| تحریر: قمرالزماں خاں |
زندگی کے اہم معاملات کو شعوری یا غیر شعوری طور پر نظر انداز کرنے کا چلن عام ہے۔ انتہائی غیر اہم موضوعات کو پوری کوشش کرکے اتنا اجاگر کردیا جاتا ہے کہ سماج میں ناگزیر اور اہم موضوعات کی جگہ پر بہت ہی ثانوی قسم کے موضوعات کا غلبہ ہوجاتا ہے۔ اگر عمومی غربت، پسماندگی، جہالت، بیماریوں اور دیگر مسائل کی بجائے صرف عورت کا ہی تذکرہ ہی کرنا مقصود ہو تو اس کو بھی درست تناظر میں پیش کیا جانا ضروری ہے۔
خواتین کی پاکستان کے سماج میں پسماندگی، ناخواندگی، استحصال کی دُہری تہری سطحیں، گھریلو تشدد، محنت کش خواتین کے لئے نامناسب ماحول اور جنسی طور پرحراساں کیا جاناوغیرہ اہم موضوعات ہیں۔ بطور خاص پے درپے دوشیزاؤں کے سفاکانہ قتل، جن میںآگ لگا کر یا تیزاب پھینک کر مارنے جیسے سنگین نوعیت کے واقعات ہیں۔ اسی طرح شادی شدہ خواتین کے بھوک، گھر یلو حالات، تلخ زندگی اور بیگانگی کے سبب خود کشیوں کے رجحانات میں بھی کسی طور کمی نہیں آرہی۔ زچگی کے دوران ماؤں کی اموات کی شرح بھی یہاں دنیا بھر میں سب سے زیادہ والی فہرست میں ہے۔ کم عمر بچیوں کے ساتھ زیادتی اورقتل جیسے واقعات کی رپورٹنگ کم وبیش ہر روز اخبارات میں ہوتی ہے۔ پاکستان کی آبادی کا آدھا حصہ خواتین پر مشتمل ہے۔ پاکستان میں ساٹھ فی صد سے زائد آبادی زراعت کے ساتھ منسلک ہے۔ دیہی علاقوں میں بالخصوص زیادہ پسماندہ حصوں میں زراعت کا ’عورت‘ کے بغیر کوئی تصور نہیں ہے۔ کام کی باریکی، زیادہ آؤٹ پٹ، استحصال میں آسانی کی وجہ سے صنعتی علاقوں میں بطور خاص گارمنٹس کی انڈسٹری میں خواتین ورکرز ترجیحی بنیادوں پر کام کرتی ہیں۔ تعمیرات اورخشت ساز بھٹہ انڈسٹریز میں مردوں اور بچوں کے ساتھ خواتین برابری کی بنیاد پر کام کرتی ہیں، خشت کی بھٹوں سے نکاسی کے لئے بھی خواتین کام کرتی ہیں۔
پولیس، فوج سمیت مندرجہ بالا تمام شعبوں میں خواتین کام کے دوران اس قسم کا پردہ، حجاب وغیرہ نہیں کرسکتیں جس قسم کا پردہ مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والی اورصرف گھروں تک محدود (گھریلو) خواتین کرسکتی ہیں۔ کام کرنے والی خواتین کے لئے بہت کم شعبہ جات اس قسم کے ہیں جہاں وہ شدت پسند مذہبی حلقوں اور ملاؤں کے تقاضوں کے مطابق ’پردہ‘ کرسکیں۔ دوسری طرف مارکیٹنگ اور منڈی کی معیشت کے ایجنڈے پر کام کرنے والے ’لبرل‘ کہلوانے والے خواتین و حضرات کے’عورت کی آزادی‘کے عنوان سے اپنے مقاصد ہیں۔ وہ عورت کو سرمایہ دارانہ مصنوعات کی تشہیر اور فروختگی کے لئے برہنہ تک کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ وہ عورت کی ’آزادی ‘کے نام پر اس کو بے توقیری کے ایک خاص دائرے میں قید کردینا چاہتے ہیں۔ سرمایہ دارلبرل حلقے‘محنت کش خواتین کے منڈی کی معیشت کے ہاتھوں لٹنے، محنت کے شدید استحصال، لیبر قوانین کے عدم اطلاق، کام کے دوران جسمانی، جنسی، معاشی حملوں پر مطلق خاموشی اختیار کئے رکھتے ہیں۔ سرمایہ داری اور سامراجیت کی وجہ سے غربت میں اضافے کا سب سے بڑا ہدف محنت کش گھرانوں کے بچے اور خواتین بنتی ہیں، اس سنگین مسئلے پر بھی خواتین کو کفن جیسے ملبوسات میں مقید کرکے گھروں تک محدود رکھنے کے خواہش مند بنیاد پرست اور مادر پدر آزادانکے حریف لبرل حلقے ایک جیسی مجرمانہ خاموشی سادھے ہوئے ہیں۔ کھیت مزدور عورت اگر تن پر چار گز کے برقعے یا ’جلباب‘ کو اوڑھے گی تو وہ کاشت کاری کے سارے عمل سے ہی باہر ہوکر فاقہ کشی تک پہنچ جائے گی۔ پاکستان کے تقریباََ تمام علاقوں میں رہنے والی دیہی خواتین کی اکثریت جب اپنے مال مویشیوں کے لئے ’چارہ‘ کاٹ کر کھیتوں سے اپنے گھر تک لاتی ہے تو وہ اپنی’ جسمانی نقل وحرکت‘ کومذہبی مشاہیر کی منشاتک محدود نہیں رکھ سکتیں۔ ایسی ہی صورتحال کا سامنا پوٹھوہار، پورے بلوچستان، چولستان، صحرائے تھر، سندھ کے بیشتر حصوں میں ان خواتین کو ہے جو پینے کے پانی کو اپنے گھروں تک پہنچانے کے لئے دوردراز سے گھڑوں، دلوں، گھاگھروں کو اپنے سروں پر رکھ کر لاتی ہیں۔ پانی کی قلت والے بہت سے ایسے علاقے ہیں جہاں ہندو مذہب کی نچلی سمجھی جانے والی ذاتیں آباد ہیں۔ یہ کمیونٹی اپنی مذہبی تعلیمات یا ثقافتی بنیادوں پر ’پردے ‘کے زیادہ پابند ہیں۔ مگر مادی حالات، معاشی کسمپرسی اور سماجی ضروریات کی عدم فراہمی کی وجہ سے انکی خواتین نہ صرف مطلوبہ پردہ نہیں کرسکتیں بلکہ اپنی کمیونٹی کے اصولوں کے مطابق پردے کی سخت پابند یہ خواتین گھر میں ٹوائلٹ کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے رفع حاجت کے لئے کھلے میدانوں یا کھیتوں کھلیانوں کا رخ کرتی ہیں۔ بلوچستان میں 46 فی صد آبادی، جبکہ خیبر پختون خواہ میں 18 فی صد آبادی کے پاس ٹوائلٹ کی سہولیات ہی نہیں ہیں، چادر اور چار دیواری والاپردہ تو درکنار یہاں مملکت خداداد کی خواتین رفع حاجت کے لئے کھلے آسمان تلے بیٹھنے پر مجبور ہیں۔
پاکستان کی کل آبادی کا 64 فیصد حصہ شدید غربت کا شکار ہے۔ ظاہر ہے کہ ان گھرانوں کو بنیادی انسانی ضروریات ہی میسر نہیں ہیں۔ بنیادی انفراسٹرکچر کی غیر موجودگی کی وجہ سے پورا سماج ہی غیر صحت مند اور پسماندہ زندگی گزار رہا ہے۔ کل آبادی 75 فیصد حصہ صاف پینے کے پانی سے محروم ہے۔ ان حالات کو بدلنے کیلئے معیشت اور سیاست میں بنیادی تبدیلی کی ضرورت ہے جس کے لئے جدوجہد درکار ہے۔ پاکستانی عوام کو یہ سہولیات دلوانے کے لئے پاکستان کے مذہبی، سماجی، سیاسی لیڈران اور’دانشوری‘ کے چولے میں ملبوس سابق بیوروکریٹس نے کبھی کوئی شعوری کوشش نہیں کی۔ دیکھا جائے تو پاکستان کے بیشتر مسائل اور محرومیوں کے ذمہ دارہی یہی حکمران طبقے کے لوگ ہیں۔ ساری زندگی ٹھاٹھ باٹھ سے اقتدار اور اختیار کے مزے لوٹتے ہیں، اسی دوران انکے اقتدار کے نیچے مخلوق ذلت آمیز زندگی گزاررہی ہوتی ہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد یہ یکا یک ’معزز‘ بن جاتے ہیں۔ اسی پر اکتفا کرلیں تو پھر بھی کوئی بات ہے مگر ساری عمر ناانصافیوں کے نظام کو قائم رکھنے والے ’ناصح‘ بن کر پورے سماج کو اپنے انداز میں چلانے کے خواہش مند نظر آتے ہیں۔ یہ غیر فطری اور ناممکن ہے مگر انکی خواہش ہے کہ تاریخ کے پہلے کو الٹا چلا دیا جائے۔ عورت کے بارے میں بالخصوص ان کا نقطہ نظر ’لونڈی‘ اور ’باندی‘ سے زیادہ نہیں ہے۔ ان کا بس چلے تو پورے سماج کی حرکت کو روک کر اسکو ایک ہی جگہ پر کھڑا کردیں۔ عورت کی آزادانہ حیثیت ان کو کسی طور بھی قبول نہیں۔ مگر محنت کش عورت کو کسی کلیسا یا درگاہ سے رہن سہن کے طریقے سیکھنے کی بجائے ’پیداواری رشتوں‘ کے جبر کو سہتے ہوئے زندہ رہنا ہوتا ہے۔
جدید دنیا کہلوانے والے ممالک میں بھی عورت کو مرد کے مساوی یا اس کے قریب کی حیثیت تک پہنچنے کے لئے صدیوں کی جدوجہد کرنا پڑی۔ دیگر شعبہ جات تو اپنی جگہ، حق رائے دہی تک میں جنسی عدم مساوات تاریخ پر حاوی رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سویت یونین دنیا میں واحد ملک تھا جس کے آئین میں شروع دن سے ہی عورتوں کو مکمل رائے دہی کا حق ملا، اسکی وجہ سویت یونین میں رائج اشتراکی نظریات تھے، جس کے تحت نہ صرف نسلی، مذہبی، رنگ وقوم بلکہ صنفی اور جنسی اعتبار سے کسی قسم کا تعصب یا فرق روا نہیں رکھا جاسکتا تھا۔ امریکی حکمرانوں کو سویت یونین کی موجودگی میں 1920ء میں مجبور ہو کر ووٹنگ کا حق اپنے ملک میں خواتین کو دینا پڑا۔ اس طرح بہت سے نام نہاد مہذب اور جدیدیت کے پرچارک ممالک میں خواتین کو سیاسی عمل میں شامل ہوتے ہوتے بیسویں صدی کا نصف بیت گیا۔
پاکستان میں سرکاری سطح پر خواتین کو برابر کا شہری روز اول سے ہی تسلیم کرلیا گیا۔ کینیڈا میں یہ حق 1960ء اور کویت میں 2000ء میں تسلیم کیا گیا۔ تمام تر تضادات اور محرومیوں کے باوجود پاکستان میں دیہی آبادی کی خواتین کی زندگی فطرت کے نسبتاً زیادہ قریب اورشہری مڈل کلاس اور حکمران طبقات کی خواتین کے ریاکارانہ بود وبوش سے یکسر مختلف ہے۔ پیداواری عمل میں عورت کے ہراول کردار سے لے کر شادیوں اور خوشی کی تقریبات میں کئے جانے والے رقص، جھومر، بھنگڑے ’پردے ‘کے بغیر اورخاندانوں کے مردوں اور خواتین کے اشتراک سے ہی خوشیاں دوبالا کرتے ہیں۔ برصغیر کے بٹوارے اور حکمران طبقات کی جانب سے رجعت کے مسلط کئے جانے کے بعد شہری آبادیاں دقیانوسی اوررجعتی رجحانات کی زد میں نسبتاً زیادہ آئی ہیں۔ یہاں بھی ظاہرکی جانے والی زندگی اور گزاری جانے والی زندگی میں تصنع، بناوٹ اور ریاکاری کے ’پردے‘ حائل کئے جاتے ہیں۔ برقعوں، حجاب اور’جلباب‘ کے نیچے ٹائٹس اور جینز کے پہناوے دراصل نفسیاتی تذبذب، تضاد، بیگانگی اور اوپر سے مسلط مذہبیت کی علامت ہیں۔
موجودہ عہد میں عورت کی بطور عورت ’آزادی ‘بھی ممکن نہیں ہے۔ اس سماج میں عورت مرد سے بھی پہلے اس نظام زر اوراسکے پیدا کردے کثیر الجہتی استحصالی مضمرات کی غلام ہے۔ عورتوں پر بالادستی کے دعوے دارمردوں کی اکثریت بھی اسی غلامی کا شکار ہے۔ سرمائے کے جبر کے تحت ہی عورت کو عریاں ہونے پر مجبور کیا جاتا ہے اوراسی جبر کی ایک دوسری شکل اس ’جنس ‘کو چھپاکر رکھنے پر مجبور کرتی اور پردہ کرواتی ہے۔ خواتین کی معاشی اور سماجی آزادی اور خودمختیاری طبقاتی نظام کی تبدیلی کے بنا ممکن نہیں ہے۔ سرمائے کے جبر کے خاتمے سے ہی انسان آزاد ہوسکتا ہے اور تب مرد عورت کامرتبہ یکساں اور اختیار برابر کر کے ایک متوازن اور صحت مندسماج کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے۔