تحریر: عمر شاہد
مارکس نے اپنے پیش رو فلسفیوں کے برعکس سماجی ارتقا کاوہ عظیم قانون دریافت کیا جس کے تحت سماجی حرکیات اور ارتقا کو نہ صرف سمجھنے بلکہ اس کو تبدیل کرنے کا سائنسی عمل پروان چڑھ سکا۔ اُس نے واضح کیا کہ ہر قسم کی مذہبی، فلسفیانہ، سیاسی یا نظریاتی کشمکش آخری تجزئیے میں سماج میں پائے جانے والے مخالف مفادات کے حامل طبقات یا ایک ہی طبقے کی مختلف پرتوں کے مابین تضادات کا ہی اظہار ہوتی ہے۔ آج کی ’ترقی یافتہ‘ سرمایہ داری میں محنت کش طبقات اور بورژوازی کے مابین طبقاتی تضادات شد ید تر ہو رہے ہیں، یہ ایک نیا معمول، ایک نئی کشمکش ہے۔ اس وقت دنیا کا ہر خطہ سیاسی عدم استحکام، خانہ جنگی، بے چینی، انتشار اور معاشی گراوٹ کا شکار ہے۔ مختلف ممالک کے معاشی ارتقا، سیاسی نظاموں اور محنت کشو ں کی تحریکوں کے پیش نظر بحران کا اظہار مختلف شکلوں میں ہو رہا ہے۔ سویت یونین کے انہدام کے بعد آزاد منڈی کی فضیلت کے بڑھ چڑھ کر قصیدے پڑھے گئے اور ’لبرل ازم‘ کو ہی دنیا کا مستقبل قرار دیا گیا۔ گلوبلائزیشن اور منڈیوں کے کھولنے کے عمل کے ذریعے سامراج نے ماضی کی نو آبادیات یا نام نہاد ’تیسری دنیا‘ کے ممالک میں بھی نجکاری اور تجارتی رکاوٹوں میں کمی کی پالیسیوں سے بد ترین استحصال کیا۔ اپنے عالمی مالیاتی اداروں کی سامراجی یلغار کے ذریعے کمپنیوں نے تاریخی منافعے کمائے۔ کریڈٹ فنانسنگ کے تحت قرضوں کے ذریعے دنیا میں مصنوعی بنیادوں پر منڈیوں کا پھیلاؤ کیا گیا جس کا مقصد پیداوار کی کھپت کے نئے مواقع تلاش کرنا تھا۔ لیکن یہی عوامل جو ایک وقت میں سرمایہ داروں کے منافعوں میں اضافہ لانے کا موجب بنے آج ایک نئے بحران کو جنم دے چکے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد اب تک سرمایہ داروں نے نت نئے طریقوں سے اپنے بنیادی مقصد یعنی ’شرح منافع میں اضافے‘ کی تکمیل کرنے کی کوشش کی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد سرمایہ داری کو وقتی عروج ملا لیکن پھر یہ اپنے تضادات کے زیر اثر ایک نئے بحران کا شکار ہو گئی۔ جلد ہی ان کے تجویز کردہ نسخے اپنی بلندی کو چھو لینے کے بعد تیزی سے گراوٹ کا شکار ہو تے ہوئے اپنے ساتھ ایک نئی بربادی لے کر آئے۔
آج عالمی سطح پر بورژوازی ایک سیاسی، سفارتی اور عسکری بوکھلاہٹ کا شکار ہے، جس میں ان کے سنجیدہ تجزیہ نگار بھی پاگل پن کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔ وہ اب گہرے ہوتے ہوئے بحران میں کوئی امید دکھائی نہ دینے کے باعث ماضی کے متروک نظریات کو تاریخ کے قبرستانوں سے نکال لانے کی لاحاصل جستجومیں مگن دکھائی دیتے ہیں۔ حال ہی میں جرمنی کے شہر بیڈن میں ہونی والی G-20 ممالک کے مالیاتی وزرا کی میٹنگ کا حال ہی ان کی فکر کو عیاں کرتا ہے۔ میٹنگ کے ایجنڈے میں تجارت اور ماحول شامل تھے، لیکن بغیر کسی نتیجے کے یہ میٹنگ ختم ہو گئی، کسی بھی پوائنٹ پر اتفاق نہیں کیا جا سکا، جس کی اہم وجہ امریکی حکام کی طرف سے ماحولیاتی آلودگی کے خلاف اقدامات کے سمجھوتوں پر دستخط کرنے سے واضح انکار تھا۔ یہG-20 کے ممالک ایک لمبے عرصے تک دنیا میں آزاد منڈی کے ٹھیکیدار سمجھے جاتے تھے، لیکن آج کل ان کے درمیان تجارت پر ریاستی جکڑ بندی (State Protectionism) کی گفت و شنید زیادہ ہو رہی ہے۔ عالمی تجارتی تنظیم (WTO) کی جانب سے 2008ء سے اب تک آزاد تجارت کے خلاف تقریباً 2000 اقدامات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ دنیا کی کل تجارت کا 80 فیصد انہی ممالک پر مشتمل ہے۔ اس موقع پر دنیا کے قرضے کی رپورٹ برائے 2017ء پیش کی گئی جس کے مطابق غریب ممالک کے لئے بحران شدید سے شدید تر ہو رہا ہے اور ان مقروض ریاستوں کے مسائل کی 1980ء کی دہائی کے مسائل سے کافی مماثلت ہے۔ ان میں 116 ممالک کے لئے اجناس کی قیمتوں میں گراوٹ کی وجہ سے اپنے پرانے قرضوں کی ادائیگی بھی مشکل ہے۔ موجودہ عہد میں آزاد منڈی کے برعکس تجارتی تحفظ کی پالیسیاں کسی واحد فرد کی سوچ نہیں ہیں بلکہ یہ موجودہ معاشی بحران سے نکلنے کی تلاش کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ضرورت کا اظہار ہے۔ اس کی وجہ عالمی سرمایہ کاری اور تجارت میں سست روی اور شرح منافع میں عمومی گراوٹ ہے۔
1990ء کی دہائی کے بعد کا معاشی عروج حقیقی اور ٹھوس بنیادوں کی بجائے قرضوں کے بل بوتے پر حاصل کیا گیا تھا۔ موجودہ بحران کے مزید گہرا ہونے کی اہم وجہ یہ ہے کہ شرح منافع کسی پیداواری سرمایہ کاری اور ترقی کو بحال کرنے کے لئے ناکافی ہے۔ ساتھ ہی قرضوں کے رحجان میں مسلسل اضافہ شامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مطلوبہ شرح منافع نہ مل پانے کی وجہ سے معاشی سرگرمیوں سے باہر ایک بھاری ’مردہ‘ سرمایہ موجود ہے جو کہ آف شور بینکوں میں محفوظ رکھا گیا ہے۔ اس کیفیت میں معاشی سرگرمیاں ناپید ہونے کی وجہ سے تیزی سے بیروزگاری اور غربت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس سرمایہ دارانہ نظام کے نامیاتی بحران میں بیروزگاروں کی ’ریزرو‘ فوج اب مستقل فوج میں تبدیل ہوگئی ہے۔ لیکن ’’فیصلہ کن بحران‘‘ کا اعلان کرنے والے بہت سے نام نہاد اور خود ساختہ مارکسسٹوں کے برخلاف لینن نے آج سے سو سال پہلے واضح کیا تھا کہ سرمایہ داری کا کوئی بحران حتمی نہیں ہوتا، بلکہ جب تک اسے اکھاڑ پھینکا نہ جائے وہ بڑے سے بڑے بحران سے بھی آخر کار نکل سکتی ہے۔ لیکن اس کے لئے اسکو وسیع پیمانے پر پیداوار کی کھپت کے لئے منڈیاں چاہیے ہوتی ہیں جو یہ عام طور پر پہلے سے موجود سرمائے کی تباہی سے پیدا کرتی ہے۔ 1930ء کا بحران امریکی صدر روز ویلٹ کی ’نیو ڈیل‘ یا جان مینرڈ کینز (Keynes) کی پالیسیوں کی وجہ سے نہیں بلکہ دوسری عالمی جنگ کی تباہ کاریو ں کی وجہ سے ختم ہوا تھا۔ کینز نے خود ہی واضح کیا تھا کہ ’کوئی بھی سرمایہ دارانہ جمہوریت صرف جنگوں کے ذریعے ہی عظیم تجربات کے لئے بڑے اخراجات کو منظم کرسکتی ہے۔‘
ڈونلڈ ٹرمپ کی غیر متوقع طو ر پر وائٹ ہاؤ س میں آمد نے بورژوازی کے سنجیدہ نمائندوں میں ایک ماتم کا سما ں پیدا کر دیا ہے۔ ٹرمپ نے نا م نہاد سفارت کاری کے آداب کا پردہ چاک کیا ہے جس کی وجہ سے اس کودائیں بازو ہی کی جانب سے سخت تنقید کا سامنا ہے۔ ٹرمپ جس جارحانہ اقدامات کا اعلان کر رہا ہے وہ شاید ہی مکمل کر سکے لیکن اس نے اپنی تقاریر میں امریکی سیاست کو بے نقاب کرتے ہوئے واضح طور پر کہا ہے کہ ’میں واحد امریکی صدر ہوں جو کہ اپنے انتخابی وعدوں پر عمل کر رہا ہوں‘۔ ٹراٹسکی نے دوسری عالمی جنگ سے قبل پیش گوئی کی تھی کہ’’آنے والی جنگ میں امریکہ فتح یاب ہو گا لیکن اس کی بنیادیں ڈائنامائٹ کی ہوں گی۔ ‘‘ٹراٹسکی کے یہ الفاظ آج امریکہ کی حالت زار پر بالکل سچ ثابت ہو تے ہیں۔ سویت یونین کے انہدام کے بعد تاریخ میں پہلی مرتبہ امریکہ نے واحد سپر پاور کے طور پر دنیا میں اپنی دھاگ بٹھائی، لیکن آج یہی طاقتور سپر پاور دنیا بھرمیں ذلیل و خوار ہو رہی ہے۔ سامراج کی مسلسل کمزوری ثابت کرتی ہے کہ اس دیو کے پاؤ ں مٹی کے ہیں۔ ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعد سے امریکی سٹاک مارکیٹ میں تیزی آئی ہے۔ اس طرح عالمی معیشت کے اہم اعشارئیے ’پرچیزنگ مینیجرز انڈکس (PMI)‘ کے مطابق عالمی طور پر کارپوریٹ کمپنیاں صورتحال میں بہتری دیکھ رہی ہیں۔ جے پی مارگن کے معیشت دانوں کے مطابق عالمی طور پر پیداواری صنعت کی شرح نمو پچھلے سال ایک فیصد کی بجائے اب 4 فیصد ہے۔ یورپی معیشتوں میں بھی کچھ جزوی بہتری آئی ہے۔ ادارہ برائے عالمی مالیات کی رپورٹ کے مطابق جنوری سے اب تک ابھرتی ہوئی معیشتوں کی خام داخلی پیداوار میں 6.4 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا ہے۔ فنانشنل ٹائمز کے مطابق کارپوریٹ منافعوں میں معمولی بحالی دیکھی گئی ہے۔ تاہم یہ سب سطحی اور کھوکھلا ہے۔ سرمایہ کاری نہیں ہو رہی ہے۔ ٹرمپ نے امریکی جی ڈی پی میں 4 فیصد نمو کا وعدہ کیا ہے، لیکن 2008ء سے اب تک امریکی معیشت کی اوسط شرح نمو صرف 1.9 فیصد ہی رہی ہے۔ کارپوریٹ منافعوں میں اضافہ نہ ہونے کی وجہ سے امریکی معاشی نمو ناممکن ہے، جس کی وجہ سے ناگزیر طور پر حکومت کو ہی سرمایہ کاری کرنا پڑے گی۔ لیکن اس کے لئے پیسہ کہاں سے آئے گا، یہ کلیدی سوال ہے۔ 2016ء کی آخری سہ ماہی میں کاروباری سرمایہ کاری کل جی ڈی پی کا محض 0.17 فیصد رہی، جبکہ حکومتی سرمایہ کاری میں بھی بتدریج کمی واقع ہوئی ہے، 2008ء میں یہ 4.5 فیصد تھی، اب یہ 3.29 فیصد رہ چکی ہے۔ میکرو معاشی حوالوں سے نحیف ریکوری کے باوجود امریکی فی کس جی ڈی پی کی شرح میں اضافہ نہیں ہوا ہے۔ روزگار کے خاطر خواہ مواقع پیدا نہیں ہو رہے ہیں اور امریکی سماجی زندگی کی حالت زار کا جائزہ غیر سرکاری تنظیم ’امیرکن سوسائٹی آف سول انجینئرز‘ کی رپورٹ لگایا جا سکتا ہے جس کے مطابق 2020ء تک موجودہ انفراسڑکچر کو صرف رواں رکھنے کے لئے بھی 3.6 ٹریلین ڈالر درکار ہونگے۔
یورپ کی معاشی حالت بھی امریکہ سے زیادہ بہتر نہیں ہے۔ یورپ کی سب سے بڑی معیشت جرمنی کی شرح نمو امید سے کم رہی، جرمن مالیاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق پچھلے سال کی آخری سہ ماہی میں معیشت محض 0.4 فیصد کی شرح سے ہی بڑھ سکی، اگلی سہ ماہی میں یہ شر ح محض 0.1 سے 0.2 فیصد تک رہنے کی پیش بینی کی گئی ہے۔ جرمنی کو یورپ کا معاشی پاور ہاؤس کہا جاتا ہے، لیکن اس کی شرح نمو برطانیہ سے بھی کم رہی۔ برطانیہ کی شرح نمو آخری سہ ماہی میں 0.6 فیصد رہی۔ بریگزٹ کے باوجودصارفین کی کھپت میں اضافہ دیکھا گیا، لیکن بڑھتی ہوئی مہنگائی ناگزیر طور پر صارفین پر بوجھ ڈالے گی۔ دیگر معیشتو ں مثلاً فرانس اور ہالینڈ میں بھی سہ ماہی شرح نمو تقریباً 0.5 فیصد ہی رہی۔ یونان اور فن لینڈ کی معیشتیں مزید سکڑاؤ کا شکار ہوئیں۔ صرف سپین کی معیشت نے 0.7 فیصد شرح نمو حاصل کی۔ یورپی سنٹرل بینک نے 2018ء تک کے لیے اپنی رپورٹ پیش کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ موجودہ صورت حال میں بہتری کے خاطر خواہ امکانات نہیں ہیں، پیش گوئی ہے کہ یورپی جی ڈی پی کی شرح نمو مزید 0.3 فیصد کی کمی کے ساتھ صرف 1.6 فیصد رہے گی۔
