افسانہ: ’’شراپ‘‘

[تحریر: آمنہ فاروق]
رات نے کسی جادو گرنی کے بالوں کی طرح ایسے اپنے پر پھیلائے کے اس کی تاریکی آج معمول سے کچھ زیادہ گہری معلوم ہونے لگی۔ سناٹا ایسے چھایا تھا کہ شجر بھی بے حس و حرکت یوں کھڑے تھے جیسے کسی طوفان کی خبر سننے کو تیار ہوں۔ ایسے میں دور دراز ایک کتے کے بھوکنے کی آواز سناٹے کے بدن کو چیر کر سنسنی خیز ہوا کی طرح کانوں کو چھوتی ہوئی گزری تو میں اپنے خیالوں سے چونک پڑی۔ جھونپڑی سے باہر آئی تو اپنے ہی بے ربط خیالوں کی یلغار سے نبرد آزما ہونا پڑا۔ اندر جاتی تو زارا کے درد کی آہ و سسکیاں حملہ کردیتیں۔ مجھے کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ کبھی تو اتنے بے رحم خیال آتے، یہ نامراد بھی باپ کیساتھ ہی مر گئی ہوئی تو اس اذیت سے تو چھٹکارا مل جاتا۔ باپ کی موت نے جیسے جینے والوں کوکوئی شراپ دے ڈالا ہو اور ہم سب وہی شراپ بھگت رہے تھے۔ ’’مرنے والوں کو بھلا کیا حق ہے جینے والوں کو جیتے جی مار ڈالیں‘‘۔ بحیثیت باپ اس آدمی کے مرنے کا زخم تو وقت کے ساتھ ساتھ مندمل ہو گیا تھا مگر وہ کڑی جو اس کے خاندان کی کفالت کے ساتھ جڑی تھی وہ جگہ جگہ سے بری طرح ٹوٹ چکی تھی۔ بڑے بڑے عذاب بن چکے تھے جن کو بھگتنے کیلئے عمر بھرکی جمع پونجی لگ گئی۔
دو روز تک تو موت کے سوگ میں پڑوسیوں کے گھر سے روٹی آتی رہی۔ تیسرے روز یہ سلسلہ بھی ختم ہو گیا۔ بھوک ہم پہ ایسی ٹوٹ پڑی کے غم سے نڈھال ہونے کی فرصت بھی نہ رہی۔ تیسرے دن زارا کا ننھا جسم فاقوں کی تاب نہ لاتے ہوئے گر پڑا۔ میں زارہ کے تپتے جسم کو دیکھ کر بوکھلا سی گئی۔ یوں معلوم ہو رہا تھا جیسے اسے کسی نے تپتی بھٹی پر لٹا دیا ہو اور اس کا جسم انگارے کی مانند گرم ہوتا جا رہا تھا۔ میں بوکھلا کے باہر گلی کی طرف نکل پڑی۔ میرا جسم جیسے گوشت کا لوتھڑا تھا جسے سنبھالتے ہوئے میں بوجھل بوجھل قدم اٹھاتی میڈیکل سٹور کی طرف بڑھی
’’ڈاٹر صاحب کوئی بخار کی دوا تو دینا۔ بچی کا بدن آگ کے گولے کی طرح گرم ہوتا جا رہا ہے۔ دو تین دن سے گھر میں کھانے پینے کو بھی کچھ نہیں‘‘
’’بی بی بخار کی دوا تو پورے سو روپے کی ہے ایسے کیسے دے دوں؟ اور پھر تو اب لوٹائے گی بھی کہاں سے ؟‘‘
’’صاحب زندگی سے زیادہ تو دام نہیں تیری دوا کے۔ کبھی تو اچھے دن آئیں گے، لوٹا ہی دوں گی‘‘
’’نہ بی بی بھلا میں کونسا لاکھوں کماتا ہوں ان چار پیسوں سے تو اپنا بھی چولہا چلتا ہے تو جا کسی سے ادھار لے آ میں دوا دے دیتا ہوں‘‘
جب واپس لوٹانے ہی کی امید نہ ہو تو قرض کون دیتا ہے، واپسی پہ اس قدر ہلکان ہو چکی تھی جیسے ٹنوں بوجھ اٹھایا ہو۔ بن دوا کے جاؤں گی تو زارا کی امید ہی نہ ٹوٹ جائے۔
کہیں وہ۔ ۔ ۔ میری آنکھیں ڈب ڈبا گئیں۔
