جائیں تو جائیں کہاں؟

[تحریر: لال خان]
کہنے والے بہت کچھ کہ جاتے ہیں۔ مختلف اداروں اور شخصیات پر بات کرنے کی پابندیوں کے باوجود سینہ گزٹ تو ہر معاشرے میں چلتے ہیں رہتے ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ میاں صاحب نریندرا مودی کی تقریب حلف برداری میں عدم شرکت کا بہانہ یہ بنائیں گے کہ انہوں نے ایک مہینہ قبل پولیو کے قطرے نہیں پیئے تھے۔ لیکن میاں صاحب کو اتنا تو پتا ہوگا کہ مودی خود قطرے پلانے کا بڑا ماہر ہے۔ اس نے ایل کے ایڈوانی سے لے کر ششما سواراج کو ایسے قطرے پلائے ہیں کہ یہ حضرات کم از کم ظاہری طور پر مودی کے مرید ہوگئے ہیں۔
حکمرانوں کی سفارت کاری کے انداز بھی انوکھے ہیں۔ آج پانچ چھ سال کے بچے دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک چند سیکنڈوں میں ’’دعوت نامے‘‘ اور پیغامات ارسال کردیتے ہیں۔ لیکن انگریز دور کے نظام اور ڈھانچوں پر چلنے والی پاکستان اور ہندوستان کی وزارتوں کے بیانات پڑھیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ دعوت نامے بھیجنے کے لئے ابھی تک کبوتروں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس معاملہ پر وزارت خارجہ کی ترجمان نے صرف یہ بیان دیا ہے کہ ’’دعوت نامہ موصول ہوچکا ہے۔ ‘‘ دعوت نامے اگر کبوتروں کی رفتار سے آتے جاتے ہیں تو باقی سفارتی معاملات کچھوے کی چال چلتے ہیں۔
عام انتخابات میں مودی کی جیت کی خبر سنتے ہی نواز شریف نے نہ صرف اسے مبارکباد کا پیغام ارسال کیا بلکہ پاکستان کے سرکاری دورے کی دعوت بھی دے ڈالی۔ لیکن مودی بھی کوئی کچی گولیاں نہیں کھیلتا۔ اس نے خود مصیبت میں پڑنے کی بجائے گیند واپس میاں صاحب کے کورٹ میں پھینک دی۔ مودی نے میاں صاحب کو زچ کرنے اور ان کی داخلی کمزوری کو بے نقاب کرنے کی کاروائی بڑے ’’غیر محسوس‘‘ طریقے سے کی ہے۔ افغانستان، نیپال، سری لنکا اور دوسرے سارک ممالک کے رہنماؤں کو بھی اس چکر میں ہندوستان کے دورے کی دعوت دی گئی ہے۔ تاہم جاننے والے جانتے ہیں دونوں ممالک کے حکمرانوں کے درمیان نونک جھونک کا نیا کھیل شروع ہوگیا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ پچھلی چھ دہائیوں سے جاری حکمرانوں کا یہ کھیل سرحد کے دونوں طرف کے عوام کے لئے ایک خوفناک کھلواڑ بن چکا ہے۔ کبھی ایک دوسرے کو آنکھیں دکھائی جاتی ہیں تو کبھی جھوٹی مسکراہٹیں بکھیری جاتی ہیں۔ ’’امن کی آشا‘‘ کے منافع بخش کاروبار کے ساتھ جدید ترین اسلحہ خرید کر کمیشن بنانے اور سامراجی اسلحہ ساز اداروں کی تجوریاں بھرنے کا عمل بھی جاری رہتا ہے۔
1947ء کی خونریز تقسیم کے بعد دونوں ریاستوں نے اس خطے کی تہذیب، تاریخ اور ثقافت کو مسخ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ زبان کو ہی دیکھ لیں۔ سرحد کے اس پار ہندوستان کو ’’بھارت‘‘ بنانے کے چکر میں ہندی کو سنسکرت کی آمیزش سے بگاڑ ا گیا ہے تو یہاں عربی الفاظ کی یلغار نے اردو کا حلیہ بگاڑ دیا ہے۔ ضیاالحق نے تو ’’خدا حافظ‘‘ کو بھی ’’اللہ حافظ‘‘ کروا دیا تھا۔ شاید اسے فارسی سے کوئی خاص ناراضگی تھی۔
دونوں ممالک کے حکمران مذہب اور ’’قوم‘‘ کے نام پر کتنے ہی جعلی تضاد ات ابھار لیں، ان کی سوچ، مفادات اور طریقہ واردات مشترک ہے۔ نواز شریف اور نریندرا مودی کی معاشی اور اقتصادی پالیسیوں میں بھلا کیا فرق ہے؟ نجکاری، بیرونی سرمایہ کاری (FDI)، ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لئے ’’سازگار حالات‘‘، ڈاؤن سائزنگ، لبرلائزیشن، ’’لیبر ڈسپلن‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ برصغیر کی حاوی سیاست پر براجمان تمام سیاستدان اور رہنما وہی گردان دہراتے ہیں جو سامراجی مالیاتی ادارے انہیں رٹاتے ہیں۔ کھلی عوام دشمن معاشی پالیسیاں نافذ کرنے کے ساتھ ساتھ ’’غربت کے خاتمے‘‘ ، سماجی ترقی کے دعووں اور وعدوں کی منافقت بھی دونوں ممالک میں یکساں ملتی ہے۔ مودی اپنی بچپن کی غربت کو ’’گلیمرآئز‘‘ کر کے غریبوں پر چھری چلانے کی تیاریاں کر رہا ہے تو میاں صاحب معاشی ذلت اور محرومی کی کھائی میں غرق ہوتے جارہے عوام کو کڑوی گولیاں کھلا کر ’’امید بہار‘‘ رکھنے کی نصیحت کر رہے ہیں۔
حکمران طبقے اور عوام کے مسائل اور مفادات بھلا کیسے مشترک ہوسکتے ہیں؟ یہ ہمیشہ متضاد ہوتے ہیں اور جب تک طبقاتی سماج قائم ہے متضاد رہیں گے۔ محنت کشوں کے استحصال کے بغیر کوئی امیر نہیں ہوسکتا اور حکمران طبقے سے اپنی لوٹی ہوئی دولت واپس چھینے بغیر عوام کبھی خوشحال کا رخ نہیں دیکھ سکتے۔ مودی کو ہندوستان میں پھیلی وسیع بیروزگاری کے خاتمے کے لئے ہر سال 10 کروڑ نئی ملازمتیں پیدا کرنے پڑیں گی۔ پاکستان میں پہلے سے موجود بیروزگاروں کی فوج ظفر موج کے علاوہ دس لاکھ نوجوان ہر سال محنت کی منڈی میں داخل ہو رہے ہیں۔ کیا ان حکمرانوں کے نظام میں اتنی سکت ہے کہ اتنے بڑے پیمانے اور ہنگامی بنیادوں پر انڈسٹریلائزیشن اور انفراسٹرکچر کی تعمیر کی جاسکے؟ نئی ملازمتوں کا اجراء تو دور کی بات یہ لوگ تو پہلے سے موجود روزگارکے مواقع ختم کررہے ہیں۔ یہ نیا سماجی انفراسٹرکچر کیا تعمیر کریں گے جب گلے سڑے انفراسٹرکچر کو اپنی موجودہ کیفیت میں قائم رکھنے کے ریاستی اخراجات بھی نہیں کئے جارہے ہیں۔
پاکستان میں حکمرانوں کی نام نہاد خیرات اور قرضہ سکیموں سے نوجوان بھکاری تو بن سکتے ہیں، ’’اپنا کاروبار‘‘ شروع نہیں ہوسکتا۔ جہاں افراط زر، لوڈ شیڈنگ اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی یلغار نے پہلے سے موجود چھوٹے کاروبار تباہ کردئیے ہیں وہاں چند ہزار روپے سے کونسا ’’منافع بخش‘‘ کاروبار شروع کیا جاسکتا ہے؟ صورتحال یہ ہے کہ ایک چھوٹی سی آسامی کے لئے ہزاروں لاکھوں بے روزگار نوجوان قطار میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ ماضی میں تو سفارش سے کام چل جایا کرتا تھا، اب صرف رشوت چلتی ہے۔ ان آسامیوں کے فارم دراصل حکومت کے لئے آمدن اور نجی شعبے کے لئے منافع کا نیا ذریعہ بن چکے ہیں۔
1960ء اور70ء کی دہائی میں تیسری دنیا کے محنت کشوں اور نوجوانوں کو کئی سال کی تگ و دو کے بعد ترقی یافتہ مغربی ممالک یا مشرق وسطیٰ میں ہجرت اور روزگار کے مواقع مل جاتے تھے۔ لیکن گزشتہ دو دہائیوں سے بیرون ملک جانا بھی کم و بیش ناممکن ہوگیا ہے۔ قانونی یا غیر قانونی طریقوں سے بیرون ملک پہنچنے میں کامیاب ہوجانے والوں کو ٹھیکیداری نظام کے تحت انتہائی سخت حالات اور کم اجرت پر مزدوری کرنی پڑتی ہے۔ اکثریت تھک ہار ہر جلد ہی واپس لوٹنے پر مجبور ہوجاتی ہے۔ خلیجی ممالک میں کچھ یورپی اداروں نے 50 ڈگری سنٹی گریڈ سے زائد درجہ حرارت پر محنت کشوں سے کام لینے کو ممنوع قرار دے رکھا ہے جس کے جواب میں وہاں کی آمرانہ ریاستوں نے محکمہ موسمیات کو خفیہ طور پر 49 ڈگری سے زائد درجہ حرارت نہ بتانے کا پابند کردیا ہے!
سرمایہ داری کا کریش یورپ میں فلاحی ریاست کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے منہدم کررہاہے۔ بیروزگاری میں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔ نظام کی ناکامی کو چھپانے کے لئے یورپی اور امریکی حکمران بیروزگاری کا ذمہ دار غیر ملکی محنت کشوں کو قرار دیتے ہیں۔ خاص طور پر انتہائی دائیں بازو کے قوم پرست گروہ تارکین وطن کو تمام معاشی مسائل کی وجہ قرار دے کر قومی تعصب کے جذبات کو پروان چڑھاتے ہیں۔ پچھلے کچھ عرصے کے دوران مغربی ممالک میں فاشسٹ غنڈوں کی جانب سے تیسری دنیا سے تعلق رکھنے والے پناہ گزینوں پر حملوں اور پرتشدد کاروائیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ لیکن پاکستان جیسے ممالک کے بے روزگار نوجوان جائیں تو جائیں کہاں؟ کون شوق سے اپنا گھر، اپنا شہر، اپنے لوگ چھوڑتا ہے؟ غربت اور بے روزگاری کے ستائے ہوئے نوجوانوں کی اکثریت غیر قانونی طور پر مغربی ممالک میں جانے پر مجبور ہے۔ اس مجبوری میں یہ انسانی سمگلروں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ ہر سال سینکڑوں نوجوان اپنی زندگی داؤ پر لگا کر اس سفر پر روانہ ہوتے ہیں جن کی اکثریت کنٹینروں میں دم گھٹنے، سمندر میں ڈوبنے یا بارڈر سیکیورٹی کی گولیوں کا نشانہ بن کر جان کی بازی ہار جاتی ہے۔ بچ جانے والے گرفتار ہو کر مہینوں اور سالوں تک غیر ملکی جیلوں میں سڑتے اور ’’وطن‘‘ واپس آنے کے لئے ترستے رہتے ہیں۔ اپنی جمع پونجی لٹا کر واپس آنے والوں کی زندگیاں پہلے سے کہیں زیادہ تلخ ہوجاتی ہیں۔
پہلے بیرون ملک جانے کے خواہشمند پاکستانیوں کو پاسپورٹ، ٹکٹ اور سفر کے اخراجات، ویزے اور امیگریشن کے عذابوں سے گزرنا پڑتا تھا۔ لیکن اس ملک کے حکمرانوں نے ’’ملک و قوم‘‘ کا نام دنیا میں اور بھی بلند کر دیا ہے۔ اب بیرون ملک جانے والے ہر فرد کے لئے سفر سے ایک ماہ پہلے پولیو کے قطرے پی کر سرٹیفکیٹ حاصل کرنا لازم ہے۔ 80 سال کے بزرگ ہسپتالوں اور ائیرپورٹوں میں پولیو کے قطرے پی رہے ہیں جبکہ حکمران چینی سرمائے سے انڈر گراؤنڈ ٹرینین چلانے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ کونسی ذلت ہے جو اس ’’ارض پاک‘‘ کے باسیوں کے لئے باقی بچی ہے؟ اس ’’ایٹمی قوت‘‘ کا نام روشن ہونے میں اورکونسی کسر رہ گئی ہے؟ ’’قومی غیرت‘‘ اور ’’سالمیت‘‘ کے درس دینے والے اس ملک کی اٹھارہ کروڑ انسان نما مخلوق کو اور کتنا ذلیل کریں اور کروائیں گے؟سماج کو اس نہج تک لے آنے والے نظام اور اس کے حواریوں سے چھٹکارہ حاصل کئے بغیر اب جینے کا کوئی راستہ نہیں، آگے بڑھنے کا کوئی چارہ نہیں۔

کہیں تو ہوگا شب سست موت کا ساحل
کہیں تو جا کے رکے گا سفینہ ء غم دل!

متعلقہ:
ہندوستان: مایوسی کا ووٹ
سلسلے یہ ملاقاتوں کے۔ ۔ ۔
ویڈیو: پاک بھارت جنگی جنون۔ ۔ ۔ وجوہات کیا ہیں؟
پاک بھارت ویزے کا گھن چکر
کہیں کوئی آ نہ جائے!