تحریر: لال خان
ڈونلڈ ٹرمپ کی من مانی اشتعال انگیزیوں میں شاید کوئی کسر رہ گئی تھی جو موصوف نے منگل کو وائٹ ہاؤس سے اپنے ایک ٹیلیوژن خطاب میں ایران کیساتھ جوہری معاہدہ منسوخ کرنے کا اعلان بھی کر ڈالا۔ٹرمپ نے ایران پر ’’خطے میں تباہ کن سرگرمیاں‘‘ جاری رکھنے کا الزام عائد کیا اور بڑھک ماری کہ ’’ایران کے جوہری بلیک میل کے سامنے امریکہ ہتھیار نہیں ڈالے گا۔‘‘ اُس نے فوری طور پر ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کرنے کا حکم بھی جاری کیا۔ یہ پابندیاں جولائی 2015ء میں ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان طے پانے والے ایک معاہدے کے بعد اٹھا لی گئی تھیں۔ یوں ایران کے نیوکلیئر پروگرام سے متعلق بارہ سالہ ڈیڈ لاک کا خاتمہ ہوا تھا۔ دو سال کے طویل مذاکرات کے بعد ویانا میں طے پانے والے معاہدے کے تحت ایران نے اپنے جوہری پروگرام کو محدود کرنے پر رضا مندی ظاہر کی تھی اور ایٹمی ہتھیار نہ بنانے کی ضمانت دی تھی ۔ اگرچہ محتاط اندازوں کے مطابق ایران اگر چاہے تو ایک سال میں ایٹمی ہتھیار تیار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
اِس اعلان سے قبل ٹرمپ نے فرانسیسی صدر میکرون، جرمن چانسلر انجیلا مرکل اور برطانوی وزیر خارجہ بورس جانسن کی تمام اپیلوں کو نظر انداز کر دیا۔ معاہدے میں شامل تمام دوسری عالمی طاقتوں نے ٹرمپ کو اِس مہم جوئی سے باز رکھنے کی کوشش کی تھی۔ یوں یہ فیصلہ نہ صرف امریکہ کے اپنے یورپی اتحادیوں سے تعلقات میں تناؤ کا باعث بنے گا، روس اور چین سے تناؤ میں مزید اضافہ کرے گا بلکہ مغربی ایشیا میں عدم استحکام بھی پیدا کرے گا۔ ٹرمپ نے اپنی 2016ء کی انتخابی مہم میں بھی ایران کیساتھ جوہری معاہدے کو ایک ’’بدبختی‘‘ قرار دیا تھا اور منتخب ہونے کی صورت میں اس سے علیحدگی کا اعلان کیا تھا۔ سابقہ وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن اور قومی سلامتی کے مشیر میک ماسٹر، جنہیں ٹرمپ نے حال ہی میں فارغ کیا ہے، نے اُسے کئی مہینوں تک یہ اقدام اٹھانے سے روک رکھا تھا۔ اِن عہدوں پر تعینات کئے جانے والے نئے حضرات ایران کی طرف ٹرمپ جیسے جارحانہ نظریات کے حامل ہیں۔ ٹرمپ کواکسانے والوں میں اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو پیش پیش تھا۔ ٹرمپ نے نیتن یاہو کی طرف سے جاری کی گئی کچھ دستاویزات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایران منافقت اور فریب کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ تاہم خارج از امکان نہیں کہ یہ دستاویزات جعلی ہوں۔
ٹرمپ انتظامیہ پہلے بھی یورپی ممالک کو ایران کیساتھ تجاری معاہدوں سے روکتی رہی ہے۔ امریکی کمپنی بوئنگ کو اوباما انتظامیہ نے ایران کیساتھ کاروبار کرنے کی اجازت دی تھی۔ تاہم ٹرمپ کے برسراقتدار آنے کے بعد اس کمپنی نے مزید پیش رفت نہیں کی۔
