تحریر: عمر شاہد
کچھ ہفتے قبل کینیڈا میں ہونے والے دنیا کی سات بڑی معاشی طاقتوں کی تنظیم ’جی سیون‘ کے اجلاس میں ٹرمپ اور دوسرے سربراہان مملکت کے مابین تجارتی پالیسیوں کے اختلافات پر شدید تناؤ دیکھنے میں آیااور ٹرمپ یہ اجلاس ادھورا ہی چھوڑ کر چلا گیا۔ اجلاس کے بعد ٹرمپ کے معاشی مشیر لیری کڈلو نے کینیڈا کے وزیر اعظم کی پریس کانفرنس کو غداری اور کمر میں چھرا گھونپنے سے تشبیہ دی۔ اسی طرح ٹرمپ کے ایک دوسرے مشیر نے یہاں تک کہا کہ ’’کوئی بھی غیر ملکی سربراہ جو صدر ٹرمپ کے خلاف منفی ڈپلومیسی کی پالیسی پر گامزن ہے اور جس نے بھی صدر کی کمر میں چھرا گھونپنے کی کوشش کی اس کے لئے جہنم میں خاص جگہ تیار کی جا چکی ہے۔‘ ‘ عالمی سطح پر سرمایہ دارو ں کی اعلیٰ تنظیموں میں عموماً ایسے بیانات دینے سے گریز کیا جا تا ہے ۔ آپسی رنجشوں کو منافقت اور ریاکاری کو پر فریب سنہرے حروف میں چھپا کر دنیا کو ترقی، خوشحالی اور استحکام کے قصیدے سنائے جاتے ہیں لیکن اب ان اجلاسوں میں ان سرمایہ داروں کے باہمی تضادات کھل کر عوام کے سامنے آرہے ہیں۔
1975ء میں قائم کی جانے والی جی سیون کی معاشی تنظیم کے قیام کا مقصد آزاد تجارت اور باہمی تعاون کو فروغ دینا تھا مگر اب یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان تنظیموں کے اجلاس ٹرمپ اور دیگر ممالک کے سربراہان کے مابین اکھاڑے بن چکے ہے ۔ اس اجلاس میں 31 مئی کو ٹرمپ نے اپنے ہمسایہ دوست ملک ’کینیڈا‘ سمیت دیگر جی سیون ممالک کے ایلومینیم اور سٹیل کی درآمد پر سخت ٹیرف لگانے جیسا قدم اٹھایا تھا۔ ’’آزاد منڈی‘‘ کے خلاف اس کھلے اقدام کو معاشی ماہرین نے سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ ٹرمپ نے اس تنقید کے جواب میں یکم جون کو اپنے ایک ٹویٹ میں کہا کہ’’ کینیڈا کی وجہ سے ہماری زراعت بری طرح متاثر ہو رہی ہے اور ہمارے کسان سخت پریشانی کا شکار ہیں۔ ‘‘ دوسرے الفاظ میں اس نے دیگر شعبوں میں بھی اس طرح کے اقداما ت کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ 15 جون کو ٹرمپ نے 50 ارب ڈالر کے لگ بھگ چین کی مصنوعات پر سخت ٹیرف لگانے کا آرڈر جاری کیا ۔ ٹرمپ کے ان اقدامات کے خلاف تمام متاثرہ ممالک نے بھی امریکی مصنوعات کی درآمد پر ٹیرف لگانے کے اعلانات کئے۔ یہ اقدامات 1930ء کے گریٹ ڈیپریشن کے بعد ایک نئی ’تجارتی جنگ‘ کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ پے در پے تضادات مجتمع ہو کر ایک بار پھر عالمی منظر نامے پر نمودار ہوئے ہیں۔
بحران کے باعث عالمی معیشت میں گراوٹ کی وجہ سے کم ترین پیداواری گروتھ اور گلوبل ٹریڈ کی شرح ترقی، سرمائے کی شرح منافع اور نئی سرمایہ کاری میں بتدریج کمی دیکھی جا سکتی ہے۔ ان عوامل کی وجہ سے بورژوازی اس بحران سے نکلنے کے لئے راستوں کی تلاش میں ہے لیکن ان کے پاس آگے کا راستہ نہ ہونے کی وجہ سے ایک بار پھر یہ ماضی کے نسخوں کو آج کے عہد میں رائج کرنے کی جانب گامزن ہیں۔ اعدادوشمار کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ حقیقت عیاں ہے کہ تمام تر بحالی کے دعووں کے باوجود حقیقی طور پر معاشی صورتحال میں کوئی بڑی تبدیلی رونما نہیں ہوئی۔ عالمی تجارت کے حوالے سے عالمی ہوائی ٹرانسپورٹ ایسو سی ایشن کی اپریل 2018ء کی رپورٹ کے مطابق دو سالوں میں توسیع کے بعد رواں سال کے پہلے تین ماہ میں عالمی ہوائی کارگو کی شرح میں ٹھہراؤ دیکھا گیا ہے۔ یورپ اور ایشیا میں واضح کمی نوٹ کی گئی ہے۔ عالمی تجارت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والے کنٹینر بحری جہازوں کی آمدورفت کی شرح اس وقت 2017ء سے کم ہے اور یہ ابھی تک 2007ء سے پہلے کی شرح پر بھی نہیں پہنچ سکی۔ جون 2018ء کے عالمی بینک کے ’عالمی معاشی تناظر‘ کے مطابق ’’ایک عشرے پر محیط عالمی مالیاتی بحران سے بحالی کے باوجود عالمی تجارت میں توسیع بحران سے پہلے کی شرح پر نہیں پہنچ سکی۔‘‘ رپورٹ پرکے دیباچے میں عالمی بینک کے سینیئر ڈائریکٹر اور نگران چیف اکانومسٹ نے دلچسپ انداز میں لکھا کہ ’’سرمایہ داری کے ایک صدی کے تجربے سے عیاں ہے کہ ہرعشرے کے بعد مالیاتی مارکیٹ میں بحران پیدا ہو تاہے اور اب پچھلے بحران کو ایک عشرہ مکمل ہو چکا ہے۔‘‘ فنانشنل ٹائمز کے معیشت دان مارٹن وولف نے اپنے حالیہ آرٹیکل میں موجودہ معاشی بحالی کو لرزتی ہوئی بنیادوں پر کھڑا قرار دیتے ہو ئے کہا کہ’’ ابھی تک دنیا کے قرض اور جی ڈی پی کے تناسب میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ محض اس کی ہیئت میں تبدیلی ہوئی ہے۔ گھریلو اور مالیاتی شعبے سے قرض ریاستوں اور غیر مالیاتی کارپوریشنز کی جانب منتقل ہو چکا ہے۔ لہٰذا تھوڑے وقت کے لئے ایک نحیف ریکوری کی بات کی جا سکتی ہے لیکن لمبے عرصے میں یہ ایک نئے خطرے کی نشاندہی ہے۔‘‘ سرمایہ دارانہ معیشت کے ایک اور اہم انڈیکیٹر ’شرح منافع ‘ کے رحجان کا مشاہدہ کیا جا ئے تو پچھلے عرصہ میں کارپوریٹ منافعوں میں کچھ اضافہ ہو اجس کی بنیادی وجہ پھر ٹیکسوں میں چھوٹ تھی۔ لیکن یہ عمل لمبے عرصے تک جاری نہیں رکھا جا سکتا جس کی بنیادی وجہ حقیقی بنیادوں پر شرح منافع میں بڑھوتری نہ ہونے کی وجہ سے قرضوں کی لاگت میں اضافہ ہو سکتا ہے جس سے ایک بار پھر ایک نئے قرضوں کے بحران کا مسئلہ لاحق ہو سکتا ہے ۔ اس وقت کارپوریٹ سیکٹر کے قرضو ں کی سطح بھی تاریخی طور پر بلند ہے۔ مرکزی بینکوں کی جانب سے سستے روپے کی فراہمی ، نرم مالیاتی پالیسیوں ، سستے خام مال اور کئی اہم ریلیف پالیسیوں کے باوجود پیداواری شعبے گراوٹ کا شکار ہیں جس کی اہم وجہ ان شعبوں میں سرمایہ کاری کی شرح کا منفی رحجان ہے۔ اگر نام نہاد ابھرتی ہوئی منڈیوں اور ترقی پذیرمعیشتوں (EMDE) کا جائزہ لیا جائے تو یہاں بھی بحران کے اثرات واضح دیکھے جا سکتے ہیں۔ حالانکہ حالیہ عالمی بینک کی رپورٹ میں ان ممالک میں 2018ء میں 4.5 فیصد گروتھ کا تخمینہ لگایا گیا ہے لیکن یہاں بڑھتے ہوئے قرضوں ، تجارتی خساروں ، خام اشیا کی کم قیمتوں اور عالمی تجارتی جنگ کے باعث مستحکم ترقی مشکل دکھائی دے رہی ہے۔ اس گروپ میں شامل چند اہم ممالک کی معیشتوں میں شگاف کی علامات دیکھ جا سکتی ہیں۔ ارجنٹینا جیسی معیشت کو بھی کریش ہونے سے بچانے کے لئے آئی ایم ایف سے 50 ارب ڈالر کا بیل آؤٹ پیکج لینے کے لئے رجوع کرنا پڑا۔ کرنسی کی گراوٹ کی وجہ سے یہ ملک عالمی مالیاتی منڈیوں میں یہ کم شرح سود پر بانڈز جاری کرنے کے قابل نہیں رہا۔ یہی صورتحال برازیل کی ہے جو کہ اپنی معیشت کی بحالی کے لئے سخت جدوجہد میں سرگرم عمل ہے۔ اگرچہ اس کے قرضوں کی شرح سود پوری دنیا میں سب سے زیادہ ہے لیکن پھر بھی یہ مزید قرضوں کی جانب راغب ہو رہا ہے۔ کارپوریٹ سرمایہ کاری میں تیزی سے کمی کی وجہ سے جنوبی افریقہ کی معیشت پچھلے 9 سالوں میں گراوٹ کا شکار ہو ئی ہے۔ ترکی میں افراط زر کی شرح 12 فیصد تک جا پہنچی ہے جس کی وجہ سے غیر ملکی سرمایہ کاروں نے اپنی رقوم تیزی سے بیرون ملک منتقل کرنا شروع کر دی ہیں۔ اس سے ترکی کے مرکزی بینک کو شرح سود 18 فیصد تک بڑھانا پڑی۔ انڈونیشیا میں سب سے شدید معاشی انتشار دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کے روپے کی قدر ڈالر کے مقابلے میں نفسیاتی حد 14000 سے بھی نیچے گر چکی ہے۔ رواں سال مرکزی بینک کی جانب سے روپے کی قدر کو بحال رکھنے کے لئے 7 ارب کے ذخائرفروخت کرنا پڑے اور اس نے شرح سود میں اضافہ کیا۔ ہارورڈ کے معیشت دان کیرمن رینہارٹ نے اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’’2008ء کے بعد سے اب ابھرتی ہوئی معیشتوں کو سخت مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس کی بنیادی وجہ ان کے قرضوں میں ایک عشرے میں چار گنا اضافہ ہونا ہے۔‘‘ چین میں بھی معاشی گراوٹ کے آثار دیکھے جا سکتے ہیں۔ رواں سال چین کی معاشی سرگرمیاں زیادہ تر پیداوار کے ملکی استعمال پر مرکوز رہیں۔ پچھلے دو سالوں میں زائد پیداواری صلاحیت میں کمی کے بعد اس سال صنعتی پیداوار میں کچھ استحکام دیکھا گیا۔ لیکن رواں سال کی پہلی سہ ماہی میں 2001ء کے بعد پہلی دفعہ کرنٹ اکاؤنٹ خسار ہ ریکارڈ کیا گیا جس کا آسان زبان میں مطلب برآمدات میں کمی اور درآمدات میں اضافہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مرکزی بینک کی جانب سے قرضوں کے بہاؤ اور شیڈو فنانسنگ جیسی پالیسیوں سے موجودہ معاشی سرگرمیوں کو استحکام دینے کی کوشش کی گئی۔
عالمی معاشی صورتحال کا جائزہ اس حقیقت کو ظاہر کرتا ہے کہ پائیدار اور دیر پا ترقی کے امکانات کم ہیں ۔ اقتصادی پالیسیوں میں تحفظ تجارت (Protectionism) کی با ز گشت سنائی دے رہی ہے۔ ایک لمبے عرصے تک سرمایہ دارانہ نظام میں سرمائے کی آسان منتقلی اور آزاد تجارت کے لئے پالیسیاں مرتب کیں۔ لیکن ٹیرف اور تجارت پر عمومی معاہدے ’GATT‘ کے 70 سال بعد اس کا بنیادی خالق امریکہ ہی اب اس کی نفی کرنے کی جانب راغب ہے۔ ’GATT‘ کے بعد ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن’WTO‘ کو آزاد تجارت کے لئے متعارف کروایا گیا اور اس آزاد منڈی کو پسماندہ ممالک کے بدترین استحصال کے لئے استعمال کیا گیا۔ان ممالک کی پسماندہ صنعت عالمی منڈی میں ترقی یافتہ ممالک کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں تھی لہٰذا یہ معاشی طور دیوالیہ اور غلام ہوتے چلے گئے۔ اس عمل کو مارکس نے کمیونسٹ مینی فیسٹو میں یوں بیان کیا تھا کہ’’بورژوا طبقے کا جہاں کہیں غلبہ ہوا اس نے تما م جاگیر دارانہ، سر قبیلی اور دیہاتی رومانوی تعلقات کا خاتمہ کر دیا اور بے شمار ناقابل ضبط سند یافتہ آزادیوں کی جگہ ریا اور مکر سے بھری واحد آزادی قائم کی اور وہ ہے تجارت کی آزادی ۔‘‘
لیکن امریکہ جیسے ترقی یافتہ ترین ملک کی جانب سے آزاد تجارت پر ایسے حملے سرمایہ داری کے تاریخی زوال کی علامت ہیں۔ دنیا بھر کے سنجیدہ بورژوا معیشت دان ایک نئی تجارتی جنگ کے آغاز پر ٹرمپ کو سخت تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں کیونکہ اس سے سارے سرمایہ دارانہ نظام کا زوال ہی شدید تر ہو جائے گا۔ نیویارک ٹائمز میں چھپنے والے مضمون ’تجارتی جنگ کا خوف اور عالمی معیشت کا تناؤ‘ میں مصنفین نے تجارتی جنگ کو پورے نظام کے لئے ایک خطرہ قرار دیا ہے ۔ اسی طرح اکانومسٹ نے بھی اپنے مختلف مضامین میں اسے ایک غلط اور ناکام پالیسی سے تشبیہ دی ہے۔ جے پی مارگن نے اسے عالمی معیشت کے لئے سب سے بڑاخطرہ قرار دیا ہے۔ آئی ایم ایف کے مایوریس اوبسفلڈ نے حکمرانوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ایک ممکنہ تجارتی جنگ کے ابتدائی آثار منظر عام پر آ گئے ہیں۔ دوسری عالمی جنگ کے بعددو طرفہ قواعد و ضوابط پر مبنی تجارتی نظام نے دنیا بھر میں غیر معمولی ترقی کو فروغ دیا۔ اب اس کے مضبوط ہونے کی بجائے اس کے ٹوٹنے کا آثار منڈلا رہے ہیں۔‘‘ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ دنیا میں ایک معاشی و عسکری قوت بن کر ابھرا تھا۔ اس نے اپنی ترقی یافتہ صنعت کی پیداوار کو کھپانے کے لئے پوری دنیا میں آزاد تجارت کو فروغ دیتے ہوئے نئی منڈیاں حاصل کیں۔ برطانوی سامراج کے برعکس اس نے اپنے تابعدار عالمی اداروں کے ذریعے براہ راست نوآبادیاتی نظام کی بجائے آزاد تجارت کے ذریعے دنیا کے کئی ممالک کو فتح کرنا شروع کر دیا۔ مالیاتی سرمائے نے بے ہنگم انداز پر کئی ممالک کو تاراج کرتے ہوئے یہاں نئے سرمایہ دارانہ سماج کی بنیادی رکھیں۔ لیکن تجارت کی آزادی کی حدود وہیں تک ہوتی ہیں جہاں سامراجی ممالک کے لئے یہ فائدہ مند ہو۔ مثال کے طور پر ٹرمپ سے پہلے اوباما اور بش بھی ایسے اقدامات کر چکے ہیں۔ یورپین یونین نے بھی چین کی کئی ایک مصنوعا ت کی درآمد پر کئی طرح کی قدغنیں لگائی ہوئی ہیں۔ لیکن اب امریکی سرمایہ داری کا بحران اس قدر شدید ہو گیا ہے اور اس پر چین جیسے ممالک کی سستی مصنوعات کی بمباری اس قدر شدید ہے کہ مقامی صنعت کو بچانے کے لئے ریاستی پروٹیکشنزم کی پالیسیو ں کی باز گشت ایک بار پھر سنائی دے رہی ہے۔ ان پالیسیوں کے پیچھے حقیقی وجہ پھر عالمی معاشی بحران ہے۔ کیک کا سائز کم ہونے کی وجہ سے سب اپنے حصے کے لئے جدوجہد تیز کر رہے ہیں ۔
