برطانیہ: علاقائی انتخابات کے نتائج اور تناظر

| تحریر: عمر شاہد |

جیرمی کاربن کی قیادت میں لیبر پارٹی کی پہلے علاقائی انتخابات میں کامیابی نے تمام تجزیوں کو غلط ثابت کر دیا ہے۔ انتخابات سے پہلے پارٹی اور پارٹی کے باہر موجود دایاں بازو بلند دعوے کر رہا تھا کہ جیرمی کوربن کی پالیسیوں کی وجہ سے لیبر پارٹی کمزور ہو چکی ہے اس وجہ سے علاقائی انتخابات میں چند ایک سیٹوں کے علاوہ زیادہ تر سیٹیں کھو دے گی۔ لیکن تمام اندرونی اور بیرونی مخالفت کے باوجود لیبر پارٹی کی فتح نے جیرمی کاربن کی قیادت کو مزید مضبوط کرنے میں مدد دی۔ انتخابات کے نتائج کے بعد پارٹی کے دائیں باز وکو وقتی طور پر شکست کا سامنا ہوا ہے لیکن وہ مسلسل کاربن کے خلاف اقدامات کرنے میں مصروف عمل ہیں۔ اس کامیابی کے بعد بھی کچھ شیڈو منسٹرز نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 2020ء کے انتخابات میں لیبر پارٹی کی کامیابی دکھائی نہیں دیتی۔ انتخابات کے نتائج کے مطابق انگلینڈ میں کنزرویٹو پارٹی نے پچھلے انتخابات کی نسبت 48 سیٹوں سے ہاتھ دھویا ہے جبکہ لیبر پارٹی کی صرف 18 سیٹیں کم ہوئی ہیں۔ لیبر پارٹی نے انگلینڈ کی کل 124 کونسلز میں سے 58 میں کامیابی حاصل کی ہے جبکہ اس کے1,326 کونسلر منتخب ہوئے ہیں۔ اس کے مقابلے میں کنزرویٹو پارٹی نے 38 کونسلز میں کامیابی حاصل کی جبکہ اس کے 842 کونسلر منتخب ہوئے۔ میٹروپولیٹن کونسلز جن میں اہم مراکز مانچسٹر، آکسفورڈ، ناروچ وغیرہ شامل ہیں ان کی 35 کونسلز میں 29 میں لیبر پارٹی نے کامیابی حاصل کی، مقابلہ میں حکمران جماعت کنزویٹو پارٹی نے صرف دو کونسلزسولی ہل اور ٹریفورڈ کونسلز میں اکثریتی کامیابی حاصل کی۔ ان انتخابات میں اہم کامیابیاں لیبر پارٹی نے برطانیہ کے اہم شہروں لندن، لیور پول، برسٹل، سیلفورڈ میں حاصل کیں۔ لندن کے اہم میئر کے انتخابات میں لیبر پارٹی کے امیدوار صادق خان نے اپنے مدمقابل جیک گولڈ کو 56.8 فیصد ووٹ لے کر شکست دی۔ اسی طرح برسٹل کے میئر انتخابات میں مارون ریئس نے کامیابی حاصل کی، ان انتخابات میں پہلے دفعہ کسی واحد پارٹی نے اکثریت حاصل کی ہے۔ نتائج کے مطابق شہر کی کل 70 نشستوں میں سے لیبر پارٹی نے 37 نشستیں حاصل کیں جبکہ کنزرویٹو پارٹی محض 14 سیٹیں حاصل کر سکی۔ لیورل پول سیلوفورڈ میں لیبر پارٹی کے مےئر جوئی انڈرسن دوبارہ میئر منتخب ہونے میں کامیاب ہوئے، اسی طرح لیبر پارٹی کا روایتی مضبوط علاقہ سیل فورڈ میں پال ڈینٹ میئر کے لئے کامیاب ہوئے۔ سکاٹ لینڈ میں اگر دیکھا جائے تو سکاٹش نیشنل پارٹی (SNP) کا ووٹ بنک اور مقبولیت کا گرا ف تیزی سے کم ہوا ہے۔ SNP ان انتخابات میں 129 نشستوں میں سے 63 سیٹیں حاصل کر سکی جس سے یہ اکثریت لینے میں ناکام ہوئی۔ سکاٹ لینڈ میں سب سے زیادہ کامیابی کنزرویٹو پارٹی نے حاصل کی جنہوں نے پچھلے انتخابات کی نسبت 16 سیٹیں زائد لیں جبکہ لیبر پارٹی کی 13 نشستیں کم ہوئی ہیں۔ سکاٹ لینڈ میں لیبر پارٹی (سکاٹش لیبر پارٹی)کے بحران کی وجہ ماضی میں اس کی قیادتوں کی انتہائی دائیں بازو کی پالیسیاں اور برطانوی اشرافیہ کی کاسہ لیسی ہے۔ اس طرح ویلز میں لیبر پارٹی نے سب سے زیادہ 29 سیٹیں حاصل کی ہیں۔ سکاٹ لینڈ میں SNP تھوڑے وقت میں ایک اہم پارٹی بن کر ابھری ہے جس کی اہم وجہ سکاٹش لیبر پارٹی کا ماضی میں لبرل اور کنزرویٹو پارٹیوں کے ساتھ اتحاد تھا۔ یہی وجہ تھی کہ 2014ء میں سکاٹش آزادی کے ریفرنڈم میں کٹوتیوں اور اپنے حالات زندگی پر مسلسل حملوں کے رد عمل میں برطانیہ سے علیحدگی کے حق میں 44 فیصد ووٹ پڑے تھے۔ SNP برطانیہ سے علیحدگی کے ساتھ ساتھ کٹوتیوں کے خلاف لفاظی بھی کر تی رہی ہے، اگرچہ سرمایہ داری میں رہتے ہوئے اسے ناگزیر طور پر کٹوتیوں کی پالیسی ہی اپنانی پڑے گی۔ سکاٹ لینڈ میں حال ہی میں بننے والے بائیں بازو کے اتحاد RISE کو برُی طرح شکست اٹھانی پڑی اور ان کو محض 0.5 فیصد ووٹ ہی مل سکے۔

labor most popular party in Britain
تازہ سروے کے مطابق لیبر پارٹی برطانیہ کی مقبول ترین جماعت بن چکی ہے

جیرمی کوربن کے نائب ٹام واٹسن نے سنڈے میرر میں لکھا کہ، ’’ابھی اصل فیصلہ ہونا باقی ہے لیکن یہ طے ہو چکا ہے کہ لیبر پارٹی نے 2015ء کی نسبت زیادہ ووٹ حاصل کئے ہیں‘‘۔ تازہ ترین اخباری سروے کے مطابق لیبر پارٹی 31 فیصد پسندیدگی کے ساتھ برطانیہ کی مقبول ترین پارٹی ہے۔ یہ انتخابی نتائج جہاں ایک طرف تو دائیں بازو کی خواہشات کے برعکس آئے ہیں وہی پر نام نہاد بائیں بازو کے کئی دانشوروں کے غلط اورالٹرالیفٹ تناظر کی نفی کرتے ہیں جن کا ماضی میں خیال رہا ہے کہ لیبر پارٹی یکسر مسترد ہو کر ختم ہو چکی ہے۔
مارکسسٹوں کے نزدیک تاریخ کے میدان میں شخصیات صرف مخصوص حالات ہی میں فیصلہ کن کردار اد ا کر سکتی ہیں۔ یہ وجہ ہے کہ ایک وقت میں مارکس اور اینگلز جیسے مارکسی اساتذہ بھی انقلابات برپا نہیں کر سکے تو دوسری طرف بعض مخصوص حالات میں کچھ حادثاتی کردار دیو قامت ہو جاتے ہیں۔
دیوار برلن گرنے اور سویت یونین کے انہدام کے بعد سرمایہ داری کو ہی حتمی اور آخری راستہ قرار دینے کا شور سامراج نے پوری دنیا میں مچایا تھا۔ لیکن زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ ایک بار پھر عالمی سطح پرسوشلزم کی صداؤں نے مارکسزم کی سچائی کو ثابت کیا ہے۔ موجودہ عالمی معاشی بحران میں بورژوا معیشت دانوں کے مکمل بانجھ پن اور ان کے کھوکھلے دعووں کی نفی ہو تی ہے۔ مثال کے طور پر بورژوا ماہر معاشیات ایلن گریسپین تسلیم کرتا ہے کہ’ ’ہمیں نہیں پتا کہ موجودہ بحران میں کیا کیا جائے کیونکہ ہمیں آج تک ایسی صورتحال کا سامنا نہیں کرنا پڑا‘‘۔ یہ کیفیت اس بات کا اظہار ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام ایک تاریخی بحران میں داخل ہو چکا ہے جس کی شدت ہر خطے میں مختلف ہو سکتی ہے۔ لیکن عمومی جائزے کے مطابق موجودہ نظام ایک بند گلی میں داخل ہو چکا ہے جہاں پر موجودہ نظام کے اصولوں کے مطابق کوئی مستقبل نہیں ہے۔ اس وقت پوری دنیا کی حکومتوں کے پاس حل صرف کٹوتیوں کی شکل میں موجود ہے جہاں پر عام عوام کے معیار زندگی کو مسلسل گرایا جا رہا ہے اور سہولیات ختم کی جا رہی ہیں۔ اس کیفیت میں معاشی زوال پزیری کااظہار سیاسی و سماجی عدم استحکام کی شکل میں ہو رہا ہے۔ سرمایہ داری کے سنجیدہ پالیسی سازوں کے نسخوں پر عمل پیرا ہوتے ہوئے معاشی استحکام حاصل کرنے کی ہر کوشش کا ناگزیر نتیجہ بڑے سیاسی و سماجی عدم استحکام کی شکل میں نظر آ رہا ہے۔ اس صورتحال میں جہاں پر روایتی پارٹیوں کی اصلاح پسند قیادتوں کی طرف غم وغصہ نظر آرہا ہے وہیں پر ان پارٹیوں کو اپنی بقا کے لئے مسلسل تطہیر کے عمل سے گزرنا پڑ رہا ہے۔ سرمایہ داری جس عہد میں داخل ہو چکی ہے وہاں پرنہ صرف نئی اصلاحات کی گنجائش ختم ہو چکی ہے بلکہ پہلے سے موجود حاصلات کو بھی تیزی سے چھیننا جا رہا ہے۔ اس بحران کی وجہ سے بورژوا سیاسی افکار، نظریات، رجحانات بھی تیزی سے زوال پزیر ہوتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ ماضی میں جب سرمایہ دارانہ نظام میں اصلاحات کی گنجائش موجود تھی تب اصلاح پسندی کے نظریات مقبول عام تھے۔ لیکن اب ’’اصلاحات‘‘ کے نام پر درحقیقت مزید کٹوتیاں لگائی جا رہی ہیں اور اس سلسلے میں دائیں بازو اور اصلاح پسند بائیں بازو میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔
بحران کے ایسے ادوار میں عوام، بالخصوص محنت کش طبقہ ہرپارٹی، ہر فرد اور ہر مروجہ قانون کو زندگی کی تجربہ گاہ میں تلخ تجربات کی روشنی میں پرکھتا ہے۔ پرانے لیڈروں، نامور شخصیات اورپارٹیوں کو سخت معیارات پر پرکھا جاتا ہے اور منسوخ کیا جاتا ہے۔ اس عمل کے دوران وہ ماضی کے لیڈر جو عشروں سے حکمرانی کرتے چلے آرہے ہوتے ہیں، سخت آزمائش کے مراحل سے گزر کر تاریخ کے کوڑے دان میں جا گرتے ہیں۔ پنڈولم کا رخ تیزی سے بائیں بازو کے ریڈیکل نظریات کی طرف ہوتا ہے اور اس مرحلے میں نئے رجحانات جنم لیتے ہیں اور پرانے دم توڑتے ہیں۔ روایتی پارٹیاں بھی ایسے غیر معمولی ادوار میں جنم لیتی ہیں اور دم توڑتی ہیں۔ یہی سب اس وقت پوری دنیا میں ہو رہا ہے جہاں پر ایک طرف یا تو پرانے اصلاح پسند رہنما یا روایتی پارٹیاں زوال پزیری اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں یا پھر ان کے اندر سے نئے ریڈیکل رجحان ابھر رہے ہیں۔ یورپ میں کٹوتیوں کے خلاف جاری تحریک کا پہلا سیاسی اظہار فرانس کی کمیونسٹ پارٹی کے راہنما میلاشون کی صورت میں ہوا جہاں برسوں سے خالی کمیونسٹ پارٹی کی طرف ایک بار پھر عوام نے رُخ کیا۔ میلاشون کے 6th ریپبلک کے نعرے کو عوام میں پزیرائی ملی۔ لیکن سوشلسٹ پارٹی اور کمیونسٹ پارٹی کے پروگرام، لائحہ عمل میں واضح فرق نہ ہونے کی وجہ سے سوشلسٹ پارٹی کے صدر ہالندے کو کامیابی حاصل ہوئی۔ لیکن بعض صورتوں میں سرکوزی حکومت سے بھی بد تر پالیسیاں اپنانے کے باعث اب ہالندے 1958ء کے بعد کا سب سے غیر مقبول ترین صدر بن چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حال ہی میں فرانس میں بدنام زمانہ لیبر قوانین کے رد عمل میں عوام سوشلسٹ پارٹی حکومت کے خلاف سٹرکوں پر ہیں اور سوشلسٹ پارٹی کی اپنی صفوں میں بھی بغاوت موجود ہے۔
