وینزویلا پر منڈلاتا ردِ انقلاب!

تحریر: لال خان

پچھلی دو دہائیوں سے کارپوریٹ میڈیا وینزویلا کی بولیوارین تحریک کے خلاف ایک بیہودہ اور زہریلے پراپیگنڈے میں مصروف ہے۔ اس انقلابی عمل کا آغاز 1998ء میں ہوگو شاویز کی صدارتی انتخابات میں کامیابی سے ہوا تھا۔ تاہم پچھلے کچھ مہینوں سے لاطینی امریکہ میں تیل کی پیداوار کے اِس سب سے بڑے ملک میں بحران بہت شدید ہوگیا ہے اور گلیوں میں تشدد بڑھتا جا رہا ہے۔ پچھلے ہفتے ٹرمپ نے وینزویلا پر پہلے سے موجود معاشی پابندیاں مزید سخت کر دی ہیں۔ وینزویلا میں انقلابی تحریک کے آغاز اور سوشلسٹ پارٹی (PSUV) کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے ہی اِن سامراجیوں نے حکومت کو سبوتاژ کرنے اور ملک میں عدم استحکام پھیلانے کا ہر حربہ آزمایا ہے۔ عالمی کارپوریٹ میڈیا تشدد کی حالیہ لہر کی سرغنہ دائیں بازو کی اپوزیشن، جسے اِن سامراجیوں کی مکمل مالی و سیاسی حمایت حاصل ہے، کو جمہوریت کا محافظ بنا کر پیش کر رہا ہے۔
عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں گراوٹ اور سامراجی پابندیوں سے ملک میں افراط زر 700 فیصد سے تجاوز کرچکا ہے اور اجرتوں کی حقیقی قدر مسلسل گر رہی ہے۔ اساتذہ کی یونین کے اندازوں کے مطابق بنیادی اجناس اور خدمات کے حصول کے لیے کم سے کم تنخوا ہ والی سترہ نوکریوں کی ضرورت ہے۔ لازمی ادویات اور علاج معالجے کے ساز و سامان کی شدید قلت ہے۔ ریڈیو اور ٹی وی پر روزانہ ادویات کے لیے اپیلیں صورتحال کی گھمبیرتا کو ظاہر کرتی ہے۔
تیل کی آمدنی میں شدید کمی اور معاشی پابندیوں کی وجہ سے ہوگو شاویز کے دور میں شروع کئے گئے وسیع پیمانے کے عوامی فلاحی منصوبے اب تقریباً منہدم ہوچکے ہیں۔ آج ونیزویلا کی 95 فیصد بیرونی آمدنی تیل سے آتی ہے جبکہ بیس سال پہلے یہ شرح 67 فیصد تھی۔ اسی اثنا میں معیشت کے بہت سے شعبوں میں صنعتی اور زرعی پیداوار کے گرنے سے جی ڈی پی 18 فیصد سکڑ چکا ہے۔ ریاستی خزانہ 2012ء کی سطح سے 40 فیصد نیچے گر چکا ہے۔ آبادی کا 90 فیصد حصہ درکار غذا خرید نہیں سک رہا جس سے اوسط وزن میں آٹھ کلو کمی ہوئی ہے۔ دودھ کا استعمال آدھا ہو چکا ہے۔
کرنسی کے تبادلے کے نظام کی پیچیدگیوں کی وجہ سے درآمد کنندگان کو یہ موقع ملا ہے کہ وہ نہایت کم قیمت پر ڈالر حاصل کریں (حالیہ دنوں میں تقریباً بارہ بولیوار فی ڈالر) اور پھر درآمد کردہ اجناس مارکیٹ ریٹ کے حساب سے سینکڑوں گنا زیادہ قیمت پر بیچیں۔ مقامی سرمایہ داروں نے اجناس کا ذخیرہ کرکے قیمتیں بڑھائی ہیں اور صنعتی اور مالیاتی شعبوں نے اپنا سرمایہ باہر بھیج کر قومی معیشت کو تباہ کر دیا ہے۔
حکمران سوشلسٹ پارٹی کے اندر ایک اور کشمکش جاری ہے۔ ایک گروہ اصلاح پسندانہ پالیسیاں، جنہوں نے معاملات کو یہاں تک پہنچا دیا ہے، کو جاری رکھنے کی کوشش میں ہے جبکہ دوسرا دھڑا اُس عوامی تحریک کو دوبارہ ابھارنے کی بات کر رہا ہے جس نے ہوگو شاویز کی صدارت کو 2002ء میں امریکی ایما پر ہونے والے فوجی کُو (Coup) سے بچایا تھا۔
دائیں بازو کی اپوزیشن بھی متحارب گروہوں میں منقسم ہے۔ کچھ سوشلسٹ پارٹی کے صدر نکولس مادورو سے مذاکرات کے حامی ہیں جبکہ دوسرے (بالخصوص لیوپولڈو لوپیز کا گروہ اور اس کا اتحادی لیلیانہ تنتوری) گلیوں میں تشدد اور تخریب کاری کے حامی ہیں۔ وہ نہ صرف نکولس مادورو بلکہ مرحوم ہوگو شاویز کی شخصیت کے گرد ابھرنے والے سامراج اور سرمایہ داری مخالف رجحانات، جنہیں ’شاوزم‘ یا ’شاوزمو‘ کہا جاتا ہے، کو بھی کچلنا چاہتے ہیں۔ نام نہاد ’اپوزیشن‘ کے یہ عوام دشمن، ردِ انقلابی اور رجعتی عناصر زیادہ تر خود بڑے سرمایہ دار اور سامراجی گماشتے ہیں جو ایک عوامی تحریک کے نتیجے میں ہوگو شاویز کے بر سر اقتدار آنے سے قبل وینزویلا کی معیشت اور سیاست پر حاوی تھے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ شاویز کے جانشین مادورو نے اِن عوام دشمنوں سے سمجھوتہ کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ لیکن المیہ یہ بھی ہے اِن میں سے بیشتر سرمایہ داروں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں پر شاویز کے دور میں بھی ہاتھ نہیں ڈالا گیا اور سوشلزم کی تمام تر نعرہ بازی کی باوجود انقلاب کو مکمل نہیں کیا گیا۔ موقع ملتے ہی یہ حکمران طبقات بھاڑے کے غنڈوں کو گلیوں میں لا کر ملک کو انتشار کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ اس گھمبیر اور نازک صورتحال میں وینزویلا کے محنت کش عوام کے ہاتھوں سے شاویز دور کی حاصلات نکلتی جارہی ہے۔ امیر اور غریب کے درمیان خلیج ایک مرتبہ پھر بڑھتی جا رہی ہے۔
بحران کے نتیجے میں غریب اور محنت کش طبقے کو ماضی کی حاصلات سے ہاتھ دھونا پڑ رہا ہے جبکہ سرمایہ دار ٹولوں کی دولت اور طاقت اپنی جگہ قائم ہے۔ حالات درحقیقت پہلے سے ہی بہت خطرناک ہوچکے تھے، جب دسمبر 2015ء میں قومی اسمبلی کے انتخابات میں دائیں بازو نے دو تہائی اکثریت حاصل کر لی تھی۔ اس کی بڑی وجہ سوشلسٹ پارٹی کے دو ملین ووٹروں کا ووٹ نہ ڈالنا تھا، جو قیادت کو ایک چتاؤنی تھی اور قیادت کی مصالحت پسندی اور ادھوری پالیسیوں سے عوام کی مایوسی کا اظہار تھا۔ اپنی موت سے کچھ عرصہ پہلے 2013ء میں شاویز نے قومی منصوبہ 2013-19ء کاپیش لفظ لکھا تھا، جس میں اِس بات کو تسلیم کیا گیا تھا کہ ریاست کا سرمایہ دارانہ کردار تبدیل نہیں ہوا ہے۔ شاویز نے سمت بدلنے کی بات کی تھی۔ لیکن سرمایہ داری اور اس کی ریاست کے یکسر خاتمے کے لئے جتنے بڑے پیمانے کی نیشنلائزیشن اور معیشت اور ریاست کی ڈیموکریٹائزیشن کی ضرورت تھی وہ نہیں کی گئی۔ نتیجتاً سوشلسٹ پارٹی رفتہ رفتہ ریاستی مشینری کے تابع ہوتی چلی گئی، پارٹی کے اندر افسر شاہانہ رجحانات پنپنے لگے، بحث اور اختلافات کو کچلا جانے لگا اور نتیجتاً پارٹی کے عام کارکنان اور حامی عوام میں مایوسی پھیلی۔ اِس سارے عمل کی ایک کلیدی وجہ یہ حقیقت ہے کہ شاویز کی سوشلسٹ پارٹی اپنے تمام تر ریڈیکل پروگرام اور نعروں کے باوجود ایک لینن اسٹ پارٹی نہیں تھی۔ تاہم اس پسپائی کے باوجود سامراج اور سرمایہ داری مخالف بولیوارین تحریک کے ابھار کے سالوں کی یادیں اور میراث اب بھی باقی ہے، اگرچہ فی الوقت وینزویلا کا محنت کش طبقہ ایک تذبذب سے دوچار ہے۔
دیوار برلن کے گرنے اور سوویت یونین کے انہدام کے بعد نوے کی دہائی کے آخر میں لاطینی امریکہ میں شاویز کے اقتدار میں آنے اور ’اکیسویں صدی کے سوشلزم‘ کے نعرے نے پورے سیارے میں انقلابی قوتوں کو ایک نئی جرات اور حوصلہ دیا تھا۔ اُس وقت پورے لاطینی امریکہ میں انقلابی تحریکوں کا ابھار تھا اور بولیویا سے ایکواڈور تک ریڈیکل بایاں بازو ہر طرف فتوحات سمیٹ رہا تھا۔ وہ لہر اب پیچھے کی جانب گئی ہے۔ اس پسپائی، جو ضروری نہیں کہ طویل عرصے تک برقرار رہے، کے منفی اثرات ناگزیر ہوں گے۔ تاہم لاطینی امریکہ کے اس دیوہیکل سیاسی تجربے میں انتہائی اہم اسباق موجود ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ ثابت ہوا ہے کہ اصلاح پسندی چاہے کتنی ہی ریڈیکل کیوں نہ ہو، زیادہ عرصے تک عوام کے سماجی و معاشی حالات میں بہتری اور ترقی کو برقرار نہیں رکھ سکتی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ کے بہت سے ممالک میں بائیں بازو کی پاپولسٹ حکومتوں کے عروج و زوال یہی داستان ہے۔ شاویز ایسے پاپولسٹ لیڈروں میں شاید سب سے زیادہ آگے گیا۔ لیکن سرمایہ داری کے بحران نے اصلاح پسندی کو تاریخی طور پر متروک کر دیا ہے۔ اس نظام کو مکمل طور پر اکھاڑے اور معیشت کے کلیدی حصوں کو قومی تحویل میں لے کر منڈی کی معیشت کی انارکی کو سوشلسٹ منصوبہ بندی سے تبدیل کئے بغیر کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ دوسرے الفاظ میں انقلاب کو مکمل کرنا ہوگا۔ طبقاتی جنگ کو آخر تک لڑنا ہوگا۔ تاریخ گواہ ہے کہ نامکمل انقلابات کے نتائج انتہائی خوفناک ہوتے ہیں۔ فرانسیسی انقلابی لوئی ڈی سینٹ جسٹ، جو انقلاب فرانس کے دوران نیشنل کنونشن کا صدر بنا اور انقلاب کے رہنما میکسملین روبسپیر کے ساتھ ہی جس کا سر قلم کیا گیا، نے واضح کیا تھا کہ ’’انقلاب کو ادھورا چھوڑنے والے اپنی قبر خود کھودتے ہیں۔‘‘

متعلقہ:

وینزویلا: آخری موقع!