| رپورٹ: PYA کوئٹہ |
19 اور 20 ستمبر کو کوئٹہ کے خورشید لیبر ہال میں دو روزہ مارکسی سکول کا انعقاد کیا گیا۔ سکول میں کثیر تعداد میں نوجوانوں اور طلبہ نے شرکت کی۔ دو روزہ سکول میں مجموعی طور پر چار سیشن ہوئے۔پہلے دن کا پہلا سیشن عالمی تناظر پر تھا جس پر لیڈ آف سرتاج حیدر کی تھی اور چےئر عرفان کاسی نے کیا۔ سیشن سے پہلے کامریڈ کریم نے حبیب جالب کی انقلابی نظم سے ماحول کو گرما دیا۔ اس کے بعد کامریڈ سرتاج نے عالمی تناظر پر بات کرتے ہوئے تفصیل سے عالمی معاشی، سیاسی اور سماجی صورت حال پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت سرمایہ داری کا بحران زائد پیداوار کا بحران ہے۔ 2008ء کے بحران کے بعد اب تک کسی طرح کی معاشی بحالی دیکھنے میں نہیں آرہی ۔ سرمایہ دار اپنی ساری امیدیں چین سے وابستہ کر رہے تھے لیکن چین خود شدید معاشی گراوٹ کا شکار ہے۔ چین کی اپنی شرح نمو مسلسل کم ہو رہی ہے جس کی وجہ سے اس سے وابستہ معیشتیں بھی زوال کا شکار ہیں۔ یورپ میں معاشی زوال کی وجہ سے چین کی برآمدات بھی کم ہورہی ہیں اور کارخانے بند ہوتے جا رہے ہیں۔ اس صورت حال میں لوگ انقلابی نتائج اخذ کر رہے ہیں اور بائیں بازو کے نظریات کی طرف دوبارہ لوٹ رہے ہیں۔ برطانیہ میں جیرمی کوربن اور سپین میں پوڈیموس اسی عمل کی غمازی کر تے ہیں۔ اس کے بعد سوالات اور کنٹریبیوشنز کا سلسلہ شروع ہوا۔ کامریڈ کریم نے بریکس ممالک کی معیشتوں کی صورت حال پر روشنی ڈالی ۔ انہوں نے کہا کہ عالمی سرمایہ داری کے ماہرین بریکس ممالک سے اپنی امیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔ لیکن ان ممالک کی اپنی معیشتیں زوال کا شکار ہیں وہ بھلا کیسے پوری عالمی معیشت کو سہارا دے سکتے ہیں۔ اس کے بعد مہراللہ نے لاطینی امریکہ میں طلبہ تحریک پر روشنی ڈالی اور چلی میں نیو لبرل تعلیمی اصلاحات کے خلاف طلبہ تحریک پر تفصیل سے بات کی جس نے چلی کی حکومت کو طلبہ کے مطالبات کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا۔ اس کے بعد کامریڈ مہدی نے مشرق وسطیٰ کی صورت حال پر بات کرتے ہوئے کہا کہ مشرق وسطیٰ میں سامراجی مداخلت کی وجہ سے آج یہ خطہ برباد ہورہا ہے۔ داعش کا ابھار براہ راست عراق میں سامراجی مداخلت کا نتیجہ ہے۔ اسی اثنا میں ایران ایک نئی طاقت کے طور پر ابھر رہا ہے جس سے خطے میں مزید خلفشار اور پراکسی جنگیں بڑھ رہی ہے۔ اس کے بعد کامریڈ ولی خان نے بحث کو سمیٹتے ہوئے کہا کہ اس وقت عالمی سطح پر تمام ممالک میں ایک بحرانی کیفیت ہے۔ یہ معاشی زوال سرمایہ داری کے اندر ختم نہیں ہو سکتا ۔ اس کے خلاف محنت کش طبقہ ایک کے بعد دوسرے ملک میں باہر نکل رہا ہے۔ لیکن وہ تحریکیں اپنی منطقی انجام کو نہیں پہنچ رہیں کیونکہ کوئی واضح انقلابی مارکسی قیادت موجود نہیں۔ آج کے عہد کا بحران انقلابی قیادت کا بحران ہے۔ ہمیں اس انقلابی قیادت کو تراشنا ہوگا تاکہ مستقبل میں ابھرنے والی تحریک ضائع نہ ہو۔
دوسرا سیشن مارکسی فلسفے پر تھا جس پر بحث کا آغاز حسن جان نے کیا اور چےئر کامریڈ پرویز نے کیا۔ حسن جان نے مارکسی فلسفے پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ مارکسزم کی روح جد لیاتی مادیت ہے اور اس کو سمجھے بغیر ہم ایک واضح تناظر تخلیق نہیں کرسکتے اور نہ سماج، فطرت اور معیشت کا تجزیہ کر سکتے ہیں۔ انہوں نے تفصیل سے جدلیاتی مادیت، اس کے قوانین اور تاریخی مادیت پر بات کی۔ اس کے بعد کامریڈ سرتاج نے بحث کو مزید آگے لے جاتے ہوئے مادیت اور خیال پرستی پر بات کی۔
اگلے دن یعنی 20 ستمبر کو تیسرا سیشن پاکستان تناظر پر تھا جسے لیڈ آف کامریڈ چنگیز اور چےئر کامریڈ عروج نے کیا۔ کامریڈ چنگیز نے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا ہر شعبہ زوال پذیر ہے۔ معیشت مسلسل زوال پذیر ہے لیکن حکمران طبقہ مسلسل ترقی اور خوشحالی کے اعداد وشمار پیش کر رہا ہے ۔ انہوں نے معیشت کے مختلف شعبوں پر اعداد وشمار کے ذریعے تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے یہ واضح کیا کہ پاکستانی ریاست مسلسل ٹوٹ پھوٹ اور شکست و ریخت کا شکار ہے۔ اس کے بعد سرتاج، جیئند خان، کریم خان، پرویز اور علی رضانے بحث کو آگے بڑھایا اور کامریڈ بلاول نے سیشن کو سم اپ کرتے ہوئے سوالات کے جوابات دیئے ۔
آخری سیشن انقلابات میں نوجوانوں کے کردار پر تھاجسے لیڈ آف کامریڈ عمران اور چےئر کامریڈ عبداللہ نے کیا۔ کامریڈ عمران نے انقلابی تنظیم میں نوجوانوں کے کردار، ان کی ذمہ داریوں اور سماج میں انقلابی نظریات کو پھیلانے میں ان کے فرائض پر بات کی۔ انہوں نے کہا کہ نوجوان اور طلبہ تحریکوں کا آغاز کرتے ہیں لیکن حتمی کامیابی صرف محنت کش طبقے کی شمولیت سے ہی ممکن ہے۔ اس کے بعد کامریڈ ولی، کامریڈ ضامن، سرتاج نے بحث کو آگے بڑھایا۔اس کے بعد کامریڈ علی نے سیشن کو سم اپ کیا۔ آخر میں تمام شرکا نے ایک ساتھ مزدوروں کا عالمی گیت گایا اور اس طرح دو روزہ مارکسی سکول اپنے اختتام کو پہنچا۔