ڈونلڈ ٹرمپ اور بریگزیٹ کے حیران کن نتائج کے بعد بدھ کو ہالینڈ کے انتخابی نتائج نے ایک دفعہ پھر ذرائع ابلاغ کے تجزیہ نگاروں کو غلط ثابت کردیا، لیکن اس بار معاملہ الٹ تھا۔ اس بار انہوں نے انتہائی دائیں بازو کے گیرٹ ولڈرز کی شہرت کا غلط اندازہ لگایا۔ اْس نے جیت کی صورت میں ہالینڈ کو یورپی یونین سے نکالنے کی بات کی تھی۔ اس کی پارٹی 13.1 فیصد ووٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر آئی، میڈیا کے شوروغوغا کے باوجود اس کے ووٹوں میں صرف 3 فیصد اضافہ ہوا۔ اگرچہ ولڈرز کی زیر قیادت ایک ’نیو فاشسٹ‘ حکومت کا ’خطرہ‘ عارضی طور پر ٹل گیا لیکن دائیں بازو کی لبرل پارٹی اپنے لیڈر روٹ (Rutte) کی تیسری وزارت اعظمیٰ کے دوران محنت کشوں اور عوام کو حاصل فلاحی ریاست کی مراعات ( جو ماضی میں محنت کشوں نے اپنی جدوجہد سے حاصل کی تھیں) میں کٹوتیوں کا عمل جاری رہے گا۔ یورو زون مخالفت اور زینو فوبیا (غیرملکیوں سے نفرت) ختم نہیں ہوئی۔ روٹ نے ولڈرز کی نعرے باری کو قدرے ہوشیاری سے استعمال کیا ہے۔ مارچ کے شروع میں روٹ نے تارکین وطن کے نام ایک کھلے خط میں اْن سے کہا، ’’اگر تمہیں یہ جگہ پسند نہیں تو یہاں سے نکل جاؤ‘‘۔
روٹ کی VVD اور کرسچن ڈیموکریٹس کی دائیں بازو کی پارٹیوں کے ووٹ سکڑ گئے ہیں اور ان کی پارلیمانی سیٹیں 79 سے 42 ہوگئیں۔ 150 کی پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل کرنے کے لیے کم از کم 76 ارکان کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن سب سے بڑی ہار ہالینڈ کی لیبر پارٹی کو ہوئی، جو پچھلی حکومت میں ایک اہم اتحادی تھی۔ لیبر پارٹی کو محنت کشوں نے پچھلی حکومت کے دوران دردناک کٹوتیوں اور سوشل ویلفیئر پر حملوں میں ساتھ دینے پر سزا دی۔ اس کے ووٹ 25 فیصد سے گر کر 6 فیصد ہوگئے۔ اب صرف نو سیٹوں کے ساتھ یہ گرین پارٹی اور سابقہ ماؤسٹ سوشلسٹ پارٹی سے بھی چھوٹی پارٹی بن گئی ہے۔ سوشلسٹ پارٹی کے تارکین وطن اور دوسرے مسائل پر دائیں بازو والے مؤقف کی وجہ سے اس کے ووٹ بھی 9.6 فیصد سے 9.1 فیصد پر آگئے۔ اس کے برعکس گرین لیفٹ کے ووٹ 2.3 فیصد سے بڑھ کر 9 فیصد ہوگئے۔ 34 سال کی عمر کے ایک تہائی سے زیادہ لوگوں نے انہیں ووٹ دیئے اور ایمسٹرڈم میں تو رائے دہندگان کے پانچویں حصے کے ووٹ حاصل کرکے یہ سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری۔
ہالینڈ میں انتہائی منقسم انتخابی مہم اور کشیدہ سماجی صورتحال کی وجہ سے ٹرن آؤٹ 82 فیصد رہا، جو پچھلے 31 سال میں سب سے زیادہ ہے۔ لیکن اپنی تمام تر شدید نعرے بازی کے باوجود گرین پارٹی والے اور ڈیموکریٹس، ’روٹ‘ کی قیادت میں ایک دائیں بازو کی حکومت میں شامل ہونے کے لیے تیار ہیں۔ ان کی زیادہ تر حمایت پیٹی بورژوازی کی کچھ پرتوں میں ہے، جس کی وجہ سے یہ پارٹیاں امریکہ میں ان لوگوں کی طرح ہیں جو ٹرمپ کی مخالفت میں بالآخر وال سٹریٹ کی حمایت اور سرمایہ دارانہ ڈیموکریٹک پارٹی کی گود میں چلے جاتے ہیں، کیونکہ ان کے پاس حقیقی تبدیلی کا کوئی واضح پروگرام نہیں ہوتا۔
ان انتخابات کے نتیجے میں ہالینڈ شاید اپنی جدید تاریخ کی سب سے پیچیدہ اتحادی حکومت کی تشکیل کی طرف جائیگا، نتیجتاً کم از کم چار پارٹیوں کی مخلوط حکومت بنے گی جو سرمایہ داری کے بحران کی وجہ سے ’ہالینڈ کی بقا ‘کے لیے کٹوتیوں (آسٹیریٹی)کے فیصلے کریں گی، اگرچہ یہ کام اتنا آسان نہیں ہوگا۔ ہالینڈ کے محنت کشوں کی بغاوت ’فی الحال‘ فتح کا جشن منانے والی پارٹیوں کے لیے ایک ڈراؤنا خواب ثابت ہوگی اور نئی حکومت بہت جلد تجزیہ نگاروں کے تجزیوں کے برعکس مشکل میں پڑ جائے گی۔
