انقلاب کے خلاف ’’انقلاب‘‘ کا ڈھونگ

[تحریر: لال خان]
وقت بھی ایک بے لگام جنگلی گھوڑے کی مانند ہوتا ہے۔ پکڑائی نہیں دیتا، قابومیں ہی نہیں آتا۔ عام حالات میں یہ وقت اس نظام کے جنگل میں بے منزل اور بے سمت دوڑتا پھرتا رہتا ہے۔ زندگیوں کو روندتا ہوا آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔ وقت کی ان وحشانہ دوڑوں کا حکمرانوں کو بہت فائدہ ہوتا ہے۔ ان کی حاکمیت کی طوالت سماجی جمود کے ایسے ہی حالات کی مرہونِ منت ہوتی ہے۔ جہاں تحریکیں ٹھہراؤ کا شکار ہوں، سماج جمود میں جکڑا ہو اور معاشرہ بے معنی اور بے مقصد ایشوز، رجحانات، تعصبات اور توہمات میں گھر کر تعفن کا شکار ہوجائے وہاں نظریات پر قائم رہنا ایک چیلنج بن جاتا ہے۔
تاریخ کی تمام انقلابی پارٹیوں، تحریکوں او ر قیادتوں کو اس قسم کے کٹھن حالات سے پالا پڑتا رہا ہے۔ یہ وقت اور زمانے کا انقلابیوں کے لیے ایک امتحان ہوتا ہے۔ یہ درست ہے کہ ایسے ادوار میں انقلابی مارکسزم کے نظریات پر مبنی وسیع عوامی پارٹیاں نہیں بن سکتیں۔ لیکن ’’اچھے‘‘ معروض کا انتظار کرنا بھی ایک جرم ہے۔ مشکل سے مشکل حالات میں بھی انقلابی قوت کی تعمیر کٹھن تو ہوسکتی ہے، نا ممکن نہیں۔ تاریخ کا دھارا اتنا بے سمت اور بے ترترتیب بھی نہیں ہوتا۔ لمبے اور صبر آزما وقفوں کے بعد ہی سہی لیکن ایسے غیر معمولی ادوار بھی آتے ہیں جبکہ محنت کش عوام انقلابی تحریکوں میں اٹھ کر وقت کے سرکش گھوڑے کو قابو کرنے کی سرکشی کرتے ہیں۔ ان حالات میں اگر انقلابی پارٹی کی شکل میں درست قیادت میسر آجائے تویہی وقت لمبی چھلانگیں لگاتا ہواتاریخ کے انتہائی کٹھن سفر بھی طے کروا دیتا ہے۔
انسانی سماج کا ارتقائی عمل ہزاروں لاکھوں سالوں پر مشتمل ہے۔ ایک انفرادی انسان کی زندگی چند دہائیوں سے زیادہ نہیں ہے اور تحریکیں روز روز نہیں ابھرتیں۔ درمیانے طبقے کی بے صبری کی نفسیات انہیں بنیادوں پر جنم لیتی ہے۔ جمود اور ٹھہراؤ کے عہد میں بعض اوقات بہت بڑے انسان اور نظریات بھی بظاہر چھوٹے اور بے معنی دکھائی دینے لگتے ہیں۔ انہی حالات میں نام نہاد ’’روشن خیال‘‘ اور ’’ترقی پسند‘‘ دانش بھی مایوسی او ر پسپائی کا رخ اختیار کر کے ترمیم پرستی کا شکار ہوجاتی ہے۔ اس انحراف کو’’نئے‘‘ نظریات اور’’جدید‘‘فلسفے کی تلاش اور تخلیق کا نام دیا جاتا ہے۔ لیکن اس قماش کے دانشور دراصل اصلیت پسندی، حقیقت پسندی اور ’’انوکھے‘‘ نظریات کی تلاش میں سینکڑوں سال پرانے اور متروک نظریات کی قبر کشائی کررہے ہوتے ہیں۔ نظریات کو ’’عام فہم‘‘ بنانے کے نام پر ان کو مسخ کیا جاتاہے۔ اپنی کمزوری اور بھگوڑے پن کی توجیہات تراشی جاتی ہیں۔ ’’ آج کے فوری مسائل‘‘ کو محوربنا کر اسی نظام سے مصالحت کا درس بڑی عیاری سے دیا جاتا ہے۔ لینن نے اس قسم کے رجحانات کے خلاف لکھا تھا کہ ’’یہ اکتائے ہوئے افراد اسٹیجوں پر چڑھ کر تقریریں کرتے ہیں کہ وہ ’’پرانے‘‘ نظریات سے اکتا گئے ہیں۔ جوں جوں ان کا پردہ چاک ہوتا ہے تو پتا چلتا ہے کہ یہ غلیظ چیتھڑے ہیں جوٹکڑے ٹکڑے ہوچکے ہیں۔‘‘ (لینن مجموعۂ تصانیف؛ جلد نمبر17؛ صفحہ 72-71)
