[تحریر: لال خان]
ہوگو شاویز کی غیر حاضری کی وجہ سے دس جنوری کو ہونے والی نئی مدتِ صدارت کے لیے حلف برداری کے التوا کے بعد، میڈیا میں نہ صرف شاویز کی سرطان سے صحت یابی بلکہ وینزویلا میں ایک دہائی سے زیادہ مدت سے جاری انقلابی عمل کے مستقبل سے متعلق ہر طرح کی قیاس آرائیاں جاری ہیں۔ اگرچہ شاویز کے چوتھے آپریشن کے بعد اس کی صحت کے متعلق زیادہ اطلاعات نہیں ہیں، لیکن لگتا ہے کہ اس کی حالت نازک ہے اور شاید وہ زیادہ عرصہ تک نہ جی پائے۔ وینزویلا کی اشرافیہ اور عالمی سرمایہ داری کے منصوبہ ساز خوشی سے پھولے نہیں سما رہے۔ وینزویلا کی عدالتوں نے حلف برداری کو موخر کرنے کی اجازت دے دی ہے اور شاویز کا نامزد کردہ جانشین اور نائب صدر نکولس مادورو اس نازک وقت میں قائم مقام صدر کے فرائض انجام دے رہا ہے۔
گزشتہ برس7 اکتوبر کو ہونے والے انتخابات میں شاویز 55فیصد ووٹ حاصل کر کے کامیاب ہوا تھا جبکہ اپوزیشن کے مشترکہ امیدوار اینریک کاپریلس کو44فیصد ووٹ پڑے۔ حالیہ صدارتی انتخابات سے قبل اشرافیہ اور عالمی بورژوا میڈیا اس غلط فہمی کا شکار تھے کہ 1998ء کے انتخابات میں شاویز کی فتح کے چودہ برس بعد اب وہ اسے شکست دے کر ایک بار پھر سے دائیں بازو کی حکمرانی قائم کرنے میں کامیاب ہو پائیں گے۔ لیکن شاویز کے خلاف فتح یاب ہونے کی یہ توقعات بالکل غیر حقیقی بھی نہیں تھیں۔ بولیویرین حکومت کے اقتدار میں آنے کے کئی برس بعد بھی، انقلاب مکمل نہیں ہو سکا اور وینزویلا میں ابھی تک سرمایہ داری ہی مروجہ معاشی نظام ہے۔ اس وجہ سے بے پناہ افراطِ زر اور شکستہ انفرا سٹرکچر کی وجہ سے بجلی کی طویل بندش جیسے مسائل پیدا ہو رہے ہیں جو جرائم اور عدم تحفظ میں اضافے کا موجب بنے ہیں۔ حکمران بیو روکریسی کی کرپشن، نالائقی اور نا اہلی کی وجہ سے محنت کشوں اور نوجوانوں کی باشعور پرتوں میں جھنجلاہٹ بڑھ رہی ہے۔
لیکن انتخابات کے برس کچھ ایسے عوامل اور اقدامات سامنے آئے جن سے سیاسی اور مالی طور پر امریکی سامراج کی حمایت یافتہ اشرافیہ اور دائیں بازو کی امیدیں اور سپنے خاک میں مل گئے۔ اْس برس حکومت نے انقلاب کے سماجی اثرات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے بڑے پیمانے پر اخراجات کیے جس کا لاکھوں لوگوں کو فائدہ پہنچا۔ صحت اور تعلیم کی مفت سہولیات کے علاوہ رہائش کے شعبے میں بڑے پیمانے کے اقدامات کا آغاز کیا گیا۔
گزشتہ دو برسوں میں350,000 نئے گھر تعمیر کر کے مقامی کونسلوں کے ذریعے تقسیم کیے گئے۔ یہ گھر سیلابوں، مٹی کے تودوں اور دیگر قدرتی آفات میں بے گھر ہو جانے والوں کودیے گئے۔ دو کروڑ ستر لاکھ کی آبادی میں سے اس سکیم سے پندرہ لاکھ لوگ فیض یاب ہوئے جن میں جھونپڑ پٹیوں کی تنگ و تاریک کٹیاؤں میں رہنے والے بھی شامل ہیں۔ اس برس380,000 مزید گھروں کی تعمیر کا منصوبہ ہے۔ بزرگوں، تنہا والدین اور بے روزگاروں کی بھی قابل ذکر مالی معاونت کی گئی۔
عوام بخوبی جانتے ہیں کہ اپوزیشن کے بر سرِ اقتدار آنے پر ان تمام حاصلات اور سہولیات کا خاتمہ ہو جائے گا۔ شاویز کی فتح کی ایک اور وجہ یہ بھی تھی کہ انتخابی مہم کی کمزور شروعات کے باوجود، شکست کے منڈلاتے ہوئے خطرے نے پی ایس یو وی(یونائیٹڈ سوشلسٹ پارٹی آف وینزویلا) کی قیادت کو انتخابی مہم کو ازسر نو طبقاتی اور نظریاتی بنیادوں پر چلانے اور سرمایہ داری کے خلاف اور انقلابی سوشلزم کا پروگرام دینے پر مجبور کیا۔ اس نے عوام میں تحرک اور انقلابی موڈ کو جنم دیا جو شاویز کی فتح کی کلید بنا۔