سپین میں تھوڑے عرصہ میں ہی روایتی سوشلسٹ پارٹی PSOE اپنے دائیں بازو کے پروگرام کی وجہ سے تیزی سے انہدام کی طرف بڑھی اور عوام نے پاپولر پارٹی کو فتح یاب کیا۔ اسی اثنا میں یونائیٹڈ فرنٹ کا وقتی ابھار نظر آیا جس کے بعد ا ب پوڈیموس منظر عام پر ہے۔ پوڈیموس کے کنفیوز اور غیر واضح پروگرام کے باوجود کٹوتیاں مخالف لفاظی کی وجہ سے اس کو وقتی ابھار ملا ہے۔ یونان میں عشروں تک عوام کی سیاسی روایت رہنے والی پارٹی PASOK اپنی دائیں بازو کی پالیسیوں کی وجہ سے شدید زوال پزیری کا شکار نظر آتی ہے، PASOK سے پہلے کمیونسٹ پارٹی ایک روایتی پارٹی تھی لیکن اب SYRIZA کا ابھار ہوا ہے جس کی بائیں بازو کی ریڈیکل لفاظی سے سپراس انتخابات میں کامیاب ہوا۔ لیکن اب یہ PASOK سے بھی زیادہ ذلت آمیز پروگرام پر عمل درآمد کر رہی ہے لیکن تازہ اعدادو شما ر کے مطابق یہ ابھی تک یونان کی مقبول ترین پارٹی ہے۔ اگر سائریزا اور پوڈیموس جیسی پارٹیاں اپنے نعروں پر عمل درآمد میں یکسر ناکام رہتی ہیں تو ان کی زوال پزیری بہت جلد ہو سکتی ہے کیونکہ ماضی کی روایتی پارٹیوں کے برعکس ان کے پاس اصلاحات کر کے محنت کش طبقے میں گہری بنیادیں حاصل کرنے کی گنجائش ہی نہیں ہے۔
اسی طرح کی کیفیت کا اظہار سمندر پار امریکہ میں بھی ہو رہا ہے جہا ں پر جاری بحران اور گرتے ہوئے معیار زندگی نے بورژوا پارٹیوں کے رہنماؤں کو بھی بائیں بازو کی لفاظی پر مجبور کیا ہے۔ 2008ء میں اوباما کے ’’تبدیلی‘‘ کے نعرے سے لے کر برنی سینڈرز کے ’’سوشلزم‘‘ تک سے ظاہر ہوتا ہے کہ عوام مروجہ معاشی اور سیاسی اصولوں سے سخت خائف ہے۔ اس وقت برنی سینڈرز اس عوامی شعور کی عکاسی کر رہا ہے جو کہ بائیں بازو کی طرف شفٹ ہو رہا ہے۔ برنی سینڈرز یقیناًایک اصلاح پسند ہے لیکن امریکہ جیسے معاشرے میں ’’سوشلزم‘‘ کی مقبولیت واضح کرتی ہے کہ عالمی سطح پر ایک نئے عہد کا دور دورہ ہے۔
محنت کش اپنا سیاسی نقطہ نظر اپنی روزمرہ کی زندگی کے تجربات سے اخذ کرتے ہیں۔ بحران کے حالات میں سب سے پہلے ان کی کوشش ہوتی ہے کہ انفرادی جدوجہد سے مصائب پر قابو پایا جائے لیکن حالات ناگزیر طور پر انہیں سیاسی میدان میں اجتماعی جدوجہد کی طرف دھکیل دیتے ہیں۔ محنت کش طبقہ اپنی امنگوں کا سیاسی اظہار کن صورتوں اور طریقہ ہائے کار سے کر سکتا ہے یہ اہم سوال ہے جس کا دارومدار ٹھوس مادی حقائق پر ہوتا ہے۔ عام طور پر محنت کش طبقہ ایسے حالات میں اپنی روایتی پارٹیوں اور قیادتوں کی جانب دیکھتا ہے اور مواقع میسر آنے پر انہیں ریڈیکل بنیادوں پر ڈھالنے کی کوشش کرتا ہے۔ برطانیہ میں ایسا ہمیں لیبر پارٹی کے معاملے میں نظر آتا ہے۔ جیرمی کاربن کے ابھار کو کچھ افراد ’’حادثہ‘‘ قرار دیتے ہیں لیکن کوئی بھی حادثہ لمبے عرصے سے چلی آ رہی ضرورت کا اظہار ہوتا ہے۔