امریکی ریاست کے کئی حصے اِس اقدام سے پریشان معلوم ہوتے ہیں۔ سینیٹ کی کمیٹی برائے خارجہ تعلقات کے رکن باب مینیڈیز نے کہا کہ ’’امریکہ کی اِس خود ساختہ علیحدگی اور تنہائی کا فائدہ ایران، روس اور چین کی حکومتیں اٹھائیں گی اور ہتھیاروں کی بھاری تجارت جاری رکھیں گی، معاشی تعلقات گہرے کریں گی اور امریکہ اور یورپ کو نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ کوریا جیسے خطوں میں مزید چیلنج کریں گی…ایسے فیصلوں سے صدر ٹرمپ امریکی سکیورٹی کو خطرت میں ڈال رہے ہیں، یورپی اتحادیوں سے تعلقات کو درہم برہم کر رہے ہیں اور اسرائیل کی سکیورٹی کو داؤ پر لگا رہے ہیں۔ معاہدے سے علیحدگی کے بعد امکانات بڑھ گئے ہیں کہ ایران اپنا جوہری ہتھیاروں کا پروگرام دوبارہ شروع کر دے گا۔‘‘ ایران کے صدر روحانی نے ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ’’میں نے ایرانی ’اٹامک انرجی آرگنائزیشن‘ کو ہدایات جاری کی ہیں کہ بوقت ضرورت یورینیم کی افزودگی دوبارہ شروع کرنے کے اقدامات کئے جائیں… لیکن ہم کئی ہفتے انتظار کریں گے اور اپنے دوستوں، اتحادیوں اور جوہری معاہدے کے دوسرے فریقین سے بات کریں گے … اِس مختصر وقت کے بعد اگر ہم نے سمجھا کہ معاہدے سے مکمل فائدہ اٹھا سکتے ہیں تو اسے برقرار رکھیں گے۔‘‘ دوسری طرف نیتن یاہو، جو خود طرح طرح کے سکینڈلوں میں پھنسا ہوا ہے اور کرپشن کے الزامات پر مواخذے کا سامنا کر رہا ہے، نے ٹرمپ کے فیصلے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ’’اسرائیل ایک دہشت گرد حکومت کیساتھ جوہری معاہدے کو مسترد کرنے کے صدر ٹرمپ کے فیصلے کی بھرپور حمایت کرتا ہے۔‘‘ بحران اور انتشار سے دوچار سعودی بادشاہت، جو ایران کی علاقائی حریف اور امریکہ کی دیرینہ اتحادی ہے، نے بھی ایسا ہی ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے امریکی صدر کے اِس اقدام کا ’خیر مقدم‘ کیا ہے۔ سعودی اتحادیوں متحدہ عرب امارات اور بحرین نے بھی یہی موقف اپنایا ہے۔
مشرق وسطیٰ پہلے ہی اِن عالمی اور علاقائی طاقتوں کی براہِ راست جارحیت اور پراکسی جنگوں سے تاراج ہو چکا ہے۔ شام، یمن، عراق اور لیبیا جیسی ریاستیں بکھر کے رہ گئی ہیں۔ ایران اور سعودی عرب کی مداخلتوں کے مضمرات پاکستان اور افغانستان جیسے ممالک میں بھی واضح ہیں۔ شام کے تنازعے نے اِن تمام تضادات کو شدید تر کر دیا ہے جہاں امریکہ، روس، ایران، سعودی عرب، اسرائیل، ترکی سمیت کئی یورپی طاقتوں کی مداخلت موجود ہے۔ ایران کے جوہری پروگرام کو اسرائیل ایک سنجیدہ چیلنج سمجھتا ہے اور بضد ہے کہ ایران کو شام اور دوسرے ممالک میں مزید قدم جمانے کا موقع نہ دیا جائے۔