سرمایہ دارانہ رشتوں کی موجودگی کی میں جانے بڑی اصلاحات کے نتیجے میں ہونے والی ترقی کا کردار ناہموار ہے، جس کی وجہ سے نئے تضادات جنم لے رہے ہیں۔ ایک جانب عوام کے میعار زندگی میں قابل ذکر بہتری آئی ہے، جبکہ دوسری طرف پیداواری انفرا سٹرکچر میں بہت کم سرمایہ کاری کی گئی ہے اور سرمایہ داروں نے کئی طریقوں سے معیشت کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی ہے جس میں پیسے کی بیرونِ ملک منتقلی اور بنیادی غذائی ضروریات کی زخیرہ اندوزی وغیرہ شامل ہیں۔ الیکشن کے برس کیے جانے بڑے پیمانے کے اخرجات سے معیشت کی حالت بہت نازک ہے۔ تیل کی آمدنی عالمی منڈی سے کی جانے والی درآمدات کے اخراجات کو پورا نہیں کر رہی۔ بولیوار کرنسی کے زیادہ قدر سے تجارتی خسارہ بڑھتا جا رہا ہے۔ بجٹ کا حقیقی خسارہ مجموعی قومی پیداوار ( جی ڈی پی) کے بیس فیصد کے قریب جا پہنچا ہے۔
رد انقلاب نے اس عمل کو روکنے اور واپس لے جانے کہ بہت کوششیں کی ہیں۔ 2002ء میں ایک فوجی بغاوت کے ذریعے شاویز کا تختہ الٹ دیا گیاتھا۔ لیکن48 گھنٹوں میں عوام نے اس بغاوت کو شکست دے دی اور شاویز صدارتی محل میں لوٹ آیا۔ اس وقت انقلاب بہت پر امن انداز میں مکمل ہو سکتا تھا کیونکہ فوج، پولیس، چرچ اور میڈیا مفلوج ہو چکے تھے۔ انقلابِ وینزویلا قدرت کی قوانین کے بر خلاف دس سال سے زیادہ عرصے سے حرکت میں ہے۔ اس وجہ سے یہ ایک غیر معمولی انقلابی عمل ہے جہاں ا تنے طویل دورانیے کے بعد بھی حتمی مقاصد حاصل نہیں ہوئے۔ اگرچہ عوام شاویز کی حمایت اور تعریف کرتے ہیں، لیکن وہ سرکاری بیورو کریسی سے سخت متنفر ہیں۔ اس کے باوجود عوام کی عزم و ہمت حیرت انگیز ہے۔ 16 دسمبر کو ہونے والے علاقائی انتخابات میں شاویز (جو اس وقت علاج کے لئے کیوبا جارہے تھے) کے امید واروں کو ہمدردی کا ووٹ ملا۔ پی ایس یو وی کے امید وار گورنروں کی تےئس میں سے بیس نشستوں پر کامیاب ہوئے۔ اس طرح سے جب دائیں بازو نے شاویز کی بیماری کو استعمال کرتے ہوئے ملک میں عدم استحکام پھیلانے کی کوشش کی تو عوام نے شاویز کی حمایت میں بہت بڑی ریلی نکال کر اپوزیشن کو منہ توڑ جواب دیا۔
شاویز کے جانے سے بیورو کریسی کے مختلف دھڑوں کے درمیان طاقت کے حصول کی شدید لڑائی شروع ہو جائے گی۔ اگرچہ اس وقت دایاں بازو اور اور ردِ انقلابی قوتیں کئی سالوں تک انقلاب کو تھکا کر ختم کرنے کے طویل مدتی تناظر پر عمل پیراں ہیں لیکن یہ لوگ سامنے آکر بھی انقلاب کے خلاف وار کر سکتے ہیں۔ شاویز کی جانب سے فوج کی کئی مرتبہ تطہیر کے باوجود مال کما نے والے اشرافیہ جرنیلوں کی جانب سے فوجی بغاوت کا امکان موجود ہے۔ لیکن سامراج کی کوششیں بولیویرین تحریک کے بیو رو کریٹک دائیں بازو کے ذریعے ردِ انقلاب کو کامیاب بنانے پر مرکوز ہیں۔ بہت عرصے سے میڈیا پر ’شاویز کے بغیر شاویزازم‘ کی باتیں ہو رہی ہیں۔ شاویز کی موت کی صورت میں شاویز کی حمایت کی وجہ سے اگر ماڈورو صدر منتخب ہو جاتا ہے تو یہ حکومت زیادہ عرصہ نہیں چلے گی اور دس برس سے خوف میں مبتلا ظالم بورژوازی انتہائی بے رحم ردِ انقلاب کر سکتی ہے۔ لیکن عوام اپنے عدم اطمینان کے اظہار کا راستہ تراش رہے ہیں۔ پی ایس یو وی کے اندر طبقاتی بنیادوں پر صف آرائی بڑھ رہی ہے۔ اگر پارٹی کے اندر اس جدوجہد میں مارکسسٹ کامیاب ہو جاتے ہیں اور پی ایس یو وی سرمایہ دارنہ اثاثوں اور وسائل کو ضبط کر لیتی ہے تو انقلاب آگے بڑھتے ہوئے ردِ انقلا ب ا ور سامراج کو فیصلہ کن شکست دے ڈالے گا۔