| تحریر: لال خان |
کچھ عرصے سے سامراجی مالیاتی ادارے اورعالمی رینکنگ ایجنسیاں پاکستان کی معاشی ترقی کے بڑے گن گا رہی ہیں۔ نواز لیگ کی حکومت معیشت کی شرح نمو اورعالمی طورپرسراہے جانے کو اپنی کامیابی کا ثبوت قراردے رہی ہے۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق پاکستان انتہائی متحرک ابھرتی ہوئی معیشت بننے کے راستے پرگامزن ہے۔ اس مضمون کے مطابق ’’شہ سرخیوں سے ہٹ کرذرا آج کے پاکستان کو دیکھئے۔ 2016ء میں یہ ایشیا کی بہترین سٹاک مارکیٹ تھی… عالمی مالیاتی فنڈ اسے سراہ رہا ہے اورعالمی بینک نے2017ء میں 5.2 فیصدکی صحت مند شرح نمو کی پیش گوئی ہے… اس معاشی تیزی کی بدولت پاکستان برکس (Brics) کے بعداب نئی ابھرتی ہوئی معیشتوں کی فہرست وی اے آر پی (VARP) یعنی ویتنام، ارجنٹینا، رومانیہ اورپاکستان میں شامل ہو چکا ہے۔‘‘ نواز شریف کے مطابق ’’2025ء تک پاکستان دنیا کی 25 بڑی معیشتوں میں شامل ہو گا۔‘‘
واشنگٹن پوسٹ نے پاکستان کی معیشت کی بحالی کی تین وجوہات بیان کی ہیں جن میں حالیہ دہشت گردی کے باوجودسکیورٹی کی بہترصورتحال، نسبتاً سیاسی استحکام اور بڑھتا ہوا درمیانہ طبقہ شامل ہیں۔ نہ صرف پاکستانی حکومت اورریاستی ادارے بلکہ قرضہ دینے والی ایجنسیاں اورسامراجی تھینک ٹینک بھی درمیانے طبقے اورغربت میں کمی کے اعداد و شمار کو بہت زیادہ بڑھا چڑھا کر بیان کر رہے ہیں۔ اس مضمون کے مطابق ’’پاکستان میں درمیانہ طبقہ ممکنہ طورپرایک فیصلہ کن مقام پرپہنچ چکاہے، کچھ اندازو ں کے مطابق یہ آبادی کے پچاس فیصد سے زیادہ ہے… درمیانے طبقات بیرونی سرمایہ کاری کو بھی کھینچ رہے ہیں… اگر پاکستان چین کی مددسے بجلی کی کمی کو پوراکر نے میں کامیاب ہو جائے تو ترقی کایہ سفر جاری رہے گااورملک’معمو ل کے حالات‘ کی دہائی میں داخل ہو سکتا ہے۔‘‘ ایک اورسامراجی سروے اور تجزیے کے ادارے بروکنگ انسٹیٹیوٹ کے محقق ہومی خارس کے مطابق ’’2030ء تک پاکستان میں درمیانے طبقے کے صارفین کی منڈی ایک کھرب ڈالرتک پہنچ سکتی ہے۔‘‘
لگتا ہے یہ لوگ کسی اورسیارے کی مخلوق ہیں۔ سماج کی اکثریت کے لیے عدم مساوات بد تر اورمعاشی مشکلات مزیدکٹھن ہوتی جا رہی ہیں۔ نام نہاد درمیانے طبقات میں معیارِزندگی میں بہت زیادہ فرق اورمعاشی نا برابری پائی جاتی ہے۔ ان میں وہ بھی شامل ہیں جو بمشکل روز مرہ کا خرچ پوراکرتے ہیں اوربالائی پرتوں میں وہ بھی ہیں جوغلط طریقوں سے کمائی ہوئی دولت پر عیاشی کر تے ہیں، پھرحکمران طبقے سے قریب قریب ایک اورپرت بھی ہے جنہیں سماج کاایک فیصد بھی کہا جاتا ہے۔ درمیانے طبقے میں اضافہ نیو لبرل معاشی ماڈل کاثانوی مقصد اور نتیجہ ہوتا ہے۔ حکمران طبقات معاشی میدان کے علاوہ بھی انہیں کئی طرح سے سیاسی اور سماجی طور پر استعمال کرتے ہیں۔
1980ء کی دہائی میں تھیچر ازم اورریگنامکس کے تحت ساری دینا میں سرمایہ داری کاپراناٹریکل ڈاؤن معاشی ماڈل لاگو کیاگیا تھا۔ قوت خریدکو بڑھانے کے لیے معیشت اورمالیاتی خدمات میں ریاستی مداخلت کے کینشین اسٹ ماڈل کی جگہ رسدکی معیشت (سپلائی سائڈ) نے لے لی۔ صحت اورتعلیم جیسی بنیادی سہولیات تک کی نجکاری کی مضر پالیسیاں لاگوکر دی گئیں جن کامقصدحکمران طبقے کی گرتی ہوئی شرح منافع میں اضافہ کرنا تھا۔ ریاستی مداخلت کی اصلاحات (ریاستی سرمایہ داری) ناکام ہو چکی تھیں اوربڑھتاہواافراط زر معیشتوں کی رفتارکو سست کر رہا تھا۔ خونخوارسرمایہ داروں کے منافعوں سے چھلکنے والے چند قطروں سے کسی حد تک درمیانے طبقات میں اضافہ ہوا، بالخصوص نام نہاد ترقی پذیر ممالک میں۔ اس سے منڈی میں کچھ اضافہ ہوااورکھپت اورپیداوارکی گنجائش پیدا ہوئی۔ لیکن اس سب کی قیمت آبادی کی وسیع اکثریت کوغربت اورمحرومی میں بے پناہ اضافے کی صورت میں چکانی پڑی۔ لیکن یہ طریقہ بھی زیادہ عرصے تک نہیں چل پایااورشرح منافع کے جنون میں سرمایہ داروں نے بینکوں اورریاستی قرضوں کو بے پناہ حدتک بڑھادیا۔ بالآخر یہ سب 2007-8ء کے کریش میں پھٹ گیا اوراس کے بعدسے معیشتیں ابھی تک شرح نمو کے بحران سے باہرنکلنے میں کامیاب نہیں ہو سکیں۔
مارکسی ماہرین معیشت کے مطابق پاکستان میں درمیانہ طبقہ زیادہ سے زیادہ آبادی کا بیس سے پچیس فیصد ہے۔ یعنی بہت محتاط اندازے کے مطابق بیس کروڑکی آبادی میں یہ 5 کروڑسے زیادہ نہیں ہیں۔ اس کامطلب ہے کہ اس بدنصیب ملک کے 15 کروڑعوام مزیدغربت میں دھکیل دیے گئے ہیں۔ غربت کو ماپنے اورطبقات کی درجہ بندی کے طریقے بھی جان بوجھ کر ناقص اوردھوکہ بازی پر مبنی ہوتے ہیں۔ اس سے ان سامراجی اداروں کی بدکاری کا اندازہ لگایاجاسکتاہے جنہیں ہمارے ماہرین معیشت تمام معاشی مسائل کوحل کرنیوالی مقدس ہستیاں مانتے ہیں۔ در حقیت یہ مقدس ادارے کراچی اوردوسرے شہروں کے بھتہ خوروں اور جرائم پیشہ گروہوں سے کہیں زیادہ خبیث اوربد دیانت ہیں۔
درست ہے کہ یہ درمیانہ طبقہ فوری معاشی انہدام سے بچنے کے لیے ایک بفرکاکردار اداکرتاہے۔ یہ طبقہ ہرجائز اور ناجائز طریقے سے دولت مند بننے کے جنون میں رہتا ہے۔ ان کا سب سے گھناؤناکردارسیاست میں سامنے آتاہے۔ انکی متلون مزاجی اورسماجی و نفسیاتی اضطراب انہیں ایک سیاسی انتہاسے دوسری جانب لے جاتاہے۔ مالی بحران کی شدت میں وہ بے چین ہوکرمذہبی اورقومی تعصبات سے جذباتی وابستگی اختیارکرلیتے ہیں جن سے رجعتی قوتوں کو کچھ بنیادیں میسرآتی ہیں۔ معاشی طورپرمتزلزل طبقات کی روحانی محرومیاں انہیں ماضی پرست اورمجرمانہ اورپست رجحانات کی جانب مائل کرتی ہیں اوران میں لمپن ازم، مردانہ شاؤ نزم، مذہبی قدامت پرستی اور نیم فسطائیت کی سوچ پروان چڑھتی ہے۔ سماجی جمودکے دور میں یہ طبقات اس رجعت کا آلہ کاربن جاتے ہیں جو بورژوازی، محنت کش طبقات کی طبقاتی جڑت کو توڑنے کے لیے سماج پرمسلط کرتی ہے۔
یہ درست ہے کہ 2017-18ء میں معیشت تقریباً پانچ فیصد کی شرح سے نمو پائے گی لیکن تحقیق سے ثابت ہے کہ موجودہ عہد میں شرح نمو میں اضا فہ سماجی ترقی اور میعار زندگی میں بہتری کو ظاہر نہیں کرتا۔ برازیل، چین اور خاص طور پر ہندوستان اس حقیقت کی واضح مثالیں ہیں۔ پاکستان کی ترقی بھی ایسی ہی ہے۔ ایک دلال سرمایہ دار اشرافیہ کی حکمرانی میں یہ شرح نمو ناہموار اور مشترک ترقی کی کیفیت کو بد تر کر دیتی ہے۔
ملکی معیشت میں کہیں کہیں انفرا سٹرکچر کے پراجیکٹ بنائے جا رہے ہیں جن کی جدید ترین ٹیکنالوجی دنیا میں کسی سے کم نہیں اور بعض اوقات تو یہ ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک میں ماضی میں استعمال ہونے ٹیکنالوجی سے زیادہ جدید ہیں۔ لیکن پسماندگی اور محرومی کے وسیع سمندر میں جدت کے یہ چند جزیرے اور جدید آلات کی جزوی اور نا ہموار مداخلت سماج کی عمومی سماجی و معاشی ترقی کو مسخ اور برباد کر رہے ہیں۔ مسائل کے حل اور سماج کو ہم آہنگ انداز میں ترقی دینے کی بجائے اس طریقہ کار سے تضادات مزید شدید ہو رہے ہیں جو انتشار کا باعث بن سکتے ہیں، لیکن قوی امکان ایک ایسی تحریک کے ابھرنے کا ہے جو مارکسی قیادت اور لینن اسٹ پارٹی کی موجودگی میں سارے نظام کا خاتمہ کر دے۔ 1968-69ء میں اسی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایک ایسی عوامی بغاوت ہوئی تھی جس کا کردار سوشلسٹ تھا۔ اسی برس پاکستان کی تاریخ میں معیشت کی سب سے زیادہ شرح نمو ہوئی تھی۔
آنے والے عہد میں ایسی ہی صورتحال کا سنجیدہ امکان موجود ہے جہاں نسبتاً بلند شرح نمو سماج کی کوکھ میں طویل عرصے سے پنپنے والے تضادات کو پھاڑ سکتی ہے۔ موجودہ سیاسی منظر نامے میں کوئی ایسی قوت یا قیادت نہیں جو اس انجام کو بھانپ سکے۔ یہ موجودہ دور کی شدید سیاسی بے حسی اور سماج پر غالب سیاست دانوں اور دانشوروں کی متروکیت کی گواہی ہے۔ سماجی و معاشی ترقی کے متضاد کردار نے بے پناہ محرومی کو جنم دیا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی اس کی نا ہموار جدت نے محنت کش طبقے کو جدید ترین آلات سے روشناس کروایا ہے جس سے ان کے شعور پر گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اس ملک سے غلامی، اذیت اور ظلم کا خاتمہ کرنے کا مقصد رکھنے والوں کا بنیادی فریضہ محض تجزئیے اور کھوکھلے تبصرے کرنے کی بجائے سماجی شعور کے ہراول حصوں کو متحرک کرنا ہے۔ جیسے کارل مارکس نے کہا تھا ’’ابھی تک فلسفیوں نے دنیا کی تشریح کی ہے، اصل کام اسے بدلنا ہے۔‘‘
متعلقہ: