[تحریر: لال خان]
1998ء میں ہوگوشاویز کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے امریکی سامراج اور اس کی بغل بچہ دائیں بازو کی اپوزیشن کو چین نہیں آیا ہے۔ دنیا بھر میں جمہوریت کے نام پر قتل و غارت گری کرنے والوں نے وینزویلا میں بائیں بازو کی جمہوری حکومت کو سبوتاژ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا ہے۔ گزشتہ ڈیڑھ دہائی کے دوران شاید ہی دنیا کے کسی ملک میں وینزویلا جتنے صدارتی، پارلیمانی اور بلدیاتی انتخابات ہوئے ہوں گے۔ سوائے ایک ریفرنڈم کے شاویز اور اس کی پارٹی PSUV (ونزویلا کی متحدہ سوشلسٹ پارٹی) نے ہر انتخاب میں کامیابی حاصل کی ہے۔ لیکن سامراجی ذرائع ابلاغ ماضی میں مرحوم ہوگو شاویز کو ایک ظالم، درندہ صفت اور وحشی آمر قرار دیتے تھے اور اب نکولس مادورو کو ان القابات سے نوازا جارہا ہے۔
5 مارچ 2013ء کو ہوگو شاویز کی وفات کے بعد جب ان کا نائب نکولس مادورو صدر منتخب ہوا تو صدارتی انتخابات کے نتائج پر شور مچایا گیا۔ لیکن جب سابق امریکی صدر جمی کارٹر کی مانیٹرنگ ٹیم نے وینزویلا کے انتخابی نظام کو دنیا میں ’’بہترین اور شفاف ترین‘‘ قرار دیاتو مغربی ’’تجزیہ نگاروں‘‘ کو منہ چھپانے کی جگہ نہیں مل پارہی تھی۔ دسمبر 2013ء میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں بھی دائیں بازو کی اپوزیشن کو کہیں زیادہ بڑے پیمانے پر شکست ہوئی۔ انتخابی میدان میں بار بار شکست کھانے کے بعد اب امریکی سامراج کی پشت پناہی سے PSUV کی حکومت کے خلاف پر تشدد مہم کا اغاز کر دیا گیا ہے۔ عالمی کارپوریٹ میڈیا پر آج کل اپوزیشن کے غنڈوں کے ’’احتجاج‘‘ کو خوب کوریج دی جارہی ہے۔ یہ امریکی سامراج کی کوئی نئی چال نہیں ہے بلکہ گزشتہ ایک دہائی سے جاری رجعتی پالیسی کا ہی تسلسل ہے جس میں اب شدت آگئی ہے۔ سامراجیوں کے پلاننگ یہ ہے کہ سرمایہ داروں کے معاشی سبوتاژ اور اپوزیشن کی مسلسل ایجی ٹیشن کے ذریعے سیاسی، سماجی اور اقتصادی خلفشار کو بڑھا کر صورتحال کو زیادہ سے زیادہ خراب کیا جائے جسے بعد ازاں سوشلسٹ حکومت کے خاتمے کے جواز کے طور پر استعمال کیا جاسکے۔ اس مقصد کے لئے ایک ممکنہ حکمت عملی یہ ہوسکتی ہے کہ حکومت کو بڑے پیمانے پر طاقت کے استعمال پر مجبور کر کے ایک خانہ جنگی کی صورتحال پیدا کی جائے اور سامراج کی پشت پناہی سے فوجی آمریت مسلط کردی جائے۔
امریکی سامراج وینزویلا میں ہونے والی بائیں بازو کی معاشی اصلاحات اور عوام کو دی جانے والی بڑے پیمانے کی سہولیات اور سبسڈیز سے اس قدر بوکھلاہٹ کا شکار ہے کہ اس نے فاشسٹ گروہوں کی جانب سے تشدد کی کھل کر حمایت کرنی شروع کر دی ہے۔ امریکہ کے مشہور ٹیلی وژن چینل ’’یونی وژن‘‘ کو جون 2013ء میں دئیے گئے انٹر ویو میں امریکی صدر باراک اوباما نے نکولس مادورو کو ونزویلا کا قانونی صدر ماننے سے انکار کردیا تھا۔ اس کے جواب میں نکولس مادورو نے اپنے بیان میں تنبیہ کی تھی کہ ’’اوباما کا بیان فاشسٹ دائیں بازو کو عوام پر حملے کرنے کے لئے سبز بتی کا اشارہ ہے۔ ‘‘ حالیہ مظاہروں کے دوران امریکی وزیرخارجہ ن جان کیری نے وینزویلا کی حکومت کے خلاف اپنی زہریلی بیان بازی تیز کردی ہے۔ حالیہ رد انقلابی حملے کی سفاکیت کا عتراف بہت سے دائیں بازو کے تجزیہ نگار بھی کررہے ہیں۔ وینزویلا کے دائیں بازو کے اخبار’’ایل یونیورسل‘‘ نے 21فروری کو لکھا ہے کہ ’’اپوزیشن کی مہم کو بددماغ غنڈوں کے ہجوم نے یرغمال بنا لیا ہے جو اپنے جنون میں ہر چیز کو برباد کر دینا چاہتے ہیں۔‘‘
