| تحریر: لال خان |
یوں تو ایک طویل عرصے سے پاک افغان سرحد کے مختلف مقامات پر دہشت گردی، فوجی آپریشن اور ڈرون حملوں کی بربادیاں جاری تھیں، لیکن اس ہفتے افغانستان اور پاکستان کی سرکاری فوجوں کے درمیان جھڑپیں اورتصادم اس کہرام اور خونریزی میں ایک سنگین اضافے کی نشاندہی کرتی ہیں۔ صرف چند روز کی جھڑپوں کے بعد ہی امریکی سامراج کے دباؤ کے تحت اس آگ کو وقتی طور پر ٹھنڈا تو کیا گیا ہے، لیکن دونوں ممالک کے ریاستی آقاؤں کے درمیان منافرتوں اور مفادات کے تصادم کی چنگاریاں ابھی تک گُل نہیں ہوئیں‘ یہ پھر بھڑک سکتی ہیں۔
ویسے تو افغانستان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہاں ایک جمہوری حکومت ہے جو انتخابات کے ذریعے اقتدار میں آئی ہے اور اسکی خارجی اور داخلی پالیسیاں وہ خود استوار کرتی ہے، لیکن اگر افغانستان میں آج کے زمینی حقائق کا جائزہ لیا جائے تو یہ باتیں بہت مضحکہ خیز ہیں۔ حال ہی میں امریکی جرنیلوں اور فوجی ماہرین نے صدر اوباما پر زور دیا ہے کہ افغانستان سے سامراجی انخلا کا پروگرام روک دیا جائے اور بیشتر ماہرین کی یہ رائے ہے کہ اگر ہیلری کلنٹن صدر بن گئی تو افغانستان میں مزید فوجی بھیج کر اس جارحیت کو مزید تیز کرے گی۔ لیکن افغانستان کی حکومت کو اپنا وجودبھی سامراجی فوجوں کے انخلا سے قائم رہتا ہوا نظر نہیں آتا۔ سامراجی سنگینوں کے تخت پر بیٹھ کر کٹھ پتلی حکومت سے حاکمیت تو مل جاتی ہے، چین نہیں نصیب ہوتا! اس حکومت کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ افغانستان میں صرف ایک سامراج کی مداخلت نہیں ہے بلکہ مختلف عالمی اور علاقائی سامراجی طاقتوں کی بھی گہری مداخلت ہے، جن کے مفادات مشترک بھی ہیں اور متضاد بھی! کچھ عرصے قبل جب ’ماہرین ارضیات‘ کی تحقیق سامنے آئی ہے کہ افغانستان میں تین ہزار ارب ڈالر سے زائد کے صرف معدنی وسائل پائے جاتے ہیں تو سامراجی اجارہ داریاں اس بدنصیب خطے پرٹوٹ پڑی ہیں۔ ان کارپوریٹ سرمایہ داروں نے اپنے تابع سیاست دانوں اور ریاستی آقاؤں کو اس خانہ جنگی میں دھکیلنا شروع کر رکھا ہے۔ ان سامراجی قوتوں کی مقامی پروردہ پراکسیاں، حکومتوں اور ریاستوں میں بھی پائی جاتی ہیں اور طالبان اور دوسرے متحارب جنگجو گروہوں میں بھی ملتی ہیں۔ ان پر سرکاری اور خفیہ سرمایہ کاری سے‘ یہ متحارب سامراجی ریاستیں اور ان کے حکمران طبقات اپنے مالیاتی مفادات کو بڑھوتری دینے کے لیے ایک تیزتگ ودو میں لگے ہوئے ہیں۔ یہاں نہ صرف مغربی سامراجیوں کی جارحیت جاری ہے بلکہ چینی، ہندوستانی، ایرانی اور سعودی پراکسیاں بھی اس آگ اور خون کے کھیل کو مزید بھڑکا رہی ہیں۔ جب ان مختلف سامراجی قوتوں کے درمیان مفادات کی کہیں مفاہمت ہوجاتی ہے تو یہ اور ان کی پراکسیاں حلیف بن جاتی ہیں، لیکن جب سودے نہ بن سکیں تو پھر جنگی تصادم شروع کروادیا جاتا ہے، جس سے تاراج افغانستان اور اس خطے کے محنت کش اور غریب ہی ہورہے ہیں۔
اس ہولناک کھلواڑ میں نہ صرف فوجی حکمت عملی جاری ہے بلکہ رائے عامہ بنانے اور افغانستان کے باسیوں میں اپنے اپنے حریف سامراجیوں اور ریاستوں کے خلاف نفرتوں کو ابھارنے کا کاروبار بھی زوروں پر ہے۔ رائے عامہ بنانے والے بیشتر ادارے جن میں میڈیا‘ ملاں‘ ریاستی اہلکار‘ سماجی کارکنان وغیرہ شامل ہیں اس کام پر اپنے اپنے داخلی اور خارجی آقاؤں کے مفادات کے لئے بھاری اجرتوں پر معمور ہیں۔ یہیں پر پاکستانی ریاست کا کردار بھی سامنے آتا ہے۔
افغانستان میں 1978ء کے افغان انقلاب کو تباہ کرنے کے لیے امریکی سامراج نے جو خفیہ جارحیت شروع کروائی اس کو (ڈالر) جہاد کا نام دیا گیا‘ اس میں پاکستان کے ظالم، رجعتی اور سفاک فوجی آمر ضیاء الحق کے ذریعے پاکستان کے ریاستی اداروں کو پوری طرح ملوث کردیا گیا۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد امریکی سامراجی تو جزوی طور پرواپس چلے گئے، لیکن جو آگ وہ لگا کر گئے تھے وہ بھڑکتی ہی رہی۔ اس ردانقلابی قتل وغارت کو جاری کرنے کے لیے انہوں نے جو منشیات اور خصوصاً ہیروئین کا نیٹ ورک اور دوسرے مجرمانہ کاروبار شروع کروائے‘ وہ پھیلتے پھولتے رہے۔ افغانستان تو کیا پاکستان میں بھی ڈالر جہاد کے مضمرات سے منشیات، بنیاد پرستی اور کلاشنکوف کلچر ایک ناسور کی طرح پھیلانا شروع ہوگیا، جو اب کالے دھن کے طور پر اس ملک کی معیشت کے جسم کے اندر ایک بھیانک ناسوربن کر پل رہا ہے۔ اس طرف سے جو پراکسیاں بنائی گئی تھیں‘ وہ اس کالے دھن کی کرامت سے سائیکلوں سے اٹھ کر جہازوں اور بھاری گاڑیوں کے مالک بن گئے۔ اسلحے اور منشیات کے کاروبار نے ان کو کالے دھنوان بنا دیا تو انہوں نے اپنے منشیات، اسلحے اورخاص طور پرمختلف ریاستوں کی مداخلت پر مبنی دہشت کی فروختگی کے کاروبار کو وسعت اور جدت بخشی۔ پہلے تووہ اپنی وفاداریاں بیچا کرتے تھے مگرپھر انکو کرائے پر دینے لگے اور زیادہ دام دینے والے گاہکوں کے لیے دشمنیوں اور دوستیوں کو الٹ پلٹ کرتے رہے۔ اسی طرح جہاں مذہب اور مسلکوں کی فرقہ واریت کو اس ڈاکہ زنی کی خانہ جنگی میں استعمال کیا گیا وہیں نسلی اور قومیتی تضادات کو ابھار کر انکے گرد فرقہ بازی اور تصادم کروائے گئے۔ انکے پیچھے مختلف سرمایہ دار ‘اپنی ریاستوں اور پراکسیوں کے ذریعے اپنے منافع خوری کے مفادات بڑھاتے چلے گئے۔
افغانستان میں پشتون، تاجک، ہزارہ، ازبک، ترکمان، بلوچ اور دوسری قومیں اور نسلیں رہتی ہیں۔ جہاں افغانستان میں مرکزی ریاست کا کنٹرول بکھر گیا ہے وہاں یہ ملک ابھی موجود بھی ہے۔ کچھ علاقوں میں پاکستان کے حامی پائے جاتے ہیں اور کچھ خطوں میں پاکستان سے نفرت کرنے والے حاکم ہیں۔ اس لیے افغانستان کا ہر حکمران اس توازن کو برقرار رکھتے رکھتے ہی رخصت ہوجاتا ہے۔ حامد کرزئی تو کابل کے محل اور بیرون ملک دوروں میں اپنی حکمرانی سامراجی پشت پناہی میں گزار گیا۔ لیکن کرزئی نے کبھی کبھی امریکی سامراج کو بھی بیانات میں رگڑ دینے کی پالیسی اپنائی ہوئی تھی۔ اس کا مقصد تو اپنی ’’خود مختاری‘‘ کا ناٹک کرنا تھا، لیکن وہ بار بار امریکی سامراج کے جرنیلوں اور واشنگٹن کے حکمرانوں میں تضادات اور سامراج کے کھوکھلے پن کی بھی عکاسی کرتا تھا۔ اشرف غنی اور عبداللہ کی یہ نا م نہاد مخلوط حکومت میں غنی نے پہلے ہندوستان سے رابطے بڑھائے، بعدمیں پاکستان کے قریب آنے کی کوشش کی‘ جی ایچ کیو، روالپنڈی کے کئی دورے بھی کیے، اب پھر مودی کے دورے کے بعد وہ پاکستان کے خلاف زہر اُگل رہا ہے۔ لیکن پاکستانی حکمرانوں نے بھی (Srategic Depth) ’’تذویراتی گہرائی‘‘ کی پالیسی کو کبھی ترک نہیں کیا۔ اچھے اور برے طالبان کے بیانات کا مطلب حامی اور مخالف طالبان ہوتا ہے، ان کی دہشت گردی سے سروکار نہیں رکھا جاتا، ان کے اہداف معنی رکھتے ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ایسے کئی اطراف کے محاذوں اور متحارب قوتوں کی خانہ جنگی میں امن کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ سامراجی جارحیت سے افغانستان اور پاکستان کے وسیع تر عوام کسی امن اور خوشحالی سے محروم رہے ہیں۔ ان کے چلے جانے سے صورتحال میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئے گی۔ یہ خانہ جنگی سامراجی اور انفرادی لالچ اور لوٹ مار کی لڑائی ہے۔ یہ (بھیانک) مقاصد اس وقت تک جاری رہیں گے، جب تک افغانستان میں اس قسم کے اقدامات نہیں کیے جاتے، جیسے نور محمد ترکئی کی انقلابی حکومت نے روسی فوج کی مداخلت سے قبل افغانستان میں سرمائے، جاگیرداری اور جہالت کی قوتوں کو توڑنے کے لیے شروع کیے تھے۔ لیکن ایسا انقلاب صرف افغانستان میں کامیاب نہیں ہوسکتا، اس کو سامراجیوں کی لگائی ہوئی ڈیورنڈ لائن کی دونوں طرف سے ابھرنا پڑے گا۔
متعلقہ: