[تحریر: جارج مارٹن، ترجمہ: عمران کامیانہ]
مورخہ 6 فروری کی صبح بائیں بازو کے نمایاں رہنما چوکری بیلید کو ان کے گھر کے سامنے قتل کر دیا گیاجس کے رد عمل میں ہزاروں لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور حکمران جماعت النہدا پارٹی کو قتل کا ذمہ دار گردانتے ہوئے اسکے دفاتر کو آگ لگا دی۔
یہ ایک ایسا واقعہ ہے جو تیونس میں ایک دوسرے انقلاب کے لئے چنگاری ثابت ہو سکتا ہے۔ بن علی کی حکومت اکھاڑے جانے کے دو سال بعد ایک اور انقلاب کی ضرورت شدت سے محسوس کی جارہی ہے۔
8 فروری کو چوکری بیلید کے جنازے کے موقع پر تیونس میں عام ہڑتال کی گئی۔ بعض رپورٹوں کے مطابق جنازے میں دس لاکھ سے زائد افراد نے شرکت کی۔
مقتول چوکری بیلید (Unified Party of Patriotic Democrats PUPD) کے جنرل سیکرٹری تھے۔ یہ پارٹی خود کو مارکسسٹ اور عرب قوم پرست قرار دیتی ہے اور پاپولر فرنٹ کا اہم حصہ ہے۔ پاپولر فرنٹ بائیں بازو کی قوتوں کا اتحاد ہے جس میں ورکرز پارٹی (سابقہ PCOT) بھی شامل ہے۔ بیلید کا خاندان اور کامریڈز اس کے قتل کا ذمہ دار ’’دفاعِ انقلاب کی لیگ‘‘کو ٹھہرا رہے ہیں جو کہ حکمران اسلامی جماعت النہدا سے منسلک ہیں۔ حما حمامی، جو کہ پاپولر فرنٹ کے ترجمان اور ورکرز پارٹی کے اہم رہنما ہیں،نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ’’حکومت بحیثیت مجموعی اس جرم کی ذمہ دار ہے۔ ‘‘موجودہ حکومت النہدا پارٹی، کانگریس فار ریپبلک اور سوشل ڈیموکریٹ Ettkol کے اتحاد پر مشتمل ہے۔
2فروری بروز ہفتہ PUPD کی ریجنل کانگریس پرسلفیوں کے ایک گینگ نے حملہ کیا تھا جس میں 11 افراد ززخمی ہوئے تھے۔ اس میٹنگ میں چوکری بیلید نے النہدا پارٹی کو حملے کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی تھی۔ یہ حملہ اسلامی بنیاد پرستوں کی طرف سے دھمکیوں اور تشدد کی مہم ہی کی ایک کڑی تھا۔
بیلید کے قتل کی خبر پھیلتے ہیں دارلحکومت تیونس اور دوسرے شہروں گفسا، سیدی بوزد، بیجا، ماہدیا، سیلیاناوغیرہ میں ہزاروں لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور حکومت کے خلاف مظاہرے کئے۔ بہت سے شہروں میں مظاہرین نے حکمران النہدا پارٹی کے دفاتر پر حملے کئے اور کئی ایک کو آگ لگا دی۔ دارالحکومت میں وزارتِ داخلہ کے سامنے حبیب بورگبا چوک پر ہزاروں افراد جمع ہو گئے اور بن علی کی حکومت کے خلاف انقلاب کے دوران لگنے والا نعرہ ’’عوام حکومت کا خاتمہ چاہتے ہیں‘‘ ایک بار پھر سنائی دیا۔ حکومت اور النہدا پارٹی کی طرف سے قتل کی ’’مذمت‘‘ کے باوجود مظاہرین کے ساتھ ساتھ بیلید کی نعش لے جانے والے جلوس کومنتشر کرنے کے لئے پولیس نے آنسو گیس کا استعمال کیا۔
جمعرات کے روز ہونے والے کئی مظاہروں میں بڑے پیمانے کی بغاوت اور سرکشی کے آثار نمایاں تھے۔ سدی بوزد میں نوجوانوں اور پولیس کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ تمام رات جاری رہا ، نوجوانوں نے بیرکوں پر حملے کر کے پولیس کو بھاگنے پر مجبور کر دیا جس کے بعد فوج کو طلب کرنا پڑا۔ جندوبا میں UGTT ٹریڈ یونین کی طرف سے منعقدہ مارچ میں لوگوں نے مقامی گورنر کے دفتر پر قبضہ کر لیا اور مطالبہ کیا کہ گورنر فوراً سے پہلے علاقہ چھوڑ دے۔ گفسا میں عام ہڑتال کی وجہ سے پہیہ جام رہا اور لوگوں نے حکومتی عمارتوں پر قبضہ کرنے کی جس کی وجہ سے پولیس اور مظاہرین کے درمیان پر تشدد جھڑپیں ہوئیں۔ سیلیانا میں بھی عام پڑتال ہوئی ، یہ شہر نومبر 2012ء میں بھی عوامی بغاوت کا مرکز بنا تھا۔ کیلیبیا میں النہدا کے دفتر پر حملہ کیا گیا اور حکومتی نمائندوں کو باہر نکال دیا گیا۔ الکیف میں ، جہاں دو ہفتے پہلے بھی علاقائی سطح پر ہڑتال ہوئی تھی، النہدا کے دفاتر پر حملے کئے گئے اور حکومتی نمائندگان سے علاقہ چھوڑنے کا مطالبہ کیا گیا۔ میڈیا پر آنے والی خبرو ں کے مطابق بیشتر علاقوں میں پولیس کا نام و نشان نہیں تھا اور پاپولر فرنٹ کے مسلح کارکن سڑکوں پر گشت کرتے ہوئے عوام کی حفاظت کو یقینی بنارہے تھے۔
بیلید کے قتل سے کئی ماہ پہلے سے سماج میں عدم اطمینان اور بے چینی سطح کے نیچے موجود تھی اور تضادات کئی مہینوں سے پک کر تیار ہو رہے تھے۔ موجودہ مخلوط حکومت کے پاس کبھی بھی وسیع عوامی حمایت موجود نہیں تھی۔ اکتوبر 2011ء میں ہونے والے آئین ساز اسمبلی کے الیکشنوں میں ٹرن آؤٹ صرف 50 فیصد تھا جس میں سے النہدا پارٹی کو بمشکل 37 فیصد جبکہ اس کے اتحادیوں CPR کو 8.7 فیصد جبکہ Ettakol کو 7%ووٹ ہی ملے تھے۔ تین پارٹیوں پر مشتمل حکومت پر عدم اعتماد کاواضح اظہار اس بات سے ہوتا ہے کہ 14جنوری 2011ء کو بن علی کے جانے کے بعد سے مختلف علاقوں میں ہڑتالوں اور بغاوت کا سلسلہ اتار چڑھاؤ کے ساتھ جاری رہا ہے۔ اس عدم اطمینان کی بڑی وجہ یہ ہے کہ بن علی کے جانے کے بعد بھی عوام کی سماجی و معاشی حالت میں کوئی بہتری نہیں آئی بلکہ یہ کہا جائے تو زیادہ بہتر ہو گا کہ حالات پہلے کی نسبت مزید خراب ہو گئے ہیں۔ ماضی میں تیونس کی معیشت کا انحصار سیاحت اوربیرونی سرمایہ کاری پر تھا جس کی بڑی وجہ سستی لیبر اور خوفناک آمریت کے زیرِ اثر سیاسی استحکام تھا(کسی قسم کے مظاہروں یا حکومت کی مخالفت کو کچل دیا جاتا تھا)۔ لیکن یورپ میں سرمایہ داری کے گہرے ہوتے ہوئے بحران کی وجہ سے سرمایہ کاری اور سیاحت دونوں کی گنجائش ختم ہو چکی ہے۔ درجنوں یورپی کمپنیوں نے تیونس میں موجود اپنی فیکٹریاں بند کردی ہیں جس کی بڑی وجہ ’’امن و امان کی خراب صورتحال‘‘ اور یورپ میں منڈی کا سکڑاؤ ہے۔ سیاحت کا بھی یہی حال ہے اور صرف 2011ء میں سیاحوں کی تعداد میں 30 فیصد کمی واقع ہوئی۔
ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ تیونس کی انقلابی تحریک کا بنیادی محرک خراب ہوتے ہوئے معاشی اور سماجی حالات تھے۔ 35 فیصد سے زائد بیروزگار نوجوان اور ہزاروں بے روزگار گریجویٹس جنہیں اپنا مستقبل تاریک دکھائی دے رہا تھا، اس تحریک کی اصل طاقت تھے۔ اور تاحال صورتحال میں کوئی بہتری نہیں آئی ہے اور اس وقت نوجوانوں میں بیروزگاری کی شرح 40 فیصد سے تجاوز کر چکی ہے۔
نومبر 2012ء میں سلیانا میں روزگار اوربہتر معاشی حالات کے مطالبات سے شروع ہونے والی بغاوت سے مظاہروں کے نئے سلسلے کا آغاز ہوا۔ اس تحریک کے دوران النہدا کے دفاتر نذر آتش کئے گئے اور پولیس کے ساتھ بڑے پیمانے پر جھڑپیں ہوئیں۔ دسمبر کے آغاز میں سلفی بدمعاشوں نے حکومتی سرپرستی میں UGTT کے دفاتر پر حملے کئے جس کے رد عمل میں نیچے سے شدید دباؤ کے زیرِ اثر یونین رہنماؤں کو 13دسمبر کو ملک گیر عام ہڑتال کی کال دینی پڑی۔ 13دسمبر کو متوقع عام ہڑتال کو حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے استعمال کیا جاسکتا تھالیکن UGTT کے رہنماؤں نے حکومتی دباؤ کے زیرِ اثر عین آخری وقت پر ہڑتال کی کال واپس لے لی۔ کال واپس لئے جانے کا فیصلہ معمولی اکثریت سے کیا گیا۔ اس فیصلے سے عام کارکن عدم اطمینان کا شکار تھے۔ عام ہڑتال کی کال واپس لئے جانے سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوا بلکہ علاقائی سطح پر تحریکیں جاری رہی اور کسٹم، اساتذہ اور صحت کے شعبے میں ہڑتالیں جاری رہیں۔ 2012ء کا اختتام جندوبا میں علاقائی ہڑتال پر ہوا 2013ء کے آغاز میں ہی الکیف میں ہزاروں افراد کے مظاہرے ہوئے۔ بیروزگاری سے تنگ کئی نوجوان بھوک ہڑتال پر چلے گئے اور اپنے ہونٹ سی کر احتجاج کیا۔
عوام کے شدید دباؤ کا نتیجہ حکمرانوں میں پھوٹ اور بحران کی شکل میں برآمدہوا اور جنوری کے تمام مہینے میں ’’قومی مشاورت‘‘ کا کمیشن قائم کرنے کی اپیلیں کی گئیں جن کا اصل مقصد UGTT کی قیادت کو بہلا پھسلا کر سمجھوتے پر راضی کرنا تھا۔ اسی دوران حکومت IMF سے 1.8ارب ڈالر کے قرض کے سلسلے میں مذاکرات بھی کر رہی تھی۔ اس قسم کا کوئی بھی قرضہ جن شرائط (کٹوتیاں، سبسڈی کا خاتمہ،حکومتی نوکریوں میں کمی وغیرہ) پر دیا جائے گاوہ بذاتِ خود ایک نئے سماجی دھماکے کا سامان ثابت ہوں گی۔
نیچے سے شدید دباؤ کے زیرِ اثر UGTT کی قیادت نے 8فروری بروز جمعہ چوکری بیلید کی آخری رسومات کے موقع پرعام ہڑتال کی کال دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسی دوران وزیرِ اعظم حمادی جبالی نے حکومت کے خاتمے اور اس کی جگہ نئی ’’ٹیکنوکریٹ حکومت‘‘ کے قیام کا مطالبہ کیا ہے جسے النہدا پارٹی (جس سے وزیرِ اعظم کا تعلق ہے) نے مسترد کر دیا ہے۔ حکومتی سطح پر کی جانے والی ان چالبازیو ں سے پتہ چلتا ہے کہ تیونس کا حکمران طبقہ ایسی حکومت کی تلاش میں ہے جو مزدوردشمن پالیسیاں نافذ کرنے کے قابل ہو۔ حکومتی بحران مزدور تحریک کی مضبوطی کا بھی اظہار ہے۔
2010-11ء کا انقلاب ابھی مکمل نہیں ہوا۔ بن علی کو نکال باہر کیا گیا لیکن ریاست اور سرمایہ دارانہ نظام اپنی جگہ بدستور موجود ہیں۔ انقلاب کے وقت کسی انقلابی تنظیم کی طرف سے کسی قسم کا متبادل پیش نہیں کیا گیا، ایسا کوئی متبادل تحریک کو بورژوا جمہوریت کی حدود سے آگے بڑھا کر حقیقی سماجی تبدیلی کا باعث بن سکتا تھا۔ ان حالات میں تحریک بورژوا جمہوری حدود کے اندر مقید ہو کر رہ گئی۔
ایک نیا انقلاب، جو پک کے تیار ہو رہا ہے، مطالبہ کرتا ہے کہ پچھلی انقلابی تحریک کی خامیوں سے سبق سیکھا جائے۔ تیونس کے غریب عوام اور محنت کشوں کی مشکلات کا واحد حل یہ ہے کہ مٹھی بھر سرمایہ داروں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی دولت اور اثاثوں کو قومی تحویل میں لیا جائے تاکہ ملک کے ذرائع (مادی اور انسانی) کو جمہوری منصوبہ بندی کے تحت انسانی ضروریات کی تکمیل کے لئے استعمال کیا جا سکے۔ یہ بات واضح ہونی چاہئے کہ ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت پر مبنی سرمایہ دارانہ نظام جب تک قائم ہے غربت، بیروزگاری اور ریاستی جبر کے مسائل کبھی حل نہیں ہوسکتے۔ گزشتہ دو سال ہمیں یہی سبق دیتے ہیں۔ تیونس کے لاکھوں نوجوان اور محنت کش پہلے ہی سرمایہ دارانہ ’’جمہوریت‘‘ سے فیض یاب ہو چکے ہیں۔ وہ حقیقی آزادی کی لڑائی میں ہر حد تک جانے کو تیار ہیں۔ ایک انقلابی پروگرام سے لیس قیادت کی ضرورت ہے جو محنت کشوں اور نوجوانوں کوفتح سے ہمکنار کر سکے۔ بیشتر دوسرے عرب ممالک، خاص طور پر مصر میں بھی یہی صورتحال ہے۔ تیونس میں ایک نیا انقلابی ابھار دو سال پہلے کی نسبت پوری عرب دنیا پر زیادہ گہرے اثرات مرتب کرے گا۔
متعلقہ:
تیونس:ایک اور انقلاب کا منتظر