پاکستان میں بھی ایسے ہزاروں افراد ہیں جوماضی میں کمیونزم اور مارکسزم کے بڑے دعویدار تھے۔ آج یہ مارکسزم کی جانب تضحیک آمیز رویہ رکھتے ہیں۔ اسلامی بنیاد پرستی کے مقابلے میں وہ بورژوا سیکولرازم اور لبرلرازم کے علمبردار بن گئے ہیں۔ وہ صرف لفظوں کے جغادری بن سکتے ہیں۔ مذہبی بنیاد پرستی کی قوتوں اور سماجی اثرورسوخ کو وہ مبالغہ آرائی سے پیش کرکے تمام’’لبرل‘‘ اور’’سیکولر‘‘سرمایہ دارانہ قوتوں کو تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کبھی اسکی قیادت ان کو نواز شریف کے روپ میں نظر آتی ہے تو کبھی ایم کیو ایم کی صورت میں، اور پھر کبھی زرداری اوربلاول ان کے ہیرو بن جاتے ہیں۔ بعید نہیں ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ حضرات طاہرالقادری کی مریدی کا درس دیتے بھی نظر آئیں۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد ان میں سے کچھ این جی اوز کی زینت بن گئے ہیں اور کچھ چھوٹی چھوٹی سیاسی پارٹیاں بنا کر لبرل اور ’’پروگریسو‘‘ پروگرام سے عوام کی حمایت ’’تیزی‘‘ سے وسیع پیمانے پر جیتنے کی ناکام کوششیں کررہے ہیں۔ سول سوسائٹی اسی قسم کے فیشن ایبل سیاسی کاموں کو ’’ ہابی‘‘ سمجھ ٹائم پاس کرتی ہے۔
مین سٹریم سیاست کی بات کی جائے تو آج اس ملک میں کوئی ایسا لیڈر اور پارٹی نہیں ہے جس کی سیاست پیسے کے بغیر چلتی ہو۔ تمام بڑی سیاسی جماعتوں کا معاشی پروگرام ایک ہے۔ سیاسی شعبدہ بازی، جھوٹ، فریب، دھوکہ دہی اور بنتی بگڑتی وفاداریاں ہی یہاں کی سیاست کا معمول ہیں۔ سیاست میں کالے دھن کی سرائیت اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ ہر بڑی سیاسی جماعت یا تو باقاعدہ جرائم کا متوازی نیٹ ورک چلا رہی ہے یا انڈر ورلڈ سے وابستہ ’’سیاست دانوں‘‘ کے تسلط میں ہے۔ لسانی بنیادوں پر ہونے والی سیاست کا مافیا خاص طور پر بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ، اغوا برائے تاوان اور دوسرے جرائم کو اپنے مالی مفادات اور اس کالے دھن کو سفید کرنے کے لئے سرگرم ہے۔ جمہوریت کایہ کھلواڑ جس حد تک کھینچا جاسکا، کھچے گا۔ اسی میں حکمرانوں کے تمام دھڑوں کا فائدہ ہے۔ جب ان کی لوٹ مار کی باہمی لڑائیاں شدت اختیار کرکے اس سارے ڈھانچے کو ہی ہچکولے دینے لگتی ہیں تو یہ ’’ صلح‘‘ پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ یہی تو جمہوریت کا حسن اور ’’نظریہ مصالحت‘‘ کی اساس ہے!
