| تحریر: لال خان |
ہفتہ 10 اکتوبر کی صبح کو ترکی کے دارالحکومت انقرہ کے مرکزی ریلوے اسٹیشن کے باہر بائیں بازو کی ٹریڈ یونین تنظیموں اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (HDP) کے زیر اہتمام ریاستی اور مذہبی دہشت گردی کے خلاف احتجاجی مظاہرے میں ہزاروں نوجوان اور محنت کش اکٹھے ہو رہے تھے کہ اس دوران دو خوفناک بم دھماکے ہوئے۔ آخری وقت تک آنے والی خبروں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 97 ہو چکی ہے اور یہ جدید ترکی کی تاریخ میں دہشت گردی کا سب سے خونی واقعہ ہے۔ حکومتی ’’مذمت‘‘ یا ’’اظہار افسوس‘‘ کی جعل سازی سے پیشتر ہی ترکی کی بائیں بازو کی پارٹیوں اور ٹریڈ یونینز نے نہ صرف تین روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے بلکہ حکومت کے خلاف 12 اور 13 اکتوبر کو 48 گھنٹے کی عام ہڑتال کی کال بھی دے دی ہے۔
ترکی گزشتہ کئی سالوں سے داخلی تضادات اور علاقائی صورتحال کے تحت مسلسل خلفشار کا شکار ہے۔ طیب اردگان کے دور حکومت میں نجکاری اور نیو لبرل سرمایہ داری کے ذریعے پھیلایا جانے والا معاشی بلبلہ اب پھٹ رہا ہے۔ معیشت تیزی سے زوال پزیر ہے اور جی ڈی پی گروتھ جو 2010ء میں 10 فیصد سے تجاوز کر رہی تھی اب 3 فیصد تک گر چکی ہے۔ AKP کے دور حکومت میں دولت کے چند ہاتھوں میں ارتکاز، ریاستی اثاثوں کی لوٹ مار، کرپشن، حکومت کی رجعتی پالیسیوں اور طیب اردگان کی رعونت کے پیش نظر عوام میں حکمران ٹولے سے نفرت اپنے عروج پر ہے۔ مئی 2013ء میں اردگان حکومت کے خلاف شروع ہونے والے ملک گیر احتجاجی مظاہرے کئی ماہ تک جاری رہے تھے، یہ تحریک حکومت کا خاتمہ تو نہ کر سکی لیکن اقتدار میں کئی دراڑیں بحرحال ڈال گئی۔ اب ایک بار پھر اس سے کہیں بڑی تحریک کے امکانات واضح ہو رہے ہیں۔ حالیہ دھماکہ اس بغاوت کو پیشگی کچلنے کی ہی ایک واردات ہے۔ داعش اور اردگان حکومت کے دوستانہ تعلقات ویسے بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں رہے ہیں۔ اس سے قبل جولائی 2015ء میں شامی بارڈر کے نزدیک ترکی کے قصبے سروک میں، داعش سے برسر پیکار کردوں کے حق میں ہونے والے مظاہرے میں بھی خود کش بم دھماکہ ہوا تھا جس میں 30 سے زائد نوجوان ہلاک ہو گئے تھے۔ اردگان واضح طور پر شام کے ساتھ ساتھ ترکی میں بھی اپنے مفادات کے تحت داعش سے قتل و غارت گری کروا رہا ہے۔
پاکستان کے حکمران اور دانشور جس ’’ترکی کی ترقی‘‘ کے گن گاتے ہوئے نہیں تھکتے اس کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔ گزشتہ ڈیڑھ دہائی میں ترک عوام کے حالات تنگ ہی ہوئے ہیں اور ریاستی جبر (بالخصوص کردوں پر) ناقابل برداشت ہوتا چلا گیا ہے۔ ’’انسانی حقوق‘‘ اور ’’جمہوریت‘‘ کے ٹھیکیدار امریکی اور مغربی سامراجیوں کو نہ تو اردگان کی اسلامی بنیاد پرستی سے کوئی گلہ ہے اور نہ ہی عوام پر اس کے ظلم و جبر اور آزادی اظہار پر بد ترین حملوں پر کوئی اعتراض ہے۔ میاں برادران کے برادر اور کاروباری پارٹنر ترک حکمرانوں نے وہاں بھی بدعنوانی کی انتہا کررکھی ہے اور امیر اور غریب میں معاشی تفریق کی انتہا ہوچکی کی ہے۔ مذہب کو استعمال کرتے ہوئے جارحانہ سرمایہ داری کو مسلط کرنے والا ’’ترقیاتی ماڈل‘‘ آج ترکی کے محنت کشوں او ر نوجوانوں کے لہو سے ہولی کھیل رہا ہے۔ لیکن اس دہشت گردی اور قتل وغارت کے بارے میں میڈیا جس چیز کو روپوش کرنے کی کوشش کررہا ہے وہ محنت کشوں اور نوجوانوں کی مسلسل خود رو ایجی ٹیشن ہے جو ترکی کے تمام بڑے شہروں میں واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔ کل کے دھماکے کے بعد لاکھوں افراد آج پھر پورے ملک میں سراپا احتجاج ہیں۔ جس احتجاجی مظاہرے میں ریاست نے بالواسطہ طور پر یہ قتل عام کیا ہے اس کی کال کسی روایتی یا دائیں بازو کی پارٹی نے نہیں دی تھی۔ اسے منظم کرنے والوں میںHDP کے علاوہ سرکاری شعبے کے ملازمین کی کنفیڈریشن (KESK)، انقلابی ٹریڈیونین فیڈریشن آف ترکی (DISK)، ترکی میڈیکل ایسویسی ایشن (TTB) اور ترکی کے انجینئروں اور فن تعمیر کے ماہرین کی یونین (TMMOB) بھی شامل تھیں۔ HDP کے مظاہرین کا پہلا جتھہ اس مقام پر پہنچا جہاں سے مظاہرہ شروع ہونا تھا تو وہیں پہلا بڑا دھماکہ کیا گیا۔
HDP ایک دلچسپ سیاسی مظہر ہے۔ یہ چند ماہ قبل ہی ابھرنے والی بائیں بازو کی پارٹی ہے جس نے جولائی میں ہونے والے قومی انتخابات میں 80 نشستیں جیت کر حکمران مذہبی جماعت (AKP) کو 2002ء کے بعد پہلی مرتبہ حکومت بنانے کی اکثریت سے محروم کردیا ہے اور گزشتہ کئی ہفتوں سے مسلسل ریاستی جبر کا نشانہ بن رہی ہے۔ AKP سمیت کوئی جماعت چونکہ حکومت بنانے کے قابل نہیں ہے لہٰذا دوبارہ الیکشن ہوں گے۔
HDP نے اس ہولناک دہشت گردی کے واقعے کے بعد بیان جاری کیا ہے کہ ’’یہ بتانا ضروری ہے کہ جب یہ دھماکے ہوئے تو وہاں سکیورٹی اور پولیس کا نام ونشان نہیں تھا۔ مظاہروں کو کنٹرول کرنے والی پولیس 15 منٹ بعد پہنچی۔ لیکن جب یہ پولیس آئی تو انہوں نے مظاہرین پر تشدد شروع کردیا۔ لاٹھی چارج اور آنسو گیس سے زخمیوں کو بچانے والوں کو شدید اذیت کا شکار کیا گیا۔ ایمبولینسوں کو بھیجنے سے پیشتر مسلح پولیس کی بکتر بند گاڑیوں کو بھیجا گیا۔ اگر وہاں مظاہرین میں ڈاکٹر اور صحت کے شعبہ کے محنت کش نہ ہوتے تو اموات اور زخمیوں کی تعداد کہیں زیادہ ہو جاتی‘‘۔ یاد رہے کہ دھماکوں کے بعد حسب روایت اردگان نے ذرائع ابلاغ بالخصوص سوشل میڈیا پر واقعے کا بلیک آؤٹ کروانے کی کوشش کی ہے اور ٹویٹر وغیرہ کے استعمال میں لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ ہتھکنڈے اردگان ماضی میں استعمال کرتا رہا ہے۔
HDP کے لیڈر سلاطین ڈیمر تاس نے اس دہشت گردی کا مجرم حکمران جماعت AKP کو ٹھہرایا ہے۔ اس کے بیان کے مطابق ’’AKP کے ہاتھ بے گناہوں کے لہو میں رنگے ہوئے ہیں۔ اس ملک میں حکومت کے خلاف جو بھی بولے گا اس کو گولی مار دی جائے گی۔ اگر کوئی بچہ بھی پتھر پھینکتا ہے تو اس کو گولی سے جواب دیتے ہیں۔ یہ ریاست قاتلوں کا ایک جتھہ ہے۔ تمام آثار بتاتے ہیں کہ ریاست کو پہلے سے دہشت گرد حملے کا علم تھا‘‘۔
کردوں کے خلاف ترک ریاست کی ہولناک جارحیت کی لمبی تاریخ ہے۔ ہزاروں کرد اب تک ریاستی جبر میں مارے جا چکے ہیں۔ کردوں کی آزادی کی تنظیم ’’کردستان ورکرز پارٹی‘‘ (PKK)کی طرح اب HDP کے بیشتر لیڈروں کو بھی حراست میں لے لیا گیا ہے۔ ترکی میں چند ہفتوں بعد یکم نومبرکو نئے انتخابات ہونے ہیں جن میں HDP کے مزید نشستیں جیتنے کا خطرہ AKP کو لاحق ہے۔ اردگان اس حد تک ریاستی طاقت سے چمٹے رہنا چاہتا ہے کہ وہ ایک خونی خانہ جنگی کو ہوا دے رہا ہے لیکن اقتدار سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں ہے۔ اس سلسلے میں PKK کے ساتھ جنگ بندی کو ختم کرتے ہوئے ترک علاقوں میں فضائی بمباری کی جا رہی ہے۔ 10 اکتوبر کی یہ دہشت گردی بھی عین ممکن ہے کردوں کو اشتعال دلا کر دوبارہ مسلح جدوجہد کی طرف راغب کرنے کے لئے کروائی گئی ہو تاکہ ریاستی جبر کو جواز مل سکے۔ HDP سے ترک ریاست کے خوف کی اہم وجہ یہی ہے کہ اس پارٹی کے ذریعے قومی تعصبات کو مسترد کرتے ہوئے کرد اورترک نوجوان طبقاتی بنیادوں پرایک بائیں بازو کے سیاسی پلیٹ فارم پر متحد ہو رہے ہیں۔
قدیم یونانی کہاوت ہے کہ ’’دیوتا جسے برباد کرنا چاہتے ہے پہلے اسے پاگل کرتے ہیں۔‘‘ اردگان کی ذہنی کیفیت بالکل ایسی ہی ہے۔ ترکی کے سب سے بڑے شہر استنبول میں اس ہولناک دہشت گردی کے چند گھنٹے کے بعد ہی ایک لاکھ سے زیادہ افراد کا بھرپور حکومت دشمن مظاہرہ ہواہے جس سے پتا چلتا ہے کہ اردگان کی رعونت اور وحشت نہ صرف تحریک کو کچلنے میں ناکام ہورہی ہے بلکہ اس کا الٹ اثر ہو رہا ہے۔ 2013ء کی بغاوت ایک بار پھر سر اٹھانے لگی ہے۔ ایک بات طے ہے کہ اردگان کے دن گنے چاچکے ہیں۔ لیکن اردگان یا AKP حکومت کے چلے جانے سے سرمایہ دارانہ نظام کا جبر و استحصال ختم نہیں ہو گا۔ ٹریڈ یونین تنظیموں اور بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کی قیادت کو تمام قومی اور لسانی تعصبات کو مسترد کرتے ہوئے ماضی کی غلطیوں اور نظریاتی کمزوریوں سے سبق سیکھنا ہو گا۔ طبقاتی بنیادوں پرآگے بڑھتے ہوئے انقلابی سوشلزم کے پروگرام پر متحرک ہو کر ہی ترکی کے محنت کش اور نوجوان سرمایہ دارانہ نظام اور ریاست کو شکست دے سکتے ہیں۔