معمول کے مطابق وینزویلا میں 2015ء میں پارلیمانی اور 2016ء میں صدارتی انتخابات ہونے ہیں تاہم آئین کے مطابق اگر آبادی کا بڑا حصہ اگر ’’عدم اعتماد‘‘ کی پٹیشن پر دستخط کردیتا ہے تو فوری انتخابات منعقد ہوسکتے ہیں۔ اپوزیشن یہی ’’عدم اعتماد‘‘ امریکی سامراج کی ایما پر پیدا کرنے کی سعی کررہی ہے۔ مظاہروں کے ساتھ ساتھ بم دھماکے بھی کروائے جارہے ہیں۔ دنیا بھر میں ’’جمہوریت‘‘ اور ’’انسانی حقوق‘‘ کے چیمپئین بننے والوں کو کوئی غرض نہیں ہے کہ کتنے بے گناہ انسان ان کے سامراجی پاگل پن کی بھینٹ چڑھتے ہیں۔ زیادہ تر پوش یا متوسط طبقے کے علاقے ان رد انقلابی کاروائیوں کے گڑھ بنے ہوئے ہیں۔ ان میں کاراکاس (دارالحکومت) میں ایل کفنال، ایل پتھیلو اور ایل ثامیر کے علاقے شامل ہیں۔ طبقاتی لحاظ سے ان علاقوں کی لاہور کے ڈیفنس، گلبرگ 3 اور ماڈل ٹاؤن سے گہری مشابہت ہے۔ محنت کشوں اور غریبوں کے رہائشی علاقوں میں اپوزیشن کو سرے سے کوئی حمایت حاصل نہیں ہے۔ یہ بات اپوزیشن کے نمائندے بھی تسلیم کرنے پر مجبور ہیں۔ 12 فروری کے حکومت مخالف مظاہرے میں بمشکل دو سے تین ہزار امیر گھرانوں کے طلبہ شریک تھے۔ یاد رہے کہ 1998ء میں سوشلسٹ حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے وینزویلا میں یونیورسٹی طلبہ کی تعداد 8 لاکھ سے بڑھ کر 20 لاکھ ہوچکی ہے۔
کاراکاس میں لوٹ مار اور توڑ پھوڑ کرنے والوں کی تعداد تین سو سے زیادہ نہیں ہے۔ ان میں زیادہ تر کرائے کے غنڈے اور پیشہ ور مجرم ہیں۔ ان ’’مظاہرین‘‘ کو وینزویلا کے اندر اور باہر کارپوریٹ ذرائع ابلاغ ’’عوام‘‘ کے طور پر پیش کررہے ہیں۔ امریکی سامراج کی جانب سے فسادیوں کی پشت پناہی کے ثبوت ملنے کے بعد 3امریکی سفارت کاروں کو ملک سے نکالا جاچکا ہے۔ اپوزیشن کو امریکہ کی مالی معاونت بھی حاصل ہے۔ امریکہ ہر سال 50 لاکھ ڈالر ’’جمہوری حقوق‘‘ کے نام پر دائیں بازو کی اپوزیشن کو دیتا ہے جبکہ خفیہ فنڈنگ اس سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف ’’نظام مصطفیٰ‘‘ کے نام پر چلنے والی PNA کی تحریک بھی اسی قسم کی سامراجی فنڈنگ کا نتیجہ تھی۔
حکومت کی حمایت میں ہونے والے مظاہرے اپوزیشن سے کئی گنا بڑے ہیں لیکن عالمی میڈیا انہیں دکھانے سے گریز کررہا ہے۔ 19 فروری کو رد انقلابی اپوزیشن کے خلاف محنت کشوں کے بڑے مظاہرے پر فاشسٹ غنڈوں کی فائرنگ سے دو مزدور جاں بحق جبکہ 9 بری طرح زخمی ہوئے ہیں۔ ان مسلح غنڈوں سے مذاکرات بے معنی ہیں۔ صرف مزدوروں، کسانوں اور انقلابی نوجوانوں پر مشتمل عوامی ملیشیا ذریعے ہی انہیں ٹھکانے لگایا جاسکتا ہے۔ احتجاج کا حق ہر کسی کو حاصل ہے لیکن رد انقلاب جب فسطائیت اور غنڈہ گردی پر اتر آئے تو اینٹ کا جواب پتھر سے دینا پڑتا ہے۔ سامراج اور اس کے ایجنٹ امن اور محبت کی زبان کبھی ماضی میں سمجھے ہیں نہ اب سمجھیں گے۔
