| تحریر: لال خان |
حالیہ امریکی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کا صدر منتخب ہونا امریکہ کے ایک معمول کے خاتمے کے بعد دوسرے عدم استحکام اور انتشار بھرے معمول کے آغاز کی غمازی کرتا ہے۔ یہ امریکہ کے اقتصادی وسماجی اور ثقافتی بحران میں ایک معیاری تبدیلی کا سیاسی اظہار ہے۔ لیکن جہاں ٹرمپ کے خلاف بھرپوراحتجاجی مظاہروں اور اس بے ہنگم رجعت سے نفرت کا اظہار مسلسل جاری ہے وہاں وسیع پیمانے پر ہیلری کلنٹن کی شکست پر کسی صدمے یا دکھ کا فقدان بھی پایا جاتا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کی داخلی اور خارجی پالیسیوں پر جہاں ایک خوف خصوصاً تارکینِ وطن میں پایا جاتا ہے وہاں ان سے متعلق کسی یقینی تناطر کے بارے میں ایک ہیجان اور اضطراب بھی بہت زیادہ ہے۔ جہاں وہ اپنی فطری ہلڑ بازی کا مظاہرہ کرے گا وہاں اس کو امریکی اسٹیبلشمنٹ کی پالیسیوں اور مفادات کے بندھن میں بھی جکڑے رہنا پڑے گا۔
خارجہ پالیسیوں میں وہ ایک حد تک روس سے تعلقات بہتر بنانے کی کوشش بھی کرے گا لیکن کمانڈر انچیف بننے کے بعد اس کو یہاں بھی کوئی ’’یوٹرن‘‘ لینا پڑ سکتا ہے۔ پاکستان اور ہندوستان کے بارے میں اس نے جو بیان بازی کی ہے، صدر بننے کے بعد شاید وہ اس پر قائم نہیں رہ سکے گا، خصوصاً پینٹاگان (جو امریکہ کا جی ایچ کیو ہے) کی افعانستان، پاکستان اور پورے خطے میں جو حکمت عملی (Strategy) چل رہی ہے اس میں کوئی بہت بڑا بدلاؤ شاید ممکن نہیں ہوگا۔ کیونکہ امریکی صدر جتنا بھی طاقتور ہو اصل طاقت کا سرچشمہ فوج اور ریاست کے کلیدی ادارے ہی رہتے ہیں۔ چین کے ساتھ جہاں وہ تجارتی مخاصمت کی کوشش کرے گا وہاں اس کے معیشت دان اس کو یہ بھی بتائیں گے کہ چین نے اپنے زرمبادلہ کے ذخائر کا بڑا حصہ جو امریکی خزانے کے ہزاروں ارب ڈالر کے بانڈز کی صورت میں رکھا ہوا ہے اس سے امریکہ کو بھی (بالواسطہ طور پر) روزانہ ایک ارب ڈالر کا فائدہ ہوتا ہے اورڈالر کے ابھی تک عالمی کرنسی کے طور پر جاری رہنے میں اس چینی پالیسی کا فیصلہ کن کردار ہے۔ شام میں اوباما نے مداخلت سے گریز کیا کیونکہ امریکی ریاست میں اسکی سکت ہی نہیں تھی لیکن ٹرمپ دور میں بھی امریکہ، شام کو یکسر روس کے حوالے کرکے مکمل فرار اختیار نہیں کرسکے گا۔ کیونکہ اس سے پورے خطے میں پسپائی ایک مسلسل پالیسی بن جائیگی۔
ٹرمپ کی بڑھک بازیوں کی پرکھ اور قوت کا امتحان ایران کے طرف پالیسیوں میں ہوگا۔ اگر ہم ٹرمپ کے ’فرمانوں‘ کا جائزہ لیں تو اس نے ایران کے ساتھ اوباما دورکی سب سے بڑی کامیابی سمجھے جانے والے جوہری معاہدے کو منسوخ کرنے کا ارادہ کیا ہو ا ہے۔ گو یہ معاہدہ بھی امریکی سامراج کی موضوعی کمزوری اور بحران کی ہی غمازی کرتا ہے۔ لیکن اگر ڈونلڈ ٹرمپ اس معاہدے کو منسوخ کرتا ہے تو اسکے مضمرات امریکی خارجہ پالیسی کے لیے کہیں زیاہ تباہ کن اثرات مرتب کریں گے۔ جن چار افراد کے وزیرِ خارجہ بنائے جانے کا امکان ہے ان میں سے تین انتہائی جارحانہ انداز میں ایران سے اس معاہدے کومنسوخ کرنے کو نئی خارجہ پالیسی کی پہلی ترجیح بنانے کے لیے اوتاولے ہورہے ہیں۔ لیکن اس معاہدے (JCPOA) میں صرف امریکہ اور ایران ہی دستخط کرنے والی پارٹیاں نہیں ہیں بلکہ 7 دوسرے ممالک، جن میں اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے پانچ ممبران، جرمنی اور یورپی یونین بھی اس معاہدے کے اراکین میں شامل ہیں۔ ابھی بھی باقی تمام ممالک ایران سے اپنے مالی مفادات کے تحت کاروبار اور تجارت کررہے ہیں۔ جبکہ واشنگٹن کی ضد پر ابھی تک امریکی کمپنیوں کو اجازت نہیں ملی ہے۔ اس لیے روس، چین اور یورپی ممالک شاید امریکی دباؤ کے باوجود بھی ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد نہیں کریں گے۔ اکتوبرمیں یورپی یونین نے ایران کے بڑے بینک ’’صدیرت‘‘ پر پابندی ختم کردی ہے جس سے اب وہ ان ممالک میں بینکاری کررہا ہے۔ پچھلے ہفتے فرانس کی اجارہ داری ’’ٹوٹل‘‘ نے شمالی ایران میں گیس نکالنے کا 4.8 ارب ڈالر کا ٹھیکہ حاصل کرلیا ہے۔ روس ایران کے ساتھ اسلحے کی فروخت کے منافع بخش معاہدے کرتا چلا جارہاہے۔ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کے خاتمے پر یورپ اور امریکہ کے درمیان تجارتی اور سیاسی تضادات شدت اختیار کرسکتے ہیں کیونکہ ٹرمپ اگر ’’قوم پرستانہ‘‘ شاونزم کی پالیسی جبر سے لاگو کرنے کی کوشش کرتا ہے تو یورپی سرمایہ دار بھی اپنے مالی مفادات کے لیے اس بحرانی عہد میں اس کو انکار کرکے مسترد کرسکتے ہیں۔
دوسری جانب ا س معاہدے کے خاتمے سے جس فریق کو زیادہ تقویت ملے گی وہ ایران کے اپنے سخت گیر ملاں اشرافیہ کے دھڑے ہیں۔ جن ملاؤں نے ’امریکی شیطان‘ دشمنی کے جواز پر اپنی ساری بنیاد پرستانہ سیاست اور مالیاتی اقتدار مسلط کروایا وہ اس معاہدے سے ناخوش ہیں کیونکہ اس معاہدے سے جہاں اسرائیلی حکمرانوں اور امریکی قدامت پرست سیاستدانوں کی نظریاتی ساکھ مجروع ہوئی ہے وہاں ایرانی سخت گیر ملاؤں کو بھی تو امریکہ دشمنی کو کسی حد تک ترک کرنے کا ایک سیاسی جھٹکا لگا ہے۔ معاہدہ منسوخ ہونے پر یہ ایرانی مذہبی اشرافیہ سار الزام امریکہ پر دھر سکے گی اور ان کے جنونی حصے ایٹمی پروگرام کو خفیہ طور پر زیرِ زمین لے جا کر بم اور اسلحہ بنانے کا عمل بھی کرواسکتے ہیں۔ ظاہری طو ر پر ایرانی حکمران ’’ ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ‘‘ ( NPT) کے معاہدے پر قائم رہتے ہوئے اپنی واردات جاری بھی رکھ سکتے ہیں اور باقی ممالک ان پر پابندیاں اپنے مالیاتی اور تجارتی مفادات کی وجہ سے لگانے سے گریز بھی کریں گے۔ اس کیفیت میں امریکی سامراجیوں کے پاس پھر صرف فوجی حملے کی گنجائش باقی رہ جائے گی۔ دوسری جانب امریکی سامراجی اگر شام میں براہِ راست زمینی جارحیت نہیں کرسکے تو ایران جس کی ایک بڑی فوج اور اسلحہ سے لیس ریاست ہے وہاں بھی جارحیت سے قبضہ کرناممکن نہیں رہا ہے۔ لیکن جہاں امریکی سامراج اور تاریخ کی سب سے بڑی فوجی اور اقتصادی سلطنت آج اس نظام کی تنزلی سے نحیف اور لاغرہوچکی ہے وہاں ایران کے ملاؤں کا اقتدار بھی اتنا مضبوط نہیں جتنا میڈیا میں ظاہر کیا جاتا ہے۔ لیکن اب مسئلہ یہ ہے کہ ایران کے اندر ابھرنے والی کھرب پتی ملاں اشرافیہ کے مختلف دھڑوں (جن کو میڈیا ’’اصلاح پسند‘‘ اور ’’قدامت پسند‘‘ میں تقسیم کرتا ہے) کے درمیان تضادات تصادم میں بدلتے جارہے ہیں۔ قدامت پسند اشرافیہ کے دھڑے مزید جبرسے ایران کے محنت کشوں اورنوجوانوں کے دباناچاہتے ہیں جن کی بڑی تحریکوں کی ایک تاریخ ہے۔ ان میں سے خصوصاً 1996ء اور 2009ء کی تحریکوں نے ایرانی ملاں اشرافیہ کو جھنجوڑ کر رکھ دیا تھا۔ دوسری جانب صدر روحانی کی قیادت میں ’’اصلاح پسند‘‘ اشرافیہ منڈیاں اورسرمایہ کاری کھول کر مروجہ سرمایہ دارانہ تراکیب کے ذریعے معاشرے میں تحریک کو زائل کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ امریکہ سے جوہری معاہدہ بھی اسی کاوش کا حصہ ہے۔ معاشی پابندیوں کے خاتمے پر ایران کے عوام کے کچھ حصوں نے اس امید کے ساتھ جشن منایا تھا کہ شایدان کی روزمرہ کی ذلتوں والی زندگی میں کوئی بہتری آ سکے۔
اگر سرمایہ داری کے تحت ایرن میں سرمایہ کاری اور معاشی ترقی وشرح نمو بڑھتی بھی ہے تو یہ جس قسم کی امارت اور غربت کی تفریق شدید کرے گی اس سے سماجی تضادات پھٹ کر ایک نئی تحریک کو جنم دے سکتے ہیں۔ اگرسخت گیروں کی جبر کو شدید کرنے کی پالیسی اپنائی جاتی ہے تو ایران کے عوام کہیں زیادہ بڑے آتش فشاں کے پھٹنے کے دھماکے جیسی بغاوت کرکے ایک انقلابی تحریک کو جنم دیں گے۔
ٹرمپ اور ہیلری دونوں کا معاشی اوراقتصادی پروگرام ایک ہی تھا۔ برنی سینڈرزنے امریکہ جیسے ملک میں سوشلزم کا نعرہ دیا جہاں چندبرس قبل تک سوشلزم اور کمیونزم تضحیک آمیز الفاظ سمجھے جاتے تھے۔ ٹرمپ نے رائج الوقت سیاسی اور ریاستی ڈھانچے کو گالی دے کر جس تبدیلی کی بات کی ہے اس کا انجام باراک اوباما کے تبدیلی کے نعرے زیادہ مختلف نہ ہوگا۔ امریکی آبادی کی اکثریت غربت اور محرومی کاشکار ہورہی ہے ایک غصہ ہے جس کو ٹرمپ نے استعمال کیا ہے لیکن ٹرمپ جب پہلوں سے بھی زیادہ ناکام اور نامراد ثابت ہوگا تو پھر یہ غصہ ایک تحریک میں بدل کر سوشلزم کے کسی انقلابی متبادل کی تلاش میں ابھرے گا۔ برنی سینڈز نے سوشلزم کو امریکہ میں مقبول کردیا اور ٹرمپ کا اگر اس سے مقابلہ ہوتا تو سینڈزنے جیت جاناتھا۔ لیکن مسئلہ اس نظام میں جیت کا نہیں رہا، مسئلہ نظام کو ایک انقلاب سے مٹانے کا ہے۔
متعلقہ: