| رپورٹ: راہول |
طبقاتی جدوجہد کی جانب سے تین روزہ نیشنل مارکسی سکول (سرما) کا انعقاد 3، 4 اور 5 فروری 2017ء کو سندھ کے تاریخی شہر ٹھٹہ میں کیا گیا۔ ملک بھر سے تلخ معاشی حالات اورتمام تر سفری مشکلات کے باوجود 160 سے زائد انقلابی نوجوانوں نے شرکت کرکے سکول کو معیاری اور مقداری حوالے سے کامیاب بنایا۔
ٹھٹہ سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر ’چلیا‘ نامی علاقے میں کشمیر سے کراچی اور خیبر سے کوئٹہ تک کے ساتھیوں کی آمد نے ایک غیر گنجان علاقے کو اپنے انقلابی عزم اور انقلابی مارکسزم کے نظریات کی روشی سے منور کردیا۔ سکول میں شرکت کرنے والے تمام ساتھیوں نے جس لگن اور سنجیدگی سے بحث و مباحث میں حصہ لیا وہ ایک سنجیدہ انقلابی تنظیم کی حقیقی ضمانت تھی۔ سکول میں شرکت کے لئے تمام کامریڈز دو روز قبل ہی اپنے شہروں سے روانہ ہوچکے تھے جن کی آمد کا سلسلہ 2 فروری کو رات دیر تک جاری رہا۔ سفری تھکن اور مشکلات انقلابیوں کے ایک جگہ اکٹھ سے پیدا ہونے والے عزم اور مسرت کی بدولت کہیں ہوا میں ہی گُل ہوگئیں اور تینوں روز دن بھر کی بحثوں کے بعد رات دیر تک موسیقی و شاعری کی محفلوں سے شرکا لطف اندوز ہوتے رہے۔
3 فروری کی صبح 10 بجے سکول کا باقاعدہ آغاز کیا گیا۔ سکول مجموعی طور پر پانچ سیشنز پر مبنی تھا جن میں عالمی و ملکی تناظر، شرح منافع میں زوال کے رجحان کا قانون، ناہموار اور مشترک ارتقا، جمہوری مرکزیت اورطلبہ و نوجوانوں میں کام کا طریقہ کار شامل تھے۔ اسکول کا آغاز کامریڈ نتھو مل نے ملک بھر سے آئے ہوئے سبھی کامریڈز کو خوش آمدید کرتے ہوئے کیا جس کے بعد پہلے سیشن کا باقاعدہ آغاز ہوا۔
پہلے سیشن کو چیئر کامریڈ شہریارزوق نے کیا جبکہ لیڈآف دیتے ہوئے حیدرآباد سے کامریڈ لاجونتی نے سرمایہ دارانہ نظام کی تاریخی متروکیت کو عیاں کیا۔ انہوں نے کہا کہ آج یورپ سے لیکر افریقہ تک ہر ملک میں اس نظام کی بربادی کو واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ امریکہ میں حالیہ ا نتخابات نے عالمی بورژوا تجزیہ نگاروں کو ششدر کردیا ہے۔ ہر خطہ اس نظام کے نامیاتی بحران سے جھلس رہا ہے۔ یورپ میں بیروزگاری میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے جبکہ لوگوں کا معیار زندگی شدید متاثر ہوا ہے۔ ایسی کیفیت میں ہندوستان اور پاکستان جیسے ممالک میں جہاں غربت، بیروزگاری اور مہنگائی نے لوگوں کی زندگیوں کو اجیرن کئے رکھا ہے وہاں کالا دھن معیشت میں بڑے پیمانے پر گردش کررہا ہے اوراس کا حجم سرکاری معیشت سے بھی بڑھ چکا ہے۔ اسی لئے اب ان ممالک میں ہونے والی حاوی سیاست بھی اس معاشی بربادی اور استحصال سے وابستہ ہے۔ ہر خطے میں عوام تبدیلی کے خواہشمند ہیں لیکن ایک درست مارکسی قیادت نہ ہونے کی وجہ سے حالیہ عرصے میں کوئی انقلابی تحریک کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکی ہے، ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ایک انقلابی قیادت کا تاریخی فریضہ ادا کریں اور سوشلسٹ انقلاب کے لئے جدوجہد کو تیز کریں۔ لیڈ آف کے بعد کنٹری بیوشنز اور سوالات کا سلسلہ شروع ہوا جس میں دادو سے کامریڈ حفیظ، حیدرآباد سے لتا، فیصل آباد سے احمد مفاذ، بلوچستان سے مہدی حسن اور شکیلہ، ملتان سے نادر گوپانگ، کشمیر سے التمش اور راشد شیخ، جھنگ سے عماریاسر، لاہور سے ارشد اور اویس قرنی و دیگر نے بحث کو آگے بڑھایا اور عالمی سیاست اور معیشت پر تفصیلی بات رکھی۔ اس دوران انقلابی شاعری کا سلسلہ بھی جاری رہا جبکہ آخر میں سوالات کے جوابات دیتے ہوئے کامریڈ آصف رشید نے سیشن کو سم اپ کیا۔ سیشن کے اختتام پرکھانے کا وقفہ ہوا جس کے بعد اسکول کے دوسرے سیشن کا آغاز کیا گیا۔
دوسرے سیشن کا موضوع ’شرح منافع میں زوال کے رجحان کا قانون‘ تھا جس پر لیڈ آف بلوچستان سے کامریڈ حسن جان نے دی جبکہ سیشن کو چیئر دادو کے کامریڈ رمیز نے کیا۔ حسن جان نے بحث کاآغاز کرتے ہوئے کہا کہ شرح منافع میں زوال کے رجحان کا قانون سرمایہ دارانہ پیداوار کا اہم ترین قانون ہے اور سرمایہ داری کے تاریخی اتار چڑھاؤ کے چکر (Cycle) کے پیچھے یہی قانون کارفرما ہے۔ اس قانون کے مطابق جیسے جیسے سرمایہ دار زیادہ سے زیادہ شرح منافع حاصل کرنے کے لئے مستقل سرمایہ (مشینری، ٹیکنالوجی، نئے آلات پیداوار وغیرہ) پر زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کرتا ہے توں توں پیداوار کے عمل میں کم سے کم انسانی قوت محنت کی ضرورت پڑتی ہے۔ سرمایہ دار اپنا منافع بنیادی طور پر انسانی قوت محنت کے استحصال کے ذریعے ہی حاصل کرتا ہے۔ لیکن مشینری کے زیادہ کردار کی وجہ سے سرمایہ دار کو زیادہ انسانی قوت محنت کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اسی وجہ سے طویل مدت میں سرمایہ داروں کے شرح منافع میں کمی آنا شروع ہوجاتی ہے۔ یہ سرمایہ دارانہ طرز پیداور کا بنیادی تضاد ہے جو سرمایہ داری کے جوہر کا حصہ ہے۔ اس کے علاوہ شرح منافع میں زوال کے مخالف رجحانات (Counter Tendencies) بھی وجود رکھتے ہیں۔ جس کے ذریعے سرمایہ دار اپنے شرح منافع میں زوال کے رجحان کو روکتے ہیں یا اس کے زوال کی رفتار کو کم کرتے ہیں۔ ان مخالف رجحان میں انسانی قوت
محنت کا مزید استحصال، بیرونی تجارت، سستا خام مال، سستی ٹیکنالوجی اور نیو لبرل پالیسیاں بھی شامل ہیں۔ انہی مخالف رجحانات کی وجہ سے ہی شرح منافع میں زوال تھوڑی مدت کے لئے رک جاتا ہے یا شرح منافع کسی حد تک بحال ہوتی ہے۔ لیکن جیسا کہ مارکس نے کہا تھا کہ یہ قانون طویل مدت میں اپنے اثرات دکھانا شروع کرتا ہے۔ سرمایہ داری میں پے درپے آنے والے معاشی زوال اور بحرانوں کی ظاہری وجوہات کچھ بھی ہوں (سٹاک مارکیٹ کریش، جنگیں، قرضوں کابحران وغیرہ) لیکن لمبے عرصے میں اس شرح منافع کے زوال کو سرمایہ دار کبھی بھی ختم نہیں کرسکتے۔ انہوں نے مختلف مثالوں کے ذریعے اس قانون کی مزید وضاحت کی اور کہا کہ سرمایہ داری شرح منافع کی اندھی دوڑ کا نام ہے اور منافع حاصل کرنے کے لئے ہی سرمایہ دار پوری دنیا کو تباہ وبرباد کررہے ہیں۔ سرمایہ داری میں پیداوار کا بنیادی مقصد ہی زیادہ سے زیادہ شرح منافع حاصل کرنا ہے اور انسانی ضروریات کی حقیقی تکمیل صرف اسی وقت ہی ہوسکتی ہے جب منافع خوری کے اس نظام کو اکھاڑ کر ایک سوشلسٹ معیشت قائم کی جائے جہاں پیداوار کا بنیادی مقصد صرف اور صرف انسانی ضروریات کی تکمیل ہو۔ حسن جان کی تفصیلی لیڈآف کے بعد کنٹری بیوشنز اور سولات کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس سیشن میں کراچی سے ماجد میمن، دادو سے صدام خاصخیلی، شمالی پنجاب سے آصف رشید، لاہور سے اویس قرنی اور کشمیر سے کامریڈ التمش نے اظہار خیال کیا۔ آخر میں سیشن کا سم اپ کرتے ہوئے کامریڈ حسن نے بحث کو سمیٹا اور سوالات کے جوابات بھی دیئے۔
دوسرے دن (4 فروری) کا آغازمختلف مقامی زبانوں کے انقلابی اشعار اور نظموں سے کیا گیا۔ اس کے بعد سکول کے مجموعی طور پر تیسرے سیشن کا آغاز ہوا۔ یہ سیشن ’مشترک اور ناہموار ارتقا‘ پر تھا۔ سیشن کو چیئر کامریڈ ریحانہ نے کیا جبکہ لیڈآف دیتے ہوئے لاہور سے کامریڈاویس قرنی نے تفصیل سے موضوع پر اظہار خیال کیا۔ انہوں نے کہا کہ مشترک اور ناہموارارتقا پر کارل مارکس، لینن اور خاص طور پر ٹراٹسکی کا انتہائی غیر معمولی کام ہے جس نے روسی انقلاب کے کردار کو تشکیل دینے اور سمجھنے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا۔ آج کے عہد میں خصوصاً وہ ممالک جہاں سرمایہ داری اپنی کلاسیکی اشکال میں ظہور پذیر نہیں ہوئی، وہاں ماضی کی قدامت میں جدت کاعجیب امتزاج نظر آتا ہے۔ اسی طرح انتہائی جدت کے اندراتھاہ پسماندگی چھپی ہوتی ہے۔ نوآبادیات اور تیسری دنیا میں سرمایہ داری آج تک وہ فرائض سرانجام نہ دے سکی جو کہ سرمایہ دارانہ انقلابات کے ذریعے ترقی یافتہ ممالک میں اس نے ادا کیے۔ یہی وجہ ہے کہ ان پسماندہ علاقوں میں اکثریتی یا بڑی تعداد میں آبادی کے کسانوں پر مبنی ہونے کے باوجود پرولتاریہ کو انقلاب کی قیادت کرتے ہوئے نہ صرف زرعی اور قومی سوال کوحل کرتے ہوئے سرمایہ داری کے تاریخی فرائض سر انجام دینے ہوں گے بلکہ مسلسل انقلاب کے تحت فیکٹریوں، کھیتوں، کھلیانوں پر پرولتاریہ کی آمریت قائم کر کے سوشلزم کے فرائض سر انجام دیتے ہوئے عالمی انقلاب کی بنیادیں استوار کرنی ہوں گی۔ اویس قرنی کی شاندار لیڈ آف نے سامعین کی سیشن میں دلچسپی کو مزید بڑھا دیا جس کے بعد دادو سے سجاد جمالی، سکھر سے سعید خاصخیلی، کشمیر سے مروت، شمالی پنجاب سے حسیب، مرکزی پنجاب سے صافی اور بابر، لاہور سے ارشد، حیدرآباد سے راہول اور سرفرازجبکہ بلوچستان سے کامریڈ سرتاج نے سیشن کی بحث کو آگے بڑھایا۔ آخر میں کامریڈ قرنی نے سیشن کو سم اپ کیا۔
کھانے کے وقفے کے بعد سکول کے مجموعی طور پر چوتھے سیشن کا آغاز کیا گیا جوکہ جمہوری مرکزیت(Democratic Centralism) پر تھا۔ اس سیشن کو چیئر کامریڈ ماجد میمن نے کیا۔ لیڈ آف دیتے ہوئے کامریڈ عمر رشید نے تفصیل سے جمہوری مرکزیت پر بات کی۔ انہوں نے کہا کہ لینن نے انقلابی پارٹی کی تعمیر کے لئے چند اہم اصولوں کو بیان کیا تھا جن میں سے یہ ایک کلیدی اصول تھا اور اسی پر بالشوازم کی بنیاد رکھی گئی۔ انقلابِ روس کبھی بھی ان طریقہ ہائے کار کے بغیر مکمل نہیں کیا جاسکتا تھا۔ لینن کی درست پوزیشن نے ہی تاریخ کے اہم ترین انقلاب کی کامیابی کو ممکن بنایا۔ انہوں نے مزید کہا کہ انقلابی اپنی بحث میں جتنے جمہوری ہوتے ہیں وہ اتنے ہی اپنے عمل میں مرکزیت کو ترجیح دینے پر یقین رکھتے ہیں۔ یہ انقلابی پارٹی کی بنیاد رکھنے اور اس سفر کو آگے بڑھانے کے لئے بہت ضروری اور ناگزیر عمل ہے۔ ایک حقیقی انقلابی پارٹی کی تعمیر کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم بھی ان اصولوں پر کھرے اتریں اور بالشویزم کی بنیادوں پر اس خطے اور دنیا بھر میں انقلابی پارٹی کی تعمیر کریں۔ لیڈ آف کے بعد کنٹری بیوشن اور سولات کئے گئے۔ سیشن میں ڈیرہ غازی خان سے کامریڈظہیر، شمالی پنجاب سے بدررفیق، دادو سے رمیز مصرانی، حیدرآباد سے راہول، شمالی پنجاب سے آصف رشید، سکھر سے سعید، کشمیر سے کاشف عباس اور لاہور سے اویس قرنی نے بحث میں حصہ لیا۔ سیشن کا سم اپ عمر رشید نے سوالات کی روشنی میں کیا۔
سکول کے تیسرے دن (5 فروری) کے واحد سیشن کا موضوع طلبہ و نوجوانوں میں کام کا طریقہ کار تھا۔ اس سیشن کو چیئر ملتان سے کامریڈ نادر گوپانگ نے کیا جبکہ لیڈآف دیتے ہوئے کشمیر سے کامریڈ راشد شیخ نے طلبہ تنظیموں کے تاریخی تجربے کی بنیاد پر موجودہ معروض میں نوجوانوں میں انقلابی کام کے لائحہ عمل کو ترتیب دیا۔ انہوں نے فرنٹس کی ضرورت اور طلبہ کے مسائل پر بھی روشنی ڈالی اور انقلابی پارٹی کی تعمیر کے لئے طلبہ تنظیموں کی اہمیت پر بھی بات کی۔ لیڈآف کے بعد نوجوانوں میں کام کے متعلق ملک بھر سے آئے ہوئے کامریڈز نے کام کی صورتحال پر رپورٹس دیں۔ اس کے بعد ٹھٹہ سے کامریڈ حفیظ بہرانی نے الوداعی کلمات ادا کئے جس کے بعد کامریڈ ونود نے سکول کی فنانس رپورٹ پیش کی۔ اسکول کے اختتامی کلمات کامریڈ اویس قرنی نے ادا کئے۔ سکول کے سم اپ کے بعد انقلابی نعرے پنڈال میں گونجتے رہے اور آخر میں انٹرنیشنل گا کر سکول کا باقاعدہ اختتام کیا گیا۔ سیاسی معیار، مقدار اور شرکا کی دلچسپی و شمولیت کے حوالے سے یہ تربیتی سکول کامیاب ترین تنظیمی سکولوں میں سے ایک تھا جو پاکستان میں انقلابی مارکسزم کی قوتوں کی تعمیر میں یقیناًایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