8دسمبر کے بلدیاتی انتخابات سے قبل حکومت نے زخیرہ اندوزی اور سٹہ بازی کے ذریعے مصنوعی مہنگائی کرنے والے منافع خوروں کے خلاف بڑا آپریشن کیا تھا جس کے نتیجے میں اشیائے خوردو نوش نہ صرف دکانوں پر دستیاب ہوگئی تھیں بلکہ ان کی قیمتیں بھی گر گئی تھیں۔ PSUV کی انتخابی کامیابی میں اس کاروائی نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ کامیابی کے بعد حکومت میں شامل موقع پرستوں نے حکمران طبقات سے مصالحت کی کوشش ایک بار پھر شروع کردی جس سے معاشی سبوتاژ پھر سے شروع ہوگیا۔ PSUV کے ایسے مصالحانہ اقدامات سے عوا م میں بھی بدظنی اور مایوسی پیدا ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رجعتی اپوزیشن کے خلاف عوام کی مذاحمتی تحریک ماضی کی نسبت کمزور ہے۔ پارٹی اور حکومت پر براجمان افسر شاہی کا ایک دھڑا انقلاب کو آگے بڑھنے سے روکنے سے ہر ممکن کوشش کررہا ہے۔ یہ آستین میں چھپے سانپ ہیں جن کا سر کچلنا انتہائی ضروری ہے۔ انہی عناصر کے پریشر کے تحت وزراء میں شامل مارکسسٹوں، ایڈورڈ سمن اور ماریہ لیون کو برطرف کیا گیا ہے۔
2002ء میں امریکی سامراج کی ایما پر جب ہوگوشاویز کا تختہ فوجی بغاوت کے ذریعے الٹا گیا تھا تو نوجوان فوجی افسروں، سپاہیوں اور محنت کشوں کی برق رفتار مزاحمت نے اس مارشل لاء کو 36 گھنٹوں میں شکست دے کر شاویز کو بطور صدر بحال کروایا تھا۔ اس کے بعد شاویز نے ’’21ویں صدی میں سوشلزم‘‘ کا نعرہ بلند کر کے صحت، تعلیم، رہائش اور دوسرے شعبوں میں ریڈیکل اصلاحات کی تھیں۔ ان اصلاحات کے نتیجے میں ایک دہائی میں شرح خواندگی 32 فیصد سے بڑھ کر 96 فیصدجبکہ شرح غربت 81 فیصد سے گھٹ کر 23 فیصد ہوگئی ہے۔ دو درجن نئی یونیورسٹیاں تعمیر کی گئی ہیں۔ سینکڑوں ہسپتال، ڈسپنسریاں اور لاکھوں رہائشی فلیٹ تعمیر ہوئے ہیں۔ علاج اور تعلیم تک ہر شہری کی مفت پہنچ کو یقینی بنایا گیا ہے۔ بڑے جاگیر داروں کی زمینیں ضبط کر کے کسانوں میں تقسیم کی گئی ہیں۔ عالمی اجارہ داریوں اور مقامی سرمایہ داروں کی صنعتوں کو قومی تحویل میں لیا گیا ہے۔ لیکن ان تمام جرات مندانہ اقدامات کے باوجود منڈی کی معیشت کا خاتمہ نہیں کیا گیا ہے۔ وینزویلا کی 2/3 معیشت کسی نہ کسی طرح اب بھی نجی ملکیت ہے۔ یہ PSUVکی قیادت کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں بائیں بازو کی اصلاحات کے بہت سے مضر اثرات بھی برآمد ہوتے ہیں۔ اس وقت وینزویلا میں افراط زر 56 فیصد سے زیادہ ہے اور یہ تکلیف دہ صورتحال زیادہ عرصے تک قائم نہیں رہ سکتی۔ PSUV کی قیادت کو اب فیصلہ کرنا ہوگا۔ سرمایہ دارانہ معیشت اور ریاست کا مکمل خاتمہ کئے بغیر انقلاب ونزویلا آگے نہیں بڑھ سکتا ہے۔
سرمایہ دار کبھی بائیں بازو کی حکومت سے کبھی مصالحت نہیں کریں گے۔ وہ سامراج کی پشت پناہی سے معیشت کو برباد کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیں گے۔ ان کے ہاتھوں سے ملکیت چھین کر ملک کی تمام دولت، وسائل اور ذرائع پیداوار کو جمہوری منصوبہ بند معیشت کے تحت پورے سماج کی ضروریات اور بھلائی کے لئے استعمال کرنا ہوگا۔ صرف اسی طریقے سے سامراجی جکڑ کو توڑکر انقلاب وینزویلا کو پوری دنیا، خاص کر لاطینی امریکہ کے محنت کشوں کے لئے مشعل راہ بنایا جاسکتا ہے۔ بصورت دیگر شاویز کی وفات پر حالت غم میں کہے گئے شاویز اور مصنف کے مشترکہ دوست ڈاکٹر ہکوبو مورے کے یہ الفاظ سچ بھی ہوسکتے ہیں کہ ’’شاویز اچھے وقت پر ہی چلا گیا۔‘‘
متعلقہ:
ہوگو شاویز کی میراث اور انقلاب وینزویلا کا مستقبل
انقلابِ ونزویلا: شاویز کی موت کے بعد؟
وینزویلا: سست روی سے آگے بڑھتا انقلاب