عام حالات میں محنت کش طبقہ اپنے امور اپنے رہنماؤں کے حوالے کر دیتا ہے لیکن غیر معمولی حالات میں اسے ان امور میں براہ راست شرکت پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ ٹراٹسکی کے مطابق اپنے مقدر بدلنے کے لئے سیاست میں عوام کی براہ راست مداخلت انقلاب کا آغاز ہوتی ہے۔ ان حالات میں روایتی پارٹیوں کی قیادت کو پرکھا جاتا ہے، اگر وہ ان کے دکھ کا مداوا نہ کر سکے تو اس کو اکھاڑ کر پھینک دیا جاتا ہے اور نئی قیادتیں سامنے آتی ہیں، بصورت دیگر روایات مسترد ہو جاتی ہیں اور متبادل میسر آنے پر نئی پارٹیوں کا ابھار ہوتا ہے۔ لیکن یہ سب روز روز نہیں بلکہ مخصوص غیر معمولی حالات میں ہی ہوتا ہے۔ بائیں بازو کے کئی الٹرالیفٹ اور فرقہ پرور گروہوں کی طرف سے محنت کشوں کی روایتی پارٹیوں اور تنظیموں کے مقابلے میں ’سچی انقلابی‘ پارٹیا ں بنانے کی کوشش ایک معمول ہے جس کا انجام عام طور پر نتائج نہ ملنے پر انقلاب سے بدظنی یا پھر مفاد پرستی کی صورت میں ہی ہوتا ہے۔ مفاد پرستی اور الٹرالیفٹ ازم ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں، پیٹی بورژوا عدم برداشت اور فوری نتائج حاصل کرنے کی سوچ سے ہی یہ برآمد ہوتے ہیں۔
برطانیہ کی جو شکل عالمی میڈیا پر دکھائی جا رہی تھی ان انتخابات نے اس کو بھی یکسر مسترد کر دیا ہے۔ برطانوی معاشرے کو ایک رجعتی معاشرے کے طور پر ظاہر کیا جاتا ہے جہاں ایک طرف بادشاہت موجود ہے تو دوسری طرف سماجی طور پرتقسیم در تقسیم ہے۔ لیکن لیبر پارٹی میں جیرمی کاربن کا ابھار، ریڈیکلائزیشن اور برطانوی محنت کشوں کا ایک بار پھر اس کی طرف رجحان ثابت کرتا ہے کہ وہ ہر تعصب اور رجعت کو یکسر مسترد کرتے ہیں اور سوشلسٹ بنیادوں پر سماج کی تبدیلی کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔
جیرمی کاربن کے قیادت میں آنے کے بعد ابھی بھی لیبر پارٹی کی افسر شاہی دائیں بازو کے مفاد پرست عناصر پر مبنی ہے۔ پارٹی کے دائیں بازو نے جیرمی کاربن اور اس کے ساتھیوں کو پہلے دن سے ہی تسلیم نہیں کیا اور وہ مسلسل اس کے خلاف سازشوں میں مگن ہیں۔ دوسری طرف جیرمی کاربن کی طرف سے دیا جانے والا پروگرام بھی زیادہ سے زیادہ بائیں بازو کی ریڈیکل اصلاح پسندی پر مبنی ہے۔ اس کی جانب سے کٹوتی مخالف نعرے بازی اور بڑے اداروں کی نیشنلائزیشن کے پروگرام کو عوام میں پزیرائی ملی ہے لیکن اس عمل نے دائیں بازو کو مزید وحشی ہونے پر مجبور بھی کیا ہے۔ ایسی کیفیت میں لیبر پارٹی کے اندر بائیں اور دائیں بازو کے درمیان تصادم میں مزید اضافہ ہو گا۔ اس سارے عمل میں مارکسسٹوں کے لئے پارٹی کے اندر اہم مواقع کھلے ہیں جنہیں بروئے کار لا کرانقلابی مارکسزم کی قوتوں میں تیز اضافہ کیا جا سکتا ہے۔

متعلقہ:

کیا صادق خان لندن کو تبدیل کرسکتا ہے؟

برطانوی سیاست میں سوشلزم کی اٹھان!

برطانیہ: لیبر پارٹی کے انتخابات، طبقاتی لڑائی کا نیا محاذ!