[تحریر: جارج مارٹن، ترجمہ: عمران کامیانہ]
7اکتوبر، بروز اتوار ہونے والے انتخابات میں وینزویلا کے صدر ہوگو شاویز ایک بار پھر اپنے حریف ہینرک کیپریلس کے 44.54فیصد کے مقابلے میں 54.84فیصدووٹ لے کر مناسب مارجن کے ساتھ فتح سے ہمکنار ہوئے۔بولیوارین انقلاب کے سفر میں یہ ایک اور اہم فتح ہے جسے انقلاب کو منزلِ مقصود تک پہنچانے کے لئے استعمال کیا جانا چاہیے۔
95فیصد ووٹوں کی گنتی کے مطابق شاویز کو 7,860,982 جبکہ امراء اور سامراج کے امیدوار کو 6,386,155 ووٹ پڑے۔ٹرن آؤٹ حیرت انگیز طور پر 81فیصد رہا جس سے 2006ء کے صدارتی الیکشنوں میں 74فیصد ٹرن آؤٹ کا ریکارڈ بھی ٹوٹ گیا۔اس سے پتا چلتا ہے کہ الیکشن مہم نے وینزویلا کے سماج کو کس طرح دو طبقاتی گروہوں میں تقسیم کردیا تھا اور ہر گروہ نے اپنے تمام تر حامیوں کو متحرک کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔
الیکشن کے دن سب سے اہم اور نمایاں چیز عوام کی بڑی تعداد میں سیاسی عمل میں شمولیت تھی۔بولیوارین کیمپین نے لوگوں سے اپیل کی تھی کہ وہ ووٹ ڈالنے کے لئے صبح جلدی اٹھیں تاکہ الیکشن میں واضح نتائج حاصل کر کے ردِ انقلابی اپوزیشن کی جانب سے دھاندلی کے الزامات کا منہ توڑ جواب دیا جاسکے۔
وینزویلا سے ایک کامریڈ کے مطابق الیکشن کی رات ہی سے کچھ پولنگ سٹیشنوں کے سامنے قطاریں لگنی شروع ہو گئی تھیں۔رات تین بجے محنت کشوں اور غریب علاقوں میں نیند سے اٹھنے کے لئے لگائی جانے والی آوازیں (جنہیں شاویز کے نام کی مناسبت سے ’’شاویزتا‘‘ کہا جاتا ہے)سنی جا سکتی تھیں۔صبح 6 بجے پولنگ سٹیشنوں کے کھلتے وقت ہی ان کے سامنے ووٹ ڈالنے والوں کی لمبی قطاریں لگ چکی تھیں اور یہی صورتحال تمام دن جاری رہی۔
پولنگ کے بندہونے کا وقت شام 6بجے تھا لیکن وینزویلا کے انتخابی قوانین کے مطابق جب تک تمام لوگ اپنا جمہوری حق استعمال نہ کر لیں پولنگ سٹیشنز کھلے رہنے چاہئیں۔کیپریلس نے چھ بج کر ایک منٹ پر پولنگ سٹیشن بند کرنے کی اپیل کر دی تھی۔ اس کی وجہ بالکل واضح تھی: کاراکاس میں واقع پوش اور امیروں کے علاقوں میں پولنگ سٹیشنوں پر ووٹ ڈالنے کے لئے کوئی موجود ہی نہیں تھا، جبکہ محنت کشوں اور غریبوں کے علاقوں میں پولنگ سٹیشنوں پر سینکڑوں لوگ ووٹ ڈالنے کا انتظار کر رہے تھے۔مثال کے طور پر ’اینٹیمانو‘ میں واقع ایک پولنگ سٹیشن (جہاں سے شاویز کو 75فیصد ووٹ پڑے)سے ملنے والی اطلاع کے مطابق 75فیصد لوگوں کے ووٹ ڈا ل لینے کے باوجود 800سے زائد افراد ابھی قطار میں کھڑے انتظا ر کر رہے تھے۔عمومی طور پر محنت کشوں کے علاقوں میں، جہاں سے شاویز نے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کئے، ٹرن آؤٹ امیر علاقوں کی نسبت 3سے 5فیصد زیادہ رہا۔
الیکشنوں کے سرکاری طور پر اختتام سے پہلے ہی اپوزیشن بیہود ہ الزامات کی مہم چلانے کی تیاریاں کر رہی تھی۔نام نہاد Exit Polls (جہاں ساتھ ہی ساتھ ووٹنگ کے نتائج پتا چلتے رہتے ہیں)کے بارے میں، جن میں سے کچھ میں کیپریلس کو شاویز پر 10پوائنٹس کی برتری بھی حاصل ہوئی، افواہیں پھیلائی گئیں۔اس کا مقصد دنیا کو یہ تاثر دینا تھا کہ کیپریلس جیت رہا تھا تاکہ سرکاری نتائج کو بعد میں مشکوک بنایا جا سکے۔حتیٰ کہ سپین کے دائیں بازو کے ایک اخبار ABCنے انتہائی جانبداری کا ثبوت دیتے ہوئے یہ سرخی بھی شائع کر دی کہ’’پہلے Exit Poll کے نتائج کیپریلس کی فتح کو ظاہر کر رہے ہیں‘‘۔