قیادت کی غداری اور نظریاتی انحراف کے باعث مزدور تحریک کی پسپائی، وسیع بے روزگاری، سکڑتی قوت خرید اور مسلسل معاشی عدم استحکام نے محنت کشوں کو گھائل کر رکھا ہے۔ عوام فی الوقت سیاست سے لاتعلق ہیں۔ حکمران طبقے کی دانش اور اصلاح پسند ’’نظریہ دان ‘‘یہ نتیجہ اخذ کررہے ہیں کہ طبقاتی کشمکش ہی ختم ہوچکی ہے۔ لیکن یہ سوچ ایک منفی اور میکانکی فلسفے کی پیداوار ہے۔ تحریکوں اور عوامی بغاوتوں کا تعلق براہِ راست طور پر غربت سے نہیں ہوتا۔ اگر ایسا ہوتا تو افریقہ میں ہر روز انقلاب آتے۔ معیشت، سیاست، تاریخی پس منظر، جغرافیہ اور معیار زندگی میں تبدیلی سمیت بہت سے عناصر کا کسی مخصوص نقطے پر امتزاج یا ٹکراؤ سماجی آتش فشاں کو پھاڑتاہے۔ اس مخصوص وقت کا حتمی تعین کر کے کوئی بلیو پرنٹ فراہم نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن سائنسی بنیادوں پرتجزیہ کر کے سماجی ارتقاکو بہتر طور پر سمجھا جاسکتا ہے اورمستقبل کے تناظر کے عمومی خطوط مرتب کیے جاسکتے ہیں۔
پاکستان میں انقلابی تحریکوں کی روایات بھی موجود ہیں اور تاریخ بھی۔ پاکستان میں بڑی عوامی تحریکوں کا آغاز ہمیشہ طلبہ نے کیاہے۔ آج طلبہ یونین پر پابندی لگا کر طلبہ کو سیاست سے بیگانہ کرنے کی مکروہ کوشش کے باوجود بھی تعلیمی اداروں میں نفرت کی ایک آگ بھڑک رہی ہے۔ درمیانے اور حکمران طبقے کے طلبہ کی نقالی اور انکی مراعات تک رسائی کی اس لاامتناعی دوڑ میں محنت کش طبقات کے نوجوان زیادہ عرصے تک نہیں بھاگ سکتے۔ ڈگری ہاتھ میں آتی ہے تو بیروزگاری پھن پھیلائے سامنے کھڑی ہوتی ہے۔ دوسری جانب بڑھتا ہوا بحران درمیانے طبقے کی اقتصادی اور سماجی بنیادوں کو بھی کمزور اور کھوکھلا کررہا ہے اور مڈل کلاس میں شدید اضطراب موجود ہے۔ محنت کش عوام کی وسیع اکثریت کو پہلے ہی دیوار کے ساتھ لگا دیا گیا ہے۔ ان حالات میں تحریک کسی ایک حادثے، واقعے یا معاشی و سماجی کیفیت میں یکدم تبدیلی سے بھڑک کر اٹھ سکتی ہے۔ ابتدائی کیفیات اور مطالبات کچھ بھی ہوں، ایسی کسی تحریک کی بنیادیں زندگی کے اصل مسائل اور معاشی وسماجی وجوہات کی بنیاد پر ہی مرکوز ہوں گی۔
گھر میں کسی کے جاگنے کے آثار نظر آئیں تو چور بھاگ اٹھتا ہے۔ جب پکڑے جانے کا امکانات بڑھ جائیں تو یہی چور محلے والوں کے ساتھ مل کر ’’چور چور‘‘ چلانے لگتا ہے۔ آج پاکستان کے حکمرانوں کی کیفیت بھی اس چور سے مختلف نہیں ہے۔ انقلاب کے خوف میں یہ لوگ خود ’’انقلابی‘‘ بن بیٹھے ہیں۔ پہلے الطاف حسین اور عمران خان نے انقلاب کیا۔ پھر ضیا آمریت سے فیض حاصل کر کے سیاست کا آغاز کرنے والے شریف برادران حبیب جالب کی نظمیں پڑھتے نظر آئے۔ اب انقلاب درآمد کرنے کا سلسلہ کا بھی شروع ہوگیا ہے۔ طاہرالقادری اسی سلسلے میں چوہدری برادران کے ساتھ مل کر ’’آئینی‘‘ انقلاب برپا کرنے کے لئے 23 جون کو ایک بارپھر پاکستان تشریف لارہا ہے۔ لاہور میں ریاستی دہشت گردی سے نہتے شہریوں کی ہلاکتوں کا ذمہ دار پنجاب کے حکمرانوں کے ساتھ ساتھ یہ جعل ساز انقلابی بھی ہے۔ اس اندوہناک واقعے کا سب سے زیادہ فائدہ بھی اسی کو ہوا ہے۔ اس ’’قربانی ‘‘ کے بعد شاید اس کے مریدین کی تعداد تھوڑی بڑھ جائے۔ لیکن حکمران طبقے اور سامراج کے یہ سیاسی نمائندے آخر کب تک عوام کے زخموں پر نمک پاشی کرتے رہیں گے؟ انقلاب سے یہ مذاق انہیں بہت مہنگا پڑے گا۔ اس ملک کے کروڑوں محنت کش اور نوجوان اس متروک سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑنے کے لئے جب انقلاب کے میدان میں اترے تو ان سیاسی مداریوں کا کیا حشرکریں گے؟ تاریخ اس سوال کا جواب ایک سے زائد مرتبہ دے چکی ہے۔

متعلقہ:
انقلابوں کے سوداگر