[تحریر: لال خان]
طالبان کے ساتھ ’’مذاکرات‘‘ اور ’’جنگ‘‘ کا معاملہ سٹینڈ پر کھڑے اس سائیکل کے مانند ہے جس کا پہیہ تو گھوم رہا ہے لیکن باقی سب کچھ ساکت ہے۔ ’’اچھے طالبان‘‘ اور ’’برے طالبان‘‘ کی بے معنی اصطلاحات ایک بار پھر استعمال کی جارہی ہیں۔ یہاں ’’اچھائی‘‘ اور ’’برائی‘‘ مطلق نہیں بلکہ اضافی ہے۔ امریکی سامراج کے پالے ہوئے طالبان پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کوبرے لگتے ہیں جبکہ پاکستانی ریاست کے ’’اسٹریٹجک اثاثے‘‘ امریکیوں کی نظر میں برے ہیں۔ پھر مذہبی جنونیوں کے کچھ مسلح گروہ ایسے بھی ہیں جو دونوں قوتوں کے لئے بیک وقت اچھے یا برے ہیں۔ اچھے برے طالبان کی پیچیدگیوں میں پھنسے ہوئے پاکستانی حکمرانوں کے بے حسی دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ نہ تو ان میں دہشتگردی اور مذہبی انتہا پسندی کے عفریت پر قابو پانے کی صلاحیت ہے اور نہ ہی نیت۔ ان کے بیانات ریڈیو پاکستان یا پی ٹی وی کے خبرنامے سے مختلف نہیں ہیں جو 67 سالوں میں تبدیل نہیں ہوا۔ حکمرانوں کے چہرے بدل جاتے ہیں، عادات و اطوار اور طریقہ کار وہی رہتا ہے۔ میڈیا کی آزادی کا بہت شور ہے لیکن ’’آزادی‘‘ کی انتہاؤں پر بھی اس نظام کی تنگ حدود سے آگے کی بات کرنا کم و بیش ناممکن ہے۔
مسئلہ صرف حکمرانوں کی غفلت اور نااہلی کا بھی نہیں ہے۔ مجوعی طور پر حالات بگڑ کر اس قدر پیچیدہ ہوتے چلے جارہے ہیں کہ اس نظام کی حدود میں ان کا حل ممکن نہیں ہے۔ سب کو پتا ہے کہ طالبان کب، کس نے اور کیوں بنائے یا بنوائے تھے۔ اسلامی بنیاد پرستی کو پروان چڑھانے کا مقصد کیا تھا ، اسے کہاں کہاں استعمال کیا گیا اور آج وہ کون سے ملکی و غیر ملکی عناصر ہیں جن کے مفادات اس رجعت سے وابستہ ہیں۔ انہی عناصر کے مفادات کے ٹکراؤ نے آج خونریزی اور بربریت کو اور بھی شدید کر دیا ہے۔ دہشت گردی جاری ہے۔ معصوم انسان مر رہے ہیں۔ سماج پر خوف و حراس حاوی ہے اور موت سے پہلے ہی زندگی ایک عذاب بن گئی ہے۔ حکمران بیان بازی اور مذمت تک ہی محدود ہیں۔
طالبان سے مذاکرات حقیقی معنوں میں ’’مذاق رات‘‘ بن چکے ہیں۔ لیکن ’’مذاق رات‘‘ میں کچھ رونق تو ہے، مذاکرات میں تو سوائے دل سوزی کے کچھ نہیں رکھا۔ طالبان سے مذاکرات کا مفروضہ ہی بے بنیاد اور کھوکھلا ہے۔ یہاں رنگ برنگ کے طالبان امریکی اور پاکستانی ریاست کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے سے بھی برسر پیکار ہیں۔ وزارت داخلہ کے اپنے بیان کے مطابق طالبان کے 45سے زائد گروہ ہیں۔ ان میں سے کون پاکستانی ریاست سے نبرد آزما ہے اور کون امریکی فوجوں سے لڑ رہا ہے؟ عام انسانوں کا قتل عام کون کررہا ہے اور فرقہ وارانہ قتل و غارت گری میں کون مصروف ہے؟