[رپورٹ : نوید شاہین]
3،4نومبرکو پلندری (کشمیر) کے مقام پر دو روزہ مارکسی سکول کا انعقاد کیا گیاجس میں 40 سے زائد کامریڈز نے شرکت کی۔سکول مجموعی طور پر تین سیشنز پر مشتمل تھا۔ پہلے سیشن کا ایجنڈا ’’جرمنی انقلاب سے رد انقلاب تک‘‘ تھا۔ جس پر کامریڈ سعد ناصر نے لیڈ آف دی جبکہ کامریڈ وحید عارف نے پہلے سیشن کو چےئر کیا۔ جرمنی کے انقلاب اور رد انقلاب کا احاطہ کرتے ہوئے کامریڈ سعد جمال نے کہا کہ جرمنی ابتدائی مارکسزم کا گہوارہ رہا ہے۔ مارکس اور اینگلز نے اپنا بہت سا وقت جرمنی کی مزدور تحریک کی رہنمائی اور اس کی ترقی پر صرف کیا۔جرمنی کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی(SPD) اپنے وقت کی مضبوط اور طاقت ور پارٹی تھی۔1912ء تک اس پارٹی کے دس لاکھ سے زیادہ ممبر اور پندرہ ہزار ہمہ وقت کام کرنے والے کارکن تھے۔لیکن پہلی جنگ عظیم کے وقت پارٹی قیادت نے اس سامراجی جنگ کی حمایت کرنے کی سنگین غلطی کر ڈالی۔ جس نے نہ صرف SPD بلکہ جرمنی کی مزدور تحریک کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ قیادت کی یہ غلطی اتنی غیر متوقع تھی کہ لینن کو بھی پہلے پہل اس کا یقین نہ آیا۔ اس سامراجی جنگ نے دنیا کے دیگر خطوں میں بھی مزدور تحریکوں کو شدید نقصان پہچانے کے ساتھ ساتھ کروڑوں لوگوں کو انتہائی سفاکی سے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ کامریڈ نے کہا کہ انقلاب روس تاریخ کا وہ عظیم واقعہ ہے جس نے پوری دنیا کے محنت کشوں کو ایک نئی امید اور راہ دکھانے کے ساتھ ساتھ جرمنی کی مزدور تحریک کو بھی مہمیز دی۔تاہم انقلاب روس کے بعد کے حالات ، روس پر سامراجیوں کا حملہ اور جرمنی میں کمیونسٹ قیادت کی غلطیوں اور دیگروجوہات کی بنا پر انقلاب جرمنی بالآخر 1923ء میں ایک فیصلہ کن رد انقلاب میں تبدیل ہو گیا۔ لیکن جرمنی کا انقلاب اور رد انقلاب اپنے اندر بے شمار اسباق رسمیٹے ہوئے ہے جو آنے والی انقلابی تحریکوں کے لیے مشعل راہ ہیں۔
لیڈ آف کے بعد انقلاب جرمنی کے تناظر میں سوالات کیے گئے۔ سوالات کے بعد کامریڈ نوید شاہین اور دیگر نے بھی بحث میں حصہ لیتے ہوئے جرمنی کے انقلاب اور رد انقلاب کے مختلف گوشوں پر روشنی ڈالی۔اس سیشن کو سم اپ کرتے ہوئے کامریڈ یاسر ارشاد نے کہا کہ انقلابات تاریخ انسانی کے غیر معمولی واقعات ہوتے ہیں۔ان انقلابات کو زیر بحث لانے کا مقصد ان انقلابات کی حاصلات اور قیادتوں سے سرزد ہونے والی غلطیوں کا تجزیہ کرنا ہے تاکہ مستقبل میں ہونے والے کسی بھی انقلاب اور مزدور تحریکوں کی درست طور پر رہنمائی کی جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ انقلاب جرمنی کے وقت جرمنی کا محنت کش طبقہ انتہائی باشعور تھا۔ محنت کس طبقے کے اس بلند شعور نے اس وقت کے مارکسی استادوں کو یہ کہنے پر مجبور کر دیا تھا کہ جرمنی میں سوشلسٹ انقلاب کے امکانات باقی علاقوں کی نسبت زیادہ روشن ہیں۔ یہاں تک کہ لینن نے انقلاب روس کے بعد کہا تھا کہ انقلاب جرمنی کے بغیر انقلاب روس ادھورا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج یورپ ایک بار بھر عالمی تحریکوں کی زد میں ہے۔اور آج نہ صرف جرمنی بلکہ یورپ کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کے محنت کش طبقے نے حا لات و واقعات سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے آج یورپ یا دنیا کے کسی بھی ملک میں بالشویک پارٹی کی تعمیر ناگزیر ہے تاکہ ماضی کے انقلابات سے سبق لیتے ہوئے انقلاب کو اس کی حتمی منزل سے ہمکنار کیا جائے۔
سکول کے دوسرے سیشن کا ایجنڈا ’’مارکسی معیشت‘‘ تھا۔ اس ایجنڈے پر کامریڈ راشد شیخ نے لیڈ آف دی جبکہ کامریڈ مدثر نے اس سیشن کو چےئر کیا۔لیڈ آف میں کامریڈ راشد شیخ نے کہا کہ مارکسی معیشت، مارکسزم کے تین بنیادی ستونو ں میں سے ایک ہے۔کارل مارکس نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’داس کپیٹل‘‘ میں اس کے بنیادی قوانین کوتفصیل سے لکھا ہے۔ کارل مارکس نے اپنی تحقیق کا نقطہ آغاز جنس کو بنایا ہے۔ مارکس کے مطابق انسانی محنت کے نتیجے میں پیدا ہونے والی کوئی بھی چیز جب تبادلے کے عمل سے گزرتی ہے تو وہ جنس بن جاتی ہے۔جنس کو بنیاد بناتے ہوئے مارکس نے سرمایہ دارانہ نظام کے اس اہم جزو سے ایسے سماجی تعلقات کے قوانین دریافت کیے جو مبادلے کی بناپر معروضی طور پر وجود میں آئے۔اور یہ تعلقات انسان کی مرضی کے تابع نہیں ہوتے۔اس نظام زر میں محنت کش اپنی قوت محنت فروخت کرتا ہے۔ لیکن اس کے عوض اسے اپنی قوت محنت کا مکمل معاوضہ اد نہیں کیا جاتا بلکہ اسے صرف اتنا ہی دیا جاتا ہے کہ وہ اگلے روز تک زندہ رہ سکے ، دوسرے دن پھر کام پر آسکے اور مستقبل کی لیبر فورس اپنی اولاد کی صورت میں پیدا کر سکے۔ اس کے علاوہ اس کی قوت محنت سے جو کچھ پیدا ہوتا ہے اسے مارکس نے قدر زائد کا نام دیا ہے۔ اسی قدر زائد کے ایک اقلیتی طبقے کے قبضے میں ہونے کی وجہ سے طبقاتی تفریق پیدا ہوتی ہے۔ اور یہ طبقاتی تفریق پھر طبقاتی کشمکش کا باعث بنتی ہے۔ آخری تجزئیے میں محنت کش طبقے کے لیے طبقاتی جدو جہد اسی قدر زائد کا حصول ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ عالمی معاشی بحران پر ایک منصوبہ بند معیشت کے ذریعے ہی قا بو پایا جا سکتا ہے۔
لیڈ آف کے بعد حسب معمول سولات ہوئے اور سوالات کے بعد کامریڈ وحید عارف، کامریڈ یاسر ارشاد اور کامریڈ ذوالفقار نے بھی بحث میں حصہ لیتے ہوئے مارکسی معیشت کے دیگر امور پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ سوالات کی روشنی میں اس سیشن کا سم اپ کرتے ہوئے کامریڈ ایس این شوریدہ نے کہا کہ سرمایہ دارانہ معیشت کے قوانین پیچیدہ نوعیت کے ہے۔ جن میں اجرت، قیمت ، کرایہ، زمین نفع، سود اور سٹاک ایکسچینج وغیرہ شامل ہیں۔لیکن یہ تمام تر چیزیں صرف ایک قانون پر آ کر منتج ہوتی ہیں جسے محنت کی قدر کا قانون کہتے ہیں۔ اس قانون کو کارل مارکس نے دریافت کیا تھا۔ اور یہی وہ قانون ہے جو سرمایہ دارانہ معیشت کو باقاعدہ بنانے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ اس قانون کے مطابق سماج میں قوت محنت کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہوتا ہے۔ جب یہ وقت فطرت پر لگایا جاتا ہے تواس کے نتیجے میں مختلف اشیاء پیدا ہوتی ہیں۔ اور اشیا یا اجناس کا ایک مخصوص تناسب کے ساتھ تبادلہ ہوتا ہے۔ پہلے یہ عمل براہ راست تھا یعنی اجناس کے بدلے اجناس کا تبادلہ ہوتا تھا مگر پھر رفتہ رفتہ یہ سونے یا زر کے ذریعے ہونے لگا۔ یہ انسانی محنت ہی ہے جو مختلف اجناس میں مشترک ہوتی ہے اور انہیں ایک مخصوص تناسب کے ساتھ ایک دوسرے کے مساوی بنا دیتی ہے۔ اور یہی قوت محنت قدر زائد بھی پیدا کرتی ہے۔ کوئی اور ذریعہ اس دنیا میں موجود نہیں جو قدر زائد پیدا کر سکے۔ جو کوئی بھی اس قدر زائد کا مالک ہوتا ہے وہ حالات پر حکمرانی کرتا ہے۔ اور اس قدر زائد پر کنٹرول حاصل کر کہ ہی ایک مزدور ریاست اور سوشلسٹ سماج کی راہیں ہموار کی جا سکتی ہیں۔