آئی ایم ایف کے اعدادوشمار کے مطابق جی ڈی پی کی بنیاد پر 1980ء میں یورپ کا عالمی معیشت میں حصہ 34 فیصد تھا جو کہ اب کم ہو کر 22 فیصد رہ چکا ہے۔ 2022ء تک یہ مزید کم ہو کر 12فیصد تک رہ جائے گا۔ اسی طرح امریکہ جس کا حصہ 1960ء تک 40 فیصد تھا وہ بھی کم ہو کر 23 فیصد رہ چکا ہے۔ مغربی ممالک کی بجائے ایشیائی ممالک کا حصہ بڑھنے کی طرف گیا ہے جس کی واضح مثال چین کی ہے جس کا عالمی معیشت میں حصہ 1950ء تک 4 فیصد تھا جو اب بڑھ کر 14.84 فیصد ہو چکا ہے۔ اس میں مزید اضافے کے امکانات ہیں۔ ترقی کے عہد میں سرمایہ داری کے علمبردار لبرلزم، آزاد خیالی اور آزاد منڈی کے نعرے لگاتے نہیں تھکتے لیکن جونہی بحران میں داخل ہوتے ہیں تو ان کا اصل چہرہ واضح ہو جاتا ہے ۔ ایک لمبے عرصے تک مغربی اور خلیجی سرمایہ دار‘ تارکین وطن کی محنت سے اپنے منافعوں میں اضافہ کرتے رہے لیکن آج انہی تارکین وطن کو یہ روزگار پر ڈاکہ ڈالنے والوں سے تشبیہ دیتے ہیں۔
1926ء میں برطانوی پارلیمنٹ میں ایک شاونسٹ، ملٹرسٹ اور پروٹیکشنسٹ پالیسیوں کا حامی ڈاکٹر ہارڈن گیسٹ بھی ٹرمپ کی مانند پروگرام پیش کر رہا تھا۔ اس کے جواب میں ٹراٹسکی نے لکھا تھا کہ ’’یہ بالکل واضح ہو چکا ہے کہ آزاد تجارت کے دن واقعی ختم ہو رہے ہیں۔ آزادتجارت کے خاتمے سے لبرلزم کا خاتمہ بھی صاف ظاہر ہے۔ لیکن برطانیہ اس کا حل صرف پروٹیکشنزم کی پالیسی میں ہی تلاش کر رہا ہے۔ ایک ترقی پذیر سرمایہ دارانہ ملک کے لئے ایسی پالیسی لازمی اور ترقی پسند مرحلہ ثابت ہو سکتی ہے لیکن ایک قدیم صنعتی ملک، جس کی صنعت کی بنیادیں عالمی منڈی میں ہوں اور جس کا ایک جارحانہ اور فتح مند کردار رہا ہو، کے لئے پروٹیکشنزم کی پالیسی کا آغاز اس کی موت کے عمل کے آغاز کی تاریخی گواہی ہے۔‘‘
یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ سرمایہ داری کے بحران کی اصل وجہ پھر اس کے اپنے تضادات ہیں جو طرز پیداوار میں موجود ہیں۔ سرمایہ داری نے سامراجیت ، منڈیوں کے پھیلاؤ، جنگوں، قرضوں اور دیگر حربوں کے ذریعے ان تضادات کو ہمیشہ حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن یہ تضادات مجتمع ہو کر ایک نئے بحران کی شکل میں نمودار ہوتے ہیں۔ یہ حالت اس نئی تجارتی جنگ کی ہے جو عالمی سرمایہ داری کی زوال پذیری کو تیز تر ہی کرے گی۔ ٹرمپ کے جواب میں متاثر ممالک بھی ٹیرف لگائیں گے جس سے امریکی معیشت کے مسائل بڑھ جائیں گے۔ ٹراٹسکی نے اسی کیفیت کو ’سرمایہ داری کا نامیاتی بحران‘ قرار دیا تھا۔ مارکس کے الفاظ میں پروٹیکشنزم ایک قدامت پرست جبکہ آزاد تجارت ایک تباہ کن پالیسی ہے۔ لہٰذا اصل مقصد اس نظام کو اکھاڑ کر ایک متبادل نظام یعنی سوشلزم کی جدوجہد ہی ہے۔