طالبان کا کون سا گروہ کس کی ایما پر اغوا برائے تاوان کا دھندہ کرتا ہے اور اس کاروبار میں مزید کتنے حصہ دار ملوث ہیں ؟ بھتہ خوری، اسمگلنگ، ڈکیتیوں اور دوسرے جرائم میں کون کون سے گروہ سرگرم ہیں؟ ’’طالبان‘‘ کے پاس وہ کون سی عسکری تربیت، جدید اسلحہ یا لاجسٹک سپورٹ ہے کہ ریاست ان کے سامنے بے بس نظر آتی ہے؟کون سے والے طالبان سے مذاکرات ہوں گے؟ ان مذاکرات کا ایجنڈا کیا ہوگا؟ کہاں ہوں گے اور کون کروائے گا؟ مذاکرات اگر کامیاب نہ ہوئے تو کیا لائحہ عمل ہوگا؟ تھوڑی سے گہرائی میں ان سوالات کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ کس قدر بے معنی نعرہ بازی اور لفاظی میں عوام کو الجھایا جارہا ہے۔ لیکن سب سے اہم سوال یہ ہے کہ مذہبی بنیاد پرستی اور دہشت گردی کے اس وسیع و عریض اور پیچیدہ کاروبار میں سرمایہ کاری کون یا ’’کون کون‘‘ کررہا ہے اور اس کے پیچھے کیا مفادات کارفرما ہیں؟ جوں جوں ہم اس معاملے کو سلجھانے کی کوشش کریں گے یہ مزید الجھتا جائے گا۔ ان سوالات کا جواب ریاستی پالیسی سازوں اور حکمرانوں کے پاس ہے بھی اور نہیں بھی۔ بات جب حکمران طبقات اور ریاست کے ان اداروں، دھڑوں اور افراد تک پہنچتی ہے جو ظاہری یا باطنی طور پراس کھلواڑ کا حصہ ہیں تو سب کی زبان کو تالے لگ جاتے ہیں۔ سوالات کا سیشن یہاں پر ’’برخاست‘‘ کردیا جاتا ہے کیونکہ اس سے آگے پر جلتے ہیں۔
’’برے طالبان‘‘ کے خلاف ’’ایکشن‘‘ لینے کی بات بھی مضحکہ خیز ہے۔ اگر یہ ’’ایکشن‘‘ اب لینا ہے تو پچھلے 14 سال سے امریکی فوج اور ہمارے ریاستی ادارے کیا جھک مار رہے تھے؟جس افغانستان کو مذہبی جنونیوں اور طالبان سے تباہ برباد کیا تھا امریکی بھی اس سے بہتر افغانستان چھوڑ کر نہیں جارہے ہیں۔ پچھلے ہفتے جاری ہونے والے اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق 2012ء کے بعد سے غذائی قلت کے شکار بچوں کی تعداد میں 50 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ افغانستان کے انسانی حقوق کمیشن کے مطابق پچھلے سال کے آخری دس ماہ میں خواتین پر تشدد کے واقعات میں 25 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ سی آئی اے کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق افغانستان میں اوسط انسانی زندگی 2001ء میں 46.2 سال سے کم ہو کر 2011ء میں 45 سال ہو گئی ہے۔ تاریخ کی سب سے بڑی سامراجی طاقت خود فوجی اور اقتصادی طور پر شکست کھانے کے ساتھ ساتھ عام افغانیوں کی زندگی کو اور بھی تلخ اور ابتر کر گئی ہے۔