یہ سوچتے سوچتے میں گلی کے نکر پہ بیٹھ گئی۔ بھلا میرے پاس تھا کیا جسے میں گروی رکھتی، نہ گھر، نہ زمین! لے دے کے یہ گوشت کا لوتھڑا ہی تھا جسے باپ کی موت سے لیکر سنبھال رکھا تھا۔ دور سے دیکھ کر بیٹھی ہوئی یوں معلوم ہو رہی تھی جیسے پتھر کی کوئی ساکت مورتی ہو۔ لیکن اندر ہی اندر میرے خیالات ایسے اچھل رہے تھے جیسے کسی نے انہیں ابلتے لاوے پہ رکھ دیا ہو۔ اچانک ایک گاڑی کو اپنی طرف آتے دیکھا تو میری امید جاگی۔ شاید کوئی مہربان ہو۔ میں نے بے ساختہ گاڑی کو روکنے کیلئے ہاتھ دے دیا۔
آدمی نے گاڑی روکتے ہی مجھے سر سے پاؤں تک عجیب نظروں سے دیکھتے ہوئے سوال کیا ’’یہاں کیوں کھڑی ہو بی بی، اس وقت اتنے اندھیرے میں ؟‘‘
’’بھائی صاحب مجھے کچھ روپوں کی ضرورت ہے اگر آپ یہ مہربانی کر دیں تو میں ساری عمر آپ کی احسان مند رہوں گی‘‘
آدمی نے للچائی ہوئی نظروں سے مجھے دیکھا ’’بی بی پیسے یوں ہی تو نہیں ملتے۔ میرے ساتھ چلو میرا تھوڑا کام کرو میں پیسے دے دونگا۔ تم میری ضرورت پوری کرو میں تیری کر دیتا ہوں‘‘
آدمی کے لفظ بجلی کی طرح گرج کر مجھ پہ گرے میں بغیر کچھ سوچے گاڑی پر بیٹھ گئی۔ راستے میں بار ہا خیال آیا کود جاؤں چلتی گاڑی سے، آدمی نے کچھ ہی فاصلے پر ایک ہوٹل کے سامنے گاڑی روک دی۔ ہوٹل کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے مجھے اپنے ارد گرد ہر چیز گھومتے ہوئے معلوم ہو رہی تھی۔
آدمی نے ایک سودا گر کی نظروں سے مجھے دیکھا تو ہزاروں شگاف میرے سینے میں ایسے چڑھ گئے جیسے کسی جھاڑی پر پڑے سوتی کپڑے کو زور سے کھینچو تو کئی شگاف پڑ جائیں۔ اس وقت ایک طوائف کے خط میں لکھے گئے الفاظ میرے کانوں میں گونجے ’’حسن و جوانی برائے فروخت، بشیر پبلک پراپرٹی گزر گاہ عام۔ ہمارا کچھ بھی اپنا نہیں ہوتا۔ خلوت گاہ اور نیند بھی نہیں، خریداروں کی فہرست میں کئی پردہ نشینوں کے نام ہیں، اعلیٰ آفیسران، سیکرٹری صاحبان، سفیروں، امیروں کے نام، طوائف محض میلی نظروں کی گزر گاہ اور اعلیٰ نسل کے انسانی درندوں کی خوراک ہوتی ہے عورت نہیں‘‘
ایک ہاتھ میں سو روپیہ سنبھالتی ایک ہاتھ سے آنکھوں کے بہتے سمندر کو تھامتی میں واپس جھونپڑی کی طرف چل پڑی۔ میری ہڈیوں کے نچڑے عرق کی دوا سے زارا کا بخار تو کم ہو گیا مگر میرا خود کا وجود ہمیشہ کیلئے کہیں کھو گیا۔ پھر ہر شام میں کسی گلی، کسی نکر پہ خود کو ڈھونڈنے نکل جاتی۔ کبھی کبھی تو جلد ہی کوئی مہربان اٹھا لے جاتا مگر کبھی کبھی ہر سٹاپ ہر گلی چھان مارو تو بھی کوئی نہ ملتا، ہزاروں لوگوں کے دل کو بہلانے کا مشغلہ کوئی آسان کام نہ تھا۔ اب تو اپنے اعضاء بھی کسی مشین کی طرح معلوم ہوتے جن کو ہر وقت کام چاہیے تھا۔
اس پر ارد گرد سے طعنوں کی آواز پہ تو دل کرتا اپنے ہی کانوں میں سیسہ پگھلا دوں ’’آئی ہے بد چلن کہیں کی جانے کہاں کہاں کے مردوں کو اپنی لت لگا آئی‘‘