ہالینڈ کے یہ انتخابات اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ یورپ اور دوسری جدید سرمایہ دارانہ ریاستوں میں معاشی توازن کے بگاڑ نے اصلاحات اور سماجی فلاحی ریاست کے نظام کو چکنا چور کردیا ہے۔ اس سے سیاسی توازن بھی بگڑ رہا ہے۔ یورپ میں محنت کشوں اور حتیٰ کہ سرمایہ داروں کی پارٹیاں بھی زوال کی کیفیت میں ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد ہالینڈ کی سیاست پر راج کرنے والی دو بڑی پارٹیوں، کرسچن ڈیموکریٹس اور سوشل ڈیموکریٹس، کی شکست و ریخت اس عمل کی غمازی کرتی ہے۔ اتحادی حکومت کی تشکیل میں کافی وقت لگے گا، اس دوران خوب ہارس ٹریڈنگ اور پس پردہ معاہدے ہوں گے۔ یہ اپنے آغاز سے ہی بحران کا نسخہ ہوگا۔ اتحادیوں کا ایک حصہ اعتراضا ت، فیصلوں پر اختلافات اور ’تحفظات‘کا اظہار کرے گا تو نام نہاد بایاں بازو سخت ترین کٹوتیوں پر احتجاج کریگا اور حکومت چھوڑنے کی دھمکیاں دی جائینگی، کیونکہ سماجی عدم استحکام کے اس دور میں پارٹیوں پر نیچے سے بہت ہی زیادہ دباؤ ہے۔
ہالینڈ میں بعد از عالمی جنگ معاشی ابھار کے دور میں حالات بہت ہی مختلف تھے۔ ایمسٹرڈم کو’یورپ کا دل‘ کہا جا تا تھا۔ ستر کی دہائی میں لیبر پارٹی کی حکومت نے سب سے ریڈیکل اصلاحات کیں۔ وزیراعظم جوپ ڈینئل نے آمدنی کی مساوی تقسیم پر زور دیا اور صحت، تعلیم اور رہائش کے شعبوں میں ریڈیکل اصلاحات متعارف کروائیں۔ ڈینئل نے معاملات کے خفیہ رکھنے کو مسترد کیا اور سیاسی طاقت سے منسلک رعونت کو بھی مسترد کیا۔ وہ طلبہ اور ٹریڈ یونینز کے سرگرم کارکنان کے ساتھ میٹنگز میں شریک ہوتا اور حتیٰ کہ احتجاجی مظاہروں میں بھی جاتا۔ آج کل جب تارکین وطن کو تمام تر مسئلوں کی وجہ قرار دیتے ہوئے انہیں یورپ سے نکالا جا رہا ہے، کچھ لوگ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ ڈینئل کی حکومت نے اْس وقت ہالینڈ میں رہنے والے تمام غیر قانونی تارکین وطن کو قانونی حیثیت دی تھی۔ لیکن ڈینئل کی حکومت بھی اپنی بہت سی اصلاحات کو لاگو نہ کرسکی کیونکہ ہالینڈ کی سرمایہ داری کی حدود و قیود اپنے عروج کے دنوں میں بھی اسے ایسا کرنے کی اجازت نہیں دے سکتی تھیں۔ آنے والے سالوں میں معاشی ترقی کم ہونا شروع ہوئی، حکومتی اخراجات بڑھ گئے اور حکومتی اصلاحات کی وجہ سے بورژوازی اپنی شرح منافع کے بارے میں فکرمند ہونا شروع ہوئی۔ سرمایہ داری کے بحران کے پیش نظر کینشین ماڈل (ریاستی سرمایہ داری) کے انہدام اور نیو لبرل معاشیات کے اطلاق سے ہالینڈ کا سماج سیاسی، سماجی اور معاشی طور پر زوال پذیر ہوگیا۔
’ولڈرز‘ کا ابھار ہالینڈ کی سیاست میں کسی حد تک دائیں بازو کی طرف شفٹ کی علامت ہے، اس کی وجہ نہیں ہے۔ یہ سرمایہ دارانہ سماج کے گہرے بحران اور ہالینڈ کے بائیں بازو اور محنت کشوں کی روایتی سیاسی و ٹریڈ یونین قیادت کی محنت کشوں کو ایک انقلابی متبادل دینے میں نااہلی یا زوال پذیر نظام سے مصالحت کی غمازی کرتا ہے۔ یہ بحران دراصل نظام کے نامیاتی بحران کی غمازی کرتا ہے، باوجودیکہ جنوب یورپی ممالک کی نسبت ہالینڈ کی معیشت نسبتاً مستحکم ہے۔ یہ انتخابی نتائج آنے والے دنوں میں سیاسی عدم استحکام اور شدید طبقاتی جدوجہد کا پیش خیمہ ثابت ہونگے۔ ہالینڈ 17 ملین آبادی والا ایک چھوٹا سا ملک ہے، لیکن آج یہ گہرے سماجی، معاشی اور ثقافتی بحرانوں کا شکار ہے۔ ایک سابق نوآبادیاتی طاقت ہونے کے پیش نظر بعد از جنگ کے معاشی ابھار کے دور میں اس نے تارکین وطن محنت کشوں کی بڑی تعداد کو ملک میں قبول کیا۔ اب معاشی زوال کے عہد میں تارکین وطن بڑھتی ہوئی نابرابری میں سب سے زیادہ متاثر ہورہے ہیں۔
