[تحریر: لال خان]
حزب اللہ کے رہنما حسن نصراللہ نے اپنے ایک حالیہ بیان میں انکشاف کیا ہے کہ ’’اسلامک اسٹیٹ‘‘ (سابقہ ISIL) کے زیر قبضہ شامی اور عراقی علاقوں کا رقبہ اردن سے زیادہ وسیع ہو چکا ہے۔ مذہبی جنونیوں کے اس گروہ سے صرف شام اور عراق کو ہی نہیں بلکہ سعودی عرب، کویت اور دوسری خلیجی ریاستوں کو بھی شدید خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔ لبنان کے سب سے بڑے روزنامہ الاخبار میں جمعہ 15اگست کو شائع ہونیوالے انٹرویو میں حسن نصراللہ نے کہا ہے کہ ’’جہاں بھی اس نظرئیے کے پیروکار موجود ہیں وہاں ’اسلامی ریاست‘ کے پھیلنے کے امکانات بڑھ رہے ہیں۔ ان علاقوں میں اردن، سعودی عرب، کویت اور خلیجی ریاستیں شامل ہیں۔ ۔۔اسلامی ریاست کو میسر جنگجوؤں کی تعداد اور صلاحتیں بڑی زیادہ اور وسیع ہیں۔ ہر کوئی پریشان ہے اور ہر کسی کو پریشان ہونا بھی چاہئے۔‘‘
حسن نصراللہ کا انتباہ بے بنیاد ہے نہ ہی اسے نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔ عراق میں اسلامک اسٹیٹ کے ابھار کے بعد پیدا ہونے والے بحران نے نورالمالکی کی حکومت کا خاتمہ کر دیا ہے اور اس کے استعفیٰ کے بعد حیدر العابدی کو نئے وزیر اعظم کے طور پر نامزد کیا گیا ہے۔ نورالمالکی کی طرح عابدی بھی امریکہ اور ایران کے باہمی اتفاق اور اشتراک سے برسر اقتدار اآئے گا۔
عراق میں صورتحال نے اس وقت زیادہ کشیدگی اختیار کر لی جب اسلامی ریاست کے جنگجوؤں نے کرد ملیشیا ’’پیش مرگہ‘‘ کا دفاعی حصار توڑ کر 3 اگست کو سنجار اور زومار کے شہروں پر قبضہ کر لیا۔ جون میں اسلامی ریاست کے موصل پر قبضے کے وقت امریکی کی تیار کردہ ’’عراقی قومی فوج‘‘ جدید اسلحہ اور بھاری ہتھیار چھوڑ کر بھاگ گئی تھی۔ اب عراقی فوج سے کہیں زیادہ منظم اور مضبوط کرد ملیشیا کی پسپائی کے بعد حالات مزید سنگین ہو گئے ہیں۔ اکانومسٹ کے مطابق ’’اس پیش قدمی نے بغداد میں ہلچل مچا دی ہے۔ جنونی جتھے دارالحکومت سے صرف 18 میل دور رہ گئے ہیں۔‘‘
خود کو خلیفہ اور ’’امیر المومنین‘‘ قرار دینے والے ابو بکر ابغدادی کی قیادت میں اسلامی ریاست نے قتل و غارت گری کا بازار گرم کر رکھ ہے۔ ظلم اور بربریت کی شاید ہی کوئی حد ہو جسے ان مذہبی جنونیوں نے عبور نہ کیا ہو۔ ان درندوں کا تازہ شکار یزیدی فرقے کے بے گناہ عوام ہیں۔ مردوں کا قتل عام کیا جارہا ہے اور خواتین کو اغوا کر کے لونڈیاں بنایا جارہا ہے۔سینکڑوں بچوں کو زندہ دفن کرنے کے کئی واقعات بھی منظر عام پر آئے ہیں۔ عراق کے وزیر خارجہ حوشیار زیباری نے 15 اگست کو بیان میں بتایا کہ ’’یہ لوگ بڑی گاڑیوں میں آئے اور دوپہر سے ہی قتل عام شروع کر دیا۔ یہ زبردستی لوگوں کا مذہب تبدیل کرواتے ہیں اور انکار کرنے والوں کو قتل کر دیتے ہیں۔‘‘
اس جنونی گروہ نے اپنا نام ISIL (عراق اور لیوانت کی اسلامی ریاست) سے تبدیل کر کے صرف IS (اسلامی ریاست) اسی بنیاد پر رکھا ہے کہ وہ دوبارہ پورے خطے اور دنیا بھر میں ’’خلافت‘‘ نافذ کر نا چاہتے ہیں۔ ان جہادیوں نے موصل پر قبضے کے وقت بھی عیسائی آبادی کو مذہب تبدیل کرنے یا قتل ہونے کی ’’آپشن‘‘ دی تھی۔ لیکن یزیدی مذہب (جو کہ قدیم زورستانی مذہب کا ایک اقلتی فرقہ ہے) کے پیروکاروں کے خلاف ان کی درندگی کہیں زیادہ وحشت ناک ہے۔
مذہب کے نام پر بے گناہوں کے خون سے ہولی کھیلنے اور خواتیں کی عزت و آبرو لوٹنے والے یہ لوگ کون ہیں؟ یہ آسمان سے تو نازل نہیں ہوئے۔ اسلامک اسٹیٹ شام میں بشارالاسد کے خلاف جاری امریکہ اور خلجی ریاستوں کی ’’مقدس جنگ‘‘ سے ہی برآمد ہوئی ہے۔ 2011ء میں شام کی انقلابی تحریک کے رد انقلاب میں بدل جانے کے بعد امریکہ، ترکی، اسرائیل، قطر اور سعودی عرب وغیرہ نے بنیاد پرست گروہوں کو اسلحہ، ٹریننگ اور مالی امداد دینے کا جو عمل شروع کیا تھا وہ اب اپنے ’’منطقی‘‘ انجام کو پہنچ رہا ہے۔ یہ افغان ڈالر جہاد کا ہی ری پلے ہے جو زیادہ تیزی سے چل رہا ہے۔ شام میں مغرب کی حمایت یافتہ ’’آزاد شامی فوج‘‘ (FSA) ٹوٹ کر بکھر رہی ہے۔ اس وقت شام میں مذہبی جنونیوں کے تین بڑے گروہ، اسلامک اسٹیٹ، النصرہ فرنٹ اور اسلامک فرنٹ، ایک دوسرے سے برسرپیکار ہیں۔
اسلامک اسٹیٹ اور النصرہ دراصل القاعدہ سے الگ ہونے والے دھڑے ہیں جنہوں نے شام اور عراق کے مختلف علاقوں میں اپنی اپنی خلافت قائم کی ہوئی ہیں اور ان خلافتوں کے پیروکار ایک دوسرے کو زبح کرنے میں مصروف ہیں۔ ان گروہوں میں دنیا کے دوسرے کئی ممالک کے علاوہ برطانیہ اور یورپ سے تعلق رکھنے والے نوجوان بھی شامل ہیں۔ سامراج کی داخلی کمزوری نے اس ہمہ جہت تنازعے کو مزید پیچیدکر دیا ہے۔عراق میں اسلامک اسٹیٹ کی سماجی بنیادیں امریکہ اور ایران کے کٹھ پتلی وزیر اعظم نورالمالکی کی فرقہ وارانہ پالیسیوں نے فراہم کی ہیں۔ مالکی کے دور حکومت میں ریاست نے عوام کو تقسیم کرنے کے لئے دانستہ طور پر فرقہ واریت کو فروغ دیا اور سنی آبادی کو زیر عتاب رکھا گیا۔ اب سنی فرقے کے ان انتہا پسندوں نے جوابی وحشت کی انتہا کر دی ہے۔ تب بھی غریب عوام مر رہے تھے، اب بھی عام لوگ ہی مذہبی جنونیوں کے نشانے پر ہیں۔
یوں محسوس ہورہا ہے کہ اس تاریک صورتحال میں بہتری کے امکانات کم از کم مستقبل قریب میں ناپید ہیں۔ ڈیڑھ لاکھ مزید پناہ گزین، جن میں اکثریت یزیدیوں کی ہے، 50 ڈگری کی گرمی میں بے سروسامان ہیں۔ پانی اور خوراک کی قلت سے ہر روز بچوں کی ہلاکتیں ہورہی ہیں۔ بڑی تعداد میں لوگ عراق کے متاثرہ علاقوں سے جان بچا کر شام جارہے ہیں۔
2003ء میں عراق پر امریکی حملے سے پیشتر فرقہ وارانہ اور لسانی منافرتیں اتنی شدید نہ تھیں۔ شیعہ، سنی، یزیدی اور کرد نہ صرف پر امن طریقے سے اکٹھے رہتے تھے بلکہ آپس میں شادیاں بھی ہوا کرتی تھیں۔ امریکہ نے جس ’’القاعدہ‘‘کو اپنے حملے کا جواز بنایا تھا اس کا نام و نشان بھی عراق میں نہیں تھا۔ سامراجی جارحیت کے بعد القاعدہ سے دو ہاتھ آگے کی مخلوق پیدا ہوچکی ہے۔عراق میں امریکی سامراج نے اپنے تسلط کو مضبوط کرنے کے لئے ’’تقسیم کر کے حکمرانی‘‘ کا فارمولا اپنایا۔ اسی طرح شام میں بشارالاسد کے خلاف پراکسی جنگ میں ایک بار پھر سامراجیوں نے اسلامی بنیاد پرستی کو پروان چڑھایا اور استعمال کیا۔ عراق اور شام کو تاراج کرنے والوں میں اب ’’انسانی ہمدردی‘‘ جاگ اٹھی ہے۔یہ ’’انسانی ہمدردی‘‘ تب کہیں سو رہی تھی جب نیٹو کا بارود لاکھوں عراقی شہریوں کو زندہ جلا رہا تھا ۔منافقت کی کوئی انتہا نہیں ہوتی۔ مغربی سامراج کے نمائندے اب یزیدیوں کے قتل عام پر مگر مچھ کے آنسو بہا رہے ہیں۔عین ممکن ہے کہ یہی آنسو عراق میں دوبارہ مداخلت کا جواز بن جائیں۔
اسلامی ریاست امریکی حواریوں کی بلاواسطہ امداد سے ہی مضبوط ہوکر آج اس مقام پر پہنچی ہے۔ پچھلے سال مارچ میں نیویارک ٹائمز میں وہ منصوبے بے نقاب کئے گئے تھے جن کے تحت سی آئی اے ترکی اور قطر وغیرہ کے ذریعے ان جنونیوں کو فوجی امداد فراہم کر رہی تھی۔شامی حزب مخالف کے ایک لیڈر نے نیویارک ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’جو کوئی بھی ان مذہبی جنونیوں کو اسلحہ فراہم کررہا ہے وہ غلط کر رہا ہے۔‘‘ اسلامک اسٹیٹ نے اسی اسلحے سے عراق پر دھاوا بولا اور پھر عراقی فوج کا چھوڑا ہوا اسلحہ بھی ان کے ہاتھ آتا گیا۔زیر قبضہ علاقوں میں تیل کے زخائر اور ریفائنریوں کی آمدن سے اس گروہ کی مالی پوزیشن بھی مستحکم ہوتی گئی۔ اسلامک اسٹیٹ اس وقت دنیا کا امیر ترین دہشت گرد گروہ بن چکا ہے جس کے اثاثے دو ارب ڈالر سے تجاوز کر چکے ہیں۔ حالات اب اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ امریکی بمباری یا براہ راست حملے سے مزید گھمبیر ہی ہوں گے۔لوئی انٹوائن نے کہا تھا کہ ’’یہ جرم سے بھی زیادہ بھیانک ہے۔ یہ حماقت (Blunder) ہے۔‘‘ اگر امریکی یا یورپی سامراج اس وقت براہ راست مداخلت کرتا ہے تو یہ ایک ایسی ہی حماقت ہوگی۔
یہ سامراجی اپنے مالیاتی یا اسٹریٹجک مفادات کیلئے کئے گئے قتل عام کو متوازی نقصان (Collateral Damage) قرار دیتے ہیں۔غزہ پر حالیہ اسرائیلی جارحیت اور فلسطینی عوام کے قتل عام کی مکمل پشت پناہی اور حمایت نے سامراج کی منافقت اور مکروہ چہرے کو ایک بار پھر بے نقاب کیا ہے۔عراق کی موجودہ صورتحال میں سامراج کی ’’مدد‘‘ اسی منافقت کا ایک پہلو ہے۔ مشرق وسطیٰ اور خطہ عرب کے عوام کو مذہب، فرقے، نسل اور قوم کے تعصبات کو رد کرتے ہوئے طبقاتی بنیادوں پر متحد ہو کر سامراج اور اس کی گماشتہ ریاستوں کے خلاف انقلابی جنگ لڑنا ہوگی۔ اسلامک اسٹیٹ کی درندگی اور سامراج کی وحشت ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ ایسی لعنتیں سرمایہ دارانہ نظام کے خمیر سے برآمد ہوتی رہیں گی۔اس نظام کا خاتمہ ہی انسانیت کی بقا کا واحد راستہ ہے۔
متعلقہ:
عراقی المیہ
بکھرتا ہوا عراق!
عراق: کالی آندھی کا اندھیر!
بنیادی پرستی کا چھلاوا
لبرل ازم اور قدامت پرستی