یہ پچھلے کئی مہینوں سے مسلسل جاری پروپیگنڈے ہی کا تسلسل تھا جس کا جائزہ ہم پہلے بھی لیتے رہے ہیں۔عین الیکشن کے دن بھی سپین کے ایک ’’لبرل‘‘ اخبارEl Pais، جوکہ با آوازِ بلند کیپریلس کی حمایت کرتا چلا آرہا تھا‘نے اپنے اداریے میں لکھا ’’وینزویلا کے عوام صرف ایک ووٹ نہیں ڈال رہے بلکہ دو متضاد سماجی نظاموں میں سے ایک کا انتخاب کر رہے ہیں‘‘۔اور یہ کہ حالیہ الیکشن دراصل ایک رائے شماری ہے ’’صدر کی مطلق العنان حکومت کے تسلسل کے بارے میں ، جوکہ شخصیت کے رعب اور نام نہاد جمہوریت پر مبنی ہے‘‘۔اپنے سوموار کے شمارے میں (جو کہ نتائج سے پہلے شائع ہوا)یہ اخبار اپنا زہر آلود پراپیگنڈا کچھ اس طرح سے جاری رکھتاہے ’’دو متضاد سیاسی مہمات کامقابلہ ہے: عوام پسند آمرانہ حکومت یا آزاد خیال جمہوریت (Liberal Democracy)‘‘۔
وینزویلا کے صدارتی انتخابات واقعی دو نظاموں کے درمیان چناؤ تھے۔شاویز کی الیکشن مہم اگرچہ نرم گو الفاظ سے شروع ہوئی مثلاً’’ شاویز وینزویلا کا دل ہے‘‘، لیکن آہستہ آہستہ واضح طبقاتی اظہار کے ساتھ ریڈیکل ہوتی گئی۔آخری کچھ ہفتے شاویز نے کیپریلس کے معاشی مشیروں کی طرف سے شائع کردہ ایک کتابچے کا پول کھولنے اور ان کے اصل مقاصد کو بے نقاب کرنے پر توجہ دی۔یہ کتابچہ دراصل کٹوتیوں کے پیکج سے لبریز تھا جس میں سماجی فلاح و بہبود کے پروگراموں میں کمی ، پنشن اور مزدوروں کے حقوق پر حملے شامل تھے۔
شاویز نے بالکل درست طور پر تنبیہ کی کہ اگر کٹوتیوں کی یہ پالیسیاں نافذ کی جاتی ہیں تو ملک میں خانہ جنگی شروع ہو سکتی ہے(جیسا کہ 1989ء میں اینڈرس پیریزکی طرف سے IMFکی پالیسیاں نافذ کرنے پر ہوا تھا)۔اپنی ایک بڑی ریلی میں، جس میں 20لاکھ سے زائد لوگ موجود تھے، شاویز نے بجا طور پر کہا ’’1989ء میں کاراکاس کی سڑکوں پر عالمی انقلاب کا آغاز ہوا تھا جو اس وقت یونان، سپین اور پرتگال کی سڑکوں کے ساتھ ساتھ دنیا کے باقی خطوں میں پھیل چکا ہے‘‘۔
سرمایہ دارانہ میڈیا نے شاویز کے الفاظ کو غلط رنگ دیتے ہوئے کہا کہ وہ ہارنے کی صورت میں خانہ جنگی کی دھمکی دے رہا تھا۔لیکن عوام کوواضح طور پر پتا تھا کہ کیا کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے۔ یونان، پرتگال اور سب سے بڑھ کر سپین میں جاری احتجاجوں اور ہڑتالوں کی لہر نے بھی وینزویلا کے مزدوروں ، نوجوانوں اور محکوم طبقات کو متحرک کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔انہیں معلوم تھا کہ ’’ درمیانے بائیں بازوسے تعلق رکھنے والے نوجوان‘‘کا تاثر اور دھوکہ دے کر دراصل کیپریلس عوام پر وہی معاشی حملے کرنا چاہتا تھا جو راجوئے سپین میں کر رہا ہے۔وینزویلا میں اس طرح کے حملوں کے اثرات شاید زیادہ ہوتے کیونکہ یہاں انقلاب کے ذریعے بہت سی حقیقی حاصلات ملی ہیں جن سے لوگوں کے معیارِ زندگی، علاج معالجے کی سہولیات، تعلیم اور حالیہ عرصے میں رہائش تک لوگوں کی پہنچ میں اضافہ ہوا ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ اپنے اصل مقاصد کو چھپانے کے لئے کیپریلس نے اپنے آپ کولولاڈ سلوا کی طرح کاسوشل ڈیموکریٹ بنا کے پیش کیاجس سے پتا چلتا ہے کہ بولیوارین انقلاب کے گزشتہ 14سالوں سے وینزویلا کے عوام کی رائے کس حد تک بائیں طرف مڑ چکی ہے۔کیپریلس کے پاس جیتنے کا اس سے علاوہ کوئی طریقہ نہیں تھا کہ لوگوں کو بیوقوف بنا کے یہ یقین دلایا جائے کہ وہ انقلاب کی حاصلات کا حامی تھا۔لیکن لوگ بیوقوف نہیں بنے۔بولیوارین انقلاب کے عام حامیوں کے اندر تحریک اور مقامی میونسپل کمیٹیوں پر قابض بیوروکریٹوں اور مفاد پرستوں پر اعتراضات کے باوجود وہ ردِانقلاب کے غالب آجانے کے خوف سے ایک بار پھر متحرک ہوئے۔
CNEکے اعدادوشمار کے مطابق ملک کی 23میں سے 21ریاستوں میں شاویز نے کامیابی حاصل کی۔تاہم میرانڈا میں جہاں کیپریلس گورنر تھا، جیتنے والے امیدوار کا معاملہ فی الوقت متنازعہ ہے۔ تازہ ترین سرکاری اعدادو شمار کے مطابق وہاں 98.3فیصد ووٹوں کی گنتی کے بعدشاویز کو15لاکھ میں سے صرف 743ووٹوں کی برتری حاصل ہے۔یعنی شاویز نے کیپریلس کے 49.71کے مقابلے میں 49.76فیصد ووٹ حاصل کئے۔اگر شاویز یہاں سے جیت جاتا ہے تو قومی اسمبلی کے الیکشنوں میں ہاری گئیں اہم ریاستیں مثلاًزولیا، کیرابوبووغیرہ واپس بولیوارین انقلاب کی تحویل میں آ جائیں گی۔جبکہ اپوزیشن کے پاس صرف دو ریاستیں ٹیکیرا اور میریڈا باقی بچیں گی۔
شاویز نے 2006ء کے الیکشنوں کے مقابلے میں پانچ لاکھ زیادہ، جبکہ 2010ء کے قومی اسمبلی کے الیکشنوں میں PSUVکے حاصل کردہ ووٹوں سے 15لاکھ زیادہ ووٹ حاصل کئے۔لیکن یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ2006ء کے بعد سے اپوزیشن نے اپنے ووٹوں میں 20لاکھ کا اضافہ کیا ہے۔
قومی الیکشن کونسل جس وقت نتائج کا اعلان کر رہی تھی، اپوزیشن کے ارادے مشکوک تھے۔اس تمام وقت کے دوران ان کے پاس ’’دوسرا منصوبہ‘‘ بھی تیار پڑا تھا۔اگر نتائج بہت قریبی اور مبہم ہوتے تو وہ دھاندلی کا الزام لگاتے، نام نہاد Exit Pollکو عدم اعتماد کی فضا پیدا کرنے کے لئے استعمال کر کے سڑکوں پر فساد اور تشددکرتے تاکہ یہ تاثر دیا جا سکے کہ شاویز غلط طریقہ کار استعمال کر کے الیکشن جیتا ہے۔
لیکن بولیوارین انقلابی بھی سڑکوں اور چوراہوں پر کسی قسم کی اشتعال انگیزی کا جواب دینے کے لئے تیار کھڑے تھے۔لیکن آخر میں ہار اتنی بڑی اور واضح تھی کہ اپوزیشن کے پاس اسے تسلیم کرنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔کیپریلس نے پر امن طور پر ہار اس لئے نہیں مانی کہ وہ جمہوری اقدار کابڑا داعی ہے بلکہ اسے معلوم تھا کہ اس موقع پر کسی قسم کی مہم جوئی کے الٹ اثرات برآمد ہوتے۔اس سے بولیوارین انقلاب جارحانہ سمت میں چل پڑتا اور حکمران طبقے کی طاقت اور مراعات کو سخت خطرات لاحق ہو جاتے۔حکمران طبقے کاذہین ترین حصہ پہلے سے جانتا تھا کہ وہ شاویز کے خلاف یہ الیکشن نہیں جیت سکتے۔اب وہ انہیں ملنے والے 60لاکھ ووٹوں کے سہارے یہ خواب دیکھیں گے کہ شاویز بیماری کے باعث اپنی مدت پوری نہیں کر پائے گا۔وہ دسمبر میں ہونے والے علاقائی الیکشنوں پر بھی نظریں جمائے ہوئے ہیں۔
