطح پر جد وجہد کے لیے تیار تھا۔ وہ انگریزی، جرمن اور فرانسیسی زبان کا ماہر تھا اور اطالوی، سویڈش اور پولش زبانیں پڑھ سکتا تھا۔ وہ ایک ملک کے طریقہ کار کو میکانکی انداز میں دوسرے ملک پر لاگو کر نے کے سخت خلاف تھا اور وہ انقلابی تحریکوں کو نہ صرف ان کے عالمی تناظر میں بلکہ ٹھوس قومی حالات کے تناظر میں تجزیہ کرتا اور ان سے متعلق سوالات پر فیصلے لیتا۔
1917ء کا انقلاب
فروری 1917ء کے انقلاب کے وقت لینن سوئٹزرلینڈ میں تھا۔ اسے روس پہنچنے کے لیے برطانوی حکومت کی مخالفت کا سامنا تھا اور اس نے جرمنی سے سفر کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس منصوبے کی کامیابی سے لینن کے دشمنوں کو موقع ملا کہ وہ جھوٹ اور بہتان کی ایک شدید مہم چلائیں لیکن یہ سب اسے پارٹی اور بعد میں انقلاب کی قیادت کرنے سے نہ روک سکی۔
04 اپریل کی رات ٹرین سے جاتے وقت پیٹروگراڈ کے فن لینڈ سکی سٹیشن پر ایک تقریر کی۔ اس نے اہم نظریات کو دہرایا اور مزید بڑھوتری دی۔ اس نے کہا کہ زار ازم کا دھڑن تختہ انقلاب کا پہلا قدم تھا۔ بورژوا انقلاب عوام کو مزید مطمئن نہیں کرسکتا۔ پرولتاریہ کا فریضہ سوویتوں کو مسلح کرنا اور ان کی طاقت کو بڑھانا، اطراف کے اضلاع کو ابھارنا اور سوشلسٹ بنیادوں پر سماج کی تعمیر نو کے نعرے کے گرد طاقت پر قبضہ کرنے کی تیاری کرنا تھا۔
اس دور رس پروگرام کو نہ صرف وطن پرستانہ سوشلزم کی تبلیغ کرنے والوں نے مسترد کردیا بلکہ بالشویکوں کے بیچ سے بھی مخالفت ہونے لگی۔ پلیخانوف نے لینن کے پروگرام کو پاگل پن کہا۔ تاہم لینن نے یہ پیش گوئی کی کہ بورژوازی اور عبوری حکومت پر عدم اعتماد روزبروز بڑھے گی۔ بالشویک پارٹی سوویتوں میں اکثریت حاصل کرے گی اور طاقت ان کے ہاتھ میں آئے گی۔ چھوٹا سا روزنامہ پراودا بورژوا سماج کو اکھاڑنے کے لیے اس کے ہاتھوں میں طاقتور اوزار بن گیا۔
وطن پرست سوشلسٹوں کی بورژوا زی کے ساتھ اتحاد کی پالیسی اور اتحاد یوں کے دباؤ میں روسی فوج کی محاذ پر مایوس کن کارکردگی سے عوام بھڑک اٹھی اور جولائی کے پہلے ایام میں پیٹروگراڈ میں مسلح مظاہرے ہوئے۔ بالشویزم کے خلاف مہم تیز ہوئی۔ 05 جولائی کو رد انقلابی خفیہ پولیس نے جھوٹے دستاویزات شائع کئے جس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ لینن جرمن جنرل سٹاف کے زیر حکم تھا۔ شا م کے وقت کرنسکی نے محاذ سے ’’قابل اعتماد‘‘ دستوں اور پیٹروگراڈ کے اطراف کے اضلاع سے کیڈٹ آفیسرز کو بلا کر شہر کا محاصرہ کر لیا۔ عوامی تحریک کو کچل دیا گیا۔ لینن کا تعقب اپنے عروج پر پہنچ گیا۔ اب اس نے زیر زمین کام کرنا شروع کیا۔ پہلے پیٹروگراڈ میں ایک مزدور کے خاندان کے ساتھ اور پھر فن لینڈ میں روپوش ہو گیا۔
جولائی کے ایام اور اس کے بعد ہونے والی سزاؤں سے عوام پھٹ پڑی۔ بالشویکوں نے پیٹروگراڈ اور ماسکوکی سوویتوں میں اکثریت حاصل کر لی۔ لینن نے فیصلہ کن قدم اٹھانے پر زور دیا تاکہ طاقت پر قبضہ کیا جائے۔ اس نے بار بار اپنے مضامین، انٹرویوز اور خطوط میں لکھا: ’’اب یا کبھی نہیں!‘‘
عوامی کمیساروں کی سوویت
عبوری حکومت کے خلاف بغاوت 25 اکتوبر کو سوویتوں کی دوسری کانگریس کے آغاز کے ساتھ ہی شروع ہوئی۔ ساڑھے تین مہینے روپوش رہنے کے بعد لینن سمولنی انسٹیٹیوٹ میں نمودار ہوا اور معرکے کی قیادت کی۔ 27 اکتوبر کی رات کو ہونے والے اجلاس میں اس نے امن سے متعلق مسودہ قانون پیش کیا جسے متفقہ طور پر منظور کیا گیا جبکہ زمین سے متعلق مسودے کے خلاف ایک ووٹ پڑا اور آٹھ نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ بالشویک اکثریت جسے سوشلسٹ انقلابیوں کے بائیں بازو کی حمایت حاصل تھی، نے اعلان کیا کہ اصل طاقت اب سوویتوں کے پاس ہے۔ لینن کی قیادت میں عوامی کمیساروں کی سوویت تشکیل دی گئی۔
کسانوں نے زمین ملنے پر بالشویکوں کی حمایت کی۔ سوویتیں مختار کل تھیں۔ آئین ساز اسمبلی جو نومبر میں منتخب ہوئی تھی اور 5 جنوری کو اس کا اجلاس ہوا، اب غیر متعلقہ تھی۔ سردست انقلاب کے دو مرحلوں کے درمیان تنازعہ تھا۔ لینن ایک لمحے کے لیے بھی نہیں ہچکچایا۔ 7 جنوری کی رات کل روسی مرکزی ایگزیکٹیو کمیٹی نے لینن کی تحریک پر ایک قانون پاس کر کے آئین ساز اسمبلی کو تحلیل کر دیا۔ لینن نے کہا کہ محنت کشوں کی اکثریت کے لیے پرولتاریہ کی آمریت کا مطلب جمہوریت کی بلند ترین ممکنہ سطح ہے جو محنت کشوں کے ہاتھوں میں وہ تمام مادی وسائل (اجلاسوں کے لیے عمارتیں، پرنٹنگ پریس وغیر ہ) فراہم کرے گی جن کے بغیر آزادی محض ایک سراب ہے۔ پرولتاریہ کی آمریت سماج سے طبقاتی تفریق کو ختم کرنے کا ایک لازمی مرحلہ ہے۔
جنگ اور امن کے سوال نے ایک نئے بحران کو جنم دیا۔ پارٹی کے ایک بڑے حصے نے روس کی معاشی حالت اور کسانوں کے مزاج سے قطع نظر جرمنی کے خلاف انقلابی جنگ کا مطالبہ کیا۔ لینن کو اس بات کا احساس تھا کہ پروپیگنڈا مقاصد کے لیے یہ ضروری تھا کہ جرمنوں سے مذاکرات کو حتی الامکان طول دیا جائے لیکن اس نے مطالبہ کیا کہ اگر جرمنی نے الٹی میٹم دیا تو علاقہ گنوانے یا جرمانے کی ادائیگی کی قیمت پر بھی امن پر دستخط کرنا چاہیے۔ مغرب میں انقلاب کی صورت میں امن کی سخت شرائط بے اثر ہوجائیں گی۔ اس سوال نے لینن کی سیاسی حقیقت پسندی کو اس کی پوری طاقت کے ساتھ دکھا دیا۔ لینن کے برعکس مرکزی کمیٹی کی اکثریت نے آخر میں حالت جنگ کا اعلان کرکے جرمن سامراج کے سامنے گھٹنے ٹیکنے سے انکار کردیا اور ساتھ ہی سامراجی امن پر دستخط کرنے سے بھی انکار کر دیا۔ اس سے جرمنوں نے مزید حملے شروع کردیئے۔ مرکزی کمیٹی کے 18 فروری کے اجلاس میں گرما گرم بحث کے بعد لینن نے مذاکرات کو فوری طور پر دوبارہ شروع کرنے اور جرمنی کے شرائط جو اب بھی بہت نا موافق تھے، پر دستخط کرنے کی اپنی تجویز کے لیے اکثریت حاصل کر لی۔
لینن کے کہنے پر سوویت حکومت ماسکو منتقل ہوگئی۔ امن کے بعد لینن نے ملک اور پارٹی کے سامنے معاشی اور ثقافتی تنظیم نو کے سوالات اٹھائے۔
ابھی مزید مشکلات آنے والی تھیں۔ 1918ء کے بہار کے آخر میں وسطی روس میں انتشار پھیل گیا۔ روسی رد انقلاب کے ساتھ ساتھ وولگا میں چیکوسلواکی لوگوں نے بغاوت کر دی۔ شمال اور جنوب میں برطانیہ نے مداخلت کی۔ (2 اگست کو آرچنگل اور 4 اگست کو باکو میں )۔ خوراک کی ترسیل بند ہوگئی۔ لینن حکومت اور پارٹی کی قیادت میں مصروف تھا۔ پروپیگنڈے کا کام جاری رکھا، عوام کو پر جوش رکھا، غذائی اجناس کا بند و بست کیا۔ دشمن کی چالوں پر نظر رکھتے ہوئے سرخ فوج کے ساتھ براہ راست رابطے میں تھا۔ عالمی صورت حال پر گہری نظر رکھی اور سامراجی کیمپ میں ہونے والی پھوٹ سے آگاہ رہا۔ وہ بیرونی انقلابیوں، انجینئروں اور معیشت دانوں کے ساتھ انٹرویو کے لیے وقت نکالتا۔
30 اگست کو سوشل انقلابی کاپلن نے لینن پر اس وقت دو گولیاں چلائی جب وہ مزدوروں کی ایک میٹنگ کے لئے جا رہا تھا۔ اس حملے سے خانہ جنگی مزید تیز ہوئی۔ لینن مضبوط جسمانی ہئیت کی بدولت جلد ہی ان زخموں کے اثرات سے صحت یا ب ہو گیا۔ صحت یا بی کے دوران اس نے ایک پمفلٹ لکھا، ’’پرولتاری انقلاب اور غدار کاؤتسکی‘‘ جو دوسری انٹرنیشنل کے سب سے ممتاز لیڈر کے خلاف تھا۔ 22 اکتوبر سے وہ پھر عوام میں موجود تھا۔
نئی معاشی پالیسی
اندرونی محاذ پر ہونے والی جنگ پر اس نے خاص توجہ دی۔ معاشی اور انتظامی معاملات نے ناگزیر طور پر ثانوی حیثیت اختیار کی۔ باہر سے مسلط کردہ خانہ جنگی اپنے عروج پر تھی۔ اس کشمکش کا اختتام 1921ء کے اوائل میں ہوا جب ردانقلاب کو مکمل شکست دے دی گئی اور حکومت کی طاقت میں اضافہ ہوا۔ جنگ کے نتیجے میں یورپ میں انقلاب برپا نہ ہونے کے مسئلے نے سوشلسٹ تعمیر نو کی مشکلات میں بے تحاشا اضافہ کر دیا جو پرولتاریہ اور کسان کے مابین اتفاق کے بغیر ناممکن تھا۔ کسانوں سے زائد اجناس کی وصولی کے نظام کی جگہ درست تخمینے کے ٹیکس کو لانا چاہیے۔ اجناس کے نجی تبادلے کی اجازت ہونی چاہیئے ان اقدامات سے اکتوبر انقلاب کے ایک نئے مرحلے کا آغاز ہوا جسے ’’ نئی معاشی پالیسی ‘‘ کہتے ہیں۔