80ء کی دہائی سے دائیں بازو کی لبرل جماعت کے ساتھ ساتھ لیبر پارٹی اور ٹریڈ یونین قیادت بھی بورژوا پارٹیوں کے ساتھ مصالحت کررہی ہے اور محنت کشوں کی حاصل کی گئی حاصلات کو ختم کیا جا رہا ہے۔ لیکن ہالینڈ کے محنت کشوں کی طبقاتی جدوجہد کی طاقتورروایات موجود ہیں۔ یہ تضادات اور دائیں بازو کے عارضی ابھار بہت جلد ختم ہونگے اور سماج ایک دفعہ پھر بائیں طرف پیش رفت کرتے ہوئے پورے یورپی براعظم کو اپنے لپیٹ میں لیں گے۔ یورپ کو صرف اور صرف ’سوشلسٹ فیڈریشن آف یورپ‘ کی بنیاد پر ہی متحد کیا جاسکتا ہے۔ یورپ کے کسی ایک اہم ملک میں پرولتاریہ کی انقلابی فتح اس عمل کو یقینی بنائے گی۔
کارل مارکس نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ’لوئی بونا پارٹ کی اٹھارویں برومئر‘ کے آغاز میں لکھا کہ ’’ہیگل نے کسی جگہ خیال ظاہر کیا ہے کہ ایسے واقعات اور ایسی ہستیاں جو تمام دنیا کی تاریخ میں اہمیت کی مالک ہوں، دو با ر ظاہر ہوتی ہیں۔ یہاں وہ یہ اضافہ کرنا بھو ل گیا کہ پہلی بار المیے کی شکل میں اور دوسری بار مسخرے کے روپ میں۔‘‘ اس وقت یوں معلوم ہوتا ہے کہ سرمایہ داری کے رکھوالوں نے ہی اپنی گور خود کھودنا شروع کر دی ہے۔ برسوں سے رائج بورژوا سیاسی توازن اب اپنے الٹ میں تبدیل ہو کر نئے عدم استحکام کو جنم دے رہا ہے۔ ٹرمپ جیسے سیاسی مسخرے عالمی سیاسی افق پر نئے تماشے کرنے میں مگن ہیں، ایک طرف محنت کشوں پر شدید حملے کئے جا رہے ہیں تو دوسری طرف سیاسی میدان میں مروجہ دائیں اور روایتی بائیں بازو کی پارٹیوں کے مابین تفریق کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ آج سے 60 سال پہلے اٹلی کے شہر روم میں فرانس اور جرمنی سمیت چھ ممالک کے مابین مشترکہ منڈی کے قیام کے حوالے سے ’روم معاہدہ ‘ ہواتھا، جس نے آگے چل کر یورپی یونین کی شکل اختیار کی۔ ٹیڈ گرانٹ نے سرمایہ داری میں یورپی مشترکہ منڈی کے قیام پر واضح موقف اختیار کر تے ہوئے اسے ناقابل عمل قرار دیا تھا، جس کی اہم وجہ یہ تھی متضاد معاشی مفادات کے حامل معیشتیں کبھی ایک کرنسی اور منڈی میں یکجا نہیں ہو سکتیں۔ یورپین یونین کے قیام کے بعد بحران کے عہد میں معاشی تضادات کھل کر سامنے آئے۔ 2008ء کے معاشی بحران نے اس مصنوعی اتحاد کے تابوت میں آخری کیل کا کام کیا ہے۔ سٹیڈ فورڈ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق موجودہ بحران کئی دہائیوں سے دبے قومی جذبات کوسطح پر لے آیا ہے جن کے تحت بہت سے لوگ یورپی یونین کے براہ راست کنٹرول کو غیر ملکی اور اجنبی طاقت کے طور پر دیکھتے ہیں۔ مشہور امریکی سرمایہ دار جارج سورس کے الفاظ میں ریاستوں کے کوئی اصول نہیں ہوتے بلکہ انکے صرف مفادات ہوتے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ آج اسی یونین کے خاتمہ کی باتیں یورپی حکمران طبقات کے بہت سے دھڑے کر رہے ہیں۔ یورپ شدید سماجی خلفشار کا شکار ہے۔ ’اسلامو فوبیا‘ کو یہاں کے حکمران اپنے مفادات کے تحفظ اور محنت کشوں پرمزید حملے کرنے لئے استعمال کرتے رہے ہیں۔ حال ہی میں لندن پارلیمنٹ پر حملے کو دایاں بازو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنا چاہ رہا ہے۔ برطانیہ کو عام طور پر ایک قدامت پرست معاشرہ سمجھا جاتا ہے، لیکن جرمی کوربن کے گرد ابھرنے والی تحریک نے برطانوی محنت کشوں کی طاقت کو ایک بار پھر عیاں کیا ہے۔ برطانوی نوجوانوں کی بے چینی کا اندازہ صرف اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ برطانیہ میں یونیورسٹی فیس اس وقت دنیا میں بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے کی جانب سے یورپی یونین سے باضابطہ انخلا کے لئے پارلیمنٹ کی منظوری لینے اور آرٹیکل 52 کے حوالے سے سرکاری طور پر اعلان کر دینے کے بعد ایک بار پھرمختلف گروہ یونین میں رہنے کے حق میں مظاہرے منعقد کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ ایسے میں سکاٹ لینڈ کی برطانیہ سے آزادی کے نئے ریفرنڈم کی گفت و شنید بھی سنائی دے رہی ہے۔ بریگزٹ کے بعد دنیا کی نظریں اب فرانس کے انتخابات پر جمی ہوئی ہیں۔ مارچ کے پہلے اکانومسٹ میگزین کا سرورق ’فرانس کا اگلا انقلاب‘تھا، جس میں فرانس کے انتخابات پر تبصرہ کرتے ہوئے اکانومسٹ نے لکھا کہ ’’اب تک کی زندہ یاداشت کے مطابق اس سال کے فرانسیسی انتخابات ایک واضح تبدیلی کا عندیہ دے رہیں۔ 1958ء کی پانچویں جمہوریہ کے وقت سے اقتدار پر براجمان سوشلسٹ اور ریپبلکن پارٹیاں اپریل میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں ہی ختم ہو سکتی ہیں۔ ‘‘دائیں بازو کی نئی ابھرنے والی نیشنل پارٹی کی میری لی پین کی فتح کی پیش بینی کی جا رہی ہے، جس نے برسر اقتدار آنے پر یورپی یونین سے علیحدگی کا عندیہ دیا ہے۔ لیکن فرانسیسی انتخابات میں میری لی پین کی جیت کے امکانات پھر معاشی و سماجی خلفشار سے جڑے ہیں۔ بیروزگار نوجوانوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، عوام کے شعور پر’ اسلامی دہشت گردی‘ کا خوف مسلط کیا جا رہا ہے، معاشی صورتحال تنزلی کی طرف جا رہی ہے اور ایسے میں روایتی بائیں بازو کا زوال بھی تیز ہو گیا ہے۔ انتخابات میں سوشلسٹ پارٹی کا امیدوار ’بینوا ہامون‘ ہے جو پارٹی میں ہالندے کی پالیسیوں کا مخالف رہا ہے۔ اس کے انتخابی پروگرام میں 35 گھنٹے کے اوقات کار اور تمام فرانسیسی باشندوں کے لئے بنیادی آمدنی شامل ہے۔
پچھلے اتوار کو روس کے احتجاجی مظاہروں کا یہ ابھار 2012ء کی تحریک کے بعد سب سے بڑا ہے جب پیوٹن کی حکمرانی کو چیلنج کیا گیا لیکن جو تھوڑے ہی عرصے میں ماند پڑگئی۔ حالیہ مظاہرے 26مارچ کو روس کے پیسفک ساحل میں شروع ہوئے جب سینکڑوں لوگوں نے ولادیوسٹوک میں مارچ کیا۔ سارا دن مختلف شہروں بشمول نووسیبرسک اور یکاترنبرگ اور حتیٰ کہ داغستان کے دارالحکومت ماخاچکالا جو شمالی قفقاز کا علاقہ ہے سے بھی مظاہروں کی رپورٹیں آتی رہیں۔ لیکن حکومت نے جس سختی سے ان مظاہروں کو کچلا اور سینکڑوں لوگوں کو گرفتار کیا اس سے واضح ہوتا ہے کہ پیوٹن کی حکومت کسی کو نہیں چھوڑے گی۔ ولادیمر پیوٹن کوئی ولادیمر لینن نہیں ہے۔ نیویارک ٹائمز نے ان واقعات کے بعد لکھا، ’’ماسکو اور سینٹ پیٹرزبرگ میں سب سے بڑے مظاہرے ہوئے جہاں وہ پیلس سکوئر تک پہنچ گئے جو 1917ء کے روسی انقلاب کی یاد دلاتا ہے، جو کریملن کو بھی خوب یاد ہے۔ 1917ء کے انقلاب نے ملک اور پوری دنیا کو تبدیل کردیا۔ زار شاہی کا خاتمہ ہوا۔ کمیونسٹ دور کا آغاز ہوا اور مغرب کے ساتھ ایک نظریاتی جنگ شروع ہوئی جس کے آثار اب بھی موجود ہیں۔ کریملن کے کچھ عہدیداروں، مورخوں اور دوسرے تجزیہ نگاروں کے مطابق اس کی زیادہ بہتر وضاحت یہ ہوسکتی ہے کہ پیوٹن کو انقلاب کے خیال سے ہی نفرت ہے کجاکہ روسی عوام سڑکوں پر رقص کرکے ایک حکمران کے دھڑن تختے کا جشن منائیں۔ ‘‘کریملن نے روسی انقلاب کی سو سالہ تقریبات میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے
موجودہ صورت حال میں روس میں کوئی حقیقی اپوزیشن متبادل نہیں ہے اور روس کی موجودہ کمیونسٹ پارٹی زیوگانوف کی قیادت میں دراصل ایک اصلاح پسند سیاسی جماعت ہے۔ پیوٹن کو کسی اپوزیشن پارٹی یا قیادت سے کسی سنجیدہ مخالفت کا سامنا نہیں ہے۔ اس نے زیادہ تر زار کے زمانے کے روسی شاونزم کو اپنی حمایت میں اضافہ کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ یوکرائن میں مداخلت اور کریمیا پر قبضے سے اس کی حمایت میں مزید اضافہ ہوا۔ امریکہ اور مغرب کے خلاف نعرے بازی سے اس کی قوم پرستی کو مزید تقویت ملی ہے۔ اگرچہ مختلف وجوہات کی بنا پر یہ مظاہرے زیادہ دیر نہ چل سکے لیکن دہائیوں کے بعد روسی سیاسی منظرنامے پر چند حیرت انگیز چیزیں جنم لے چکی ہیں۔ کریملن کی موجودہ حکومت نے ماضی میں نوجوانوں کو تقسیم اور کنفیوز کرنے کے لیے مہارت سے ’ناشی‘ کے نام سے پیوٹن کی حمایت میں نوجوانوں کی تحریک شروع کی تھی لیکن کریملن کے لیے تشویش کی بات یہ ہے کہ نوجوانوں میں پیوٹن کی حمایت میں کمی واقع ہوئی ہے۔ 26مارچ کے مظاہرے دمتری میدیدف کی بدعنوانی کے خلاف تھے جو پیوٹن کا وفادار، کرپٹ اور شاہ خرچ وزیراعظم ہے۔ لیکن اس بڑھتے ہوئے سماجی بحران میں اچانک نئی بغاوتیں اور تحریکیں ابھر سکتی ہیں۔
یورپ اور امریکہ جیسے ترقی یافتہ ترین خطوں میں یہ بحران اور خلفشار اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ سرمایہ داری اپنی ترقی یافتہ شکلوں میں بھی استحکام اور معاشی نمو برقرار رکھنے سے قاصر ہے۔ اِن خطوں میں حالیہ کچھ سالوں کی سیاسی اتھل پتھل اور روایتی سیاست کی ٹوٹ پھوٹ آنے والے عرصے میں بھی جاری رہے گی۔ وقتی تھکاوٹ اور پسپائی کے بعد محنت کشوں اور نوجوانوں کی تحریکیں نئی شکتی کے ساتھ ابھریں گی۔ ٹرمپ اور میری لی پن وغیرہ کی شکل میں دائیں بازو کا پاپولزم انتہائی کھوکھلا اور سطحی ہے اور بحران سے نکلنے کا کوئی راستہ ان کے پاس نہیں ہے، کیونکہ یہ سرمایہ داری کا نامیاتی بحران ہے جسے انتظامی طریقوں سے حل نہیں کیا جا سکتا۔ ایسے میں دائیں بازو کے یہ پاپولسٹ لیڈر جہاں بہت تیزی سے اور مختصر عرصے میں اپنی سماجی بنیادیں کھو دیں گے وہاں اپنے مایوس کن اقدامات کے ذریعے تحریکوں کو مشتعل بھی کر سکتے ہیں۔ آج کے عہد میں بائیں بازو کی اصلاح پسندی کی گنجائش بھی کم و بیش صفر ہو چکی ہے، ایسے میں روایتی پارٹیاں یا تو یکسر استرداد کی جانب بڑھیں گی اور ریڈیکل بائیں بازو کے نئے سیاسی مظاہر کا ابھار ہو گا، یا پھر اِن کے اندر سے بغاوت کے رجحانات ابھر سکتے ہیں۔ عالمی معیشت میں وقتی اور جزوی بحالی ہوتی بھی ہے تو ناپائیدار ہو گی۔ مزید برآں اس کے سیاسی نتائج متضاد کردار کے حامل ہوں گے اور تحریکوں کو بھڑکانے کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔ اِن تحریکوں کو ایک انقلابی قیادت درکار ہے جس کی ضرورت آنے والے دنوں میں زیادہ شدت ہی اختیار کرے گی اور مارکسسٹوں پر بھاری تاریخی فرائض عائد کرے گی۔