شاویز کی شاندار کامیابی، محنت کشوں کی طبقاتی جبلت اور وینزویلا کے عوام کے بڑھتے ہوئے سیاسی شعور کی عکاسی کرتی ہے۔یہ فتح اور حکمران طبقے کی شکست بذاتِ خود محنت کش عوام کے لئے پر جوش احساسات کے حامل ہیں۔اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ’’بولیوارین افسر شاہی‘‘ اور اصلاح پسند یہ کہہ کر فتح کو شکست میں تبدیل کرنے کی پوری کوشش کریں گے کہ ’’ملک میں دوطبقوں کے درمیان پھوٹ پڑچکی ہے اس لیے صدر کو دونوں طبقوں کو ساتھ لے کر چلنا او ر دونوں طبقوں کے مفادات کا تحفظ کرنا چاہیے‘‘۔
عوام نے 2006ء میں فیصلہ کن طور پر سوشلزم کے لئے ووٹ دیا تھا۔شاویز کے پروگرام کا مرکزی نقطہ ہی یہ ہے کہ انقلاب لازمی طورپر مکمل ہونا چاہئے۔اس الیکشن میں فتح کے بعد مرافلورس محل کی ’’عوامی بالکنی‘‘ سے تقریر کرتے ہوئے بھی شاویز واضح طور پر کہا کہ’’21ویں صدی کے جمہوری سوشلزم کی طرف وینزویلا کا سفر جاری رہے گا‘‘۔
بولیوارین تحریک میں افسر شاہی اور اصلاح پسندوں کے خلاف پائی جانی والی بے چینی اور عدم اطمینان الیکشنوں کے بعد کھل کر سطح پر آئے گا۔افسر شاہی اور اصلاح پسندی کے خلاف رجحان کی نمائندگی ’’قومی تحریک برائے مزدور کنٹرول و مزدور کونسل‘‘، Bolivar Zamora Current ،Plan Socialist Guayana اور اس طرح کی دوسری تحریکیں اور رجحانات کرتے ہیں۔
وقتی طور پر ردِ انقلاب کو عوام نے شکست دے دی ہے لیکن انقلاب مستقل بنیادوں پر دوراہے پر کھڑا نہیں رہ سکتا۔شاویز نے ذاتی ملکیت کو کسی حد تک نقصان پہنچا یاہے لیکن وینزویلا کی معیشت اور ریاست اب بھی بنیادی طور پر سرمایہ دارانہ ہے اور 100امیر خاندانوں کے تسلط میں ہے جن کے سامراج کے ساتھ گہرے رشتے ہیں۔
انقلاب کی فتح کو مستقل طور پر یقینی بنانے کے لئے ضروری ہے کہ معیشت کے کلیدی شعبوں کو قومی تحویل میں لیتے ہوئے مزدوروں کے جمہوری کنٹرول میں دیا جائے تاکہ ملک کی دولت کو جمہوری منصوبے کے ذریعے عوام کی اکثریت کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے استعمال کیا جا سکے۔اس طرح کے اقدامات سرمایہ داری کے خاتمے کو یقینی بنائیں گے۔اس عمل کو جہاں ایک طرف فوری طور پر کاراکاس، واشنگٹن اور میڈرڈ کے حکمران طبقات کی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا تو دوسری طر ف پورے لاطینی امریکہ اور یورپ کے لاکھوں مزدوروں اور کسانوں کی حمایت حاصل ہو گی جو اس نظام کے بحران کے نتائج بھگت رہے ہیں۔
سرمایہ دارانہ میڈیا ایک بات سچ کہہ رہا ہے: وینزویلا میں اس وقت دو متضاد سماجی نظاموں کے درمیان جدوجہدجاری ہے۔ایک طرف سرمایہ داری ہے جس کی ناکامی کروڑوں لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔دوسری طرف سوشلزم ہے جو کہ ذرائع پیداوار کی مشترکہ ملکیت اور معیشت کی جمہوری منصوبہ بندی ہے۔
آگے بڑھنے کا وقت آن پہنچا ہے!
سوشلزم یا بربریت!
وینزویلا کا انقلاب، زندہ باد!
سوشلسٹ انقلاب، زندہ باد!
مارکسسٹ ڈاٹ کام، 8 اکتوبر 2012ء
متعلقہ: