بے یقینی کا عالم!

| تحریر: لال خان |

اگرچہ فوج کے ریٹائر ہونے والے سپہ سالار جنرل راحیل شریف نے اپنے الوداعی دورے بھی شروع کردیئے ہیں لیکن اس کے باوجودبھی کہ جب اس تبدیلی کو صرف چند دن رہ گئے ہیں، سیاست اور میڈیا میں ایک بے یقینی اور ہیجان کی کیفیت پائی جارہی ہے۔ حالانکہ یہ کوئی غیر معمولی تبدیلی نہیں ہے اور بیشتر ترقی یافتہ ممالک میں یہ شاید خبروں کی زینت بھی نہیں بنتی لیکن یہاں میڈیا اب جس طرح اس ’’الوداعی ملاقاتوں کے عمل‘‘ کو ایک عجیب اہمیت اور سنسنی سے پیش کررہا ہے وہ اتنا بے سبب بھی نہیں ہے۔ اس کیفیت پر عالمی سرمایہ داری کے سنجیدہ جریدے اکانومسٹ نے بھی اپنے ایک مضمون کا اختتام اس جملے پر کیا ہے کہ ’’یہ روایت بنانا کہ جنرل راحیل شریف اپنے شیڈول کے مطابق یہ عہدہ چھوڑ دیتے ہیں، درست سمت میں ایک چھوٹا قدم ہوگا‘‘۔

pakistan-new-coas-appointment-2ویسے تو پاکستان اور ہندوستان کی فوجوں کے سپہ سالار تبدیل کرنے والی تقریب بڑی سادہ سی ہوتی ہے۔ پرانا سربراہ نئے چیف کو ’’ملا کا سٹک‘‘ پیش کر دیتا ہے جو فوج کے سربراہ کی وردی کا حصہ ہوتی ہے۔ یہ سٹک ملیشیاکے جزیرے ملاکامیں پیدا ہونے والے بانس کی ایک سوٹی ہوتی ہے جس کو برطانوی سامراج نے برصغیر میں کھڑی کی جانے والی نو آبادیاتی برطانوی فوج میں متعارف کروایا تھا۔ یہ سوٹی براہ راست سامراجی حاکمیت کے دور سے آج تک اس ادارے کی طاقت کی عکاسی کرتی ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ ادارہ اب سیاسی اور اقتصادی معاملات میں اتنی اہمیت اختیار کر گیا ہے اور ایک معمولی سی ریٹائرمنٹ اتنی بھاری خبراور واقعہ بن جاتی ہے۔
اس سارے سسپنس اور غیر یقینی کی کیفیت سے اگر کسی چیز کی عکاسی ہوتی ہے تووہ ہمارے حکمران طبقات اور انکے سیاسی وریاستی نمائندوں کا عدم تحفظ اور اقتدار اور ریاست کے مختلف دھڑوں میں بھڑکتے ہوئے تضادات ہیں۔ اگر ہم پاکستان کی تاریخ کا جائزہ لیں تو اس ملک کے حکمرانوں کا اقتدار وقت کے گزرنے کے ساتھ بتدریج غیر مستحکم، ناپائیدار اور غیر یقینی کا شکار ہوتا چلا گیا ہے۔ یہ درست ہے کہ اس ملک میں فوجی آمریتوں کے تین طویل ادوار رہے ہیں لیکن اگر ہم غور کریں تو یہ آمریتیں بھی مختلف قسم کی جمہوریتوں کے ذریعے زیادہ عرصہ برسراقتدار رہی ہیں۔ فوجی عدالتوں کے ساتھ کھلے مارشل لا اور فوجی جبر کو جلد ہی مسلم لیگ کا سویلین لباس اوڑھا کر ڈھانپ دیا جاتا رہا ہے۔ 1988ء کے بعد کی سویلین حکومتوں میں سے ایک بھی اپنی مدت پوری نہیں کرسکی تھی۔ لیکن براہِ راست کوئی مارشل لا نہیں لگا تھا۔ جب ایوب خان نے 1958ء میں مارشل لا لگایا تھا تو اس وقت عالمی طورپر سرمایہ دارانہ نظام کے بعد از عالمی جنگ کے عروج سے مغرب میں ہونے والی معاشی ترقی کے ثمرات کے چند ٹکڑے پاکستان جیسے ’کولڈ وار‘ کے اتحاد ی ممالک کو بھی ڈال دیئے جاتے تھے۔ اس امداد اور سامراجی گرانٹس سے کسی حد تک ترقی ہوئی تھی لیکن اس شرح نمو میں تیز رفتار اضافے نے یہاں سماج کو عمومی خوشحالی دینے کی بجائے اس کو زیادہ متضاد کردیا۔ یہی تضادات 1968-69ء کے انقلاب کی صورت میں پھٹے جس سے پہلے ایوب خان گیا اور پھر اس انقلاب کو مکمل طور پر زائل کرنے کے لیے ملک کے ہی ٹکڑے کر دئیے گئے کیونکہ انکی اصل ’حُب‘ اپنے مال ودولت سے ہوتی ہے وطنوں سے نہیں۔ پھر ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی حکومت نے پارٹی کے پروگرام سوشلسٹ انقلاب کی بجائے اصلاحات سے عوام کے مسائل حل کرنے کی کوشش کی۔ اس نظام میں اصلاحات کی گنجائش ہی نہیں تھی لیکن ان ریڈیکل اقدامات سے مقامی حکمران طبقات کے چند حصوں کو خراشیں ضرور آئی تھیں جبکہ سامراجی بھی بھٹو کو اپنے قابومیں نہ کرسکنے کی وجہ سے نالاں تھے۔ نتیجہ ضیاالحق کا رجعتی اور وحشیانہ مارشل لا اور بھٹو کا عدالتی قتل تھا۔
ضیا نے مذہبی فرقہ واریت اور نسلی وقومی تعصبات کے ذریعے حاکمیت کی لیکن اس کے اقتدار کا حتمی اوزار جبر تھا جو یہاں کے محنت کشوں اور بائیں بازو کے سیاسی کارکنان پرڈھایا گیا تھا۔ پھر یہ خونی رات اپنے اندر کے تضادات سے پھٹ گئی۔ لیکن عام انسانوں کے لیے کوئی اجالا نہیں ہوا۔ جمہوری حکومتوں نے بھی وہی معاشی اور اقتصادی پالیسیاں اپنائیں جن سے عوام محرومی اور ذلتوں کے اندھیروں میں گھرے رہے۔ پھرمزید تضادات بھڑکے اور مشرف کا اقتدار آگیا۔ مشرف کی تنزلی ایوب خان کی طرح اس کی ’معاشی ترقی‘ اور شرح نمو ہی میں مضمر تھی۔ 7 فیصد کی شرح نمو نے تضادات کو ختم کرنے کی بجائے انکو بھڑکانے کا کام کیا۔ لیکن اس سارے عمل میں ریاست کے مقدس اداروں، جن میں ’فوج اور عدلیہ‘ سرفہرست ہیں، کی ساکھ کسی حد تک مجروع ہوئی۔ پچھلی حکومت کے 5 سال پورے کرنے میں کسی کی سیاسی چالبازیوں اور بازی گری کا اتنا ہاتھ نہیں تھاجتنی ان اداروں کی ساکھ کو مزیدمجروع ہونے سے بچانے کے لیے سامراجی و دیسی حکمرانوں کے سنجیدہ ماہرین کی واردات تھی۔ شاید انہی وجوہات کی بدولت میڈیا کے بیشتر چینل جو نواز شریف کو روزانہ فوجی حرکت کے ذریعے معزول کرواتے رہے ان کے تجزیہ کاروں کے تناظر حالات اور واقعات بار بار مسترد کرتے رہے۔

