تحریر: آصف رشید
20 مئی کو ہونے والے وینزویلا کے صدارتی انتخابات میں سوشلسٹ پارٹی (PSUV) کے نکولس مادورو نے کامیابی حاصل کی اور اگلے چھ سال کے لیے صدر منتخب ہوئے۔ جہاں یہ وینزویلا کے محنت کش طبقے کی جہدِ مسلسل اور بولیورین انقلاب کے دفاع میں ایک اہم کامیابی ہے وہیں امریکی سامراج اور اس کی حمایت یافتہ دائیں بازو کی اپوزیشن کے لئے عبرتناک شکست ہے۔ اپوزیشن نے اس الیکشن کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا۔ جس کی وجہ سے درمیانے طبقے کے شہری علاقوں میں ٹرن آؤٹ نسبتاً کم رہا۔ عالمی میڈیا کے نہایت غلیظ پراپیگنڈا جاری رکھا جبکہ امریکی سامراج اور لاطینی امریکہ میں اسکی دم چھلا حکومتوں نے بھی الیکشن ملتوی کرنے کی بھرپور مہم چلارکھی تھی۔ اور یہ رجعتی طاقتیں اب تک ان انتخابات کی قانونی حیثیت کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔
پچھلے بیس سال سے وینزویلا کے انقلاب کو سبوتاژ کرنے میں امریکی سامراج ہمیشہ پیش پیش رہا ہے۔ لیکن ابھی تک وینزویلا کے محنت کش طبقے نے کامیابی سے انقلاب کا دفاع کیا ہے۔ حالیہ الیکشن میں بھی غریب اور محنت کش طبقے کے علاقوں سے لوگوں کی بڑی تعداد نے ووٹ ڈال کر سامراجی یلغار کو شکست فاش دی۔ لیکن مجموعی طور پر پچھلے صدارتی انتخابات کی نسبت ٹرن آوٹ کافی کم رہا۔ جسکی ایک بنیادی وجہ معاشی بحران، بے قابو ہوتا ہو اافراط زر، بھوک اور قلت اور مادورو انتظامیہ کی ان تمام مسائل کو حل کرنے میں نااہلی ہے۔ اس کیفیت نے محنت کش طبقے کی باشعور پرتوں میں حکومت کے حوالے سے شکوک و شبہات پیدا کئے ہیں۔ انقلاب کی پیش قدمی میں سب سے بڑی رکاوٹ سوشلسٹ پارٹی کی اصلاح پسند قیادت اور صدر مادورو کی مصالحت کی روش ہے۔ اور شاید یہ مادورو کے پاس آخری موقع ہے۔
پولنگ ختم ہونے کے کچھ گھنٹوں بعد نیشنل الیکشن کونسل (NEC) نے نتائج کا اعلان کیا۔ ڈالے جانے والے 92 فیصد ووٹوں کی گنتی ہو سکی۔ 8.6 ملین لوگوں نے ووٹ ڈالا اور ٹرن آؤٹ 46.1 فیصد رہا۔ جو شاید وینزویلا کی تاریخ میں کم ترین ٹرن آؤٹ ہے۔ نکولس مادورو کو 5.8 ملین ووٹ پڑے (68 فیصد) جبکہ اپوزیشن امیدوار ہنری فالکن کو 1.8 ملین (21 فیصد) ووٹ پڑے۔ دیگر دو امیدواروں نے 1 ملین (10.4 فیصد) ووٹ حاصل کئے۔ عالمی مبصرین کی موجودگی میں انتخابات خوش اسلوبی سے منعقد ہوئے۔ سپین کے سابق صدر زیبارٹو بھی عالمی مبصر کے طور پر وہاں موجود تھے۔ جبکہ اقوام متحدہ اور یورپی یونین کے مبصرین کو بھی مدعو کیا گیا تھا لیکن انہوں نے آنے سے صاف انکار کردیا اور اب وہ دھندلی کے الزامات لگا رہے ہیں حالانکہ وہ وہاں خود موجود بھی نہیں تھے۔ پچھلے کئی الیکشنوں میں امریکہ کے سابق صدور سمیت عالمی مبصرین متعدد بار بتا چکے ہیں کے وینزویلا کا انتخابی نظام دنیا کا شفاف ترین انتخابی نظام ہے۔ لیکن اس کے باوجود سامراجیوں اور اپوزیشن نے نہ صرف نتائج ماننے سے انکار کیا ہے بلکہ وہ زیادہ شدید معاشی حملے اور اقتصادی پابندیاں لگانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ اس دوران عالمی طاقتوں کی آپسی چپقلش میں روس اور چین نے انتخابی نتائج کا احترام کرنے کو کہا ہے اور امریکی سامراج کی ان انتخاب کو متنازعہ بنانے کی واردات کی مخالفت کی ہے۔ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان لو کنگ نے پریس کانفرنس میں کہا کہ’’تمام شریک پارٹیوں کو وینزویلا کے لوگوں کے فیصلے کا احترام کرنا چاہیے‘‘جبکہ روس کی وزارت خارجہ کے لاطینی امریکہ کے ڈپارٹمنٹ کے ڈائریکٹرالیگزینڈر شیٹینن نے انتخابات میں امریکی مداخلت پر کہا کہ ’’ان انتخابات میں انتہائی افسوس ناک صورتحال دیکھنے میں آئی ہے کہ انتخابات میں دو روایتی شراکت داروں، وینزویلا کے عوام اور اپنے انتخابی پروگرام کے ساتھ لڑنے والے امید واروں، کے علاوہ ایک تیسری قوت بھی شریک تھی۔ یہ وہ حکومتیں تھیں جو کھلے عام لوگوں کو ووٹ کے بائیکاٹ کی ترغیب دی رہی تھیں۔‘‘
وینزویلا کی دائیں بازوکی اپوزیشن نے امریکی آشیرباد سے الیکشن کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا۔ کیونکہ ان کے پاس بھی بحران کا کوئی حل موجود نہیں ہے۔ وہ مزید انتظار کرنا چاہتے ہیں کہ مادورو حکومت کو معاشی بحران اور سبوتاژ کی کیفیت میں شدید دباؤ کے تحت کمزور کیا جائے اور پھر ماضی میں کی گئی بائیں بازو کی اصلاحات کے خلاف حملے کئے جائیں۔ اس سے پہلے بھی انقلاب کو سبوتاژ کرنے کے لیے امریکی سامراج کی مالی معاونت سے حکومت مخالف پر تشدد احتجاج شروع کئے گئے تھے۔ جسے محنت کش عوام نے جدوجہد کے ذریعے ناکام بنایا تھا۔ اس ناکامی کے نتیجے میں اپوزیشن کے اندر اختلافات اور ٹوٹ پھوٹ کا عمل جاری ہے۔ ہنری فالکن نے بھی ’’راؤنڈ ٹیبل جمہوری اتحاد‘‘ (MUD)، جس نے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا، سے الگ ہوکر اپنی علیحدہ پارٹی بنائی تھی اور جمہوری اتحاد کے بہت سے لوگوں نے اس کی حمایت بھی کی تھی۔ بالعموم تمام دائیں بازو کو ٹرمپ انتظامیہ کی حمایت اور آشیرباد حاصل ہے اور یہ وینزویلا میں ٹرمپ کی پراکسیاں ہیں جن کا حتمی مقصد مرحوم شاویز کی قیادت میں شروع ہونے والے انقلابی عمل کو کچلنا ہے۔