جہاں ایسے اقدامات کے پیچھے سامراجی عزائم کارفرما ہوتے ہیں وہاں داخلی خلفشار کو دبانے کے لئے بھی ایسی خارجہ محاذ آرائیوں کا سہارا لیا جاتا ہے۔ ٹرمپ کے برسر اقتدار آنے کے بعد امریکی سامراج کے تضادات مزید شدت اختیار کر گئے ہیں۔ ٹرمپ کئی طرح کے الزامات اور سکینڈلوں کی زد میں ہے۔ اُس کی حرکتوں اور شہرت کی وجہ سے امریکی ریاست کے سنجیدہ پالیسی ساز روزِ اول سے اُس سے بیزار رہے ہیں۔ سب سے بڑھ کر اُس پر امریکہ کے دیوہیکل ’ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس‘ کا دباؤ ہے جس کے منافعوں کے لئے کسی قسم کا امن و استحکام زہر قاتل ہے۔ دوسری طرف کچھ جزوی اور سطحی معاشی بحالی کے باوجود ٹرمپ بڑے پیمانے پر روزگار پیدا کرنے، امریکی صنعت کو بحال کرنے اور ’’امریکہ کو دوبارہ عظیم بنانے‘‘ کے جن نعروں کیساتھ برسر اقتدار آیا تھا انہیں پورا کرنا امریکی سرمایہ داری کے بحران کے پیش نظر ممکن نہیں ہے۔ امریکی محنت کشوں اور نوجوانوں میں شدید اضطراب موجود ہے۔ مغربی ورجینیا، اوکلوہاما اور کنٹکی میں اساتذہ کی کامیاب ہڑتال، تعلیمی اداروں میں ’شوٹنگ‘ کے مسلسل واقعات کے خلاف نوجوانوں کے مظاہرے، ٹرمپ کی وحشیانہ امیگریشن پالیسیوں کے خلاف مزاحمت اور جنسی ہراسانی کے خلاف بننے والی تحریکوں سے امریکی سماج میں موجود غیض و غضب کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اِن حالات میں ٹرمپ کی ایسی اشتعال انگیزیاں اور من مانیاں نئی عوامی تحریکوں کو مشتعل کر سکتی ہیں جس کا اندازہ امریکی حکمران طبقات کے سنجیدہ نمائندوں کو بھی ہے۔ یوں بدعنوانی کے الزامات یا کسی جنسی سکینڈل وغیرہ کی بنیاد پر ٹرمپ کے فارغ کئے جانے کی قیاس آرائیاں مسلسل بڑھ رہی ہیں۔ علاوہ ازیں امریکہ میں صدور کے قتل کئے جانے کی روایت بھی موجود ہے۔
دوسری طرف ایرانی ریاست بھی ایسے ہی داخلی تضادات اور مسائل کا شکار ہے جہاں نوجوانوں میں بیروزگاری کی شرح 40 فیصد اور شرح غربت 50 فیصد تک ہے۔ طبقاتی تفریق کا اندازہ ورلڈ بینک کی رپورٹ سے لگایا جا سکتا ہے جس کے مطابق امیر ترین ایک فیصد ایرانیوں کے پاس 50 فیصد سے زائد دولت ہے۔پچھلے کچھ سالوں کے دوران روحانی حکومت نے آئی ایم ایف کے اشاروں پر نجکاری اور ڈی ریگولیشن کا عمل جاری رکھا ہے تاکہ ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاری کے لئے ’’ساز گار ماحول‘‘ پیدا کیا جا سکے۔ 2016ء میں زیادہ تر پابندیاں ہٹنے کے معاشی اثرات بھی بالادست طبقات تک ہی محدود رہے ہیں جبکہ عام لوگوں پر ’آسٹیریٹی‘ کے حملے جاری ہیں۔ اِسی تناظر میں پچھلے عرصے میں مہنگائی اور بیروزگاری کے خلاف پورے ملک میں پر تشدد مظاہروں کی لہر بھی دیکھی گئی ہے۔مذہبی لفاظی اور لبادے کے باوجود ایران میں سرمایہ داری کا استحصالی کردار بدلا ہے نہ بدل سکتا ہے۔ یہ حالات آنے والے عرصے میں نئی تحریکوں کو جنم دے سکتے ہیں جو اگر درست نظریات کیساتھ طبقاتی بنیادوں پر آگے بڑھتی ہیں استحصالی نظام اور اس کی ریاستوں کو اکھاڑ پھینک کر پورے خطے کا نقشہ بدل سکتی ہیں۔