ترکی: معاشی ترقی کا فریب

| تحریر: عمران کامیانہ |

ترکی پچھلے ایک ہفتے سے بڑے پیمانے کے عوامی مظاہروں کی زد میں ہے۔ یہ مظاہرے استنبول کے ایک تفریحی پارک پر شاپنگ مال بنانے کے منصوبے کے خلاف احتجاج کرنے والے افراد پر پولیس کے بد ترین تشدد کے بعد شروع ہوئے تھے۔ ریاست کے بڑھتے ہوئے جبر کے ساتھ تحریک میں بھی شدت آتی گئی اور مظاہرین کے مطالبات زیادہ ریڈیکل ہوتے گئے۔ طیب اردگان کی حکومت کا خاتمہ اب اس عوامی تحریک کا بنیادی مقصد اورمطالبہ بن گیا ہے۔ دنیا بھر میں بورژوا دانشوروں کو ترکی کے نوجوانوں اور محنت کشوں کی اس شاندار بغاوت نے حیران و پریشان کر کے رکھ دیا ہے۔ طیب اردگان کی معاشی پالیسیوں کے معذرت خواہان ترکی کی معاشی ترقی کے قصیدے پڑھتے نہیں تھکتے تھے۔ ترکی کو ایک ’رول ماڈل‘ قرار دیا جاتا تھالیکن اس شاندار انقلابی تحریک سے دنیا بھر میں اسلامی بنیاد پرستوں اور دائیں بازو کو دھچکا لگا ہے۔ اسلامی بنیاد پرست تذبذب کے عالم میں لاکھوں افراد کی ریاستی جبر کے خلاف جدوجہد کو ’حق و باطل‘  کا معرکہ اور ’غیر ملکی‘ سازش قرار دے رہے ہیں۔ پچھلی ایک دہائی سے ترقی کرتی ہوئی معیشت کے باوجود حکومت کے خلاف عوام کے شدید غم و غصے کا یہ اظہار میکانکی سوچ سے سماجی عوامل کی تشریح کرنے والوں کے لئے کسی معمے سے کم نہیں ہے۔
جدلیاتی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو انقلابات ہمیشہ بھوک یا غربت کی پیداوار نہیں ہوتے۔ ایک بڑھتی ہوئی معیشت میں سماجی تضادات زیادہ واضح ہو کر سامنے آتے ہیں اور انقلابی تحریکوں کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ ترکی کا معاملہ بھی بالکل ایسا ہی ہے۔ جن بنیادوں پر پچھلی ایک دہائی میں ترک معیشت کی بلند شرح نموحاصل کی گئی ہے ان کاجائزہ لئے بغیر ترکی میں جاری حکومت مخالف مظاہروں کی وجوہات کو نہیں سمجھا جا سکتا۔
پچھلی ایک دہائی میں ہونے والی ترکی کی تمام تر معاشی ترقی حکومتی سطح پر سٹہ بازی، بڑے پیمانے کی نجکاری، قرضوں اور اعداد و شمار کی ہیر پھیر کا نتیجہ تھی۔ 2012ء میں شرح نمو کی تیز گراوٹ کے بعد خود بورژوا ماہرین ترکی کی معیشت کو ’’رفتہ رفتہ سکڑتا ہوا غبارہ‘‘ قرار دے رہے ہیں۔ اس غبارے میں خاص طور پر 2008ء کے بعد سے قرضوں کے ذریعے بڑی تیزی سے ہوا بھری گئی تھی۔ 2008ء میں شروع ہونے والے عالمی مالیاتی بحران کے بعد 2009ء میں ترکی کی معیشت 4.8 فیصد سکڑ گئی تھی۔ لیکن 2010ء میں معیشت کی شرح نمو 9 فیصد جبکہ 2011ء میں 8.5 فیصد رہی۔ یہ چین کے بعد دوسری بلند ترین شرح نمو تھی۔ ایک برس قبل تیزی سے سکڑتی ہوئی معیشت کی اتنی بلند شرح نمو ایک سرمایہ دارانہ معیشت کے لئے غیر معمولی بات ہے جسے اردگان حکومت کی ’کامیاب‘ معاشی پالیسیوں اور ’گڈ گورننس‘کا نتیجہ قرار دیا گیا۔ طیب اردگان کی حکومت کے زیرِ اثر ترکی کی ’’معاشی ترقی‘‘ کے قصیدے پڑھنے والے سرمایہ دارانہ معیشت کی الف ب سے بھی واقف نہیں ہیں۔ نہ تو طیب اردگان کوئی سپر مین ہے اور نہ ہی اس کی حکومت کے پاس کوئی حتمی ’نسخہ کیمیا‘ ہے جس کے ذریعے سے ترکی کی نام نہاد معاشی شرح نمو حاصل کی گئی ہے، ایسی کوئی نسخہ سرے سے موجود ہی نہیں ہے، اگر ہوتا تو 2008ء کے معاشی بحران کے بعد یورپی معیشتیں تباہ حالی کا شکار نہ ہوتیں۔ درحقیقت 2008ء کے بعد ترکی کی شرح نمو بڑے پیمانے پر بیرونی قرضوں اور تجارتی خسارے کا نتیجہ ہے۔ 2008ء کے معاشی بحران کے بعد بیشتر یورپی معیشتوں کی تباہی اسی قسم کی معاشی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ ترکی کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 2010ء میں 46.8 ارب ڈالراور 2011ء میں 77.2 ارب ڈالر تھا۔ 2011ء میں ترکی کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ (10فیصد) امریکہ کے بعد دنیا میں سب سے زیادہ تھا۔ واضح رہے کہ طیب اردگان کے برسرِ اقتدار آنے سے پہلے 2000ء تک ترکی کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم و بیش صفر رہا ہے۔ 2006ء کے بعد سے مصنوعی شرح نمو برقرار رکھنے کے لئے ترکی کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 6 فیصد سے کم نہیں ہو پایا۔ 2008ء میں ترکی کا جی ڈی پی 742.1 ارب ڈالر جبکہ کل بیرونی قرضہ 241 ارب ڈالر تھا، اس قرضے میں سے 52.5 ارب ڈالر قلیل مدتی قرضہ تھا۔ نیچے دیا گیا چارٹ واضح کرتا ہے کہ کس طرح بیرونی قرضوں کے ذریعے ترکی کی معیشت کو عارضی طور پر چلایا جارہا ہے۔


2008ء سے 2012ء تک ترکی کے بیرونی قرضے میں 55.8 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے جبکہ اسی دوران جی ڈی پی میں اضافہ 44.3 ارب ڈالر ہے۔ یعنی اس عرصے کے دوران بیرونی قرضوں میں اضافہ، جی ڈی پی میں اضافے سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ اعداد و شمار ترکی کی شرح نمو کا راز فاش کرنے کے لئے کافی ہیں۔ جون 2013ء میں ترکی کا بیرونی قرضہ 340 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے جو کہ جی ڈی پی کا 42فیصد بنتا ہے۔ لیکن مصنوعی طور پر معیشت کی نمو کا یہ عمل تضادات سے بھرپور ہے اورلمبے عرصے تک جاری نہیں رہ سکتا۔ جلد یا بدیر چیزیں اپنے الٹ میں بدل جاتی ہیں۔ شرح نمو جو کہ 2011ء میں 8.5 فیصد تھی 2012ء میں 2.2 فیصد تک گر گئی ہے۔ معیشت کی زبان میں اسے ’کریش لینڈنگ‘ بھی کہتے ہیں۔ گرتی ہوئی شرح نمو اور بڑھتے ہوئے قرضے معاشی تباہی کی پہلی علامت ہوتے ہیں۔
ترکی کو آئی ایم ایف سے ’آزادی‘ دلوانے کے حوالے سے بھی طیب اردگان کو ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ لیکن اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کن بنیادوں پر آئی ایم ایف کا قرضہ واپس کیا گیا۔ طیب اردگان کی حکومت جب 2003ء میں برسراقتدار آئی تو تر کی کے ذمے آئی ایم ایف کے 23.5 ارب ڈالر واجب الادا تھے جو کہ مئی 2013ء میں اداکردئے گئے ہیں۔ لیکن 2003ء سے 2012ء تک ترکی بیرونی قرضے میں 210 ارب ڈالر یعنی 162 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس وقت ترکی کے بیرونی قرضے کا دو تہائی پرائیویٹ سیکٹر جبکہ ایک تہائی حکومت کے ذمے واجب الادا ہے۔ ترکی کا پرائیویٹ سیکٹر دنیا میں سب سے تیز رفتاری سے قرضے لے رہا ہے اور اس سلسلے میں حکومت نے اپنی گرفت انتہائی ڈھیلی کر رکھی ہے۔ عالمی منڈی میں کسی قسم کے اتار چڑھاؤ کا فوری اثر ترکی کی معیشت پر پڑے گا۔ آسان الفاظ میں اردگان حکومت نے قرضہ اتارنے کے لئے قرضہ لینے کی پالیسی اپنائی ہے۔ پچھلی ایک دہائی میں AKP کی حکومت نے ماضی کی تمام حکومتوں کے مجموعی قرضے سے بھی زیادہ قرض لیا ہے۔ دوسری طرف حکومتی قرضے کو قابو میں رکھنے کے لئے اردگان حکومت نے بھاری بالواسطہ ٹیکس لگانے (Indirect Taxing) کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے پر نجکاری بھی کی ہے۔ 2002ء کے بعد سے ترکی میں جس پیمانے پر نجکاری کی گئی ماضی قریب میں اس کی مثال ڈھونڈنا مشکل ہے۔ 1985ء سے 2003ء تک ترکی میں 8.2 ارب ڈالر کی نجکاری کی گئی تھی، جبکہ اردگان حکومت میں 2003ء سے 2009ء تک 36.4 ارب ڈالر کی نجکاری کی گئی۔ نجکاری کی رفتار میں مزید اضافہ کیا جارہا ہے اور اردگان حکومت 2013ء میں 20 ارب ڈالر کی نجکاری کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ مزید نجکاری کے لئے جو ادارے ’ہٹ لسٹ‘ پر ہیں ان میں حکومتی آئل اینڈ گیس کمپنی، محکمہ ڈاک، زراعت سے وابستہ حکومت کا سب سے بڑا ادارہ اور چائے کی پتی بنانے والی ملک کی سب سے بڑی کمپنی شامل ہیں۔ یہ ایسے ادارے ہیں جنہیں نجی ملکیت میں دیتے ہوئے امریکہ جیسی نیو لبرل معیشت کی علمبردار ریاستیں بھی ہچکچاہٹ کا مظاہر کرتی ہیں۔ ٹیکس کا نظام بھی انتہائی غیر منصفانہ ہے اور ٹیکسوں کی کل آمدن کا دوتہائی حصہ بالواسطہ ٹیکسوں کے ذریعے عوام سے وصول کیا جاتا ہے۔ بالواسطہ ٹیکس میں بھی امیروں کو چھوٹ دی جاتی ہے، مثلاً جنرل سیلز ٹیکس کی شرح 18 فیصد ہے جبکہ قیمتی پتھروں کی خریداری پر کوئی ٹیکس عائد نہیں کیا جاتا۔ ’’اپنے ملکی اثاثے بیچ کر، اپنے لوگوں پر ٹیکس لگا کر ہمارا قرضہ ادا کرو‘‘، کیا آئی ایم ایف دنیا بھر میں حکومتوں کو یہی ’مشورہ‘ نہیں دیتا؟ اردگان حکومت نے کیا یہی نہیں کیا؟
بھاری ٹیکسوں اور آزاد منڈی کی وحشت ناک پالیسیوں کی وجہ سے ترکی کے عوام اپنی قوت خرید اور معیار زندگی کو برقرار رکھنے کے لئے قرضے لینے پر مجبور ہیں۔ اردگان کے دور حکومت میں ترکی کے Household Debt میں 3600 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ یہ گھریلو قرضہ جو 2011ء میں 234.6 ارب لیرا(ترک کرنسی) تھا جولائی 2012ء میں 256 ارب لیرا (135ارب ڈالر)سے تجاوز کر چکا ہے۔ یعنی قرضوں کے ذریعے مصنوعی طور پرمنڈی کو سرگرم رکھ کے معیشت کو بڑھایا گیا ہے، لیکن قرض کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اسے واپس کرنا پڑتا ہے اور قرضوں کے ذریعے اجناس کی کھپت کا یہ عمل مسلسل جاری نہیں رہ سکتا۔ اس وقت 20 لاکھ ترک شہری قرضے کی ادائیگی نہ کر سکنے کے باعث جبری وصولی یا جائیداد کی ضبطگی کے خطرے سے دوچار ہیں۔
طیب اردگان کی نیو لبرل معاشی پالیسیوں کا ایک اور نتیجہ ترکی میں بڑھتی ہوئی معاشی ناہمواری کی صورت میں بھی برآمد ہوا ہے۔ معاشی ناہمواری کے لحاظ سے ترکی OECD کے ممالک میں تیسرے نمبر پر ہے۔ 2011ء میں ترکی کی کل ملکی آمدن میں امیر ترین 20 فیصد لوگوں کا حصہ 50 فیصد تھا جبکہ غریب ترین 20 فیصد لوگوں کا حصہ صرف 6 فیصد تھا۔ اسی طرح نوجوانوں میں بیروزگاری کا مسئلہ شدت اختیار کرتا جارہا ہے۔ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل30 فیصد نوجوان بیروز گار ہیں۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق اگرچہ غربت کی شرح 16 فیصد ہے لیکن 2009 میں یونیسف کی رپورٹ کے مطابق پندرہ سال سے کم عمر کے 23 فیصد بچے غربت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ تعداد 49 لاکھ بنتی ہے۔ Turkish Statistics Institute کی رپورٹ کے مطابق 2008ء میں غربت کی شرح 17.79 فیصد تھی جو 2011ء میں 18.08 فیصد تک پہنچ گئی۔ 2012ء کے بعد سے جب معاشی شرح نمو میں شدید کمی آئی ہے، غربت میں تیز ترین اضافہ ناگزیر ہے۔
طیب اردگان حکومت کی نیو لبرل معاشی پالیسیوں کے زیرِ اثر ترکی میں سماجی اور طبقاتی تضادات شدید ہوئے ہیں۔ موجودہ تحریک ترک نوجوانوں اور محنت کشوں میں پائی جانے والی بے چینی اور اردگان حکومت کی سیاسی و معاشی پالیسیوں کے خلاف غم و غصے کا اظہار ہے۔ انقلابات ناقابلِ حل سماجی تضادات کا اظہار ہوتے ہیں جن کی بنیادیں آخری تجزئے میں معاشی ہوتی ہیں۔ طیب اردگان، سرمایہ داری کی وحشت کو ریاستی جبر اور مذہبی لفاظی میں چھپانے کی کوشش کرتا رہا ہے جس کی وجہ سے اس تحریک کے فوری مطالبات سیاسی نوعیت کے ہیں۔ مظاہرین اردگان حکومت کے استعفے، ریاست کی سیکولر نوعیت کو برقرار رکھنے اور سیاسی آزادی کے مطالبات کررہے ہیں۔ تحریک میں کئی اتار چڑھاؤ آئیں گے۔ تحریک کے بالکل پہلے مراحل میں دو روزہ ہڑتال کی شکل میں محنت کش طبقے کی مداخلت ثابت کرتی ہے کہ تحریک اپنے اندر تمام تر انقلابی ممکنات سمیٹے ہوئے ہے۔ اگر ترکی کے محنت کش عوام اپنے فوری سیاسی مطالبات منوانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو یہ فتح محنت کشوں اور نوجوانوں کو نئی شکتی فراہم کرے گی۔ ترک محنت کشوں اور نوجوانوں کے اعتماد میں بے پناہ اضافہ تحریک کے کردار کو یکسر بدل کے رکھ دے گااور وہ ناگزیر طور پر سیاسی مطالبات سے آگے بڑھ کر معاشی نظام کو چیلنج کرنے کی طرف جائیں گے۔ ترکی میں کامیاب تحریک یورپ کے ساتھ ساتھ مصر اور تیونس پر بھی گہرے اثرات مرتب کرے گی اور وہاں کے عوام اقتدار پر براجمان اخوان المسلمون جیس رجعتی قوتوں کو اکھاڑنے کے لئے 2011ء کی طرح ایک بار پھر میدان عمل میں اتریں گے۔ دوسری طرف ریاست کے ننگے جبر، سامراجی قوتوں کی حمایت اور بائیں بازو کی ناقص حکمت عملی کی وجہ سے طیب اردگان اپنا تسلط لمبے عرصے تک قائم رکھنے میں کامیاب ہوتا ہے تو جزوی طور پر تحریک پر پسپائی اور مایوسی کے بادل چھا سکتے ہیں۔ لیکن اس وقتی پسپائی سے بھی عوام ضروری سیاسی اسباق حاصل کریں گے۔ کمیونسٹ پارٹی آف ترکی (TKP)، بائیں بازو کی ٹریڈ یونینز اور دوسری چھوٹی تنظیموں کے کارکنان تحریک میں ہراول دستے کا کردار ادا کررہے ہیں۔ اس تحریک میں بائیں بازو کی حکمت عملی اور نظریاتی پختگی فیصلہ کن کردار کی حامل ہے۔ ترک سماج میں ہلچل اور تبدیلی کے عمل کا آغاز ہوچکا ہے۔ واقعات کا بے ہنگم بہاؤ، انقلاب اور رد انقلاب کا ٹکراؤ، شکستوں اور فتوحات کے تجربات بالآخر وہ انقلابی قیادت تراشیں گے جو سماج کی تشکیل نو کا تاریخی فریضہ سرانجام دے گی۔