اگر مذاکرات کے ذریعے اس مسئلے کا کوئی حل ممکن نہیں ہے تو یہ بربریت فوجی کاروائی سے بھی ختم ہونے والی بھی نہیں ہے۔ سب لکیر کو تو پیٹ رہے ہیں لیکن سانپ سامنے پھن پھیلائے کھڑا ہے۔ میڈیا پر براجمان دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کی طرف سے پیش کئے جانے والے حل، حقیقت سے زیادہ افسانہ ہیں۔ تلخ زمینی حقائق پر کوئی بھی نظر ڈالنے کو تیار نہیں ہے۔ دہشت گردی کے اس منافع بخش کاروبار میں کس کس نے مال بنایا ہے یا بنا رہاہے؟ بڑے بڑے کاروباروں اور کاروباریوں کے نام آئیں گے۔ بڑے بڑے سورما ننگے ہوجائیں گے۔ قیمتی زمینوں کے قبضوں سے لے کر سونے کے بھاؤ بکنے والی منشیات کی سمگلنگ تک، اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والوں کی فہرست بہت طویل ہے۔ سرکاری معیشت سے دوگنا بڑی کالے دھن کی معیشت کو منظم کرنے والے بینکاروں کے نام بھلا کیسے منظر عام پر آسکتے ہیں؟دہشت گردی اور جرائم کا یہ کاروبار پیسہ کمانے کے جائز طریقوں سے کئی گنا زیادہ منافع بخش ہے۔ دولت کی اس وحشی دوڑ میں بھلا کون سوچتا ہے کہ کتنی زندگیاں برباد ہوئیں اورکتنے گھر اجڑے؟ دہشتگردی کی اس معیشت کے حصہ داروں کے سامنے واحد مقصد دولت کے انباروں میں اضافہ ہے۔ باقی سب عوام کو بیوقوف بنانے کے بہانے ہیں۔ باطن، ظاہر کے برعکس ہے۔ حکمران طبقات اور فوجی و سویلین بیوروکریسی کا ہر فرد بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر اس کھیل کا حصہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس ساری بربادی کے پیچھے کارفرما دولت اور کالے دھن کی معیشت کو ہاتھ ڈالنے کے لئے کوئی تیار نہیں ہے۔ یہاں سرطان کی رسولی مریض کے جسم سے بھی بڑھ گئی ہے۔ جس ملک کی 76فیصد معیشت کالے دھن پر مبنی ہو وہاں امن اور استحکام بھلا کیسے قائم ہوسکتا ہے؟جب تک اس خونی کاروبار میں ہونے والی سرمایہ کاری ختم نہیں ہوگی، کالے دھن کی پائپ لائن کاٹی نہیں جائے گی۔ ۔ ۔ کشت و خون کا یہ سلسلہ چلتااور بڑھتا رہے گا۔
امریکیوں کے جانے کے بعد افغانستان میں ’’طالبان‘‘ کی حکومت کا خیال ہی ملاؤں کی رالیں ٹپکا رہا ہے۔ اس خوش فہمی کا ازالہ بھی جلد ہی ہوجائے گا کیونکہ افغانستان میں بھی انسان بستے ہیں اور یہ 1990ء کی دہائی بھی نہیں ہے۔ افغانستان کے عوام نے بہت دھوکے کھائے ہیں۔ انہوں نے ملاؤں کی وحشت بھی دیکھی ہے اور سامراج کی درندگی بھی۔ اب کی بار انہیں ایک قہر سے نکال کر دوسرے عذاب میں مبتلا کرنا آسان نہیں ہوگا۔ 1978ء کا ثور انقلاب، اس کی روایات اور ثمرات آج بھی افغانستان کے سماجی شعور پر نقش ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے عوام کے مسائل الگ ہیں ، نہ ہی ان مسائل کا حل۔ اس خطے کے عوام کے سامنے انقلاب یا بربریت کے سوا کوئی تیسرا راستہ نہیں ہے۔ اس خطے میں بسنے والی نسل انسان کو تہذیب اور آئندہ نسلوں کی بقاء کے لئے مذہبی جنون اور سامراجی منافقت کے لبادے کو پھاڑ کر آزاد ہونا ہوگا۔
متعلقہ:
بنیادی پرستی کا چھلاوا
منظم انتشار
گلیمر میں لپٹی قدامت پرستی