دوسرے سیشن کے اختتام پر انقلابی پارٹی کی تعمیر پر غیر رسمی گفتگو ہوئی۔ اس کے بعد تمام کامریڈ نے ایک انڈین فلم ’’چکر ویو‘‘ دیکھی اور بھارت میں جاری ماؤاسٹ تحریک کے مختلف پہلوؤں پر گفتگو کی۔دوسرے دن سکول کا تیسرا اور آخری سیشن ہوا جس کا ایجنڈا ’’ پاکستان تناظر ‘‘ تھا۔ اس ایجنڈے پر لیڈ آف کامریڈ گلباز نے دی جبکہ کامریڈ ایس این شوریدہ نے اس سیشن کو چےئر کیا۔
کامریڈ گلباز نے پاکستا ن کے تناظر کا جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ عالمی معاشی بحران نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ دنیا بھر میں عموماً اور یورپ میں خصوصاً محنت کش طبقہ اس نظام کے خلاف میدان عمل میں ہے۔پاکستان جو پہلے ہی معاشی اعتبار سے ایک کمزور ریاست ہے عالمی بحران نے اسے مزید کمزور کر دیا ہے۔پاکستان کی تمام تر صنعت مکمل طور پر تباہ ہوچکی ہے۔ اس کے علاوہ زراعت، تعلیم ، صحت اور دیگر شعبے بھی دن بدن تنزلی کی طرف گامزن ہیں۔بے روزگاری ، مہنگائی اور افراط زر میں ہر گزرنے والے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستان کی 80فی صد آبادی غیر سائنسی علاج کرانے پر مجبور ہے۔ پینے کا صاف پانی نہ ملنے کے باعث بیماریوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ 38ہزار افراد ہر روز خط غربت سے نیچے جا رہے ہیں۔پاکستان کا بیرونی قرضہ 60ارب ڈالرسے تجاوز کر چکا ہے یوں پاکستان کا ہر فرد 62ہزار روپے کا مقروض ہے۔ جبکہ پاکستان کا اندرونی قرضہ بھی اپنی انتہاؤں کو چھو رہا ہے۔ اس پر دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ، بم دھماکے، ٹارگٹ کلنگ اور بد امنی عوام پر دو گنا عذاب مسلط کئے ہوئے ہیں۔ پاکستان کے کرپٹ حکمران نوٹ چھاپ کر یا عالمی مالیاتی اداروں سے مزید قرضے لے کر صورت حال کو قابو میں رکھنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں لیکن اس بحران سے نکلنا ان حکمرانوں کے بس کی بات نہیں۔ ان حالات میں جہاں پر ایک چھوٹا سا واقعہ کسی بڑی تحریک کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ ایسے میں ایک انقلابی قیادت ہی اس تحریک کو ایک انقلاب میں بدل کر نہ صرف یہا ں کے عوام کو بلکہ پورے جنوبی ایشیا کی تقدیر کو بدل سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ وقت کو غنیمت جانتے ہوئے ہمیں اپنی تنظیم کی مقداری اور معیاری قوتوں میں تیزی سے اضافے کی ضرورت ہے تاکہ تاریخ نے ہمارے کندھوں پر جو بھاری فریضہ عائد کیا ہے اس سے عہدہ برآ ہو کر نسل انسانی کو اس کی حقیقی منزل سے ہم کنار کیا جا سکے۔
لیڈ آف کے بعد سوالات ہوئے اور اس کے بعد کامریڈ سعد، کامریڈظہیر، کامریڈ دانیال نے بھی بحث میں حصہ لیا۔ سوالات کی روشنی میں کامریڈ یاسر ارشاد نے سیشن اور سکول کا سم اپ کیا۔ سکول کا اختتام انٹرنیشنل گا کر کیا گیا۔