سوشلسٹ پارٹی کی حکومت اور بولیوارین انقلاب کو سب سے بڑا خطرہ اندرونی ہے۔ معاشی بحران نے ماضی میں کی گئی تمام تر اصلاحات کا گلا گھونٹ دیا ہے۔ معیشت کے بڑے حصے سرمایہ داروں کی نجی ملکیت میں ہیں جن کو استعمال کرتے ہوئے وہ معاشی سبوتاژ کرتے ہیں۔ وینزویلا میں افراطِ زر انتہاؤں کو چھو رہا ہے جو پچھلے سال 1700 فیصد سے بڑھ کر اس سال 2200 فیصد تک پہنچ چکا ہے اور اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ لوگوں کی قوتِ خرید تیزی سے گر رہی ہے جس سے محنت کش خاندانوں کا جینا محال ہو چکا ہے۔ لوگوں کی اکثریت حکومت کی امدادی خوراک پر انحصار کرتی ہے جس کے حصول میں افسر شاہانہ مشکلات درپیش ہیں۔ بنیادی صنعت تباہ ہو چکی ہے جو کہ محض 5سے 15 فیصد پیداواری صلاحیت پر کام کر رہی ہے۔ بجلی اور پانی کی قلت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس تمام تر بحران کی ایک وجہ سامراجی پابندیاں ہیں جن کی وجہ سے حکومت کو تجارت اور بنیادی ضروریات کی درآمدمیں مشکلات کا سامنا ہے لیکن اس بحران کی سب سے اہم وجہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی ہے جبکہ حکومتی آمدن کا 90 فیصد تیل کی برآمد سے حاصل ہوتا ہے۔ پچھلے ہفتوں میں عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت میں اگرچہ کچھ اضافہ ہوا ہے لیکن وینزویلا میں تیل کی یومیہ پیداوار 1.5 ملین بیرل سے بھی نیچے گر چکی ہے جو 2014 ء میں 2.8 ملین بیرل یومیہ تھی۔ اس کمی کی بڑی وجہ سرمایہ کاری کا نہ ہونا، کرپشن اور بد انتظامی ہے۔ یہ وہ مسائل ہیں جو معیشت کو کھوکھلا کر رہے ہیں۔ لیکن سب سے بڑھ کر یہ صورتحال اور مسائل اصلاحات کی محدودیت کا اظہار اور ادھورے انقلاب کے ناگزیر مضمرات ہیں۔ ادھوری نیشنلائزیشن اور سرمایہ دارانہ نظام کے ڈھانچے میں رہتے ہوئے اصلا حات کی کوشش اپنا اظہار بحران کی شکل میں کر رہی ہے۔ ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت کا خاتمہ کیے بغیر ٹھوس بنیادوں پر انقلاب کو آگے نہیں بڑھایا جا سکتا۔ وینزویلا میں ابھی بھی دو تہائی معیشت نجی قبضے میں ہے۔ انقلاب کو آگے بڑھانے کا واحد راستہ سرمایہ داری کا یکسر خاتمہ ہے۔ لیکن مادورو نے اس بحران سے نکلنے کے لیے ابھی تک جو طریقے اختیار کیے ہیں وہ پھر بار بار بیرونی سرمایہ داروں سے سرمایہ کاری کی اپیل ہے۔ جس کے لیے مختلف شعبوں میں قیمتوں پر کنٹرول کا خاتمہ کرنے، نئے معاشی زون بنانے، کان کنی کے لئے بڑے پیمانے پر زمین اور سستے قرضے دینے جیسے اقدامات شامل ہیں۔ لیکن یہ تما م چیزیں کار آمد ثابت نہیں ہو رہی ہیں۔ سامراج اور مقامی سرمایہ دار کسی مصالحت کے موڈ میں نہیں ہیں۔ وہ سوشلسٹ پارٹی کی حکومت کے خلاف وار کا کوئی موقع ضائع نہیں کریں گے۔ یہ کیفیت سوشلزم کی ناکامی نہیں بلکہ اصلاح پسندی کا دیوالیہ پن ہے۔ منڈی کی معیشت اور منصوبہ بند معیشت دو متضاد چیزیں ہیں۔ بیک وقت میں ان دو متضاد نظاموں کو چلانا ناممکن ہے۔ جلد یا بدیر ایک نے دوسرے پر فتح یاب ہونا ہوتا ہے۔