یہ کیسا شراپ تھا کہ عمر ڈھل گئی پر اس سزا میں کوئی کمی نہ آئی۔ معمول کی طرح آج بھی بس سٹاپ پر کھڑی میری منتظر نظریں کسی قدر دان کو ڈھونڈ رہی تھی کہ ایک سفید کار کو اپنی طرف آتے دیکھا۔ یہ سفید لباس میں ملبوس ایک خوش شکل آدمی تھا۔ دیکھنے میں خاصا امیر شخص معلوم ہو رہا تھا۔ گاڑی رکتے ہی میں چپ چاپ اس میں بیٹھ گئی۔ آدمی نے اچانک سوال کیا ’’سنو تم ہر روز یہ دھندا کر کے تنگ نہیں آتی کیو ں؟‘‘
میں نے سردہنی کو ہونٹوں میں دباتے ہوئے جواب دیا ’’صاحب روح سے سانسوں کا رشتہ برقرار رکھنے کیلئے اپنے پاس ایک ہی تو ہنر ہے۔ اپنی اداؤں سے لوگوں کے دل بھلا کر چار پیسے کما لیتی ہوں‘‘
’’مگر ان گلیوں سے تم کتنا کماتی ہو گی۔ تجھ سے زیادہ تو کسی بھکاری کی کمائی ہو گی‘‘
میں جھلا کر بولی ’’نہ نہ صاحب ہم بھیک تھوڑے ہی نہ مانگتے ہیں۔ محنت کی کمائی ہے۔ جسم و روح کا عرق نچوڑ کے دیتے ہیں تو کچھ سکے زندہ رہنے کو مل جاتے ہیں‘‘
گاڑی بجلی کی رفتار سے سڑک پر بھاگ رہی تھی اور میری دھڑکن بھی اتنی رفتار سے چل رہی تھی۔ میں بے صبری ہوئی جا رہی تھی کہ کب صاحب گاڑی روکے تو میں اپنا کام نمٹا کے چلتی بنوں۔
صاحب کو یہ خوب صورت نقوش و جاذب نظر لڑکی بہت بھا گئی ’’سنو ہم تم کو ایک ہی بار سارے دام دے دیتے ہیں تم ہمارے ساتھ ہمارے فارم ہاؤس پہ رہ لو۔ گلی گلی گھومنے سے بچ جاؤ گی۔ ہمارا فارم ہاؤس ہمارے گھر سے تھوڑے ہی فاصلے پر ہے۔ شہر سے ذرا باہر۔ تجھے رہنے کو چھت بھی مل جائے گی اور ہم بھی ہر شام ادھر سے ہو آیا کریں گے‘‘
میں چونک سی گئی ’’نہ نہ صاحب اپنی تو تقدیر میں ہی بھٹکنا لکھا ہے‘‘
’’سنو تو اسی فارم ہاؤس پہ اپنا دھندا کرتی رہنا۔ جگہ اپنی ہو گی تو دام بھی زیادہ ملیں گے‘‘
صاحب کے اصرار پہ یہ شرط مان لی میں نے، شروع شروع کے دنوں میں تو فارم ہاؤس پہ بڑی چہل پہل لگی رہی۔ چار پیسے زیادہ آنے لگ پڑے۔ مگر یہ تو اچھے وقتوں کی بات تھی۔ اب تو دیکھتے ہی دیکھتے چہل پہل ویرانی میں بدلنے لگی۔ اکاد کا لوگ اس نگر کا رخ کرتے، ساری رات بہلانے کے بعد بھی کوئی سو روپے سے زیادہ دینے کو تیار نہ ہوتا۔ مجھے اپنے دام اور گرانے پڑ گئے۔
شراپ کا اثر کسی زہر کی طرح سارے شہر میں پھیل گیا۔ ۔ ۔ ہر چہرہ زرد ہوتا جا رہا تھا۔ سارا دن تنہا رہنے کی وجہ سے یہ کمرہ کسی جیل کی طرح معلوم ہونے لگا۔ کبھی کبھار صاحب آتے تو میں بے اختیار پوچھ بیٹھتی ’’صاحب اس بازار میں حسین و پر ہجوم جگہ بھی اتنی ویران کیوں رہنے لگی، کیا آپ کے علاوہ کسی کی اسطاعت نہیں رہی ہمیں خریدنے کی؟‘‘ ہر طرف قحط ہی قحط تھا۔ پیٹ کی بھوک نے جسم کی بھوک کو موت دے دی۔ جوانی بھی اپنا دامن چھڑا چکی تھی۔ خودہی میں نے جسم کو پھر جمع کیا اور واپس سٹاپ کی طرف چل پڑی۔ مجھے اس سٹاپ پر کھڑے صدیاں بیت گئی۔ میرا بھیس بدل جاتا ہے پھر جسم کا لوتھڑا یہیں رہتا ہے۔ آج بھی اس امید پہ کھڑی ہوں کہ شاید وہ وقت آ جائے جب بھوک مٹانے کو مجھے اپنا ہی گوشت نہ بیچنا پڑے!