سوویت فیڈریشن کے اندر لینن نے اپنی پالیسی میں بھرپور کوشش کی کہ جن قومیتوں کو زار ازم کے دوران زیر عتاب رکھا گیا، انہیں آزاد انہ قومی ترقی کے مواقع ملیں۔ اس نے حتیٰ کہ پارٹی کے اندر بھی سامراجی رجحانات کے خلاف بے دریغ جنگ لڑی اور پارٹی کے نظریات کا بھر پور دفاع کیا۔ جارجیا وغیرہ سے متعلق لینن اور اس کی پارٹی پر قومیتوں پر جبر کے الزامات قوم کے اندر شدید طبقاتی جنگ کی پیداوار تھے۔
لینن نے زور دیا کہ قومی حق خود ارادیت کے اصول کو تمام نو آبادیاتی عوام پر لاگو کیا جائے۔ اس کا نظریہ یہ تھا کہ مغربی یورپی پرولتاریہ کو مظلوم قومیتوں سے محض ہمدردی کا اظہار نہیں کرنا چاہئے بلکہ اس کی بجائے سامراج کے خلاف ان کی جدوجہد میں شامل ہونا چاہئے۔
1920ء میں سوویتوں کی آٹھویں کانگریس میں لینن نے ملک میں بجلی پہنچانے کا منصوبہ، جو اس کے کہنے پر شروع ہوا تھا، بنانے کی رپورٹ پیش کی۔ تکنیکی ترقی کی بلند سطح کی طرف جد وجہد چھوٹے پیمانے کی کسان معیشت (جس میں تعاون کا فقدان ہوتا ہے) سے واحد اور جامع منصوبے کی بنیاد پر بڑے پیمانے کی سوشلسٹ پیداوار کی طرف کامیاب تبدیلی کی نشانی ہے۔ ’’سوشلزم کا مطلب سوویت حکومت اور بجلی ہے۔‘‘
موت
سالوں کے شدید کام کی تھکن نے لینن کی صحت کو تباہ کر دیا۔ دماغ کی شریانوں پر سلروسس کا حملہ ہوا۔ 1922ء کے اوائل میں ڈاکٹروں نے اسے کام سے منع کردیا۔ جون سے اگست تک بیماری مزید بڑھ گئی اور پہلی دفعہ وہ قوت گویائی سے محروم ہوگیا اور دسمبر میں اس کے دائیں بازو اور ٹانگوں پر فالج کا حملہ ہوا۔ وہ 21 جنوری 1924ء بوقت شام 6:30 بمقام گورکی نزد ماسکو فوت ہوگیا۔ اس کے جنازے میں لاکھوں لوگوں نے بے نظیر محبت اور دکھ کا اظہار کیا۔
لینن کی ظاہری صورت میں سادگی اور طاقت تھی۔ درمیانہ قد، سلوانی شکل اور عام خدوخال، چبھنے والی آنکھیں، مضبوط پیشانی اور طاقت ور دماغ نے اسے الگ خوبیا ں دی تھیں۔ وہ کام میں بے نظیر حد تک انتھک تھا۔ اسی مثالی سچائی سے اس نے زیورخ میں مزدوروں کے کلب میں لیکچر دیئے اور دنیا کی پہلی سوشلسٹ ریاست کو منظم کیا۔ وہ سائنس، آرٹ اور ثقافت کی حوصلہ افزائی اور ان سے لگاؤ رکھتا تھا لیکن یہ بھی کہتا کہ یہ سب ایک اقلیتی طبقے کی ملکیت میں ہے۔ کریملن میں اس کی زندگی جلاوطنی کی زندگی سے زیادہ مختلف نہیں تھا۔ یہ سادگی دانشورانہ کام اور شدید جد وجہد کی وجہ سے تھی جو اس کی دلچسپی اور جوش و جذبے کا محور تھے اور اسے تسکین فراہم کرتے۔ اس کے نظریات کا مقصد محنت کشوں کی آزادی تھا۔
متعلقہ:
نومبر 1917: انقلاب کی فیصلہ کن رات
اپریل تھیسس
ولادیمیرلینن: عالمی سوشلسٹ انقلاب کا عظیم سپاہی
نوجوانوں کی انجمنوں کے فریضے