pakistan-new-coas-appointment-1موجودہ بے یقینی کا عالم اس وجہ سے بھی پایا جاتا ہے کہ صرف چند دنوں میں چیف کی تبدیلی سے پیشتر کوئی ایسا دھماکہ، دہشت گردی کی واردات یا پھر کوئی بھاری واقعہ رونما ہوسکتا ہے جو فوجی مداخلت کروانے کا موجب بن سکتا ہے۔ اس بے یقینی کی وجہ مسلسل گہرا ہوتا ہوا ریاست کا بحران ہے۔ تمام تر دعوؤں کے باوجود نام نہاد معاشی ترقی، سماجی بدحالی کو جنم دے رہی ہے۔ اس میٹھے زہر والی ’’کم مہنگائی‘‘ سے زندگی مزید اجیرن ہوتی چلی جارہی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں سب سے بڑا جی ڈی پی کے 68 فیصد تک پہنچ جانے والا قرضوں کا بوجھ بن چکا ہے۔ امارت اور غربت کی خلیج اتنی وسیع اور گہری پاکستان کی تاریخ میں کبھی نہیں رہی تھی۔ مذہبی بنیاد پرستی کے ذریعے فرقہ واریت پھیلا کر محنت کش طبقات میں دراڑیں ڈالنے کی واردات اب حکمرانوں کو اس انتشار اور دہشت گردی کی صورت میں بہت مہنگی پڑ رہی ہے۔ خارجی طور پربھی چونکہ خطے کے تمام ممالک اس اقتصادی اور سماجی انتشارمیں ہیں تو تناؤ اور خوف کا عالم سبھی ملکوں میں بڑھا ہے۔ ایسے حالات میں معاشرے میں جو گہری ہلچل ہے وہ اگر بڑی تحریکوں کی صورت میں ابھر کر سطح پرنہیں بھی آتی تو اس کے باوجود بھی اس سلگتے ہوئے انتشار کی تپش میں حکمرانوں کا اقتدار کبھی مستحکم اور پائیدار نہیں ہوسکتا ہے۔
جہاں بالا دست حکمران طبقے، سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کا ملغوبہ، اتنا کرپٹ ہو وہاں ریاست اور فوج سیاست کے تابع نہیں ہوتے۔ جب یہ سرمائے کی سیاست اس معاشی بدعنوانی سے سارا نظام ہی بگا ڑ دے تو پھر جرنیل مداخلت کرتے ہیں لیکن پھر جب فوجی مارشل لاؤں کا انجام بھی وہی نکلے تو پھر دوبارہ سیاست دانوں کو اقتدار دے دیا جاتا ہے۔ لیکن اس سویلین اور فوجی حاکمیت کے کھلواڑ میں محنت کش عوام ہی پستے رہتے ہیں۔ نظام کی تنزلی کے ساتھ جہاں حاکمیت کا بحران بڑھتا ہے وہاں معاشرہ مسلسل بربادیوں میں گرتا جاتا ہے۔ ان سماجی بحرانوں کے مضمرات چاہے طبقاتی کشمکش کی صورت میں وقتی طور پر نہ بھی ابھر رہے ہوں لیکن یہ رجعتی شکلوں جیسے کہ فرقہ وارانہ، قومیاتی، ذات برادری، نسلی اور علاقائی تعصبات کے ٹکراؤ کی شکل میں بھڑکتے رہے ہیں۔ اگر فوج اس لیے اب براہِ راست اقتدار میں آنے سے گریز کررہی ہے کہ اس بحرانی کیفیت میں اس کے اپنے ڈھانچوں کی جڑت اور ڈسپلن کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے تو سویلین جمہوریت کے حکمرانوں کے پاس بھی اس اقتدار کو استحکام دینے والا کوئی نسخہ نہیں ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ نظامِ سرمایہ جس حد تک گل سڑ چکا ہے اس میں سماجی خلفشار بڑھتا ہی رہے گا۔ ایسے میں کسی مستحکم جمہوریت یا آمریت کی شکل میں اقتدار پائیدار نہیں ہوسکتا۔ حکمرانوں کا نظام تاریخی طور پر متروک ہوچکا ہے۔ اس نظام کو یکسر تبدیل کیے بغیر کوئی سماجی امن وخوشحالی اور سیاسی استحکام ممکن ہی نہیں۔ آج کی حاوی سیاست میں اس نظرئیے کا فقدان ہے۔ لیکن انہی انقلابی نظریات کا ابھار ہی اس معاشرے کا مقدربدلے گا۔